Tuesday, June 17, 2025

دو گنا اجر

اللہ کی طرف

گذرتا ہر پل

اللہ سبحان و تعالیٰ

زندگی

اللہ کی حکمت و مشیت

  اللہ تعالیٰ کے ہاں دنیا کی نعمتوں کی تقسیم لوگوں کے اعمال یا اعتقاد کی بنیاد پر نہیں ہوتی۔ چناچہ اگر کسی کے ہاں مال و دولت کی کثرت ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ اللہ کا منظورِ نظر ہے۔ (حضرت)  سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (لَوْ كانتِ الدُّنيا تَعْدِلُ عندَ اللهِ جناحَ بعوضةٍ مَا سقَى كافِراً منها شَرْبَةَ ماءٍ".)  ۔   ” اگر دنیا کی وقعت اللہ تعالیٰ کے ہاں مچھر کے ایک َپر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر کو پانی کا ایک گھونٹ بھی پینے کو نہ دیتا “۔ (جامع ترمذی: 2320، سنن ابن ماجہ: 4110) ۔  یہ حدیث دنیا کی بے وقعتی کو ظاہر کرتی ہے کہ دنیا کی تمام نعمتیں، خواہ کتنی ہی قیمتی کیوں نہ لگیں، اللہ کے نزدیک نہایت معمولی اور حقیر ہیں۔ اگر دنیا کی کوئی وقعت ہوتی، تو اللہ اسے صرف اہلِ ایمان کو عطاء فرماتا اور کافروں کو اس سے محروم رکھتا  ۔   چناچہ جس مال اور اولاد پر یہ لوگ اتراتے پھرتے ہیں اللہ کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے- وَلٰــکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ” لیکن اکثر لوگ علم نہیں رکھتے۔ “- اکثر لوگ اللہ کی اس تقسیم کے فلسفے کے بارے میں لا علم ہیں۔ وہ یہ بات نہیں سمجھتے کہ رزق کی کمی یا زیادتی کا تعلق کسی انسان کے اللہ کے ہاں محبوب یا مغضوب ہونے سے نہیں ہے۔

 اصل بات نہ سمجھنے کی وجہ سے انہیں یہ خیال ہوگیا ہے کہ جب دنیا میں انہیں مال و دولت میسر ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے ہیں، حالانکہ دنیا میں رزق دینے کا معیار اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ نہیں ہے کہ جو جتنا مقرب ہو، اسے اتنا ہی زیادہ رزق دیا جائے، بلکہ اللہ تعالیٰ اپنی مشیت اور حکمت کے تحت یہاں جس کو چاہتا ہے، رزق زیادہ دیتا ہے، اس کا اللہ تعالیٰ کے تقرب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

قیامت کا دن

 تمہارے لیے وعدے کا دن مقرر ہو چکا ہے جس میں تقدیم و تاخیر کمی و زیادتی ناممکن ہے۔ جیسے فرمان ہے «اِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ اِذَا جَاءَ لَا يُؤَخَّرُ ۘ لَوْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ» [71-نوح:4] ‏‏‏‏ اور فرمایا «وَمَا نُؤَخِّرُهٗٓ اِلَّا لِاَجَلٍ مَّعْدُوْدٍ» [11-هود:104-105] ‏‏‏‏ الخ یعنی ” وہ مقررہ وقت پیچھے ہٹنے کا نہیں۔ تمہیں اس وقت مقررہ وقت تک ڈھیل ہے جب وہ دن آ گیا پھر تو کوئی لب بھی نہ ہلا سکے گا۔ اس دن بعض نیک بخت ہوں گے اور بعض بدبخت۔ “

اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی


اس کی عظمت و کبریائی عزت و بڑائی ایسی ہے کہ بغیر اس کی اجازت کے کسی کی جرات نہیں کہ اس کے سامنے کسی کی سفارش کے لیے بھی لب ہلا سکے۔
جیسے فرمان ہے «مَن ذَا الَّذي يَشفَعُ عِندَهُ إِلّا بِإِذنِهِ» 
[2-البقرة:255]
 ‏‏‏‏ ” کون ہے؟ جو اس کے سامنے کسی کی شفاعت بغیر اس کی رضا مندی کے بغیر کر سکے “
اور آیت میں ہے «وَكَمْ مِّنْ مَّلَكٍ فِي السَّمٰوٰتِ لَا تُغْـنِيْ شَفَاعَتُهُمْ شَـيْــــًٔا اِلَّا مِنْ بَعْدِ اَنْ يَّاْذَنَ اللّٰهُ لِمَنْ يَّشَاءُ وَيَرْضٰى» [53-النجم:26] ‏‏‏‏ الخ، یعنی ” آسمانوں کے کل فرشتے بھی اس کے سامنے کسی کی سفارش کے لیے لب ہلا نہیں سکتے مگر جس کے لیے اللہ اپنی رضا مندی سے اجازت دے دے۔ “
ایک اور جگہ فرمان ہے «وَلَا يَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى وَهُمْ مِّنْ خَشْيَتِهٖ مُشْفِقُوْنَ» [21-الأنبياء:28] ‏‏‏‏ الخ، ” وہ لوگ صرف ان کی شفاعت کر سکتے ہیں جن کے لیے اللہ کی رضا مندی ہو وہ تو خود ہی اس کے خوف سے تھرا رہے ہیں۔ “
تمام اولاد آدم کے سردار سب سے بڑے شفیع اور سفارشی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی قیامت کے دن مقام محمود میں شفاعت کے لیے تشریف لے جائیں گے کہ اللہ تعالیٰ آئے اور مخلوق کے فیصلے کرے اس وقت کی نسبت آپ فرماتے ہیں میں اللہ کے سامنے سجدے میں گر پڑوں گا اللہ ہی جانتا ہے کہ کب تک سجدے میں پڑا رہوں گا اس سجدے میں اس قدر اپنے رب کی تعریفیں بیان کروں گا۔ کہ اس وقت تو وہ الفاظ بھی مجھے معلوم نہیں۔ پھر مجھ سے کہا جائے گا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنا سر اٹھایئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بات کیجئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنی جائے گی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مانگئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا جائے گا۔ آپ شفاعت کیجئے قبول کی جائے گی۔ [صحیح بخاری:7410] ‏‏‏‏

وحدہ لا شریک

 بیان ہو رہا ہے کہ اللہ اکیلا ہے، واحد ہے، احد ہے، فرد ہے، صمد ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ بےنظیر، لاشریک اور بےمثل ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، ساتھی نہیں، مشیر نہیں، وزیر نہیں، مددگار و پیشی بان نہیں۔ پھر ضد کرنے والا اور خلاف کرنے والا کہاں؟ جن جن کو پکارا کرتے ہو پکار کر دیکھ لو معلوم ہو جائے گا کہ ایک ذرے کے بھی مختار نہیں۔ محض بےبس اور بالکل محتاج و عاجز ہیں، نہ زمینوں میں ان کی کچھ چلے نہ آسمانوں میں۔

جیسے اور آیت میں ہے «وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ» [35-فاطر:13] ‏‏‏‏ کہ ” وہ ایک کھجور کے چھلکے کے بھی مالک نہیں “ اور یہی نہیں کہ انہیں خود اختیار حکومت نہ ہو نہ سہی شرکت کے طور پر ہی ہو نہیں شرکت کے طور پر بھی نہیں۔ نہ اللہ تعالیٰ ان سے اپنے کسی کام میں مدد لیتا ہے۔ بلکہ یہ سب کے سب فقیر محتاج ہیں اس کے در کے غلام اور اس کے بندے ہیں،۔

میرے بابا

فرمان رسول ﷺ

Thursday, June 12, 2025

بےشک

صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

نماز

الحمد للہ

قــرآن

سوچیے گا ضرور

ہمارا رب

اللہ ﷻ

وہ اپنے بندوں پر خود ان سے بھی زیادہ مہربان ہے۔ اسی وجہ سے ان کے گناہوں پر اطلاع رکھتے ہوئے انہیں جلدی سے سزا نہیں دیتا بلکہ مہلت دیتا ہے کہ وہ توبہ کر لیں۔ برائیاں چھوڑ دیں رب کی طرف رجوع کریں۔
پھر غفور ہے۔ ادھر بندہ جھکا رویا پیٹا ادھر اس نے بخش دیا یا معاف فرما دیا درگزر کر لیا۔ توبہ کرنے والا دھتکارا نہیں جاتا۔ توکل کرنے والا نقصان نہیں اٹھاتا۔

 

اوصاف الٰہی

چونکہ دنیا اور آخرت کی سب نعمتیں رحمتیں اللہ ہی کی طرف سے ہیں ۔ ساری حکومتوں کا حاکم وہی ایک ہے۔ اس لیے ہر قسم کی تعریف و ثناء کا مستحق بھی وہی ہے۔ وہی معبود ہے جس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں ۔ اسی کے لئے دنیا اور آخرت کی حمد و ثناء سزاوار ہے۔ اسی کی حکومت ہے اور اسی کی طرف سب کے سب لوٹائے جاتے ہیں ۔ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے سب اس کے ماتحت ہے۔ جتنے بھی ہیں سب اس کے غلام ہیں ۔ اس کے قبضے میں ہیں سب پر تصرف اسی کا ہے۔ جیسے اور آیت میں ہے 

«‏‏‏‏وَإِنَّ لَنَا لَلْآخِرَةَ وَالْأُولَىٰ» ‏‏‏‏ ‏‏‏‏ 

[92-الليل:13] ‏‏‏‏

 آخرت میں اسی کی تعریفیں ہوں گی۔ وہ اپنے اقوال، افعال، تقدیر، شریعت سب پر حکومت والا ہے اور ایسا خبردار ہے جس پر کوئی چیز مخفی نہیں ۔ جس سے کوئی ذرہ پوشیدہ نہیں۔

جو اپنے احکام میں حکیم جو اپنی مخلوق سے باخبر جتنے قطرے بارش کے زمین میں جاتے ہیں جتنے دانے اس میں بوئے جاتے ہیں اس کے علم سے باہر نہیں ۔ جو زمین سے نکلتا ہے اگتا ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اس کے محیط، وسیع اور بےپایاں علم سے کوئی چیز دور نہیں ۔ ہر چیز کی گنتی کیفیت اور صفت اسے معلوم ہے۔ آسمان سے جو بارش برستی ہے اس کے قطروں کی گنتی بھی اس کے علم میں محفوظ ہے جو رزق وہاں سے اترتا ہے اس کے علم سے نیک اعمال وغیرہ جو آسمان پر چڑھتے ہیں وہ بھی اس کے علم میں ہیں۔

بڑی کامیابی

استغفر اللہ

اعلی درجہ

Saturday, May 31, 2025

صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

ذکر الہی

صـرف اللہ

بڑی بخشش ، بڑا اجر

اور اپنے گھروں میں

دروازہ

اے نفس

اللہ کے سوا

چراغ

قبر کا فقیر

تو کیا وہ شخص

نیک و بد دونوں ایک دوسرے کے ہم پلہ نہیں ہو سکتے

اللہ تعالیٰ کے عدل و کرم کا بیان ان آیتوں میں ہے کہ اس کے نزدیک نیک کار اور بدکار برابر نہیں۔ جیسے فرمان ہے آیت «اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ اجْتَرَحُوا السَّيِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَوَاءً مَّحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ سَاءَ مَا يَحْكُمُوْنَ» [45-الجاثية:21] ‏‏‏‏، یعنی ” کیا ان لوگوں نے جو برائیاں کر رہے ہیں یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم انہیں ایمان اور نیک عمل والوں کی مانند کر دیں گے؟ ان کی موت زیست برابر ہے۔ یہ کیسے برے منصوبے بنا رہے ہیں “۔

اور آیت میں ہے «اَمْ نَجْعَلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالْمُفْسِدِيْنَ فِي الْاَرْضِ ۡ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِيْنَ كَالْفُجَّارِ» [38-ص:28] ‏‏‏‏، یعنی ” ایماندار نیک عمل لوگوں کو کیا ہم زمین کے فسادیوں کے ہم پلہ کر دیں؟ پرہیزگاروں کو گنہگاروں کے برابر کر دیں؟ “

اور آیت «لَا يَسْتَوِيْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّةِ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَاىِٕزُوْنَ» [59-الحشر:20] ‏‏‏‏ ” دوزخی اور جنتی برابر نہیں ہو 
سکتے “۔

رزق