زندگی کے لئے پانی کی اہمیت :۔ پانی کا ذخیرہ یا تو زمین کے نیچے ہوتا ہے۔ وہ بھی اللہ کے قبضہ ئقدرت میں ہے۔ وہ چاہے تو پانی کی سطح کو بہت نیچے لے جائے اور انسان پانی حاصل ہی نہ کرسکے۔ یا بارش کی صورت میں نازل ہوتا ہے۔ وہ بھی خالصتاً اللہ کے قبضہ ئقدرت میں ہے۔ وہ چاہے تو کسی مقام پر سالہا سال بارش ہی نہ ہو یا پھر پہاڑوں پر سردیوں میں برفباری ہوتی ہے جو گرمیوں میں پگھل کر دریاؤں کی صورت میں رواں ہوتی ہے۔ لیکن کئی دفعہ دریاؤں میں پانی کی انتہائی کمی واقع ہوجاتی ہے حالانکہ پانی اللہ کی اتنی بڑی نعمت ہے جس کے بغیر نہ انسان زندہ رہ سکتا ہے نہ دوسرے جاندار اور نہ ہی نباتات اگ سکتی ہیں۔ یعنی پانی نہ ہونے سے انسان خوراک سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔
آیت ٢٢ (وَاَرْسَلْنَا الرِّيٰحَ لَوَاقِحَ )- لَوَاقِحَ کا مفہوم پہلے تو یہی سمجھا جاتا تھا کہ یہ ہوائیں بادلوں کو اٹھا کر لاتی ہیں اور بارش کا سبب بنتی ہیں لیکن اب جدید سائنسی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بیج بھی ہواؤں کے ذریعے منتقل ہوتے ہیں جن سے پھولوں کی فرٹیلائزیشن ہوتی ہے جس کے نتیجے میں فصلیں اور پھل پیدا ہوتے ہیں۔ یوں یہ سارا نباتاتی نظام بھی ہواؤں کی وجہ سے چل رہا ہے۔ - (فَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَسْقَيْنٰكُمُوْهُ )- پانی مبدا حیات ہے۔ زمین پر ہر طرح کی زندگی کے وجود کا منبع اور سرچشمہ بھی پانی ہے اور پھر پانی پر ہی زندگی کی بقا کا انحصار بھی ہے۔ پانی کی اس اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے اس کی تقسیم و ترسیل کا ایک لگا بندھا نظام وضع کیا ہے جسے آج کی سائنس نے واٹر سائیکل کا نام دیا ہے۔ واٹر سائیکل کا یہ عظیم الشان نظام اللہ تعالیٰ کے عجائبات میں سے ہے۔ سمندروں سے ہواؤں تک بخارات پہنچا کر بارش اور برفباری کا انتظام گلیشیئرز کی شکل میں بلند وبالا پہاڑوں پر واٹر سٹوریج کا اہتمام پھر چشموں ندی نالوں اور دریاؤں کے ذریعے سے اس پانی کی وسیع و عریض میدانی علاقوں تک رسائی اور زیر زمین پانی کا عظیم الشان ذخیرہ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وضع کردہ وہ واٹرسائیکل ہے جس پر پوری دنیا میں ہر قسم کی زندگی کا دارومدار ہے۔- (وَمَآ اَنْتُمْ لَهٗ بِخٰزِنِيْنَ )- یہ تمہارے بس میں نہ تھا کہ تم پانی کے اس ذخیرے کو جمع کرتے
وَاَرْسَلْنَا الرِّيٰحَ لَوَاقِحَ ۔۔ : ” لَوَاقِحَ “ ” لَاقِحٌ“ کی جمع بھی ہوسکتی ہے، یہ لفظ مذکر ہونے کے باوجود مؤنث ہے، جیسے ” حَاءِضٌ“ اور ” حَامِلٌ“ ، ” لِقَاحٌ“ نر جانور کے مخصوص پانی کو کہتے ہیں۔ ” لَاقِحٌ“ وہ اونٹنی جس نے ” لِقَاحٌ“ کو قبول کرلیا ہو، یعنی حاملہ ہوچکی ہو اور اپنے پیٹ میں جنین اٹھائے پھرتی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ہواؤں کو حمل اٹھانے والی اس لیے قرار دیا کہ وہ اپنے اندر حاملہ اونٹنیوں کی طرح ایسے آبی بخارات اور بادلوں کا بوجھ اٹھا کر چلتی ہیں جو بارش برسانے کا ذریعہ بنتے ہیں اور یہ ” لَاقِحٌ“ بمعنی ” مُلْقِحٌ“ (باب افعال سے اسم فاعل، یعنی وہ نر جو حاملہ کرتا ہے) کی جمع بھی ہوسکتی ہے، یعنی یہ ہوائیں بادلوں پر اور مادہ درختوں پر، مثلاً کھجور وغیرہ، یا مادہ پھولوں پر عمل کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں کہ ہواؤں کے ذریعے سے بادل برسنے کے قابل ہوتے ہیں، ہواؤں ہی کے ذریعے سے نر درختوں اور نر پھولوں کا بور ان کے مادہ درختوں اور پھولوں تک پہنچتا ہے، جس سے ان کے پھل لانے کا عمل وجود میں آتا ہے۔ آیت کا کمال بلاغت یہ ہے کہ ” لَوَاقِحَ “ کا لفظ استعمال فرمایا جو حاملہ ہونے اور حاملہ کرنے کے دونوں مفہوم ادا کرتا ہے۔ - فَاَسْقَيْنٰكُمُوْهُ : ” سَقٰی یَسْقِیْ “ پلانا، ” أَسْقٰی یُسْقِیْ “ پلانے کے لیے دینا، مہیا کرنا، یعنی ہم نے آسمان سے پانی اتارا اور تمہیں ایک دوسرے کو پلانے اور اپنے جانوروں اور پودوں کو پلانے کے لیے عطا فرمایا۔ - وَمَآ اَنْتُمْ لَهٗ بِخٰزِنِيْنَ : یعنی نہ اوپر آسمان میں بارش کا خزانہ تمہارے قبضے میں ہے اور نہ نیچے زمین میں کنووں، چشموں، تالابوں کے خزانے پر تمہارا کوئی اختیار ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی پانی کو جس مقدار میں چاہتا ہے رکھتا ہے، وہ جب چاہے بارش برسائے تم اسے روک نہیں سکتے، یا جب چاہے روک لے تم اسے اپنی مرضی سے برسا نہیں سکتے۔ اسی طرح اگر وہ چاہے تو چشموں اور کنووں میں تمام جمع شدہ پانی زمین میں جذب ہوجائے اور تمہیں ایک قطرہ بھی پینے کو نہ ملے۔

No comments:
Post a Comment