سب سے بہتر شخص کون؟ اور سب سے بہتر امت کا اعزاز کس کو ملا؟
اللہ تعالیٰ خبر دے رہا ہے کہ امت محمدیہ تمام امتوں پر بہتر ہے صحیح بخاری شریف میں ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں تم اوروں کے حق میں سب سے بہتر ہو تو لوگوں کی گردنیں پکڑ پکڑ کر اسلام کی طرف جھکاتے ہو، [صحیح بخاری:4557]
بیشک یہ حدیث میں بھی ہے کہ سب سے بہتر میرا زمانہ ہے پھر اس کے بعد اس سے ملا ہوا زمانہ پھر اس کے بعد والا۔
[صحیح بخاری:3605]
ایک اور روایت میں ہے آیت «وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ» [2-البقرة:143]
ہم نے تمہیں بہتر امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تم نے اگلی امتوں کی تعداد ستر تک پہنچا دی ہے، اللہ کے نزدیک تم ان سب سے بہتر اور زیادہ بزرگ ہو۔
[سنن ترمذي:3001،قال الشيخ الألباني:صحیح]
یہ مشہور حدیث ہے امام ترمذی نے اسے حسن کہا ہے، اس امت کی فضیلت کی ایک بڑی دلیل اس امت کے نبی کی فضیلت ہے، آپ تمام مخلوق کے سردار تمام رسولوں سے زیادہ اکرام و عزت والے ہیں، آپ کی شرع اتنی کامل اور اتنی پوری ہے کہ ایسی شریعت کسی نبی کو نہیں تو ظاہر بات ہے کہ ان فضائل کو سمیٹتے والی امت بھی سب سے اعلیٰ و افضل ہے، اس شریعت کا تھوڑا سا عمل بھی اور امتوں کے زیادہ عمل سے بہتر و افضل ہے۔
سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں وہ نعمتیں دیا گیا ہوں جو مجھ سے پہلے کوئی نہیں دیا گیا لوگوں نے پوچھا وہ کیا باتیں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری مدد رعب سے کی گئی ہے میں زمین کی کنجیاں دیا گیا ہوں، میرا نام احمد رکھا گیا ہے، میرے لیے مٹی پاک کی گئی ہے، میری امت سب امتوں سے بہتر بنائی گئی ہے۔ [مسند احمد:98/1:حسن]
ایک اور روایت میں ہے کہ میری امت میں سے ستر ہزار یا ساٹھ لاکھ آدمی جنت میں جائیں گے جو ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے ہوں گے سب ایک ساتھ جنت میں جائیں گے چمکتے ہوئے چودھویں رات کے چاند جیسے ان کے چہرے ہوں گے۔
[ بخاری:6543، مسلم، طبرانی ]
حصین بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سعید بن جیبر رحمہ اللہ کے پاس تھا تو آپ نے دریافت کیا رات کو جو ستارہ ٹوٹا تھا تم میں سے کسی نے دیکھا تھا میں نے کہا ہاں حضرت میں نے دیکھا تھا یہ نہ سمجھئے گا کہ میں نماز میں تھا بلکہ مجھے بچھو نے کاٹ کھایا تھا سعید نے پوچھا پھر تم نے کیا کیا میں نے کہا دم کر دیا تھا کہا کیوں میں نے کہا سیدنا شعبی رحمہ اللہ نے بریدہ بن حصیب کی روایت سے حدیث بیان کی ہے کہ نظربد اور زہریلے جانوروں کا دم جھاڑا کرانا ہے کہنے لگے خیر جسے جو پہنچے اس پر عمل کرے ہمیں تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سنایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ پر امتیں پیش کی گئیں کسی نبی کے ساتھ ایک جماعت تھی کسی کے ساتھ ایک شخص اور دو شخص اور کسی نبی کے ساتھ کوئی نہ تھا اب جو دیکھا کہ ایک بڑی جماعت پر نظر پڑی میں سمجھا یہ تو میری امت ہو گی پھر معلوم ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام کی امت ہے مجھ سے کہا گیا آسمان کے کناروں کی طرف دیکھو میں نے دیکھا تو وہاں بےشمار لوگ تھے مجھ سے کہا گیا یہ آپ کی امت ہے اور ان کے ساتھ ستر ہزار اور ہیں جو بے حساب اور بےعذاب جنت میں جائیں گے یہ حدیث بیان فرما کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو مکان پر چلے گئے اور صحابہ آپس میں کہنے لگے شاید یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہوں گے کسی نے کہا نہیں اسلام میں پیدا ہونے والے اور اسلام پر ہی مرنے والے ہوں گے وغیرہ وغیرہ آپ تشریف لائے اور پوچھا کیا باتیں کر رہے ہو ہم نے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا نہیں یہ وہ لوگ ہیں جو نہ دم جھاڑا کریں نہ کرائیں، نہ داغ لگوائیں نہ شگون لیں بلکہ اپنے رب پر بھروسہ رکھیں سیدنا عکاشہ رضی اللہ عنہ نے دعاء کی درخواست کی۔
آپ نے دعاء کی یا اللہ تو اسے ان میں سے ہی بنا۔ پھر دوسرے شخص نے بھی یہی کہا آپ نے فرمایا عکاشہ رضی اللہ عنہ آگے بڑھ گئے۔ [صحیح بخاری:6541] یہ حدیث بخاری میں ہے لیکن اس میں دم جھاڑا نہیں کرنے کا لفظ نہیں صحیح مسلم میں بھی یہ لفظ ہے۔
ایک اور مطول حدیث میں ہے کہ پہلی جماعت تو نجات پائے گی ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوں گے ان سے حساب بھی نہ لیا جائے گا پھر ان کے بعد والے سب سے زیادہ روشن ستارے جیسے چمکدار چہرے والے ہوں گے [صحیح مسلم:191] آپ فرماتے ہیں مجھ سے میرے رب کا وعدہ ہے کہ میری امت میں سے ستر ہزار شخص بغیر حساب و عذاب کے داخل بہشت ہوں گے ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار ہوں گے اور تین لپیں اور میرے رب عزوجل کی لپوں سے۔ [سنن ترمذي:2438،قال الشيخ الألباني:صحیح] [ کتاب السنن لحافظ ابی بکر بن عاصم ] اس کی اسناد بہت عمدہ ہے ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ سے ستر ہزار کی تعداد سن کر یزید بن اخنس رضی اللہ عنہ نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو آپ کی امت کی تعداد کے مقابلہ میں بہت ہی تھوڑے ہیں تو آپ نے فرمایا ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار ہیں اور پھر اللہ نے تین لپیں (ہتھیلیوں کا کشکول) بھر کر اور بھی عطاء فرمائے ہیں، اس کی اسناد بھی حسن ہے۔ [مسند احمد:250/5:حسن]
اور حدیث میں ہے کہ آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ تم راضی نہیں ہو کہ تم تمام جنتوں کے چوتھائی ہو ہم نے خوش ہو کر اللہ کی بڑائی بیان کی پھر فرمایا کہ تم راضی نہیں ہو کہ تمام اہل جنت کی تہائی ہو ہم نے پھر تکبیر کہی آپ نے فرمایا مجھے تو امید ہے کہ تم جنتیوں کے آدھوں آدھ ہو گے۔ [صحیح بخاری:6568] [ بخاری مسلم ]
صحیح بخاری مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہم دنیا میں سب سے آخر آئے اور جنت میں سب سے پہلے جائیں گے اور ان کو کتاب اللہ پہلے ملی ہمیں بعد میں ملی جن باتوں میں انہوں نے اختلاف کیا ان میں اللہ نے ہمیں صحیح طریق کی توفیق دی، جمعہ کا دن بھی ایسا ہی ہے کہ یہود ہمارے پیچھے ہیں ہفتہ کے دن اور نصرانی ان کے پیچھے اتوار کے دن۔ [صحیح بخاری:876]

No comments:
Post a Comment