“ ان کے لیے جنت میں کیا کیا نعمتیں اور لذتیں پوشیدہ پوشیدہ بنا کر رکھی ہیں، اسی کا کسی کو علم نہیں چونکہ یہ لوگ بھی پوشیدہ طور پر عبادت کرتے تھے اسی طرح ہم نے بھی پوشیدہ طور پر ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور ان کے دل کا سکھ تیار کر رکھا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی دل میں اس کا خیال آیا “۔
بخاری کی حدیث قدسی میں ہے میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ رحمتیں اور نعمتیں مہیا کر رکھی ہیں جو نہ کسی آنکھ کے دیکھنے میں آئیں نہ کسی کان کے سننے میں نہ کسی کے دل کے سوچنے میں آئے ہوں ۔ اس حدیث کو بیان فرما کر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی حدیث نے کہا قرآن کی اس آیت کو پڑھ لو «فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ» [32-السجدة:17] ، اس روایت میں «قُرَّةِ» کے بجائے «قُرَّاتِ» پڑھنا بھی مروی ہے۔
[صحیح بخاری:4779]
اور روایت میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جنت کی نعمتیں جسے ملیں وہ کبھی بھی واپس نہیں ہونگی۔ ان کے کپڑے پرانے نہ ہوں گے ان کی جوانی ڈھلے گی نہیں ان کے لیے جنت میں وہ ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا نہ کسی انسان کے دل پر ان کا وہم و گمان آیا ۔
اور روایت میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جنت کی نعمتیں جسے ملیں وہ کبھی بھی واپس نہیں ہونگی۔ ان کے کپڑے پرانے نہ ہوں گے ان کی جوانی ڈھلے گی نہیں ان کے لیے جنت میں وہ ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا نہ کسی انسان کے دل پر ان کا وہم و گمان آیا ۔
[صحیح مسلم:3836]
ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کا وصف بیان کرتے ہوئے آخر میں یہی فرمایا اور پھر یہ آیت «تَـتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا ۡ وَّمِـمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ۔ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ»
[32-السجدة:16-17] تک تلاوت فرمائی ۔
[صحیح مسلم:2825]
صحیح مسلم شریف میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ رب العالمین عزوجل سے عرض کیا کہ ”اے باری تعالیٰ ادنٰی جنتی کا درجہ کیا ہے؟ جواب ملا کہ ” ادنٰی جنتی وہ شخص ہے جو کل جنتیوں کے جنت میں چلے جانے کے بعد آئے گا اس سے کہا جائے گا جنت میں داخل ہو جاؤ “ وہ کہے گا یا اللہ کہاں جاؤں ہر ایک نے اپنی جگہ پر قبضہ کرلیا ہے اور اپنی چیزیں سنھبال لی ہیں۔
اس سے کہا جائے گا کہ ” کیا تو اس پر خوش ہے؟ کہ تیرے لیے اتنا ہو جتنا دنیا کے کسی بہت بڑے بادشاہ کے پاس تھا؟ “ وہ کہے گا پروردگار میں اس پر بہت خوش ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ” تیرے لیے اتنا ہی اور اتنا ہی اور اتنا ہی اور پانچ گناہ “۔ یہ کہے گا بس بس اے رب میں راضی ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ” یہ سب ہم نے تجھے دیا اور اس کا دس گنا اور بھی دیا اور بھی جس چیز کو تیرا دل چاہے اور جس چیز سے تیری آنکھیں ٹھنڈی رہیں “۔ یہ کہے گا میرے پروردگار میری تو باچھیں کھل گئیں جی خوش ہو گیا۔
موسیٰ علیہ السلام نے کہا پھر اللہ تعالیٰ اعلیٰ درجہ کے جنتی کی کیا کیفیت ہے؟ فرمایا ” یہ وہ لوگ ہیں جن کی خاطر و مدارت کی کرامت میں نے اپنے ہاتھ سے لکھی اور اس پر اپنی مہر لگا دی ہے پھر نہ تو وہ کسی کے دیکھنے میں آئی نہ کسی کے سننے میں نہ کسی کے خیال میں “۔ اس کا مصداق اللہ کی کتاب کی آیت «فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ» [32-السجدة:17] ، ہے ۔
صحیح مسلم شریف میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ رب العالمین عزوجل سے عرض کیا کہ ”اے باری تعالیٰ ادنٰی جنتی کا درجہ کیا ہے؟ جواب ملا کہ ” ادنٰی جنتی وہ شخص ہے جو کل جنتیوں کے جنت میں چلے جانے کے بعد آئے گا اس سے کہا جائے گا جنت میں داخل ہو جاؤ “ وہ کہے گا یا اللہ کہاں جاؤں ہر ایک نے اپنی جگہ پر قبضہ کرلیا ہے اور اپنی چیزیں سنھبال لی ہیں۔
اس سے کہا جائے گا کہ ” کیا تو اس پر خوش ہے؟ کہ تیرے لیے اتنا ہو جتنا دنیا کے کسی بہت بڑے بادشاہ کے پاس تھا؟ “ وہ کہے گا پروردگار میں اس پر بہت خوش ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ” تیرے لیے اتنا ہی اور اتنا ہی اور اتنا ہی اور پانچ گناہ “۔ یہ کہے گا بس بس اے رب میں راضی ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ” یہ سب ہم نے تجھے دیا اور اس کا دس گنا اور بھی دیا اور بھی جس چیز کو تیرا دل چاہے اور جس چیز سے تیری آنکھیں ٹھنڈی رہیں “۔ یہ کہے گا میرے پروردگار میری تو باچھیں کھل گئیں جی خوش ہو گیا۔
موسیٰ علیہ السلام نے کہا پھر اللہ تعالیٰ اعلیٰ درجہ کے جنتی کی کیا کیفیت ہے؟ فرمایا ” یہ وہ لوگ ہیں جن کی خاطر و مدارت کی کرامت میں نے اپنے ہاتھ سے لکھی اور اس پر اپنی مہر لگا دی ہے پھر نہ تو وہ کسی کے دیکھنے میں آئی نہ کسی کے سننے میں نہ کسی کے خیال میں “۔ اس کا مصداق اللہ کی کتاب کی آیت «فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ» [32-السجدة:17] ، ہے ۔
[صحیح مسلم:189]
چھپا رکھی ہے “۔
ابن جریر میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روح الامین علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ انسان کی نیکیاں بدیاں لائی جائی گی۔ بعض بعض سے کم کی جائیں گی پھر اگر ایک نیکی بھی باقی بچ گئی تو اللہ تعالیٰ اسے بڑھا دے گا اور جنت میں کشادگی عطا فرمائے گا۔ راوی نے یزداد سے پوچھا کہ نیکیاں کہاں چلی گئیں؟ تو انہوں نے اس آیت کی تلاوت کی «اُولٰىِٕكَ الَّذِيْنَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَنَتَجَاوَزُ عَنْ سَـيِّاٰتِهِمْ فِيْٓ اَصْحٰبِ الْجَــنَّةِ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِيْ كَانُوْا يُوْعَدُوْنَ» [46-الأحقاف:16] ، یعنی ” یہ وہ لوگ ہیں جن کے اچھے اعمال ہم نے قبول فرما لیے اور ان کی برائیوں سے ہم نے در گزر فرما لیا “۔
No comments:
Post a Comment