Saturday, May 31, 2025
تو کیا وہ شخص
نیک و بد دونوں ایک دوسرے کے ہم پلہ نہیں ہو سکتے
اللہ تعالیٰ کے عدل و کرم کا بیان ان آیتوں میں ہے کہ اس کے نزدیک نیک کار اور بدکار برابر نہیں۔ جیسے فرمان ہے آیت «اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ اجْتَرَحُوا السَّيِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَوَاءً مَّحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ سَاءَ مَا يَحْكُمُوْنَ» [45-الجاثية:21] ، یعنی ” کیا ان لوگوں نے جو برائیاں کر رہے ہیں یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم انہیں ایمان اور نیک عمل والوں کی مانند کر دیں گے؟ ان کی موت زیست برابر ہے۔ یہ کیسے برے منصوبے بنا رہے ہیں “۔
اور آیت میں ہے «اَمْ نَجْعَلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالْمُفْسِدِيْنَ فِي الْاَرْضِ ۡ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِيْنَ كَالْفُجَّارِ» [38-ص:28] ، یعنی ” ایماندار نیک عمل لوگوں کو کیا ہم زمین کے فسادیوں کے ہم پلہ کر دیں؟ پرہیزگاروں کو گنہگاروں کے برابر کر دیں؟ “
اور آیت «لَا يَسْتَوِيْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّةِ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَاىِٕزُوْنَ» [59-الحشر:20] ” دوزخی اور جنتی برابر نہیں ہو سکتے “۔
آنکھوں کی ٹھنڈک
“ ان کے لیے جنت میں کیا کیا نعمتیں اور لذتیں پوشیدہ پوشیدہ بنا کر رکھی ہیں، اسی کا کسی کو علم نہیں چونکہ یہ لوگ بھی پوشیدہ طور پر عبادت کرتے تھے اسی طرح ہم نے بھی پوشیدہ طور پر ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور ان کے دل کا سکھ تیار کر رکھا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی دل میں اس کا خیال آیا “۔
اور روایت میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جنت کی نعمتیں جسے ملیں وہ کبھی بھی واپس نہیں ہونگی۔ ان کے کپڑے پرانے نہ ہوں گے ان کی جوانی ڈھلے گی نہیں ان کے لیے جنت میں وہ ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا نہ کسی انسان کے دل پر ان کا وہم و گمان آیا ۔
صحیح مسلم شریف میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ رب العالمین عزوجل سے عرض کیا کہ ”اے باری تعالیٰ ادنٰی جنتی کا درجہ کیا ہے؟ جواب ملا کہ ” ادنٰی جنتی وہ شخص ہے جو کل جنتیوں کے جنت میں چلے جانے کے بعد آئے گا اس سے کہا جائے گا جنت میں داخل ہو جاؤ “ وہ کہے گا یا اللہ کہاں جاؤں ہر ایک نے اپنی جگہ پر قبضہ کرلیا ہے اور اپنی چیزیں سنھبال لی ہیں۔
اس سے کہا جائے گا کہ ” کیا تو اس پر خوش ہے؟ کہ تیرے لیے اتنا ہو جتنا دنیا کے کسی بہت بڑے بادشاہ کے پاس تھا؟ “ وہ کہے گا پروردگار میں اس پر بہت خوش ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ” تیرے لیے اتنا ہی اور اتنا ہی اور اتنا ہی اور پانچ گناہ “۔ یہ کہے گا بس بس اے رب میں راضی ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ” یہ سب ہم نے تجھے دیا اور اس کا دس گنا اور بھی دیا اور بھی جس چیز کو تیرا دل چاہے اور جس چیز سے تیری آنکھیں ٹھنڈی رہیں “۔ یہ کہے گا میرے پروردگار میری تو باچھیں کھل گئیں جی خوش ہو گیا۔
موسیٰ علیہ السلام نے کہا پھر اللہ تعالیٰ اعلیٰ درجہ کے جنتی کی کیا کیفیت ہے؟ فرمایا ” یہ وہ لوگ ہیں جن کی خاطر و مدارت کی کرامت میں نے اپنے ہاتھ سے لکھی اور اس پر اپنی مہر لگا دی ہے پھر نہ تو وہ کسی کے دیکھنے میں آئی نہ کسی کے سننے میں نہ کسی کے خیال میں “۔ اس کا مصداق اللہ کی کتاب کی آیت «فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ» [32-السجدة:17] ، ہے ۔
غیب کی پانچ باتیں
یہ غیب کی وہ کنجیاں ہیں جن کا علم بجز اللہ تعالیٰ کے کسی اور کو نہیں۔ مگر اس کے بعد کہ اللہ اسے علم عطا فرمائے۔ قیامت کے آنے کا صحیح وقت نہ کوئی نبی مرسل جانے نہ کوئی مقرب فرشتہ، اس کا وقت صرف اللہ ہی جانتا ہے اسی طرح بارش کب اور کہاں اور کتنی برسے گی اس کا علم بھی کسی کو نہیں ہاں جب فرشتوں کو حکم ہوتا ہے جو اس پر مقرر ہیں تب وہ جانتے ہیں اور جسے اللہ معلوم کرائے۔ اسی طرح حاملہ کے پیٹ میں کیا ہے؟ اسے بھی صرف اللہ ہی جانتا ہے ہاں جب جناب باری تعالیٰ کی طرف سے فرشتوں کو حکم ہوتا ہے جو اسی کام پر مقرر ہیں تب انہیں پتا چلتا ہے کہ نر ہو گا یا مادہ، لڑکا ہو گا یا لڑکی، نیک ہو گا یا بد؟ اسی طرح کسی کو یہ بھی معلوم نہیں کہ کل وہ کیا کرے گا؟ نہ کسی کو یہ علم ہے کہ وہ کہاں مرے گا؟
اور حدیث میں ہے کہ غیب کی کنجیاں یہاں پانچ چیزیں ہیں جن کا بیان آیت «اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ» [31-لقمان:34] میں ہے ۔ [مسند احمد:353/5:صحیح]
مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانچ باتیں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ بخاری کی حدیث کے الفاظ تو یہ ہیں کہ یہ پانچ غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ [صحیح بخاری:1039]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے جو ایک صاحب تشریف لائے اور پوچھنے لگے ایمان کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کو، فرشتوں کو،کتابوں کو، رسولوں کو، آخرت کو، مرنے کے بعد جی اٹھنے کو مان لینا ۔
اس نے پوچھا اسلام کیا ہے؟ فرمایا: ایک اللہ کی عبادت کرنا اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا نمازیں پڑھنا، زکوٰۃ دینا، رمضان کے روزے رکھنا ۔
اس نے دریافت کیا احسان کیا ہے؟ فرمایا: تیرا اس طرح اللہ کی عبادت کرنا کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو نہیں دیکھتا تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے ۔ اس نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کب ہے؟ فرمایا: اس کا علم نہ مجھے اور نہ تجھے ہاں اس کی کچھ نشانیاں میں تمہیں بتادیتا ہوں۔ جب لونڈی اپنے سردار کو جنے اور جب ننگے پیروں اور ننگے بدنوں والے لوگوں کے سردار بن جائیں۔ علم قیامت ان پانچ چیزوں میں سے ایک ہے جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کی تلاوت کی۔
وہ شخص واپس چلا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ اسے لوٹا لاؤ لوگ دوڑ پڑے لیکن وہ کہیں بھی نظر نہ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جبرائیل علیہ السلام تھے لوگوں کو دین سکھانے آئے تھے ۔ [صحیح بخاری:4777]
Friday, May 30, 2025
یقینا
حمد و ثنا کا حق ادا کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں
سید البشر ختم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے «لاَ أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ» اے اللہ!میں تیری تعریفوں کا اتنا شمار بھی نہیں کرسکتا جتنی ثناء تو نے اپنے آپ فرمائی ہے ۔
پس یہاں جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ ” اگر روئے زمین کے تمام تر درخت قلمیں بن جائیں اور تمام سمندر کے پانی سیاہی بن جائیں اور ان کے ساتھ ہی سات سمندر اور بھی ملالئے جائیں اور اللہ تعالیٰ کی عظمت و صفات جلالت و بزرگی کے کلمات لکھنے شروع کئے جائیں تو یہ تمام قلمیں گھس جائیں ختم ہو جائیں سب سیاہیاں پوری ہو جائیں ختم ہو جائیں لیکن اللہ «وَحدَهُ لَا شَرِیْکَ لَهُ» کی تعریفیں ختم نہ ہوں “۔
یہ نہ سمجھا جائے کہ سات سمندر سے زیادہ ہوں تو پھر اللہ کے پورے کلمات لکھنے کے لیے کافی ہو جائیں۔ نہیں یہ گنتی تو زیادتی دکھانے کے لیے ہے۔ اور یہ بھی نہ سمجھا جائے کہ سات سمندر موجود ہیں اور وہ عالم کو گھیرے ہوئے ہیں البتہ بنواسرائیل کی ان سات سمندروں کی بات ایسی روایتیں ہیں لیکن نہ تو انہیں سچ کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی جھٹلایا جا سکتا ہے۔
ہاں جو تفسیر ہم نے کہ ہے اس کی تائید اس آیت سے بھی ہوتی ہے «قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّيْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّيْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهٖ مَدَدًا» [18-الكهف:109] ، یعنی ” اگر سمندر سیاہی بن جائیں اور رب کے کلمات کا لکھنا شروع ہو تو کلمات اللہ کے ختم ہونے سے پہلے ہی سمندر ختم ہو جائیں اگرچہ ایسا ہی اور سمندر اس کی مدد میں لائیں “۔
پس یہاں بھی مراد صرف اسی جیسا ایک ہی سمندر لانا نہیں بلکہ ویسا ایک پھر ایک اور بھی ویسا ہی پھر ویسا ہی پھر ویسا ہی الغرض خواہ کتنے ہی آجائیں لیکن اللہ کی باتیں ختم نہیں ہو سکتیں۔
حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”اگر اللہ تعالیٰ لکھوانا شروع کرے کہ میرا یہ امر اور یہ امر تو تمام قلمیں ٹوٹ جائیں اور تمام سمندروں کے پانی ختم ہو جائیں۔“ مشرکین کہتے تھے کہ یہ کلام اب ختم ہو جائے گا جس کی تردید اس آیت میں ہو رہی ہے کہ نہ رب کے عجائبات ختم ہوں نہ اس کی حکمت کی انتہا نہ اس کی صفت اور اس کے علم کا آخر۔ تمام بندوں کے علم اللہ کے علم کے مقابلے میں ایسے ہیں جیسے سمندر کے مقابلہ میں ایک قطرہ۔ اللہ کی باتیں فنا نہیں ہوتیں نہ اسے کوئی ادراک کر سکتا ہے۔ ہم جو کچھ اس کی تعریفیں کریں وہ ان سے سوا ہے۔