ذکر بیت اللہ اور احکامات حج
یعنی لوگوں کی عبادت،قربانی،طواف، نماز،اعتکاف وغیرہ کے لیے اللہ تعالیٰ کا گھر ہے جس کے بانی سیدنا ابراہیم خلیل علیہ السلام ہیں، جن کی تابعداری کا دعویٰ یہود و نصاریٰ مشرکین اور مسلمان سب کو ہے وہ اللہ کا گھر جو سب سے پہلے مکہ میں بنایا گیا ہے، اور بلاشبہ خلیل اللہ ہی حج کے پہلے منادی کرنے والے ہیں تو پھر ان پر تعجب اور افسوس ہے جو ملت حنیفی کا دعویٰ کریں اور اس گھر کا احترام نہ کریں حج کو یہاں نہ آئیں بلکہ اپنے قبلہ اور کعبہ الگ الگ بناتے پھریں۔ اس بیت اللہ کی بنیادوں میں ہی برکت و ہدایت ہے اور تمام جہان والوں کے لیے ہے،
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی ہے؟ آپ نے فرمایا مسجد الحرام، پوچھا پھر کون سی؟ فرمایا مسجد بیت المقدس پوچھا ان دونوں کے درمیان کتنا وقت ہے؟ فرمایا چالیس سال پوچھا پھر کون سی؟ آپ نے فرمایا جہاں کہیں نماز کا وقت آ جائے نماز پڑھ لیا کرو ساری زمین مسجد ہے
[ مسند احمد وبخاری مسلم ] ۔ [صحیح بخاری:3366]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں گھر تو پہلے بہت سے تھے لیکن خاص اللہ تعالیٰ کی عبادت کا گھر سب سے پہلا یہی ہے، کسی شخص نے آپ سے پوچھا کہ زمین پر پہلا گھر یہی بنا ہے؟ تو آپ نے فرمایا نہیں ہاں برکتوں اور مقام ابراہیم اور امن والا گھر یہی پہلا ہے، بیت اللہ شریف کے بنانے کی پوری کیفیت سورۃ البقرہ کی آیت «وَعَهِدْنَآ اِلٰٓى اِبْرٰهٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ اَنْ طَهِّرَا بَيْتِىَ لِلطَّاىِٕفِيْنَ وَالْعٰكِفِيْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ» [2-البقرة:125] ، کی تفسیر میں پہلے گزر چکی ہے وہیں ملاحظہ فرما لیجئے۔
اس میں ظاہر نشانیاں ہیں جو اس کی عظمت و شرافت کی دلیل ہیں اور جن سے ظاہر ہے کہ خلیل اللہ علیہ السلام کی بناء یہی ہے اس میں مقام ابراہیم بھی ہے جس پر کھڑے ہو کر سیدنا اسماعیل علیہ السلام سے پتھر لے کر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کعبہ کی دیواریں اونچی کر رہے تھے، یہ پہلے تو بیت اللہ شریف کی دیوار سے لگا ہوا تھا لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں اسے ذرا ہٹا کر مشرق رخ کر دیا تھا کہ پوری طرح طواف ہو سکے اور جو لوگ طواف کے بعد مقام ابراہیم کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں ان کے لیے پریشانی اور بھیڑ بھاڑ نہ ہو، اسی کی طرف نماز پڑھنے کا حکم ہوا ہے اور اس کے متعلق بھی پوری تفسیر آیت «وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى» [2-البقرة:125] کی تفسیر میں پہلے گزر چکی ہے فالحمدللہ۔
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں آیات بینات میں سے ایک مقام ابراہیم بھی ہے باقی اور بھی ہیں، مجاہد فرماتے ہیں کہ خلیل اللہ کے قدموں کے نشان جو مقام ابراہیم پر تھے یہ بھی آیات بینات میں سے ہیں، کل حرم کو اور حطیم کو اور سارے ارکان حج کو بھی مکہ امن والا رہا باپ کے قاتل کو بھی یہاں پاتے تو نہ چھیڑتے ابن عباس فرماتے ہیں بیت اللہ پناہ چاہنے والے کو پناہ دیتا ہے لیکن جگہ اور کھانا پینا نہیں دیتا اور جگہ ہے آیت «اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا وَّيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ ۭ اَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُوْنَ وَبِنِعْمَةِ اللّٰهِ يَكْفُرُوْنَ» [ 29۔ العنکبوت: 67 ] ، کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو امن کی جگہ بنایا اور جگہ ہے آیت «فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هَـٰذَا الْبَيْتِ الَّذِي أَطْعَمَهُم مِّن جُوعٍ وَآمَنَهُم مِّنْ خَوْفٍ» [ 106-قريش: 3، 4 ] ، ہم نے انہیں خوف سے امن دیا نہ صرف انسان کے لیے امن ہے بلکہ شکار کرنا بلکہ شکار کو بھگانا اسے خوف زدہ کرنا اسے اس کے ٹھکانے یا گھونسلے سے ہٹانا اور اڑانا بھی منع ہے اس کے درخت کاٹنا یہاں کی گھاس اکھیڑنا بھی ناجائز ہے اس مضمون کی بہت سی حدیثیں پورے بسط کے ساتھ آیت «وَعَهِدْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ» [ 2-البقرہ: 125 ] ، کی تفسیر میں سورۃ البقرہ میں گذر چکی ہیں۔
کل حرم کو اور حطیم کو اور سارے ارکانِ حج کو بھی مقامِ ابراہیم کی تفسیر میں مفسرین نے داخل کیا ہے۔ اس میں آنے والا امن میں آجاتا ہے جاہلیت کے زمانے میں بھی مکہ امن والا رہا باپ کے قاتل کو بھی یہاں پاتے تو نہ چھیڑتے۔ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں بیت اللہ پناہ چاہنے والے کو پناہ دیتا ہے لیکن جگہ اور کھانا پینا نہیں دیتا۔ اور جگہ ہے «أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ ۚ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَةِ اللَّـهِ يَكْفُرُونَ» [29-العنكبوت:67] کیا ہی نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو امن کی جگہ بنایا۔
اور جگہ ہے «وَآمَنَهُم مِّنْ خَوْفٍ» [106-قريش:4] ہم نے انہیں خوف سے امن دیا۔ نہ صرف انسان کے لیے امن ہے بلکہ شکار کرنا، بلکہ شکار کو بھگانا، اسے خوف زدہ کرنا اسے اس کے ٹھکانے یا گھونسلے سے ہٹانا اور اڑانا بھی منع ہے، اسکے درخت کاٹنا، یہاں کی گھاس اکھیڑنا بھی ناجائز ہے۔ اس مضمون کی بہت سی حدیثیں پورے بسط کے ساتھ آیت «وَعَھِدْنَا» [2-البقرة:125] الخ، کی تفسیر میں سورہ بقرہ میں گزر چکی ہیں۔
آیت کا یہ آخری حصہ حج کی فرضیت کی دلیل ہے بعض کہتے ہیں آیت «وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلّٰهِ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْي» [2-البقرة:196] ، والی آیت دلیل فرضیت ہے لیکن پہلی بات زیادہ واضح ہے، کئی ایک احادیث میں وارد ہے کہ حج ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے، اس کی فرضیت پر مسلمانوں کا اجماع ہے، اور یہ بات بھی ثابت ہے کہ عمر بھر میں ایک مرتبہ استطاعت والے مسلمان پر حج فرض ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ میں فرمایا لوگو تم پر اللہ تعالیٰ نے حج فرض کیا ہے تم حج کرو ایک شخص نے پوچھا حضور کیا ہر سال؟ آپ خاموش رہے اس نے تین مرتبہ یہی سوال کیا آپ نے فرمایا اگر میں ہاں کہ دیتا تو فرض ہو جاتا پھر بجا نہ لا سکتے میں جب خاموش رہوں تو تم کرید کر پوچھا نہ کرو تم سے اگلے لوگ اپنے انبیاء سے سوالوں کی بھرمار اور نبیوں پر اختلاف کرنے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے میرے حکموں کو طاقت بھر بجا لاؤ۔ اور جس چیز میں منع کروں اس سے رک جاؤ [مسند احمد:508/2:صحیح] [ مسند احمد ] صحیح مسلم شریف [صحیح مسلم:1337] کی اس حدیث شریف میں اتنی زیادتی ہے کہ یہ پوچھنے والے اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب یہ بھی فرمایا کہ عمر میں ایک مرتبہ فرض ہے اور پھر نفل۔
[سنن ابوداود:1721،قال الشيخ الألباني:صحیح]
وَلِلّٰهِ عَلَي النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے، اس بات کی شہادت کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اس کی (شہادت) کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ دینا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔ “
[ بخاری، الإیمان، باب دعاؤکم إیمانکم : ٨، عن ابن عباس (رض) ] ہر عاقل و بالغ مسلمان پر جو کعبہ تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہے، اس پر عمر بھر میں ایک مرتبہ حج فرض ہے۔ [ مسلم، الحج، باب فرض الحج مرۃ فی العمر : ١٣٣٧ ]- مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا : استطاعت کی تفسیر حدیث میں زاد راہ اور سواری سے کی گئی ہے۔ [ ترمذی، عن علی عن رسول اللہ، الحج، باب ما جاء من التغلی٭۔۔ : ٨١٢ ] شیخ البانی (رض) نے صحیح الترغیب میں اسے حسن قرار دیا ہے اور ابن تیمیہ (رض) بھی یہی کہتے ہیں۔ (ہدایۃ المستنیر)- استطاعت کے مفہوم میں راستے کا پر امن ہونا، جان و مال کے تلف ہونے کا اندیشہ نہ ہونا بھی شامل ہے اور عورت کے لیے محرم کا ساتھ ہونا بھی ضروری ہے۔
حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر مالی استطاعت ہو مگر جسمانی نہ ہو تو کوئی دوسرا اس کی جگہ حج کرلے۔ ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ خثعم قبیلے کی ایک عورت آئی، اس نے پوچھا : ” یا رسول اللہ اللہ کا اپنے بندوں پر جو فریضہ حج ہے، وہ میرے والد پر اس حال میں آیا ہے کہ وہ بہت بوڑھا ہے، سواری پر جم کر بیٹھ نہیں سکتا، تو کیا میں اس کی طرف سے حج کروں ؟ “ فرمایا : ” ہاں “ اور یہ حجۃ الوداع کی بات ہے۔
[ بخاری، الحج، باب حج المرأۃ عن - الرجل : ١٨٥٥ ]-
اسی طرح اگر کسی صاحب پر حج فرض تھا، جو سستی سے رہ گیا اور وہ فوت ہوگیا تو اس کی میراث میں سے حج ادا کیا جائے گا، ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( فَاقْضِ اللّٰہَ فَہُوَ أَحَقُّ بالْقَضَاءِ ) ” اللہ کا قرض ادا کرو، کیونکہ وہ پورا کیے جانے کا زیادہ حق دار ہے۔ “
[ بخاری، الأیمان - والنذور، باب من مات وعلیہ نذر : ٦٦٩٩۔ مسلم : ١١٤٨ ]-
ایک صحیح حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے کی طرف سے وہ شخص حج کرے جو پہلے اپنا حج کرچکا ہو۔
[ أبو داوٗد، الحج، باب الرجل یحج عن غیرہ : ١٨١١، عن ابن عباس ]-
ۭ وَمَنْ كَفَر : اس سے معلوم ہوا کہ استطاعت کے باوجود حج نہ کرنا کفر ہے اور جو کفر کرے تو اس بےچارے کی کیا اوقات ہے، اللہ تعالیٰ تو سارے جہانوں سے بےپروا ہے۔ اسلام کی پانچ بنیادوں کے ترک اور دوسری چیزوں کے ترک کا یہی فرق ہے کہ ان پانچوں میں سے کسی کے ترک سے اسلام کی بنیاد ڈھے جاتی ہے۔ حافظ ابن کثیر (رض) نے ابوبکر اسماعیلی الحافظ (رح) کی سند سے امیر المومنین عمر بن خطاب (رض) سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا : ” جو شخص حج کی طاقت رکھے اور پھر حج نہ کرے تو اس پر برابر ہے کہ یہودی ہونے کی حالت میں مرے یا نصرانی ہونے کی حالت میں۔ “ امام ابن کثیر نے فرمایا : ” یہ سند عمر (رض) تک صحیح ہے۔

No comments:
Post a Comment