سود خور سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ سود کو برباد کرتا ہے یعنی یا تو اسے بالکل غارت کر دیتا ہے یا سودی کاروبار سے خیر و برکت ہٹا دیتا ہے۔
علاوہ ازیں دنیا میں بھی وہ تباہی کا باعث بنتا ہے اور آخرت میں عذاب کا سبب، جیسے ہے
«قُل لَّا يَسْتَوِي الْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ أَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيثِ»
[ 5-المائدة: 100 ]
یعنی ناپاک اور پاک برابر نہیں ہوتا گو تمہیں ناپاک کی زیادتی تعجب میں ڈالے۔
ارشاد فرمایا
«وَيَجْعَلَ الْخَبِيثَ بَعْضَهُ عَلَىٰ بَعْضٍ فَيَرْكُمَهُ جَمِيعًا فَيَجْعَلَهُ فِي جَهَنَّمَ»
[ 8-الأنفال: 37 ] ۔
الا یہ خباثت والی چیزوں کو تہ و بالا کر کے وہ جہنم میں جھونک دے گا۔
سود کا مال بظاہر جتنا بھی بڑھ جائے حقیقت میں نہیں بڑھتا، فرمایا
«وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ»
[ 30۔ الروم: 39 ]
” اور جو کوئی سودی قرض تم اس لیے دیتے ہو کہ لوگوں کے اموال میں بڑھ جائے تو وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا۔ “
اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھاتا ہے اور ان میں خیر و برکت ہوتی ہے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جو شخص پاک کمائی میں سے ایک کھجور بھی صدقہ کرے اور اللہ تعالیٰ پاک مال ہی کو قبول کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے قبول فرماتا ہے، پھر اسے صدقہ کرنے والے کے لیے اس طرح پالتا پوستا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گھوڑی کے بچے کی پرورش کرتا ہے، حتیٰ کہ وہ صدقہ (بڑھ کر) پہاڑ کی طرح ہوجاتا ہے۔ “ [ بخاری، الزکاۃ، باب الصدقۃ من کسب طیب : ١٤١٠۔ مسلم : ١٠١٤، عن أبی ہریرۃ (رض) ]
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :
(عَنْ زَیْنَبَ امْرأَۃِ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَتْ کُنْتُ فِي الْمَسْجِدِ فَرَأَیْتُ النَّبِيَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ تَصَدَّقْنَ وَلَوْ مِنْ حُلِیِّکُنَّ )
[ رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ، باب الزکاۃ علی الزوج ]
” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی بیوی زینب (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مسجد میں دیکھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : راہ خدا میں صدقہ کیا کرو اگرچہ تمہیں اپنے زیورات میں سے دینا پڑے۔ “
(عَنْ اَسْمَاءَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنْفِقِیْ وَلَا تُحْصِیْ فَیُحْصِی اللّٰہُ عَلَیْکِ وَلَا تُوْعِیْ فَیُوْعِی اللّٰہُ عَلَیْکِ )
[ رواہ مسلم : کتاب الزکاۃ، باب الحث علی الإنفاق وکراھیۃ الإحصاء ]
” حضرت اسماء (رض) بیان کرتی ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا خرچ کر اور اسے شمار نہ کرو، ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تجھے گن کر دے گا اور نہ ہی حساب کرو، ورنہ وہ بھی تجھ سے حساب کرے گا۔ “ یعنی فراخ دلی اور کشادہ دستی سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہنا چاہیے۔
مسائل
١۔ اللہ تعالیٰ سود کو مٹانا اور صدقات کو بڑھانا چاہتا ہے۔ ٍ
٢۔ اللہ تعالیٰ ناشکرے اور گناہگار کو پسند نہیں کرتا۔