Friday, October 31, 2025

اس کی نشانیاں

 آیت ٢٩ وَمِنْ اٰیٰتِہٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَثَّ فِیْہِمَا مِنْ دَآبَّۃٍ اور اس کی نشانیوں میں سے ہے آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور ان دونوں میں اس نے جو جان دار پھیلادیے ہیں۔ “- یعنی آسمانوں میں فرشتے جبکہ زمین اور اس کی فضا میں موجود بیشمار مخلوقات اس کی نشانیوں میں سے ہیں۔- وَہُوَ عَلٰی جَمْعِہِمْ اِذَا یَشَآئُ قَدِیْرٌ ” اور وہ جب چاہے ان سب کو جمع کرنے پر قادر ہے۔ “- اس نے اپنی مرضی اور مشیت سے ان سب کو زمین و آسمان کی وسعتوں میں پھیلا رکھا ہے۔ البتہ جب وہ چاہے گا ان سب کو اپنے حضور حاضر کرلے گا۔

اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔

بہترین انسان

بعض گناہ

تین عبادات

صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

تمہارے لیے

آیت ٣٣ ( وَسَخَّــرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَاۗىِٕـبَيْنِ ۚ وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ )- ان تمام چیزوں کے گنوانے سے انسان کو یہ جتلانا مقصود ہے کہ زمین کے دامن اور آسمان کی وسعتوں میں اللہ کی تمام تخلیقات اور فطرت کی تمام قوتیں مسلسل انسان کی خدمت میں اس کی نفع رسانی کے لیے مصروف کار ہیں اور وہ اس لیے کہ اس کائنات میں انسان ہی ایک ایسی مخلوق ہے جو سب مخلوقات سے اعلیٰ ہے۔ اللہ نے یہ بساط کون و مکان انسان ہی کے لیے بچھائی ہے اور باقی تمام اشیاء کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ بالواسطہ یا بلاواسطہ اس کی ضروریات پوری کریں۔ یہی بات سورة البقرۃ کی آیت ٢٩ میں اس طرح بیان فرمائی گئی ہے : (ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا) یعنی یہ زمین میں جو کچھ بھی نظر آ رہا ہے یہ اللہ نے تمہارے (انسانوں کے ) لیے پیدا کیا ہے۔ اور ان چیزوں کو تمہاری ضرورتیں پوری کرنے کے لیے مسخر کردیا ہے ۔

کہ ہم نے تمہارے لئے سورج اور چاند کو مسخر کردیا کہ یہ دونوں ہمیشہ ایک حالت پر چلتے ہی رہتے ہیں دائبین داب سے مشتق ہے جس کے معنی عادت کے ہیں مراد یہ ہے کہ ہر وقت اور ہر حال میں چلنا ان دونوں سیاروں کی عادت بنادی گئی کہ کبھی اس کے خلاف نہیں ہوتا مسخر کرنے کے یہ معنی نہیں کہ وہ تمہارے حکم اور اشاروں پر چلا کریں کیونکہ اگر شمس وقمر کو اس طرح انسان کا مسخر کردیا جاتا کہ وہ انسانی حکم کے تابع چلا کرتے تو انسانوں کے باہمی اختلاف کا یہ نتیجہ ہوتا کہ ایک انسان کہتا کہ آج آفتاب دو گھنٹے بعد نکلے کیونکہ رات میں کام زیادہ ہے دوسرا چاہتا کہ دو گھنٹے پہلے نکلے کہ دن کے کام زیادہ ہیں اس لئے رب العزت جل شانہ نے آسمان اور ستاروں کو انسان کا مسخر تو بنایا مگر اس معنی سے مسخر کیا کہ وہ ہر وقت ہر حال میں حکمت خداوندی کے ماتحت انسان کے کام میں لگے ہوئے ہیں یہ نہیں کہ ان کا طلوع و غروب اور رفتار انسان کی مرضی کے تابع ہوجائے،- اسی طرح یہ ارشاد کہ ہم نے رات اور دن کو تمہارے لئے مسخر کردیا اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ ان دونوں کو انسان کی خدمت اور راحت کے کام میں لگا دیا

اللہ وہ ہے

  وَہُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ مِنْم بَعْدِ مَا قَنَطُوْا وَیَنْشُرُ رَحْمَتَہٗ ” اور وہی ہے جو بارش برساتا ہے اس کے بعد کہ لوگ مایوس ہوچکے ہوتے ہیں اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے۔ “- خشک سالی میں فصلوں کی آبیاری کا وقت ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر جب کسانوں کے دلوں میں مایوسی کے سائے گہرے ہونے لگتے ہیں تو اچانک اللہ کی رحمت کا ظہور ہوتا ہے اور بادل بارش کی نوید لے کر پہنچ جاتے ہیں۔- وَہُوَ الْوَلِیُّ الْحَمِیْدُ ” اور وہی ہے جو (اپنے بندوں کا) مددگار ہے اور وہ اپنی ذات میں آپ ستودہ صفات ہے۔ “

رزق کی کمی بیشی میں اللہ کی حکمتیں

 رزق کی کمی بیشی میں اللہ کی حکمتیں :۔ پنجابی زبان کی ایک مختصر سی مثال اس آیت کے مفہوم کو پوری طرح واضح کردیتی ہے۔ مثال یہ ہے رج آؤن تے کد آؤن یعنی ایک عام دنیادار انسان کی عادت یہ ہے کہ اگر اللہ اسے خوشحالی سے ہمکنار کرے تو وہ کسی کو بھی حتیٰ کہ اللہ کو بھی خاطر میں نہیں لاتا اور سرکشی کی راہ اختیار کرتا ہے۔ صورت حال سرداران قریش کی تھی جو دیہاتی قبائل عرب کی نسبت خوشحال تھے اور اسی خوشحالی نے ان کے دماغوں کو خراب کر رکھا تھا اور اس آیت میں بتایا یہ گیا ہے کہ اگر اللہ سارے ہی لوگوں کو وافر رزق عطا کردے تو اس سے اس کے خزانوں میں تو کچھ کمی نہ آئے گی۔ لیکن لوگ دولت کی مستی میں ہر جگہ اودھم مچا دیں گے۔ اور ایک دوسرے کا جینا بھی حرام کردیں گے۔ لہذا اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اپنے اندازے اور اپنی حکمت کے مطابق رزق مہیا کرتا ہے۔ تاکہ لوگ اپنے آپے سے باہر نہ ہوں اور دنیا کا نظام بھی ٹھیک طور پر چلتا رہے۔ امیر کام لینے کے لیے غریبوں کے محتاج رہیں اور غریب امیروں کے۔

الفاظ

رشتہ

اولاد کے ساتھ انصاف

اللہ تعالیٰ کی نعمتیں

لمبے سجدے

امید

اللہ وہ ہے

دنیا کی زندگی

سچی توبہ

 توبہ قبول کرنا اور گناہوں سے درگزر کرنا صرف اللہ تعالیٰ کی شان ہے (دیکھیے توبہ : ١٠٤) اور یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کیونکہ اگر وہ چاہے تو مجرم کے معافی ماگننے پر بھی اسے معاف نہ کرے۔ مقصود انھیں توبہ کی ترغیب دلانا اور کفر پر اصرار کے انجام بد سے ڈرانا ہے۔ کفر سے توبہ اسلامق بول کرنے سے ہوتی ہے اور گناہ سے توبہ میں تین چیزیں شامل ہیں، ایک پچھلے گناہ پر ندامت، دوسرا اسے ترک کردینا، تیسرا آئندہ دو گناہ نہ کرنے کا عزم اور اگر گناہ کا تعلق بندوں کے حق سے ہے تو حسب استطاعت اسے ادا کردینا اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنا۔ اگر آئندہ وہ گناہ نہ کرنے کا عزم نہ ہو تو توبہ کا کچھ مطلب نہیں۔ ایک فارسی شاعر نے کہا ہے۔- سجہ در کف ، توبہ برلب، دل پر از ذوق گناہ معصیت را خندہ مے آیدز استغفار ما - ” ہاتھ میں تسبیح ہے، زبان پر توبہ اور دل گناہ کی لذت سے بھرا ہوا ہے، گناہ کو ہمارے استغفار پر ہنسی آتی ہے۔ “- (٢) عن عبادہ : اس میں توبہ قبول کرنے کی ایک وجہ بیان فرمئای ہے کہ گناہ کر کے توبہ کرنے والے اس کے اپنے بندے ہیں اور وہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (٣٧) ، آل عمران (١٣٥) اور سورة نسائ (١١٠)- (٣) ویعفوا عن السیات : توبہ مستقبل کیلئے قبول ہوتی ہے اور برائیاں گزشتہ معاف کردی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسا کریم ہے کہ توبہ پر گزشتہ تمام گناہ معاف فرما دیتا ہے، بلکہ سورة فرقان کی آیت (٧٠) کے مطابق توبہ کرنے والوں کے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دیتا ہے۔ بندے کی توبہ پر اللہ تعالیٰ کس قدر ہوتا ہے، اس کی تفصیل انس (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان فرمائی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(للہ اشد فرحا بتوبۃ عبدہ حین یتوب الیہ من احدکم کان علی راحلتہ بارض فلاۃ فانفلت منہ، وعلیھا، طعامہ و شرابہ فابس منھا، فنی شجرۃ فاضطجع فی ظلھا قد ابس من راحلتہ فبینا ھو جذلک اذا ھو بھا قائمۃ عندہ فاخذ بخطامھا تم قال من شدۃ الفرح اللھم انت عبدی واناربک اخطا من شدۃ الفرح) (مسلم، التوبۃ باب فی الحض علی التوبۃ و الفرح بھا :2888” یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر، جب وہ اس کی طرف توبہ کرتا ہے، اس سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جتنا تم میں سے کوئی شخص خوش ہوتا ہے، جو کسی بیابان میں اپنی اونٹنی پر سوار تھا تو وہ اس سے چھوٹ کر نکل گئی، اس کا کھانا اور پانی بھی اسی پر تھا۔ تو وہ اس سے ناامید ہوگیا اور ایک درخت کے پاس جا کر اس کے سائے میں لیٹ گیا۔ حال اس کا یہ تھا کہ وہ اپنی اونٹنی سے مایوس ہوچکا تھا، وہ اسی حالت میں تھا کہ اچانک اس نے اسے دیکھا کہ اونٹنی اس کے پاس کھڑی تھی، چناچہ اس نے اس کی مہار پکڑ لی، پھر شدید خوشی میں کہنے لگا :” اے اللہ تو میرا بندہ اور میں تیرا رب۔ “ خوشی کی شدت سے غلطی کر بیٹھا۔ “- (٤) اللہ تعالیٰ اتنا مہربان ہے کہ بعض اوقات توبہ کے بغیر بھی گناہ معاف فرما دیتا ہے، جیسا کہ ہجرت کے بعد پہلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، حج مبرور کے بعد پہلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں، اور نیکیوں کی کثرت سے گناہ مٹ جاتے ہیں، جیسا کہ فرمایا :(ان الحسنت یذھبن السیات) (ھود : ١١٣)” بیشک نیکیاں برائیوں کو لے جاتی ہیں۔ “ اور کبیرہ گناہوں کے اجتناب سے صغیرہ گناہ خود بخود معاف ہوجاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ کبیرہ گناہ کے مرتکب مومن کو، اگر وہ توبہ نہ کرے تو کافر یا ابدی جہنمی قرار دیتے ہیں، ان کی بات درست نہیں۔- (٥) ویعلم ماتفعلون : اس جملے میں بشارت بھی ہے اور نذرات بھی۔ عمل کا داور م دار دل کی حلات پر ہے، اگر اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے اخلاص سے توبہ کی گئی ہے تو نص - اسے جانتا ہے اور اسے قبولیت سے نوازے گا اور اگر توبہ اپنے کسی دنیوی مقصد کے لئے کی گئی ہو، مثلاً ریا کے طور پر یا آئندہ توڑ ڈالنے کے ارادے سے، یا کسی دنیوی فائدے کے لئے مثلاً صحت و قوت کے لئے زنا، سگریٹ یا شراب کو ترک کیا گیا ہے تو وہ اسے بھی جانتا ہے۔

اللہ بڑا قدردان ہے

قیامت والے دن

  تَرَی الظّٰلِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا کَسَبُوْا ” تم دیکھو گے ان ظالموں کو کہ وہ اپنے کرتوتوں کے سبب ڈر رہے ہوں گے “- قیامت کے دن کفار و مشرکین اپنے غلط عقائد اور برے اعمال کے سبب خوف زدہ ہوں گے۔ دراصل نیکی و بدی کے بارے میں انسان کا ضمیر بہت حساس ّہے : بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ۔ (القیامۃ) ” بلکہ انسان اپنے نفس پر خود گواہ ہے “۔ یہ آیت بہت واضح انداز میں ہمیں بتاتی ہے کہ انسانی ضمیر اپنے اندر کی گہرائیوں میں جھانک کر بغیر کسی مصلحت اور تعصب کے غلط اور درست کی نشاندہی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چناچہ قیامت کے دن تمام غلط کار انسان اپنے اعمال کو دیکھتے ہوئے حساب و کتاب سے پہلے ہی خوف سے کانپ رہے ہوں گے۔ - وَہُوَ وَاقِعٌم بِہِمْْط ” اور وہ ان کے اوپر پڑنے والا ہوگا۔ “- ان کے عقائد و افعال کا وبال ان کے سروں پر گرنے والا ہوگا۔ لیکن دوسری طرف اہل ِایمان کی کیفیت اس کے برعکس ہوگی :- وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فِیْ رَوْضٰتِ الْجَنّٰتِ ” اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور اعمالِ صالحہ پر کاربند رہے وہ جنتوں کے باغات میں ہوں گے۔ “- لَہُمْ مَّا یَشَآئُ وْنَ عِنْدَ رَبِّہِمْط ذٰلِکَ ہُوَ الْفَضْلُ الْکَبِیْرُ ” ان کے لیے ان کے رب کے پاس وہ سب کچھ ہوگا جو وہ چاہیں گے۔ یہی (ان کے لیے) بہت بڑی فضیلت ہوگی۔ “

نرم طلب دنیا، اجرآخرت سے محرومی ہے

  من کان یرید حرث الاخرۃ…: اللہ تعالیٰ نے دنیا کو آدمی کے لئے کھیت بنایا ہے ، وہ اس میں جو بوئے گا وہی کاٹے گا اور جس چیز کا ارادہ کرے گا وہی ملے گی۔ اسی طرح اس نے دنیا کو تجارت کی جگہ بنایا ہے، اگر خیر کا سودا کرے گا تو نفع میں خیر ملے گی، اگر شر کا سودا کرے گا تو نتیجہ میں شر پائے گا۔ اسی طرح دنیا کو آخرت کا راستہ بنایا ہے، اگر خیر کے راستے پر چلے گا توم نزل مراد پالے گا اور ہمیشہ کی جنت میں پہنچ جائے گا، اگر شر کے راستے پر چلے گا تو ہمیشہ کے عذاب اور انفسھم و اموالھم با ن لھم الجنۃ ) (التوبۃ : ١١١)” بیشک اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال خرید لئے ہیں، اس کے بدلے کہ ان کے لئے جنت ہے۔ “ اور فرمایا :(ومن الناس من یشری نفسہ ابتغآء مرضات اللہ) (البقرۃ :208) ” اور لوگوں میں سے بعض وہ ہے جو اللہ کی رضا مندی تلاش کرنے کے لئے اپنی جان بیچ دیتا ہے۔ “ اور فرمایا :(اولئک الذین اشتروا الحیوۃ الدنیا بالاخرۃ) (البقرہ : ٨٦) ” یہی لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کی زندگی آخرت کے بدلے خریدی۔ “- (٢) پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے رزق کا قانون بیان فرمایا کہ وہ سب کے لئے یکساں نہیں، وہ جسے چاہتا ہے اور جتنا چاہتا ہے دیتا ہے اور اس میں اس کی بیشمار حکمتیں ہیں۔ (دیکھیے زخرف : ٣٢) اس آیت میں فرمایا کہ آدمی کی کوشش اور نیت کے مختلف ہونے کے لحاظ سے بھی اسے ملنے والا رزق مختلف ہے۔- (٣) آخرت کی کھیتی کا ارادہ رکھنے والے کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ اسے دنیا میں کچھ نہیں ملے گا۔ دنیا تو نیک ہو یا بد ہر ایک کو تھوڑی یا زیادہ ملنی ہی ملنی ہے، آخرت کے متعلق بشارت دی کہ ہم اس کے لئے اس کی کھیتی میں اضافہ کریں گے، کیونکہ اس کی نیت اور کوشش اسی کی ہے۔ اضافہ یہ ہے کہ دنیا میں اسے مزید نیکیوں کی توفیق دیں گے اور آخرت میں ایک نیکی کو دس گنا سے ہز اورں لاکھوں تک بلکہ شمارے بھی زیادہ بڑھائیں گے اور دائمی نعمتیں عطا کریں گے، جیسا کہ فرمایا :(ومن اراد الاخرۃ وسعی لھا سعیھا وھو مومن فاؤلئک کان سعیھم مشکوراً (بنی اسرائیل : ١٩) ” اور جس نے آخرت کا ارادہ کیا اور اس کے لئے کوشش کی جو اس کے لائق کوشش ہے، جب کہ وہ مومن ہو تو یہی لوگ ہیں جن کی کوشش ہمیشہ سے قدر کی ہوئی ہے۔ “- (٤) ومن کان یرید حرث الدنیا نوتہ منھا …:” منھا “ میں ” من “ تبعیض کے لئے ہے۔ یعنی جو شخص دنیا کی کھیتی کا ارادہ کرے گا اور دنیا ہی کے لئے کوشش اور محنت کرے گا، ایک تو یہ کہ اسے وہ نہیں ملے گا جو وہ چاہتا ہے بلکہ ہم اسے اس میں سے کچھ حصہ ہی دیں گے، دوسرا یہ کہ وہ حصہ بھی ہم دنیا ہی میں دے دیں گے، آخرت میں اس کیلئے کوئی حصہ نہیں، کیونکہ آخرت کی نیت سے اس نے کچھ کیا ہی نہیں۔ یہی بات ایک اور آیت میں یوں بیان فرمائی :(من کان یرید العاجلہ عجلنا لہ فیھا مانشآء لمن نریدثم جعلنا لہ جھنم یصلھا مذموماً مدحوراً ) (بنی اسرائیل : ١٨) ” جو شخص اس جلدی والی صدنیا) کا ارادہ رکھتا ہو ہم اس کو اس میں جلدی دے دیں گے جو چاہیں گے، جس کے لئے چاہیں گے، پھر ہم نے اس کے لئے جہنم بنا رکھی ہے، اس میں داخل ہوگا، مذمت کیا ہوا، دھتکارا وہا۔ “ اور فرمایا :(فمن الناس من یقول ربنا اتنا فی الدینا وما لہ فی الاخرۃ من خلاق) (البقرۃ : ٢٠٠) ” پھر لوگوں میں سے کوئی تو وہ ہے جو کہتا ہے اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں دے دے اور آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔ “

وَ ہُوَ الۡقَوِیُّ الۡعَزِیۡزُ

  اللہ لطیف بعبادہ :” لطیف “ ایسی چیز جو گرفت میں نہ آسکے۔ اللہ تعالیٰ کی صفت ” لطیف “ اس لحاظ سے ہے کہ وہ باریک سے باریک چیز کی خبر رکھنے والا ہے اور اس لحاظ سے بھی کہ اس کی تدبیر نہایت باریک ہوتی ہے جو نظر نہیں آتی۔ اس لحاظ سے اس کا معنی طف و کرم کرنے والا بھی ہے کہ وہ ایسے باریک طریقے سے مہربانی فرماتا ہے کہ نظر ہی نہیں آتا کہ یہ کیسے ہوگئی۔ (مفردات) گویا ” لطیف “ میں دو صفتیں جمع ہیں، ایک نہایت باریک بین اور دوسری نہایت مہربانی والا۔ ان کے ضمن میں کمال علم بھی ہے جس کے بغیر باریک بینی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بندوں پر لطیف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے ان کی کوئی چھوٹی سے چھوٹی مادی یا روحانی ضرورت پوشیدہ نہیں اور وہ اپنی کمال مہربانی اور باریک طریقوں سے ایسے انتظام فرماتا ہے کہ ہر بندے کی بلکہ ہر مخلوق کی ضرورت جو اس کے حسب حال ہو، پوری ہو اور اسے خبر بھی نہ ہو کہ وہ کیسے پوری ہوگئی۔ بعض اہل علم نے فرمایا کہ ” بعبادہ “ کا لفظ اگرچہ عام ہے مگر اس سے مراد یہاں اللہ کے مومن بندے ہیں اور بعض نے فرمایا کہ ” بعبادہ “ میں مومن و کافر دونوں شامل ہیں، دنیا میں دونوں اس کے لطف عام سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، البتہ آخرت میں اس کا لطف و کرم مومنوں کیلئے خاص ہوگا۔- (٢) یرزق من یشآء : اسی لئے ان میں سے بیشمار لوگوں کو جھٹلانے اور مذاق اڑانے کے باوجود بھوکا نہیں مارتا، بلکہ ان کی تمام ضرورتیں اپنے لطف و کرم سے پوری کرتا ہے۔ مگر جسے چاہتا ہے اور جتنا چاہتا ہے رزق دیتا ہے اور جس کی روزی کا دفتر بند کرنا چاہتا ہے کہ کردیتا ہے۔ یہ بات یہاں ذکر کرنے کی مناسبت یہ ہے کہ اکثر لوگ رزق کے پیچھے رزاق کو بھول جاتے ہیں۔- (٣) وھو القوی : یعنی وہ جو کرنا چاہیے، جسے جتنا رزق دینا چاہے اس کی پوری قوت رکھتا ہے، کسی کام میں کسی  کا محتاج نہیں۔- (٤) العزیز : یعنی دوسرے تمام معاملات کی طرح رزق کے معاملے میں بھی کسی کا اس پر زور نہیں کہ وہ دینا چاہے تو کوئی اسے روک سکے، یا نہ دینا چاہے تو کوئی اس سے لے سکے۔ خبر ” القوی العزیز “ پر الف لام سے قصر پیدا ہوگیا ہے، یعنی دونوں صفتیں صرف اس میں ہیں، کسی اور میں نہیں، جیسا کہ فرمایا :(اللھم لا مابع لما اعطیت ، ولا معطی لما منعت) (بخاری ، القدر باب لامانع لما اعطی اللہ، 6625) ” اے اللہ تو جو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو تو روک دے وہ کوئی دینے والا نہیں۔ “

اللہ پر توکل

صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

استغفار

O Allah, I seek refuge with You

‘Abdullah ibn ‘Umar (may Allah be pleased with him and his father) reported: The Messenger of Allah (may Allah's peace and blessings be upon him) used to supplicate, saying:

"O Allah, I seek refuge with You from the removal of Your favor, the change of Your well-being, the suddenness of Your calamity, and all of Your wrath." 

[Authentic hadith] - [Narrated by Muslim] - [Sahih Muslim - 2739]

Explanation:

The Prophet (may Allah's peace and blessings be upon him) sought refuge from four things:
First: (O Allah, I seek refuge with You from the removal of Your favor), the religious and the worldly, and to remain steadfast on Islam and keep away from falling into sins that eliminate blessings.
Second: (The change of Your well-being) by replacing it with misfortune. So, I ask You to grant me continuous well-being and freedom from agonies and diseases.
Third: (The suddenness of Your calamity) in the form of misfortune or affliction, as when affliction and punishment come all of a sudden and unexpectedly, there is no time for repentance and making amends, and this makes the adversity graver and more intense.
Fourth: (And all of Your wrath) and the causes that incur Your wrath, as the one whom You are displeased with is, indeed, doomed and ruined.
The Prophet (may Allah's peace and blessings be upon him) used the word "all" to include all the causes; words, deeds, and beliefs that lead to His wrath.


Benefits from the Hadith:


1-The Prophet's need for Allah Almighty.
 
2-This blessed form of seeking refuge has comprised: guidance to expressing gratitude for blessings, and protection against falling into sins because they eliminate blessings.
 
3- Keenness on avoiding whatever incurs the wrath of Allah Almighty. 

4- The Prophet (may Allah's peace and blessings be upon him) sought refuge from the suddenness of Allah's calamity because if He exacts vengeance on His slave, then such a slave is afflicted with misfortune that he cannot ward off and that cannot be warded off by all of the creation, even if they got together. 

5- The Prophet (may Allah's peace and blessings be upon him) sought refuge from the change of Allah's well-being because if Allah has privileged him with His well-being, then he has won the goodness of both abodes, and if it is taken from him, then he is afflicted with the evil of both abodes, as well-being entails the soundness of the religious and worldly affairs. 


دُعَاءِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ: كَانَ مِنْ دُعَاءِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِكَ، وَتَحَوُّلِ عَافِيَتِكَ، وَفُجَاءَةِ نِقْمَتِكَ، وَجَمِيعِ سَخَطِكَ».  

[صحيح] - [رواه مسلم] - [صحيح مسلم: 2739]

اللہ سے فاصلہ

دعاء

انسان کو

سوچیں

Tuesday, October 14, 2025

صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

میرا اللہ

حساب و کتاب کا دن

فاطر السموت والارض

اللہ کے سوا

قریب ہے

 وہ بلندیوں والا اور بڑائیوں والا ہے وہ بہت بڑا اور بہت بلند ہے وہ اونچائی والا اور کبریائی والا ہے۔ اس کی عظمت اور جلالت کا یہ حال ہے کہ قریب ہے آسمان پھٹ پڑیں۔ فرشتے اس کی عظمت سے کپکپاتے ہوئے اس کی پاکی اور تعریف بیان کرتے رہتے ہیں اور زمین والوں کے لیے مغفرت طلب کرتے رہتے ہیں۔

جیسے اور جگہ ارشاد ہے «اَلَّذِيْنَ يَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهٗ يُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَيَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۚ رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِيْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِيْلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَــحِيْمِ» ‏‏‏‏ [ 40- غافر: 7 ] ‏‏‏‏ یعنی حاملان عرش اور اس کے قرب و جوار کے فرشتے اپنے رب کی تسبیح اور حمد بیان کرتے رہتے ہیں اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کے لیے استغفار کرتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے رب تو نے اپنی رحمت و علم سے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے پس تو انہیں بخش دے جنہوں نے توبہ کی ہے اور تیرے راستے کے تابع ہیں انہیں عذاب جہنم سے بچا لے۔
آیت ٥ تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْ فَوْقِہِنَّ ” قریب ہے کہ آسمان اپنے اوپر سے پھٹ پڑیں “- آسمان فرشتوں سے کھچا کھچ بھرے ہوئے ہیں۔ اتنے بڑے اجتماع کی وجہ سے آسمان پھٹنے کے قریب ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ آسمانوں میں کوئی ایک بالشت برابر بھی جگہ خالی نہیں کہ جہاں کوئی فرشتہ سربسجود نہ ہو یا قیام میں مصروف نہ ہو۔ سورة المدثر (آیت ٣١) میں فرشتوں کی کثرت تعداد سے متعلق ان الفاظ میں اشارہ فرمایا گیا ہے : وَمَا یَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّکَ اِلَّا ہُوَط کہ آپ کے رب کے لشکروں کے بارے میں سوائے خود اس کے اور کوئی نہیں جانتا۔- وَالْمَلٰٓئِکَۃُ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِمَنْ فِی الْاَرْضِ ” اور فرشتے تسبیح کرتے ہیں اپنے رب کی حمد کے ساتھ اور زمین میں جو (اہل ایمان) ہیں ان کے لیے استغفار کرتے ہیں۔ “- سورة المومن آیت ٧ میں بھی ہم پڑھ آئے ہیں کہ حاملین عرش اور ان کے ساتھی فرشتے اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں اور اہل ایمان کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعائیں کرتے 
ہیں۔- اَلَآ اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ” آگاہ ہو جائو یقینا اللہ ہی بخشنے والا ‘ رحم کرنے والا ہے۔
   

جب انسان

جہنم کی آگ

سن لو

یہ قرآن حق ہے

استغفار

اللہ کی محبت

اخلاق

مصحف قرآنی

مضبوط بنیے

اونچا عہدہ

قرآن کریم کی حقانیت

خوشحالی میں اکثر انسانوں کا اللہ کو بھول جانا

  یعنی جب انسان پر خوشحالی اور آسودگی کا دور آتا ہے تو پھولا نہیں سماتا اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اس وقت دراصل وہ خود خدا بنا بیٹھا ہوتا ہے۔ اور اگر اسے اللہ کی آیات سنائی جائیں اور یہ بتایا جائے کہ یہ سب انعام اللہ ہی نے کیا لہذا تمہیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ اس کے حقوق ادا کرنے چاہیں اور اپنے برے انجام سے ڈرنا چاہئے تو اسے ایسی باتیں ناگوار اور تلخ محسوس ہوتی ہیں جنہیں وہ سننا بھی گوارا نہیں کرتا اور اٹھ کر چلا جاتا ہے۔ لیکن جب پھر کسی بلا میں پھنس جاتا ہے تو اس وقت اسے اپنا وہ پروردگار یاد آنے لگتا ہے جس کی آیات سننے سے بھی بدکتا تھا۔ دل میں تو مایوس ہوتا ہے کیونکہ اسے اس مصیبت سے نجات کے ظاہری اسباب نظر نہیں آتے۔ مگر جب تکلیف اسے پریشان کردیتی ہے تو بےاختیار اس کے ہاتھ اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھ جاتے ہیں۔ اور پھر وہ اللہ سے لمبی چوڑی دعائیں بھی کرتا ہے اور وعدے وعید بھی کرنے لگتا ہے۔ اور یہ حالت چونکہ اس کی اضطراری کیفیت ہوتی ہے۔ لہذا اگر اللہ اسے اس مصیبت سے نجات دے بھی دے تو بعد میں پھر وہ وہی کچھ بن جاتا ہے جو پہلے تھا۔ اِلا ماشاء اللہ تھوڑے ہی لوگ ہوتے ہیں جو بعد میں اللہ سے کئے ہوئے اس قول وقرار کو یاد رکھتے اور حقیقتاً اس کے فرمانبردار بن جاتے ہیں۔ اکثریت ایسی ہی ہوتی ہے جو خوشحالی کے دور میں اپنے پروردگار کو یکسر بھول ہی جاتی ہے۔

 جب انسان اللہ کی نعمتیں پا لیتا ہے تو اطاعت سے منہ موڑ لیتا ہے اور ماننے سے جی چراتا ہے ‘۔ جیسے فرمایا «فَتَوَلّٰى بِرُكْنِهٖ وَقَالَ سٰحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ» ۱؎ [51-الذاريات:39] ‏‏‏‏ ’ اور جب اسے کچھ نقصان پہنچتا ہے تو بڑی لمبی چوڑی دعائیں کرنے بیٹھ جاتا ہے ‘۔ عریض کلام اسے کہتے ہیں جس کے الفاظ بہت زیادہ ہوں اور معنی بہت کم ہوں۔ اور جو کلام اس کے خلاف ہو یعنی الفاظ تھوڑے ہوں اور معنی زیادہ ہوں تو اسے وجیز کلام کہتے ہیں۔ وہ بہت کم اور بہت کافی ہوتا ہے۔
اسی مضمون کو اور جگہ اس طرح بیان کیا گیا ہے «وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَان الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْبِهٖٓ اَوْ قَاعِدًا اَوْ قَاىِٕمًا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهٗ مَرَّ كَاَنْ لَّمْ يَدْعُنَآ اِلٰى ضُرٍّ مَّسَّهٗ كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِيْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ» ۱؎ [10-یونس:12] ‏‏‏‏، ’ جب انسان کو مصیبت پہنچتی ہے تو اپنے پہلو پر لیٹ کر اور بیٹھ کر اور اکٹھے ہو کر غرض ہر وقت ہم سے مناجات کرتا رہتا ہے اور جب وہ تکلیف ہم دور کر دیتے ہیں تو اس بےپرواہی سے چلا جاتا ہے کہ گویا اس مصیبت کے وقت اس نے ہمیں پکارا ہی نہ تھا ‘۔