Wednesday, November 26, 2025

خواہش نفس

 خواہش نفس کو خدا بنا لینے سے مراد یہ ہے کہ آدمی اپنی خواہش کا بندہ بن کر رہ جائے ۔ جس کام کو اس کا دل چاہے اسے کر گزرے ، خواہ خدا نے اسے حرام کیا ہو ، اور جس کام کو اس کا دل نہ چاہے اسے نہ کرے ، خواہ خدا نے اسے فرض کر دیا ہو ۔ جب آدمی اس طرح کسی کی اطاعت کرنے لگے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کا معبود خدا نہیں ہے بلکہ وہ ہے جس کی وہ اس طرح اطاعت کر رہا ہے ، قطع نظر اس سے کہ وہ زبان سے اس کو اپنا اِلٰہ اور معبود کہتا ہو یا نہ کہتا ہو ، اور اس کا بت بنا کر اس کی پوجا کرتا ہو یا نہ کرتا ہو ۔ اس لیے کہ ایسی بے چوں چرا اطاعت ہی اس کے معبود بن جانے کے لیے کافی ہے اور اس عملی شرک کے بعد ایک آدمی صرف اس بنا پر شرک کے جرم سے بری نہیں ہو سکتا کہ اس نے اپنے اس مطاع کو زبان سے معبود نہیں کہا ہے اور سجدہ اس کو نہیں کیا ہے ۔ اس آیت کی یہی تشریح دوسرے اکابر مفسرین نے بھی کی ہے ۔ ابن جریر اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ اس نے اپنی خواہش نفس کو معبود بنا لیا ۔ جس چیز کی نفس نے خواہش کی اس کا ارتکاب کر گزرا ۔ نہ اللہ کے حرام کیے ہوئے کو حرام کیا ، نہ اس کے حلال کیے ہوئے کو حلال کیا ۔ ابوبکر جصاص اس کے معنی یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ خواہش نفس کی اس طرح اطاعت کرتا ہے جیسے کوئی خدا کی اطاعت کرے ۔ زمخشری اس کی تشریح یوں کرتے ہیں کہ وہ خواہش نفس کا نہایت فرمانبردار ہے ۔ جدھر اس کا نفس اسے بلاتا ہے اسی طرف وہ چلا جاتا ہے ، گویا وہ اس کی بندگی اس طرح کرتا ہے جیسے کوئی شخص اپنے خدا کی بندگی کرے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، الفرقان ، حاشیہ ۵٦ ۔ جلد چہارم ، تفسیر سورہ سبا ، حاشیہ 63 ۔ یٰس ، حاشیہ 53 ۔ الشوریٰ ، حاشیہ 38 ) سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :31 اصل الفاظ ہیں اَضَلَّہُ اللہُ عَلیٰ عِلْمِہ ۔ ایک مطلب ان الفاظ کا یہ ہو سکتا ہے کہ وہ شخص عالم ہونے کے باوجود اللہ کی طرف سے گمراہی میں پھینکا گیا ، کیونکہ وہ خواہش نفس کا بندہ بن گیا تھا ۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ نے اپنے اس علم کی بنا پر کہ وہ اپنے نفس کی خواہش کو اپنا خدا بنا بیٹھا ہے ، اسے گمراہی میں پھینک دیا ۔ سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :32 اللہ کے کسی کو گمراہی میں پھینک دینے اور اس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دینے اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دینے کی تشریح اس سے پہلے ہم متعدد مقامات پر اس کتاب میں کر چکے ہیں ۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، البقرہ ، حواشی ۱۰ ۔ ۱٦ ، الانعام ، حواشی ۱۷ ۔ ۲۷ ، جلد دوم ، الاعراف ، حاشیہ۸۰ ، التوبہ ، حواشی ۸۹ ۔ ۹۳ ، یونس ، حاشیہ ۷۱ ، الرعد ، حاشیہ ٤٤ ، ابراہیم ، حواشی ٦ ۔ ۷ ۔ ٤۰ ، النحل ، حاشیہ ۱۱ ، بنی اسرائیل ، حاشیہ ۵۱ ، جلد سوم ، الروم ، حاشیہ ۸٤ ، جلد چہارم ، فاطر ، آیت 8 ، حواشی 16 ۔ 17 ، المومن ، حاشیہ 54 ۔ سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :33 جس سیاق و سباق میں یہ آیت آئی ہے اس سے یہ بات خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ آخرت کا انکار دراصل وہی لوگ کرتے ہیں جو خواہشات نفس کی بندگی کرنا چاہتے ہیں اور عقیدہ آخرت کو اپنی اس آزادی میں مانع سمجھتے ہیں ۔ پھر جب وہ آخرت کا انکار کر دیتے ہیں تو ان کی بندگی نفس اور زیادہ بڑھتی چلی جاتی ہے اور وہ اپنی گمراہی میں روز بروز زیادہ ہی بھٹکتے چلے جاتے ہیں ۔ کوئی برائی ایسی نہیں ہوتی جس کے ارتکاب سے وہ باز رہ جائیں ۔ کسی کا حق مارنے میں انہیں تامل نہیں ہوتا ۔ کسی ظلم اور زیادتی کا موقع پا جانے کے بعد ان سے یہ توقع ہی نہیں کی جاسکتی کہ وہ اس سے صرف اس لیے رک جائیں گے کہ حق و انصاف کا کوئی احترام ان کے دلوں میں ہے جن واقعات کو دیکھ کر کوئی انسان عبرت حاصل کر سکتا ہے ، وہی واقعات ان کی آنکھوں کے سامنے بھی آتے ہیں ، مگر وہ ان سے الٹا یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں اور ہمیں یہی کچھ کرنا چاہیے ۔ کوئی کلمہ نصیحت ان پر کارگر نہیں ہوتا ۔ جو دلیل بھی کسی انسان کو برائی سے روکنے کے لیے مفید ہو سکتی ہے ، وہ ان کے دل کو اپیل نہیں کرتی ، بلکہ وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ساری دلیلیں اپنی اسی بے قید آزادی کے حق میں نکالتے چلے جاتے ہیں ، اور ان کے دل و دماغ کسی اچھی فکر کے بجائے شب و روز اپنی اغراض و خواہشات ہر ممکن طریقے سے پوری کرنے کی ادھیڑ بن ہی میں لگے رہتے ہیں ۔ یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ عقیدہ آخرت کا انکار انسانی اخلاق کے لیے تباہ کن ہے ۔ آدمی کو آدمیت کے دائرے میں اگر کوئی چیز رکھ سکتی ہے تو وہ صرف یہ احساس ہے کہ ہم غیر ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ ہمیں خدا کے حضور اپنے اعمال کی جوابدہی کرنی ہو گی ۔ اس احساس سے خالی ہو جانے کے بعد کوئی شخص بڑے سے بڑا عالم بھی ہو تو وہ جانوروں سے بدتر رویہ اختیار کیے بغیر نہیں رہتا ۔

No comments:

Post a Comment