Monday, October 30, 2023

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ ! ❤


 

اللہ تعالیٰ


جیسے اور جگہ فرمایا «إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا» [94-الشرح:6] ‏‏‏‏ ” بیشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے “۔
 

بے شک


 

توبہ


 

قیامت کب اور کس وقت؟


یہ دریافت کرنے والے قریشی بھی تھے اور یہودی بھی۔ لیکن چونکہ یہ آیت مکی ہے اس لیے ٹھیک یہی ہے کہ قریشیوں کا سوال تھا چونکہ وہ قیامت کے قائل ہی نہ تھے، اس لیے اس قسم کے سوال کیا کرتے تھے کہ «وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هَـٰذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ» [21-الأنبياء:38] ‏‏‏‏ ” اگر سچے ہو تو اس کا ٹھیک وقت بتا دو۔ “
«يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِهَا وَالَّذِينَ آمَنُوا مُشْفِقُونَ مِنْهَا وَيَعْلَمُونَ أَنَّهَا الْحَقُّ أَلَا إِنَّ الَّذِينَ يُمَارُونَ فِي السَّاعَةِ لَفِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ» [42-الشورى:18] ‏‏‏‏ ” ادھر بےایمان اس کی جلدی مچا رہے ہیں، ادھر ایماندار اسے حق جان کر اس سے ڈر رہے ہیں۔ بات یہ ہے کہ جنہیں اس میں بھی شک ہے، دوردراز کی گمراہی میں تو وہی ہیں۔ “
«يَسْأَلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللَّـهِ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُونُ قَرِيبًا» [33-الأحزاب:63] ‏‏‏‏ ” پوچھا کرتے تھے کہ قیامت واقع کب ہو گی؟ جواب سکھایا گیا کہ اس کے صحیح وقت کا علم سوائے اللہ کے، کسی کو نہیں۔ “
وہی اس کے صحیح وقت سے واقف ہے، بجز اس کے، کسی کو اس کے واقع ہونے کا وقت معلوم نہیں۔ اس کا علم زمین و آسمان پر بھی بھاری ہے، ان کے رہنے والی ساری مخلوق اس علم سے خالی ہے۔ وہ جب آئے گی، سب پر ایک ہی وقت واقع ہو گی، سب کو ضرر پہنچے گا۔
آسمان پھٹ جائے گا، ستارے جھڑ جائیں گے، سورج بے نور ہو جائے گا، پہاڑ اڑنے لگیں گے۔ اسی لیے وہ ساری مخلوق پر گراں گزر رہی ہے۔ اس کے واقع ہونے کے صحیح وقت کا علم ساری مخلوق پر بھاری ہے، زمین و آسمان والے سب اس سے عاجز اور بےخبر ہیں۔ وہ تو اچانک سب کی بے خبری میں ہی آئے گی۔
کوئی بزرگ سے بزرگ فرشتہ، کوئی بڑے سے بڑا پیغمبر بھی اس کے آنے کے وقت کا عالم نہیں۔ وہ تو سب کی بے خبری میں ہی آ جائے گی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: دنیا کے تمام کام حسب دستور ہو رہے ہوں گے، جانوروں والے اپنے جانوروں کے پانی پینے والے حوض درست کر رہے ہوں گے، تجارت والے ناپ تول میں مشغول ہوں گے، قیامت آ جائے گی۔
صحیح بخاری شریف میں ہے کہ قیامت قائم ہونے سے پہلے سورج مغرب کی طرف سے نکلے گا، اسے دیکھتے ہی سب لوگ ایمان قبول کر لیں گے۔ لیکن اس وقت کا ایمان ان کے لیے بےسود ہو گا۔

جو اس سے پہلے ایمان نہ لائے ہوں اور جنہوں نے اس سے پہلے نیکیاں نہ کی ہوں۔ قیامت اس طرح دفعتاً آ جائے گی کہ ایک شخص کپڑا پھیلائے دوسرے کو دکھا رہا ہو گا اور دوسرا دیکھ رہا ہو گا، بھاؤ تاؤ ہو رہا ہو گا کہ قیامت واقع ہو جائے گی۔ نہ یہ خرید و فروخت کر سکیں گے، نہ کپڑے کی تہہ کر سکیں گے۔ کوئی دودھ دوہ کر آ رہا ہو گا، پی نہ سکے گا کہ قیامت آ جائے گی۔ کوئی حوض درست کر رہا ہو گا، ابھی جانوروں کو پانی نہ پلا چکا ہو گا کہ قیامت آ جائے گی۔ کوئی لقمہ اٹھائے ہوئے ہو گا، ابھی منہ میں نہ ڈالا ہو گا کہ قیامت آ جائے گی۔ [صحیح بخاری:6506] ‏‏‏‏
قریشیوں نے یہ بھی کہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم تو آپ کے قرابت دار ہیں، ہمیں تو بتا دیجئے کہ قیامت کب اور کس دن، کس سال آئے گی؟ اس طرح پوچھا کہ گویا آپ کو معلوم ہے۔ حالانکہ اس کا علم صرف اللہ کے پاس ہی ہے۔ جیسے فرمان ہے: «إِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ» [31-لقمان:34] ‏‏‏‏ ” قیامت کا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔ “
یہی معنی زیادہ ترجیح والے ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

جبرائیل علیہ السلام نے بھی جب اعرابی کا روپ دھار کر سائل کی شکل میں آپ کے پاس بیٹھ کر آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف جواب دیا کہ اس کا علم نہ مجھے ہے، نہ تجھے۔ اس سے پہلے کے سوالات آپ بتا چکے تھے، اس سوال کے جواب میں اپنی لاعلمی ظاہر کر کے پھر سورۃ لقمان کی آخری آیت پڑھی کہ ان پانچ چیزوں کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ یعنی علم قیامت، بارش کا آنا، مادہ کے پیٹ کے بچے کا حال، کل کے حالات، موت کی جگہ۔ ہاں! جب انہوں نے اس کی علامتیں پوچھیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیں۔ پھر آپ نے اسی آیت کو تلاوت فرمایا، جبکہ جبرائیل علیہ السلام آپ کے ہر جواب پر یہی فرماتے جاتے تھے کہ آپ نے سچ فرمایا۔ ان کے چلے جانے کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم نے تعجب سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کون صاحب تھے؟ آپ نے فرمایا: جبرائیل علیہ السلام تھے، تمہیں دین سکھانے آئے تھے۔ [صحیح بخاری:50] ‏‏‏‏
آپ سے جب سوال ہوا تو یہی حکم ملا، جواب دو کہ «يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا فِيمَ أَنتَ مِن ذِكْرَاهَا إِلَىٰ رَبِّكَ مُنتَهَاهَا» [79-النازعات:42] ‏‏‏‏ ” اس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے لیکن اکثر لوگ بےعلم ہیں۔ “

گمراہی

 
میری نشانیاں اور تعلیم گمراہوں کے لئے بےسود ہیں جس پر گمراہی لکھ دی گئی ہے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا ۔ وہ جاہے ساری نشانیاں دیکھ لے لیکن سب بےسود ۔ اللہ کا ارادہ جس کے لئے فتنے کا ہو تو اس کا کوئی اختیار نہیں رکھتا ۔ میرا حکم تو یہی ہے کہ آسمان و زمین کی میری بیشمار نشانیوں پر غور کرو لیکن یہ ظاہر ہے کہ آیتیں اور ڈراوے بے ایمانوں کے لئے سود مند نہیں ۔
 

ہر کوئی


 

اچھے الفاظ

 


آمِــــين


 

دعوت فکر

 کائنات پر دعوت فکر - قول باری ہے اولم ینظروا فی ملکوت السموت والارض وما خلق اللہ من شئی ۔ کیا ان لوگوں نے آسمان و زمین کے انتظام پر کبھی غور نہیں کیا اور کسی چیز کو بھی جو اللہ نے پیدا کی ہیں آنکھیں کھول کر نہیں دیکھا) آیت میں لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی تخلیق کائنات اس کی کاریگری اور حسن انتظام پر غور کرنے، اس کی ذات پر استدلال کرنے اور اس معاملے پر تدبر و تفکر سے کام لینے پر ابھارا گیا ہے اس لئے کہ یہ تمام باتیں اللہ کی ذات، اس کی حکمت، اس کی مہارت اور اس کے عدل پر دلالت کرتی ہے۔ آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اس کی پیدا کی ہوئی تمام چیزوں میں اس کی ذات کی نشاندہی موجود ہے اور یہ تمام چیزیں اس کی ذات کی طرف انسانوں کے فہم و شعور کو دعوت فکر دیتی ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو متنبہ کیا ہے کہ اگر لوگوں نے کائنات پر غور و فکر کے ذریعے اس کی ذات کی معرفت میں کوتاہی کی حتی کہ موت کا وقت آگیا اور اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی واحدانیت کی معرفت پر کائنات سے استدلال کا موقع ہاتھ سے نکل گیا تو یہ موقعہ پھر کبھی ہاتھ نہیں آئے گا۔

۔ 185۔ 2 حَدِ یْث، سے مراد یہاں قرآن کریم ہے۔ یعنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انداز و تہدید اور قرآن کریم کے بعد بھی اگر یہ ایمان نہ لائیں تو ان سے بڑھ کر انہیں ڈرانے والی چیز کیا ہوگی جو اللہ کی طرف سے نازل ہو اور پھر یہ اس پر ایمان نہ لائیں۔



انسان

 


سجدہ

 


اچھے نام

حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، قال: حفظناه من ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، رواية قال:" لله تسعة وتسعون اسما، مائة إلا واحدا لا يحفظها احد إلا دخل الجنة، وهو وتر يحب الوتر".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ حدیث ابوالزناد سے یاد کی، ان سے اعرج نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایتاً بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں، ایک کم سو، جو شخص بھی انہیں یاد کر لے گا جنت میں جائے گا۔ اللہ طاق ہے اور طاق کو پسند کرتا ہے۔
 حسنی احسن کی تانیث ہے۔ اللہ کے اچھے ناموں سے مراد اللہ کے وہ نام ہیں جن سے اس کی مختلف صفات، اس کی عظمت و جلالت اور اس کی قدرت و طاقت کا اظہار ہوتا ہے ۔ 
 ۔  صحيح البخاري:6410


Sunday, October 29, 2023

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ ! ❤


 

خوشی


 

گٹھڑی


 

حاصل


 

اچھے کام


 

شرک

 ارشاد باری تعالیٰ ہے:


◄ وَاعْبُدُوا اللَّـهَ وَلَا تُشْرِ‌كُوا بِهِ شَيْئًا
النساء:36

اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو‘‘۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
◄ وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ
الأنبياء:25
یعنی تجھ سے پہلے جس جس رسول کو ہم نے بھیجا سب کی طرف یہی وحی کہ میرے سوا
کوئی عبادت کے لائق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کیا کرو

اور جگہ ارشاد ہے:
◄ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ
النحل:36
یعنی ہر امت میں رسول بھیج کر ہم نے یہ اعلان کروایا کہ صرف اللہ کی عبادت کرو اور
اس کے سوا سب سے بچو۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:
◄ شَهِدَ اللَّـهُ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ ۚ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
آل عمران:18

اللہ تعالیٰ، فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وه عدل کو قائم رکھنے والاہے، اس غالب اور حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کےلائق نہیں.....‘‘

اللہ کو ایک مانا جائے۔ صرف اسی کی عبادت کی جائے۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ کسی انسان کو وہ مقام نہ دیا 
جائے جو مالک کائنات کے لیے خاص ہے۔



Friday, October 13, 2023

صلی اللہ علیہ والہ وسلم


 

استغفار


 

ہدایت کا نور

ہدایت کا نور اللہ تعالیٰ کی عطا ہے، وہ اس کا مالک ہے، جسے چاہے عطا کر دے اور جسے چاہے عطا نہ کرے اور وہ ضلالت کے اندھیروں میں بھٹکتا رہے۔ یہ مسئلۂ تقدیر ہے، اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس پر بھی ایمان لانا واجب ہے کہ وہ کسی کو ہدایت نہ دے تو ظالم نہیں، کیونکہ مالک جسے چاہے اپنی چیز دے جسے چاہے نہ دے اور وہ تو ایسا مالک ہے جس سے کوئی پوچھنے کی جرأت بھی نہیں کرسکتا، فرمایا : (لَا يُسْــَٔـلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْــَٔــلُوْن) [ الأنبیاء : ٢٣ ] ” اس سے نہیں پوچھا جاتا اس کے متعلق جو وہ کرے اور ان سے پوچھا جاتا ہے۔ “ ہاں، یہ بات ضرور ہے کہ اس نے جو کچھ کیا ہے وہ عین عدل ہے، کیونکہ وہ ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا، فرمایا : ( وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّـلْعَبِيْدِ ) [ حٰم آ السجدۃ : ٤٦ ] ” اور تیرا رب اپنے بندوں پر ہرگز کوئی ظلم کرنے والا نہیں۔ “ - رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ہر خطبہ میں حمد و ثنا کے بعد فرمایا کرتے تھے : ( مَنْ یَّھْدِہِ اللّٰہُ فَلَا مُضِلَّ لَہُ وَ مَنْ یُّضْلِلْ فَلَا ھَادِیَ لَہُ ) [ مسلم، الجمعۃ، باب تخفیف الصلاۃ والخطبۃ : ٨٦٨، عن ابن عباس (رض) ] ” جسے اللہ سیدھی راہ پر لگائے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے وہ گمراہ کر دے اسے کوئی سیدھی راہ پر نہیں لگا سکتا۔ 



 

خاک


 

خوبصورتی


 

اصل بات


 

بےشک


 

آمیــن


 

سکون


 

پرہیزگاری


 

نماز نہ چھوڑیں


 

اَسْتَغْفِرُ اللهَ

 اپنے تمام چھوٹے بڑے گناہوں اور غلطیوں کو یاد کرتے ہوئےاور دوبارہ ویسا نہ کرنے کا عہد کرتے ہوئے کم از کم ایک بار دل سے پڑھیئے 

🙂

اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّىْ مِنْ كُلِّ ذَنْۢبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَيْهِ
ترجمہ: میں اللہ سے اپنے تمام گناہوں کی بخشش مانگتا ہوں جو میرا رب ہے اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں .



تکبر نہ کر

 یعنی تکبر نہ کر کہ لوگوں کو حقیر سمجھے اور جب وہ تجھ سے ہم کلام ہوں تو ان سے منہ پھیر لے، یا گفتگو کے وقت اپنا منہ پھیرے رکھے؛ صعر ایک بیماری ہے جو اونٹ کے سر یا گردن میں ہوتی ہے، جس سے اس کی گردن مڑ جاتی ہے، یہاں بطور تکبر منہ پھیر لینے کے معنی میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے (ابن کثیر) یعنی ایسی چال یا رویہ جس سے مال ودولت یا جاہ و منصب یا قوت و طاقت کی وجہ سے فخر و غرور کا اظہار ہوتا ہو، یہ اللہ کو ناپسند ہے، اس لیے کہ انسان ایک بندہ عاجز وحقیر ہے، اللہ تعالیٰ کو یہی پسند ہے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق عاجزی وانکساری ہی اختیار کیے رکھے اس سے تجاوز کر کے بڑائی کا اظہار نہ کرے ۔ بڑائی صرف اللہ ہی کے لیے زیبا ہے جو تمام اختیارات کا مالک اور تمام خوبیوں کا منبع ہے۔

اسی لیے حدیث میں فرمایا گیا ہے،

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا اس پر ایک آدمی نے عرض کیا کہ ایک آدمی چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کی جو تی بھی اچھی ہو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یقیناً اللہ صاحب جمال ہے، وہ جمال ہی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر تو حق کی طرف سے منہ موڑنے اور دوسرے لوگوں کو کمتر سمجھنے کو کہتے ہیں۔

(صحیح مسلم:91)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس کی طرف قیامت کے دن نظر رحمت نہیں کرے گا جو اپنا کپڑا تکبر و غرور سے زمین پر گھسیٹ کر چلتا ہے۔(صحيح البخاري: 5783۔)

جو تکبر کے طور پر اپنے کپڑے کو گھسیٹتے ہوئے چلے اللہ اس کی طرف قیامت والے دن نہیں دیکھے گا۔ تاہم تکبر کا اظہار کیے بغیر اللہ کے انعامات کا ذکر یا اچھا لباس اور خوراک وغیرہ کا استعمال جائز ہے۔



Thursday, October 12, 2023

صلی اللہ علیہ والہ وسلم


 

دنیا کی زندگی


 

رشتے


 

آمیــن


 

تقوٰی


 

اعلی ظرف


 

رب کی راہ


 

الحمد للہ


 

صلی اللہ علیہ والہ وسلم


 

بےشک


 

رزق


 

وسعت رحمت

 یہ اس کی وسعت رحمت ہی ہے کہ دنیا میں صالح و فاسق اور مومن و کافر دونوں ہی اس کی رحمت سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ حدیث میں آتا ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت کے 100 حصے ہیں۔ یہ اس کی رحمت کا ایک حصہ ہے کہ جس سے مخلوق ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے اور وحشی جانور اپنے بچوں پر شفقت کرتے ہیں اور اس نے اپنی رحمت کے 99 حصے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ 

(صحیح مسلم)

 اللہ کی رحمت دنیا میں سب کے لئے عام ہے :۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی امت کے لیے دنیا اور آخرت دونوں جگہ کی بھلائی طلب فرمائی، تو اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا اصل چیز جس پر یہ کائنات کا سارا نظام چل رہا ہے وہ میری رحمت ہے اور ساری مخلوق میری رحمت سے مستفید ہو رہی ہے۔ سزا تو میں صرف اس شخص کو دیتا ہوں جس کے حق میں اس کی نافرمانیوں کی بنا پر وہ مقدر ہوچکی ہے بلکہ وہ بھی بسا اوقات دنیا میں میری رحمتوں سے مستفیض ہوتے رہتے ہیں اور جس خیر اور بھلائی کا تم مطالبہ کر رہے ہو کہ دنیا میں بھی یہ نعمت ملے اور آخرت میں بھی یہ صرف ان لوگوں کا حصہ ہے جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں اور تقویٰ کی راہ اختیار کرتے اور اپنے اموال سے ہمارا حق یعنی زکوٰۃ بھی ادا کرتے ہیں ایسے لوگ دنیا اور آخرت دونوں جگہ میری رحمت سے ہم کنار ہوں گے۔ 



نیت


 

صَـلیَّ اللهُ عَلَيهِ وآلہ وَسَـــــلَّـم


 

اللہ ہمارا کارساز


 

مٹی


 

دل