اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا ” بیشک جن لوگوں نے اقرار کیا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر جم گئے “- نوٹ کیجیے یہ وہی الفاظ ہیں جو اس سے پہلے ہم سورة حٰمٓ السجدۃ کی آیت ٣٠ میں پڑھ آئے ہیں۔ اس ” استقامت “ کو صرف ایک لفظ مت سمجھئے ‘ غور کریں گے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ اس ” استقامت “ میں ایک ” قیامت “ مضمر ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنا رب مان کر ہر حال میں اس کی رضا پر راضی رہنا ‘ اس کی رضا کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لینا ‘ اسی پر توکل ّکرنا ‘ اس کے احکامات کی پابندی کرنا اور اس کی طرف سے عائد کردہ جملہ ذمہ داریوں کو نبھانے میں اپنا تن من دھن دائو پر لگا دینا وغیرہ سب اس استقامت میں شامل ہے۔ سورة حٰمٓ السجدۃ (آیت ٣٠) کے مطالعہ کے دوران ہم حضرت سفیان بن عبداللہ (رض) کی حدیث پڑھ چکے ہیں کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی تھی کہ مجھے اسلام کے بارے میں کوئی ایک بات ایسی بتادیجیے جسے میں پلے ّباندھ لوں اور میرے لیے وہ کافی ہوجائے۔ اس کے جواب میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (قُلْ آمَنْتُ بِاللّٰہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ ) ” کہو کہ میں ایمان لایا اللہ پر ‘ پھر اس پر جم جائو “ بہر حال اللہ پر ایمان لانے کے بعد استقامت یہی ہے کہ انسان کا دل اس سوچ پر جم جائے کہ اللہ ہی میرا پروردگار ہے اور وہی حاجت روا ‘ وہی مشکل کشا ہے اور وہی میری دعائوں کا سننے والا ہے ‘ اور پھر انسان خود کو اللہ کے لیے وقف کر دے۔ ایک بندہ مومن کی اسی کیفیت کا نقشہ سورة الانعام کی اس آیت میں دکھایا گیا ہے : قُلْ اِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہیے : میری نماز ‘ میری قربانی ‘ میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ “- فَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ ” تو ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ حزن سے دوچار ہوں گے۔ “- ملاحظہ کیجیے سورة یونس کی آیت ٦٢ میں ” اولیاء اللہ “ کے مخصوص مقام و مرتبہ کے حوالے سے بھی بالکل یہی الفاظ آئے ہیں : اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لاَخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ ۔ ” آگاہ ہو جائو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے “۔ گویا جو لوگ ایمان لائے اور پھر ایمان پر مستقیم ہوگئے وہ اولیاء اللہ ہیں اور آخرت میں انہیں کسی قسم کے خوف اور حزن و ملال کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا جَزَآئًم بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ” یہی لوگ جنت والے ہیں ‘ اس میں ہمیشہ رہنے والے۔ یہ جزا ہوگی ان اعمال کی جو وہ کرتے رہے۔ “- جیسا کہ پہلے بھی کئی مرتبہ ذکر ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی قدر افزائی کے لیے جنت میں داخلے اور اس کی نعمتوں کو ان کے اعمال کا صلہ قرار دیتا ہے ‘ جبکہ اللہ کے یہ نیک بندے جنت میں پہنچ کر اللہ کا شکر کرتے ہوئے اعتراف کریں گے کہ یہ سب کچھ اللہ کے فضل کے سبب ہی ممکن ہوا ‘ اور یہ کہ وہ اپنے اعمال کے َبل بوتے پر یہ کامیابی حاصل نہیں کرسکتے تھے : وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ہَدٰٹنَا لِہٰذَا وَمَا کُنَّا لِنَہْتَدِیَ لَوْلَآ اَنْ ہَدٰنَا اللّٰہُ (الاعراف : ٤٣) ” اور وہ کہیں گے ُ کل شکر اور کل تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں یہاں تک پہنچایا ‘ اور ہم خود سے یہاں تک نہیں پہنچ سکتے تھے اگر اللہ ہی نے ہمیں نہ پہنچا دیا ہوتا۔ “- بہر حال یہ اللہ کا اپنے بندوں پر بےپایاں فضل ہے کہ وہ قرآن میں بار بار ان کے نیک اعمال کی قدر دانی فرماتا ہے کہ اگر تم لوگوں نے : اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا۔ (الدھر) کے اختیار کے باوجود میرے شکر گزار بندے بن کر زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا اور اس پر مشقتیں اور تکلیفیں برداشت کیں ‘ چناچہ میں نے بھی تمہاری مدد کرتے ہوئے اس راستے پر تمہارے لیے آسانیاں پیدا کردیں ‘ تمہیں آگے بڑھنے کی توفیق عطا کی اور آج میں تمہارے ان اعمال کا بدلہ تمہیں جنت کی ابدی اور دائمی نعمتوں کی صورت میں عطا کررہا ہوں۔
.jpg)
No comments:
Post a Comment