*ایک میت کی نصیحت*
چند ہفتے پہلے ایک کویتی کاتبہ نادیہ الجار اللہ رحمہا اللہ کا انتقال ہوا
اور اپنی موت سے پہلے اس نے یہ نصیحت لکھی :
میں اپنی موت پر افسوس ہرگز نہیں کروں گی اور میں اپنے جسم کی کوئی پرواہ نہیں کروں گی
پس مسلمان اپنے جو فرائض انجام دیں گے وہ یہ ہیں:
1۔مجھے اپنے کپڑوں سے جدا کر دیں گے
2۔مجھے نہلائیں گے
3۔مجھے کفن پہنائیں گے
4۔مجھے اپنے گھر سے نکال باہر کریں گے
5۔مجھے اپنے نئے گھر یعنی قبر تک پہنچائیں گے
6۔اور بہت سے لوگ میرے جنازے کے ساتھ آئیں گے بلکہ بہت سے تو مجھے دفنانے کے لیے اپنی مصروفیات اور مشغولیات سے وقت فارغ کر کے آئیں گے
اور بہت سے تو میری یہ نصیحت بھی بھلا دیں گے
اور ایک دن ۔۔۔
میری چیزوں سے وہ خلاصہ پائیں گے ۔۔۔
میری چابیاں
میری کتابیں
میرے سوٹ کیس اور بیگ
میرے جوتے
میرے کپڑے اور اس طرح ۔۔۔
اور اگر میرے گھر والے اگر متفق ہوں تو وہ یہ صدقہ کریں گے تاکہ مجھے اس سے نفع پہنچے ۔۔
یاد رکھو کہ دنیا مجھ پر غم ہرگز نہیں کرے گی ۔۔اور نہ ہی دنیا کی حرکت رکے گی ۔۔۔
اور تجارت وکاروبار چلتے رہیں گے۔۔۔۔
اور میرا وظیفہ شروع ہو جائے گا
جسے غیر لے لیں گے۔۔۔
اور میرا مال وارثوں کے حوالے ہوجائے گا ۔۔
جبکہ مجھے اس کا حساب دینا ہوگا
کم ہو یا زیادہ ۔۔ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے یا شگاف کے برابر بھی ہو۔۔
اور سب سے پہلے میری موت پر مجھ سے جو چھین لیا جائے گا وہ میرا نام ہوگا! !!
اس لئے جب میں مرجاوں گی تو لوگ کہیں گے کہ" لاش کہاں" ہے؟ میّت کہاں ہے؟
اور مجھے میرے نام سے نہیں پکاریں گے ۔۔!
اور جب نماز جنازہ پڑھانا ہو تو کہیں گے "جنازہ لےآؤ "!!!
میرانام نہیں لیں گے ۔۔!
اور جب میرے دفنانے کا وقت آجائے تو کہیں گے "میت کو قریب کرو" !!! میرانام بھی یاد نہیں کریں گے ۔۔۔!
اس وقت مجھے میرا نسب اور نہ قبیلہ میرے کام آئے گا اور نہ ہی میرا منصب اور شہرت۔۔۔
کتنی فانی اور دھوکہ کی ہے یہ دنیا جسکی طرف ہم لپکتے ہیں۔۔
پس اے زندہ انسان ۔۔۔ خوب جان لے کہ تجھ پر غم و افسوس تین طرح کا ہوتا ہے :
1۔ جو لوگ تجھے سرسری طور پر جانتے ہیں وہ مسکین کہہ کر غم کا اظہار کریں گے ۔
2۔ تیرے دوست چند گھنٹے یا چند روز تیرا غم کریں گے اور پھر اپنی اپنی باتوں اور ہنسی مذاق میں مشغول ہو جائیں گے ۔
3۔ زیادہ سے زیادہ گہرا غم گھر میں ہوگا وہ تیرے اہل وعیال کا ہوگا جو کہ ہفتہ دو ہفتے یا دو مہینے اور زیادہ سے زیادہ ایک سال تک ہوگا
اور اس کے بعد وہ تجھے یادوں کے اوراق میں رکھ دیں گے! !!
لوگوں کے درمیان تیرا قصہ ختم ہوا
اور تیرا حقیقی قصہ شروع ہوا اور وہ ہے آخرت کا ۔
تجھ سے چھن گیا تیرا ۔۔۔
1۔ جمال ۔۔۔
2۔ مال۔۔
3۔ صحت۔۔
4۔ اولاد ۔۔
5۔ جدا ہوگئےتجھ سے مکان و محلات۔
6۔ شوہر ۔۔۔
اور کچھ باقی نہ رہا تیرے ساتھ سوائے تیرے اعمال کے
اور حقیقی زندگی کا آغاز ہوا ۔
اب سوال یہاں یہ ہےکہ :
تو نے اپنی قبر اور آخرت کے لئے اب سے کیا تیاری کی ہے ؟
یہی حقیقت ہے جسکی طرف توجہ چاہئے ۔۔
اس کے لیے تجھے چاہئے کہ تو اہتمام کرے :
1۔ فرائض کا
2۔ نوافل کا
3۔پوشیدہ صدقہ کا
4۔ نیک کاموں کا
5۔ رات کی نمازوں کا
شاید کہ تو نجات پا سکے
اگر تو نے اس مقالہ کو لوگوں کی یاددہانی میں مدد کی جبکہ تو ابھی زندہ ہے
تاکہ اس امتحان گاہ میں امتحان کا وقت ختم ہونے سے تجھے شرمندگی نہ ہو اور امتحان کا پرچہ بغیر تیری اجازت کے تیرے ہاتھوں سے چھین لیا جائے
اور تو اس یاددہانی کا اثر قیامت کے دن اپنے اعمال کے ترازو میں دیکھےگا
(اور یاددہانی کرتے رہئے بیشک یاددہانی مومنوں کو نفع دے گی)
میت صدقہ کو کیوں ترجیح دیتی ہے اگر وہ دنیا میں واپس لوٹا دی جائے۔۔
جیسا کہ اللہ نے فرمایا
"اے رب اگر مجھے تھوڑی دیر کے لئے واپس لوٹا دے تو میں صدقہ کروں اور نیکوں میں شامل ہو جاؤں
(سورة المنافقون )
یہ نہیں کہےگا کہ۔۔
عمرہ کروں گا
نماز پڑھوں گا
روزہ رکھوں گا
علماء نے کہا کہ :
اگر تو نے اس مقالہ کو لوگوں کی یاد دہانی میں مدد کی جبکہ تو ابھی زندہ ہےثواب اپنی آنکھوں سے دیکھے گا.
اس لئے صدقہ کثرت سے کیا کرو
اچھی بات بھی صدقہ ہے.
اردو ترجمہ
شئیر کرنا مت بھولیں۔ جزاک اللہ خیر
#متـــــاع_جـــــاں
چند ہفتے پہلے ایک کویتی کاتبہ نادیہ الجار اللہ رحمہا اللہ کا انتقال ہوا
اور اپنی موت سے پہلے اس نے یہ نصیحت لکھی :
میں اپنی موت پر افسوس ہرگز نہیں کروں گی اور میں اپنے جسم کی کوئی پرواہ نہیں کروں گی
پس مسلمان اپنے جو فرائض انجام دیں گے وہ یہ ہیں:
1۔مجھے اپنے کپڑوں سے جدا کر دیں گے
2۔مجھے نہلائیں گے
3۔مجھے کفن پہنائیں گے
4۔مجھے اپنے گھر سے نکال باہر کریں گے
5۔مجھے اپنے نئے گھر یعنی قبر تک پہنچائیں گے
6۔اور بہت سے لوگ میرے جنازے کے ساتھ آئیں گے بلکہ بہت سے تو مجھے دفنانے کے لیے اپنی مصروفیات اور مشغولیات سے وقت فارغ کر کے آئیں گے
اور بہت سے تو میری یہ نصیحت بھی بھلا دیں گے
اور ایک دن ۔۔۔
میری چیزوں سے وہ خلاصہ پائیں گے ۔۔۔
میری چابیاں
میری کتابیں
میرے سوٹ کیس اور بیگ
میرے جوتے
میرے کپڑے اور اس طرح ۔۔۔
اور اگر میرے گھر والے اگر متفق ہوں تو وہ یہ صدقہ کریں گے تاکہ مجھے اس سے نفع پہنچے ۔۔
یاد رکھو کہ دنیا مجھ پر غم ہرگز نہیں کرے گی ۔۔اور نہ ہی دنیا کی حرکت رکے گی ۔۔۔
اور تجارت وکاروبار چلتے رہیں گے۔۔۔۔
اور میرا وظیفہ شروع ہو جائے گا
جسے غیر لے لیں گے۔۔۔
اور میرا مال وارثوں کے حوالے ہوجائے گا ۔۔
جبکہ مجھے اس کا حساب دینا ہوگا
کم ہو یا زیادہ ۔۔ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے یا شگاف کے برابر بھی ہو۔۔
اور سب سے پہلے میری موت پر مجھ سے جو چھین لیا جائے گا وہ میرا نام ہوگا! !!
اس لئے جب میں مرجاوں گی تو لوگ کہیں گے کہ" لاش کہاں" ہے؟ میّت کہاں ہے؟
اور مجھے میرے نام سے نہیں پکاریں گے ۔۔!
اور جب نماز جنازہ پڑھانا ہو تو کہیں گے "جنازہ لےآؤ "!!!
میرانام نہیں لیں گے ۔۔!
اور جب میرے دفنانے کا وقت آجائے تو کہیں گے "میت کو قریب کرو" !!! میرانام بھی یاد نہیں کریں گے ۔۔۔!
اس وقت مجھے میرا نسب اور نہ قبیلہ میرے کام آئے گا اور نہ ہی میرا منصب اور شہرت۔۔۔
کتنی فانی اور دھوکہ کی ہے یہ دنیا جسکی طرف ہم لپکتے ہیں۔۔
پس اے زندہ انسان ۔۔۔ خوب جان لے کہ تجھ پر غم و افسوس تین طرح کا ہوتا ہے :
1۔ جو لوگ تجھے سرسری طور پر جانتے ہیں وہ مسکین کہہ کر غم کا اظہار کریں گے ۔
2۔ تیرے دوست چند گھنٹے یا چند روز تیرا غم کریں گے اور پھر اپنی اپنی باتوں اور ہنسی مذاق میں مشغول ہو جائیں گے ۔
3۔ زیادہ سے زیادہ گہرا غم گھر میں ہوگا وہ تیرے اہل وعیال کا ہوگا جو کہ ہفتہ دو ہفتے یا دو مہینے اور زیادہ سے زیادہ ایک سال تک ہوگا
اور اس کے بعد وہ تجھے یادوں کے اوراق میں رکھ دیں گے! !!
لوگوں کے درمیان تیرا قصہ ختم ہوا
اور تیرا حقیقی قصہ شروع ہوا اور وہ ہے آخرت کا ۔
تجھ سے چھن گیا تیرا ۔۔۔
1۔ جمال ۔۔۔
2۔ مال۔۔
3۔ صحت۔۔
4۔ اولاد ۔۔
5۔ جدا ہوگئےتجھ سے مکان و محلات۔
6۔ شوہر ۔۔۔
اور کچھ باقی نہ رہا تیرے ساتھ سوائے تیرے اعمال کے
اور حقیقی زندگی کا آغاز ہوا ۔
اب سوال یہاں یہ ہےکہ :
تو نے اپنی قبر اور آخرت کے لئے اب سے کیا تیاری کی ہے ؟
یہی حقیقت ہے جسکی طرف توجہ چاہئے ۔۔
اس کے لیے تجھے چاہئے کہ تو اہتمام کرے :
1۔ فرائض کا
2۔ نوافل کا
3۔پوشیدہ صدقہ کا
4۔ نیک کاموں کا
5۔ رات کی نمازوں کا
شاید کہ تو نجات پا سکے
اگر تو نے اس مقالہ کو لوگوں کی یاددہانی میں مدد کی جبکہ تو ابھی زندہ ہے
تاکہ اس امتحان گاہ میں امتحان کا وقت ختم ہونے سے تجھے شرمندگی نہ ہو اور امتحان کا پرچہ بغیر تیری اجازت کے تیرے ہاتھوں سے چھین لیا جائے
اور تو اس یاددہانی کا اثر قیامت کے دن اپنے اعمال کے ترازو میں دیکھےگا
(اور یاددہانی کرتے رہئے بیشک یاددہانی مومنوں کو نفع دے گی)
میت صدقہ کو کیوں ترجیح دیتی ہے اگر وہ دنیا میں واپس لوٹا دی جائے۔۔
جیسا کہ اللہ نے فرمایا
"اے رب اگر مجھے تھوڑی دیر کے لئے واپس لوٹا دے تو میں صدقہ کروں اور نیکوں میں شامل ہو جاؤں
(سورة المنافقون )
یہ نہیں کہےگا کہ۔۔
عمرہ کروں گا
نماز پڑھوں گا
روزہ رکھوں گا
علماء نے کہا کہ :
اگر تو نے اس مقالہ کو لوگوں کی یاد دہانی میں مدد کی جبکہ تو ابھی زندہ ہےثواب اپنی آنکھوں سے دیکھے گا.
اس لئے صدقہ کثرت سے کیا کرو
اچھی بات بھی صدقہ ہے.
اردو ترجمہ
شئیر کرنا مت بھولیں۔ جزاک اللہ خیر
#متـــــاع_جـــــاں