Friday, November 7, 2025

اصلی زاد راہ تقویٰ ہے

  زمین گہوارہ کیسے ہے ؟ گہوارہ میں بچہ بڑے آرام سے جھولے لیتا ہے، آرام کرتا اور سوتا ہے۔ اس لیے کہ جھولے کی رفتار میں یکسانیت ہوتی ہے۔ بالکل یہی صورت زمین کی ہے جو ایک بہت بڑا عظیم الجثہ کرہ ہے۔ اور فضائے بسیط میں معلق ہزارہا میل فی منٹ کی تیز رفتاری سے محو گردش ہے۔ مگر اس کی اس تیز رفتاری میں بھی یکسانیت ہے۔ جس کی وجہ سے تمہیں اس کی یہ حرکت محسوس تک نہیں ہوتی اگر اس کے اندر سے کوئی آتش فشاں پہاڑ یا آتش گیر مادہ پھٹ پڑے اور اس میں زلزلہ پیدا ہوجائے تو اسی وقت تمہاری جان پر بن جاتی ہے۔ اور پروردگار یاد آنے لگتا ہے اور اگر خدانخواستہ اس کی رفتار میں بےترتیبی واقع ہوجائے تو تمہاری تباہی یقینی ہے۔ یہ اللہ ہی کی ذات ہے جس نے اس مہیب کرہ کو اپنے کنٹرول میں رکھ کر اسے تمہارے حق میں گہوارے کی طرح آرام دہ بنادیا ہے۔ تم اس پر بڑے سکون و اطمینان سے چلتے پھرتے اور رہتے سہتے ہو۔ - [٩] راستوں سے راہ پانے کے دو مفہوم :۔ اللہ تعالیٰ نے زمین بنائی تو ایک جیسی نہیں بنائی۔ کہیں نشیب ہیں کہیں فراز، کہیں پہاڑ ہیں اور کہیں ریت کے تودے، پھر ان پہاڑوں کی بلندی بھی یکساں نہیں بنائی۔ کہیں کٹاؤ ہیں کہیں درے ہیں۔ جنہیں پار کرکے انسان ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ یا دوسرے علاقہ کی طرف جاسکتا ہے۔ پھر ان پہاڑوں میں وادیاں بنائیں جو پانی کی گزر گاہیں ہیں۔ انہیں گزر گاہوں پر چلنے کے راستے بن گئے۔ پھر زمین پر بیشمار امتیازی نشانات بنا دیئے۔ ان سب باتوں کا فائدہ یہ ہوا کہ انسان انہیں نشانات اور راہوں کی مدد سے دنیا کے ایک حصہ سے دوسرے حصہ تک سفر کرسکتا ہے اور بھولتا نہیں۔ اگر ایسے نشانات نہ ہوتے اور ساری زمین ایک جیسی ہوتی تو انسان نہ سفر کرنے کے قابل ہوسکتا اور نہ ہی راستے بن سکتے تھے۔ راستے اگرچہ انسان ہی بناتا ہے لیکن چونکہ راستوں کے ذرائع اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ ہیں اس لیے انہیں براہ راست اپنی طرف منسوب کیا۔ اس آیت کے بھی دو مطلب ہیں۔ ایک تو ترجمہ سے واضح ہے اور دوسرا یہ کہ ان امتیازی نشانات میں غور کرکے ہدایت کی راہ پاسکو اور اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرسکو۔

 دنیا میں نازل ہونے والی بارش کی مجموعی مقدار یکساں رہتی ہے :۔ اس کے بھی دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ سمندر، جس سے آبی بخارات بن کر اوپر اٹھتے ہیں، کا رقبہ خشکی کے رقبہ سے تین گناہ زیادہ ہے۔ یہ بھی ممکن تھا کہ اس کا ایک کثیر حصہ آبی بخارات میں تبدیل ہوجاتا، پھر بارش کی صورت اختیار کرلیتا جس سے زمین کا کثیر حصہ زیرآب آجاتا اور مخلوق تباہ ہوجاتی۔ لیکن اللہ تعالیٰ ایسا نہیں ہونے دیتا اور آبی بخارات اتنے ہی بنتے ہیں یا اتنی ہی بارش ہوتی ہے جو مخلوق کے لیے فائدہ بخش ہو۔ دوسرا پہلو یہ ہے زمین کے ہر علاقہ میں بارش کی سالانہ اوسط مقدار دوسرے علاقوں سے الگ ہوتی ہے۔ پھر اس اوسط مقدار میں کمی بیشی بھی ہوتی رہتی ہے۔ کہیں سیلاب آجاتا ہے اور کہیں خشک سالی ہوتی ہے۔ ان باتوں کے باوجود اللہ تعالیٰ پانی کی مجموعی مقدار اتنی ہی نازل فرماتا ہے جو ساری زمین کی مخلوق کی ضروریات کو پورا کرسکے۔- [١١] نباتات سے بعث بعد الموت پر دلیل :۔ اللہ تعالیٰ کے لیے نباتات کو زمین سے نکالنا یا اگانا اور تمہیں زمین سے نکالنا یا اگانا ایک ہی بات ہے اور اس میں کچھ فرق نہیں اور اس کی وضاحت سورة نوح میں یوں بیان فرمائی۔ ( وَاللّٰهُ اَنْۢبَتَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا 17:71 )  ۔ نوح :17) (اور اللہ نے تمہیں زمین سے نباتات کی طرح اگایا پھر اسی زمین میں تمہیں لوٹا دے گا۔ پھر تمہیں اسی زمین سے (قیامت کے دن) نکال بھی لے گا) یعنی زمین سے غلے پھل اور غذائیں اگتی ہیں۔ انہی سے انسان کا گوشت پوست خون اور نطفہ بنتا ہے۔ جو انسان کی پیدائش کا ذریعہ بنتا ہے۔ اسی لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کو براہ راست زمین سے اگانے سے منسوب کردیا ہے۔ گویا جس طرح آج نباتات کو اور پھر تمہیں زمین سے اگا رہا ہے۔ اسی طرح قیامت کے دن بھی تمہیں زمین سے نکال کر اٹھا کھڑا کرے گا

No comments:

Post a Comment