Monday, August 7, 2023

جنت کی نعمتیں

جنت کی اصل نعمتیں تو بیان میں آ ہی نہیں سکتیں۔ ان کے بارے میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی یہ متفق علیہ حدیث یاد رکھیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :- (قَال اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی : اَعْدَدْتُ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ ) - اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : میں نے اپنے صالح بندوں کے لیے (جنت میں) وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جو نہ تو کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا ‘ اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں اس کا خیال ہی گزرا۔

● صحيح البخاري:3244● صحيح مسلم:7134● جامع الترمذي:3292● سنن ابن ماجه:4328

 قرآن و حدیث میں جنت کی جن نعمتوں کا تذکرہ ہے ان کی حیثیت اہل جنت کے لیے نُزُل (ابتدائی مہمان نوازی) کی ہوگی۔   

اللہ تعالی نے اپنے نیک بندوں یعنی ان لوگوں کے لیے ، جو اس کے احکامات بجا لاتے ہیں اور اس کی منع کردہ باتوں سے اجتناب کرتے ہیں ، وہ محاسن اور خیرہ کر دینے والی خوب صورت اشیا تیار کر رکھی ہیں ، جنھیں کسی آنکھ نے نہیں دیکھا۔ اور ایسی بے خود کردینے والی آوازیں اور من پسند اوصاف تیار کر چھوڑے ہیں ، جنھیں کسی کان نے نہیں سنا۔ یہاں بطور خاص آنکھ اور سماعت کا ذکر کیا ، کیوںکہ انہی دونوں کے ذریعے زیادہ تر محسوسات کا ادراک ہوتا ہے۔ چکھنے ، سونگھنے اور چھونے کے ذریعے ان سے کم ادراک ہوتا ہے۔ ”ولا خَطر على قَلب بَشر“ یعنی ان کے لیے جنت میں جو دائمی نعمتیں تیار ہیں ، ان کا خیال تک کسی کے دل پرسے نہیں گزرا۔ ہر وہ شے جس کا خیال انسان کے دل میں آتا ہے ، جنت میں اس سے بہتر ان کے لیے موجود ہے۔ کیوںکہ ، انسان کے دل پر صرف انہی اشیا کا خیال آتا ہے ، جنھیں وہ جانتے ہیں اور ان کے خیال کے قریب وہی اشیا آتی ہیں ، جن کی وہ پہچان رکھتے ہیں۔ جب کہ جنت کی نعمتیں ان سے کہیں برتر ہیں۔ یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ان کے لیے بطور تکریم ہوگا۔ کیوںکہ انھوں نے اللہ کے احکامات کی بجا آوری کی ہوگی ، اس کی حرام کردہ باتوں سے اجتناب برتا ہوگا اور اس کے راستے میں مشقت برداشت کی ہوگی۔ چنانچہ بدلہ عمل ہی کی جنس سے سے ملے گا۔ ”واقْرَؤُوا إن شِئْتُمْ“۔ ایک اور روایت میں ہے کہ: پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:﴿فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ ﴿فَلا تَعْلَمُ نَفْسٌ﴾اس میں تمام نفوس شامل ہیں۔ کیوںکہ سیاق نفی میں نکرہ عموم کا معنی دیتا ہے۔ یعنی کسی کو یہ معلوم نہیں کہ:﴿مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ﴾ یعنی ان کے لیے کیسی خیر کثیر، بے شمار نعمتیں ، فرح وسرور اور لذت و خوشی رکھی ہوئی ہے۔جس طرح انھوں نے راتوں کو نماز پڑھی ، دعائیں کیں اور اپنے اعمال کو مخفی رکھا، اسی طرح اللہ نے بھی انھیں ان کے عمل کی جنس سے بدلہ دیا۔ ان کے اجر کو مخفی رکھا۔ اسی لیے فرمایا: ﴿جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾وہ جو کچھ کرتے تھے، یہ اس کا بدلہ ہے۔ 

No comments:

Post a Comment