Thursday, August 22, 2024

صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

ایک بار محبت سے درود پاک پڑھ لیجئے 

صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی حَبِیبِہ سَّيِدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَسَلَّمَ


 

روضہ رسول ﷺ کا اندرونی منظر

Inside view of Roza Rasool ()

خانہ کعبہ کا اندرونی حصہ

Inside The Holy Kaaba –


سبحــان اللہ

How your body heals.Subhan'Allah!

آية الكرسي

اللہ کی یاد


بےشک دلوں کا سکون ، اللہ کے ذکر میں ہے ۔
 سورۃ الرعد:28


صلـــی الله علیـــہ وآلـــہ وسلـــم

صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

اللہ خالق کل

 جیسے کہ خلیل الرحمن ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ «قَالَ أَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ وَاللَّـهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ» [37-الصافات:96-95] ‏‏‏‏ ” تم انہیں پوجتے ہو جنہیں خود بناتے ہو۔ درحقیقت تمہارا اور تمہارے کاموں کا خالق صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے “۔ بلکہ تمہارے معبود جو اللہ کے سوا جمادات، بے روح چیزیں، سنتے سیکھتے اور شعور نہیں رکھتے انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ قیامت کب ہوگی؟ تو ان سے نفع کی امید اور ثواب کی توقع کیسے رکھتے ہو؟ یہ امید تو اس اللہ سے ہونی چاہیئے جو ہر چیز کا عالم اور تمام کائنات کا خالق ہے۔

انسان فانی

ذکر اللہ اور استغفار

استغفار کرنا 

پھر فرمایا یہ لوگ گناہ کے بعد فوراً ذکر اللہ اور استغفار کرتے ہیں۔ مسند احمد میں یہ روایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب کوئی شخص گناہ کرتا ہے پھر اللہ رحمن و رحیم کے سامنے حاضر ہو کر کہتا ہے کہ پروردگار مجھ سے گناہ ہو گیا تو معاف فرما اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے سے گو گناہ ہو گیا لیکن اس کا ایمان ہے کہ اس کا رب گناہ پر پکڑ بھی کرتا ہے اور اگر چاہے تو معاف بھی فرما دیتا ہے میں نے اپنے بندے کا گناہ معاف فرمایا، اس سے پھر گناہ ہو تو فرما دیتا ہے میں نے اپنے بندے کا گناہ معاف فرمایا، اس سے پھر گناہ ہو جاتا ہے یہ پھر توبہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ پھر بخشتا ہے چوتھی مرتبہ پھر گناہ کر بیٹھتا ہے پھر توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ معاف فرما کر کہتا ہے اب میرا بندہ جو چاہے کرے [ مسند احمد ] ‏‏‏‏ یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے۔ [صحیح بخاری:7507] ‏‏‏‏
صحیح مسلم میں روایت امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تم میں سے جو شخص کامل وضو کر کے دعا «اَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اﷲُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْکَ لَهُ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ» پڑھے اس کیلئے جنت کے آٹھوں دروازے کھل جاتے ہیں جس سے چاہے اندر چلا جائے، [صحیح مسلم:234] ‏‏‏‏ امیر المؤمنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سنت کے مطابق وضو کرتے ہیں پھر فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ نے فرمایا جو شخص مجھ جیسا وضو کرے پھر دو رکعت نماز ادا کرے جس میں اپنے دل سے باتیں نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ [ بخاری مسلم ] ‏‏‏‏ [صحیح بخاری:159] ‏‏‏‏-           جیسے اور جگہ ہے آیت «اَلَمْ يَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ ھُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ وَيَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ وَاَنَّ اللّٰهَ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ» [9-التوبة:104] ‏‏‏‏ کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور جگہ ہے «‏‏‏‏وَمَنْ يَّعْمَلْ سُوْءًا اَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ يَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا» ‏‏‏‏ [4-النساء:110] ‏‏‏‏، جو شخص کوئی برا کام کرے یا گناہ کر کے اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرے تو وہ دیکھ لے گا کہ اللہ عزوجل بخشش کرنے والا مہربان ہے۔

انسان کا سلسلہ نطفے سے

 انسان حقیر و ذلیل لیکن خالق کا انتہائی نافرمان ہے۔ اس نے انسان کا سلسلہ نطفے سے جاری رکھا ہے جو ایک پانی ہے۔ حقیر و ذلیل یہ جب ٹھیک ٹھاک بنا دیا جاتا ہے تو اکڑفوں میں آجاتا ہے رب سے جھگڑنے لگتا ہے رسولوں کی مخالفت پر تل جاتا ہے۔

بندہ تھا چاہیئے تو تھا کہ بندگی میں لگا رہتا لیکن یہ تو زندگی کرنے لگا۔ اور آیت میں ہے «وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُهُمْ وَلَا يَضُرُّهُمْ وَكَانَ الْكَافِرُ عَلَى رَبِّهِ ظَهِيرًا» [25-الفرقان:54-55] ‏‏‏‏ ” اللہ نے انسان کو پانی سے بنایا اس کا نسب اور سسرال قائم کیا۔ اللہ قادر ہے رب کے سوا یہ ان کی پوجا کرنے لگے ہیں جو بے نفع اور بے ضرر ہیں کافر کچھ اللہ سے پوشیدہ نہیں “۔
سورۃ یاسین میں فرمایا «أَوَلَمْ يَرَ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ قَالَ مَن يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ» [36-یس:77-79] ‏‏‏‏ ” کیا انسان نہیں دیکھتا کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا پھر وہ تو بڑا ہی جھگڑالو نکلا۔ ہم پر بھی باتیں بنانے لگا اور اپنی پیدائش بھول گیا کہنے لگا کہ ان گلی سڑی ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا؟ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم ان سے کہہ دو کہ انہیں وہ خالق اکبر پیدا کرے گا جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا وہ تو ہر طرح کی مخلوق کی پیدائش کا پورا عالم ہے “۔

آخـرش

بــرداشــت

عظمت والا قرآن

 قرآن عظیم سبع مثانی اور ایک لازوال دولت 


” اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے جب قرآن عظیم جیسی لازوال دولت تجھے عنایت فرما رکھی ہے تو تجھے نہ چاہیئے کہ کافروں کے دنیوی مال و متاع اور ٹھاٹھ باٹھ للچائی ہوئی نظروں سے دیکھے۔ یہ تو سب فانی ہے اور صرف ان کی آزمائش کے لیے چند روزہ انہیں عطا ہوا ہے۔ ساتھ ہی تجھے ان کے ایمان نہ لانے پر صدمے اور افسوس کی بھی چنداں ضرورت نہیں “۔ «وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ» [26-الشعراء:215] ‏‏‏‏ ” ہاں تجھے چاہیئے کہ نرمی، خوش خلقی، تواضع اور ملنساری کے ساتھ مومنوں سے پیش آتا رہے “۔
جیسے ارشاد ہے آیت «لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ» [9-التوبة:128] ‏‏‏‏، ” لوگو تمہارے پاس تم میں سے ہی ایک رسول آ گئے ہیں جن پر تمہاری تکلیف شاق گزرتی ہے جو تمہاری بہبودی کے دل سے خواہاں ہیں جو مسلمانوں پر پرلے درجے کا شفیق و مہربان ہے “۔
سبع مثانی کی نسبت ایک قول تو یہ ہے کہ اس سے مراد قرآن کریم کی ابتداء کی سات لمبی سورتیں ہیں سورۃ البقرہ، آل عمران، نساء، مائدہ، انعام، اعراف اور یونس۔ اس لیے کہ ان سورتوں میں فرائض کا، حدود کا، قصوں کا اور احکام کا خاص طریق پر بیان ہے اسی طرح مثالیں، خبریں اور عبرتیں بھی زیادہ ہیں۔
بعض نے سورۃ الاعراف تک کی چھ سورتیں گنوا کر ساتویں سورت انفال اور براۃ کو بتلایا ہے ان کے نزدیک یہ دونوں سورتیں مل کر ایک ہی سورت ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ صرف موسیٰ علیہ السلام کو چھ ملی تھیں لیکن جب آپ علیہ السلام نے تختیاں گرا دیں تو دو اٹھ گئیں اور چار رہ گئیں۔
ایک قول ہے قرآن عظیم سے مراد بھی یہی ہیں۔ زیادہ کہتے ہیں میں نے تجھے سات جز دیئے ہیں۔ حکم، منع، بشارت، ڈر اور مثالیں، نعمتوں کا شمار اور قرآنی خبریں۔
دوسرا قول یہ ہے کہ مراد سبع مثانی سے سورۃ فاتحہ ہے جس کی سات آیتیں ہیں۔ یہ سات آیتیں 
«بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» سمیت ہیں۔ ان کے ساتھ اللہ نے تمہیں مخصوص کیا ہے یہ کتاب کا شروع ہیں۔ اور ہر رکعت میں دہرائی جاتی ہیں۔ خواہ فرض نماز ہو خواہ نفل نماز ہو۔
امام ابن جریر رحمہ اللہ اسی قول کو پسند فرماتے ہیں اور اس بارے میں جو حدیثیں مروی ہیں ان سے اس پر استدلال کرتے ہیں ہم نے وہ تمام احادیث فضائل سورۃ فاتحہ کے بیان میں اپنی اس تفسیر کے اول میں لکھ دی ہیں «فالْحَمْدُ لِلَّـه» ۔
امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اس جگہ دو حدیثیں وارد فرمائی ہیں۔ ایک میں ہے ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نماز پڑھ رہا تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے مجھے بلایا لیکن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ آیا نماز ختم کرکے پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اسی وقت کیوں نہ آئے؟ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نماز میں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں آیت «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّـهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ» [8-الانفال:24] ‏‏‏‏ یعنی ” ایمان والو اللہ اور اس کے رسول کی بات مان لو جب بھی وہ تمہیں پکاریں “۔ سن اب میں تجھے مسجد میں سے نکلنے سے پہلے ہی قرآن کریم کی بہت بڑی سورت بتلاؤں گا۔ تھوڑی دیر میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے جانے لگے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وعدہ یاد دلایا آپ نے فرمایا وہ سورۃ «الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» کی ہے یہی سبع مثانی ہے اور یہی بڑا قرآن ہے جو میں دیا گیا ہوں ۔ [صحیح بخاری:4803] ‏‏‏‏-                    دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ:      ام القرآن یعنی سورۃ فاتحہ سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے ۔ [صحیح بخاری:4804] ‏‏‏‏-             پس صاف ثابت ہے کہ سبع مثانی اور قرآن عظیم سے مراد سورۃ فاتحہ لیکن یہ بھی خیال رہے کہ اس کے سوا اور بھی یہی ہے اس کے خلاف یہ حدیثیں نہیں۔ جب کہ ان میں بھی یہ حقیقت پائی جائے جیسے کہ پورے قرآن کریم کا وصف بھی اس کے مخالف نہیں۔        جیسے فرمان الٰہی ہے آیت «اللَّـهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ» [39-الزمر:23] ‏‏‏‏ پس اس آیت میں سارے قرآن کو مثانی کہا گیا ہے، اور متشابہ بھی۔

نیکی

پس درگزر کر

 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلیاں 


اللہ نے تمام مخلوق عدل کے ساتھ بنائی ہے، قیامت آنے والی ہے،
 «لِيَجْزِيَ الَّذِينَ أَسَاءُوا بِمَا عَمِلُوا وَيَجْزِيَ الَّذِينَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَى» 
[53-النجم:31] ‏‏‏‏ ” بروں کو برے بدلے نیکوں کو نیک بدلے ملنے والے ہیں “۔
«وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا ذَلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ» [38-ص:27] ‏‏‏‏ ” مخلوق باطل سے پیدا نہیں کی گئی۔ ایسا گمان کافروں کا ہوتا ہے اور کافروں کے لیے ویل دوزخ ہے “۔
اور آیت میں ہے «أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ فَتَعَالَى اللَّـهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ»
 [23-المؤمنون:115،116] ‏‏‏‏ ” کیا تم سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بے کار پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے؟ بلندی والا ہے اللہ مالک حق جس کے سوا کوئی قابل پرستش نہیں عرش کریم کا مالک وہی ہے “۔                پھر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ    ” مشرکوں سے چشم پوشی کیجئے، ان کی ایذأ اور جھٹلانا اور برا کہنا برداشت کر لیجئے “۔
جیسے اور آیت میں ہے «فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلَامٌ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ» 
[43-الزخرف:89] ‏‏‏‏ ” ان سے چشم پوشی کیجئے اور سلام کہہ دیجئیے انہیں ابھی معلوم ہو جائے گا “۔

اعلی ظرف

اہل جنت

سو مرتبہ

اللہ پر بھروسا

خشک مٹی


«صَلْصَالٍ» سے مراد خشک مٹی ہے۔ اسی جیسی آیت
 «خَلَقَ الْإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِن مَّارِجٍ مِّن نَّارٍ»
 [55-الرحمن:14-15] ‏‏‏‏ ہے۔
یہ بھی مروی ہے کہ بو دار مٹی کو «حَمَا» کہتے ہیں۔ چکنی مٹی کو «مَسْنُوْن» کہتے ہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں تر مٹی۔ اوروں سے مروی ہے بو دار مٹی اور گندھی ہوئی مٹی۔ انسان سے پہلے ہم نے جنات کو جلا دینے والی آگ سے بنایا ہے۔ «سَّمُوْم» کہتے ہیں آگ کی گرمی کو اور «حُرُور» کہتے ہیں دن کی گرمی کو۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس گرمی کی لوئیں اس گرمی کا سترہواں حصہ ہیں۔ جس سے جن پیدا کئے گئے ہیں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جن آگ کے شعلے سے بنائے گئے ہیں یعنی آگ سے بہت بہتر۔ عمرو کہتے ہیں سورج کی آگ سے۔ صحیح میں وارد ہے کہ فرشتے نور سے پیدا کئے گئے اور جن شعلے والی آگ سے اور آدم علیہ السلام اس سے جو تمہارے سامنے بیان کر دیا گیا ہے ۔ [صحیح مسلم:2996] ‏‏‏‏

پتھر

بـھــروسہ

دیا جلائے رکھنا

اللہ تعالٰی کے خزانے

Wednesday, August 21, 2024

فقـط

آؤ مل کے

قــرآن

 تمام انسان اور جن پابند اطاعت ہیں 


ارشاد ہے کہ ” یہ قرآن دنیا کی طرف اللہ کا کھلا پیغام ہے “۔
 جیسے اور آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی کہلوایا گیا ہے کہ 
«لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ»
 [6-الأنعام:19] ‏‏‏‏ یعنی
 ” تاکہ میں اس قرآن سے تمہیں بھی ہوشیار کر دوں اور جسے جسے یہ پہنچے “، یعنی کل انسان اور تمام جنات۔
جیسے اس سورت کے شروع میں فرمایا کہ
 «الر كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ» الخ، ” اس کتاب کو ہم نے ہی تیری طرف نازل فرمایا ہے کہ تو لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لائے “ الخ۔
اس قرآن کریم کی غرض یہ ہے کہ لوگ ہوشیار کر دئے جائیں ڈرا دئے جائیں۔ اور اس کی دلیلیں حجتیں دیکھ سن کر پڑھ پڑھا کر تحقیق سے معلوم کر لیں کہ اللہ تعالیٰ اکیلا ہی ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور عقلمند لوگ نصیحت و عبرت وعظ و پند حاصل کر لیں۔

نہ کر بندیا

انســان

روز قیامت

 جکڑے ہوئے مفسد انسان 


” زمین و آسمان بدلے ہوئے ہیں۔ مخلوق اللہ کے سامنے کھڑی ہے، اس دن اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم دیکھو گے کہ کفر و فساد کرنے والے گنہگار آپس میں جکڑے بندھے ہوئے ہوں گے ہر ہر قسم کے گنہگار دوسروں سے ملے جلے ہوئے ہوں گے “۔
جیسے فرمان ہے «اُحْشُرُوا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ»
 [37-الصافات:22] ‏‏‏‏ ” ظالموں کو اور ان کی جوڑ کے لوگوں کو اکٹھا کرو “
اور آیت میں ہے :
«وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ» [81-التكوير:7] ‏‏‏‏ ” جب کہ نفس کے جوڑے ملا دیے جائیں “۔
اور جگہ ارشاد ہے «وَاِذَآ اُلْقُوْا مِنْهَا مَكَانًا ضَيِّقًا مُّقَرَّنِيْنَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُوْرًا» [25-الفرقان:13] ‏‏‏‏ یعنی ” جب کہ جہنم کے تنگ مکان میں وہ ملے جلے ڈالے جائیں گے تو ہاں وہ موت موت پکاریں گے “۔ سلیمان علیہ السلام کے جنات کی بابت بھی «وَالشَّيَاطِينَ كُلَّ بَنَّاءٍ وَغَوَّاصٍ وَآخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفَادِ» 
[38-ص:38، 37] ‏‏‏‏ «أَصْفَادِ» کا لفظ ہے۔
«أَصْفَادِ» کہتے ہیں قید کی زنجیروں کو عمرو بن کلثوم کے شعر میں «فَآبُوا بِالثِّيَابِ وَبِالسَّبَايَا وأُبْنَا بِالْمُلُوكِ مُصَفَّدِينَا»، «مُصَفَّدِ» زنجیروں میں جکڑے ہوئے قیدی کے معنی میں آیا ہے۔
جو کپڑے انہیں پہنائے جائیں گے وہ گندھک کے ہوں گے جو اونٹوں کو لگایا جاتا ہے اسے آگ تیزی اور سرعت سے پکڑتی ہے یہ لفظ «قَطِرَان» بھی ہے «قَطّرَانِ» بھی ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں، پگھلے ہوئے تانبے کو «قَطِرَانٍ» کہتے ہیں اس سخت گرم آگ جیسے تانبے کے ان دوزخیوں کے لباس ہوں گے۔‏‏‏‏
«تَلْفَحُ وُجُوهَهُمُ النَّارُ وَهُمْ فِيهَا كَالِحُونَ» [23-المؤمنون:104] ‏‏‏‏ 
” ان کے منہ بھی آگ میں ڈھکے ہوئے ہوں گے چہروں تک آگ چڑھی ہوئی ہوگی، سر سے شعلے بلند ہو رہے ہوں گے، منہ بگڑ گئے ہوں گے “۔
مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
 میری امت میں چار کام جاہلیت کے ہیں جو ان سے نہ چھوٹیں گے حسب پر فخر، نسب میں طعنہ زنی، ستاروں سے بارش کی طلبی، میت پر نوحہ کرنے والی نے اگر اپنی موت سے پہلے توبہ نہ کرلی تو اسے قیامت کے دن گندھک کا کرتا اور کھجلی کا دوپٹا پہنایا جائے گا ۔ [مسند احمد:342/5:صحیح] ‏‏‏‏ مسلم میں بھی یہ حدیث ہے [صحیح مسلم:934] ‏‏‏‏
«لِيَجْزِيَ الَّذِينَ أَسَاءُوا بِمَا عَمِلُوا وَيَجْزِيَ الَّذِينَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَى» 
[53-النجم:31] ‏‏‏‏ 
” قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس کے کاموں کا بدلہ دے گا۔ بروں کی برائیاں سامنے آ جائیں گی نیک کام کرنے والوں کو اچھا بدلہ عنایت فرمائے گا “۔
اللہ تعالیٰ بہت ہی جلد ساری مخلوق کے حساب سے فارغ ہو جائے گا۔ ممکن ہے یہ آیت بھی مثل 
«اِقْتَرَبَ للنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِيْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَ»
 [21-الأنبياء:1] ‏‏‏‏ کے ہو یعنی ” لوگوں کے حساب کا وقت قریب آگیا لیکن پھر بھی وہ غفلت کے ساتھ منہ پھیرے ہوئے ہی ہیں “۔ اور ممکن ہے کہ بندے کے حساب کے وقت کا بیان ہو۔ یعنی بہت جلد حساب سے فارغ ہو جائے گا۔ کیونکہ وہ تمام باتوں کا جاننے والا ہے اس پر ایک بات بھی پوشیدہ نہیں۔ جیسے ایک ویسے ہی ساری مخلوق۔
جیسے فرمان ہے «مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ بَصِيْرٌ»
 [31-لقمان:28] ‏‏‏‏ ” تم سب کی پیدائش اور مرنے کے بعد کا زندہ کر دینا مجھ پر ایسا ہی ہے جیسے ایک کو مارنا اور جلانا “۔
یہی معنی حضرت مجاہد رحمہ اللہ کے قول کے ہیں کہ حساب کے احاطے میں اللہ تعالیٰ بہت جلدی کرنے والا ہے۔‏‏‏‏ ہاں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دونوں معنی مراد ہوں یعنی وقت حساب بھی قریب اور اللہ کو حساب میں دیر بھی نہیں۔ ادھر شروع ہوا ادھر ختم ہوا «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

Saturday, August 10, 2024

صلـــی الله علیـــہ وآلـــہ وسلـــم

ماہ صـفر

بدشگونی

آمــــــیــن

ســکـون

صــبـر

استعفار

 اپنے تمام چھوٹے بڑے گناہوں اور غلطیوں کو یاد کرتے ہوئےاور دوبارہ ویسا نہ کرنے کا عہد کرتے ہوئے کم از کم ایک بار دل سے پڑھیئے 

اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّىْ مِنْ كُلِّ ذَنْۢبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَيْهِ
ترجمہ: میں اللہ سے اپنے تمام گناہوں کی بخشش مانگتا ہوں جو میرا رب ہے اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں .

ہولناک منظر

مسافـر خانـہ

عـزت

مـاں

صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

اے ہمارے رب

شکر گزاری

 «يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى وَأَنَّ اللَّـهَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ» [31-لقمان:29] ‏‏‏‏ ” کبھی دنوں کو بڑے کر دیتا ہے کبھی راتوں کو بڑھا دیتا ہے، ہر چیز اپنے کام میں سر جھکائے مشغول ہے، وہ اللہ عزیز و غفار ہے۔ تمہاری ضرورت کی تمام چیزیں اس نے تمہارے لیے مہیا کر دی ہیں تم اپنے حال و قال سے جن جن چیزوں کے محتاج تھے، اس نے سب کچھ تمہیں دے دی ہیں، مانگنے پر بھی وہ دیتا ہے اور بغیر مانگے بھی اس کا ہاتھ نہیں رکھتا۔ تم بھلا رب کی تمام نعمتوں کا شکریہ تو ادا کرو گے؟ تم سے تو ان کی پوری گنتی بھی محال ہے “۔

طلق بن حبیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ کا حق اس سے بہت بھاری ہے کہ بندے اسے ادا کرسکیں اور اللہ کی نعمتیں اس سے بہت زیادہ ہیں کہ بندے ان کی گنتی کرسکیں لوگو صبح شام توبہ استغفار کرتے رہو۔‏‏‏‏
صحیح بخاری میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ تیرے ہی لیے سب حمد و ثنا سزاوار ہے، ہماری ثنائیں ناکافی ہیں، پوری اور بے پرواہ کرنے والی نہیں اے اللہ تو معاف فرما ۔ [صحیح بخاری:5459] ‏‏‏‏
مروی ہے کہ داؤد علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ جل و علا سے دریافت کیا کہ میں تیرا شکر کیسے ادا کروں؟ شکر کرنا خود بھی تو تیری ایک نعمت ہے۔ جواب ملا کہ ” داؤد! اب تو شکر ادا کر چکا جب کہ تونے یہ جان لیا اور اس کا اقرار کر لیا کہ تو میری نعمتوں کی شکر کی ادائیگی سے قاصر ہے “۔
حضرت امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ ہی کیلئے تو حمد ہے، جس کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک نعمت کا شکر بھی بغیر ایک نئی نعمت کے ہم ادا نہیں کرسکتے کہ اس نئی نعمت پر پھر ایک شکر واجب ہو جاتا ہے پھر اس نعمت کی شکر گزاری کی ادائیگی کی توفیق پر بھی پھر نعمت ملی، جس کا شکریہ واجب ہوا۔‏‏‏‏
ایک شاعر نے یہی مضمون اپنے شعروں میں باندھا ہے «لَوْ كُلُّ جَارِحَةٍ مِنِّي لَهَا لُغَةٌ تُثْنِي» «عَلَيكَ بِمَا أَوْلَيتَ مِنْ حَسَنِ» «لَكَانَ مَا زَادَ شُكْرِي إِذْ شَكَرْتُ بِهِ» «إِلَيْكَ أَبْلُغَ فِي الْإِحْسَانِ وَالْمِنَنِ» کہ رونگٹے رونگٹے پر زبان ہو تو بھی تیری ایک نعمت کا شکر بھی پورا ادا نہیں ہو سکتا تیرے احسانات اور انعامات بےشمار ہیں۔

اللہ سبحان و تعالیٰ

Friday, August 9, 2024

آمــــیـن

نیک لـوگ

 نیک لوگوں کا انجام بیان ہو رہا ہے کہ ” ایماندار نیک اعمال لوگ جنتوں میں جائیں گے جہاں چاہیں جائیں آئیں چلیں پھریں کھائیں پیئیں ہمیشہ ہمیش کے لیے وہیں رہیں۔ یہاں نہ آزردہ ہوں نہ دل بھرے نہ طبیعت بھرے نہ مارے جائیں نہ نکالے جائیں نہ نعمتیں کم ہوں۔ وہاں ان کا تحفہ سلام ہی سلام ہو گا “۔

جیسے فرمان ہے
 «حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوهَا وَفُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلَامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ» 
[39-الزمر:73] 
‏‏‏‏، یعنی ” جب جنتی جنت میں جائیں گے اور اس کے دروازے ان کے لیے کھولے جائیں گے اور وہاں کے داروغہ انہیں سلام علیک کہیں گے “، الخ۔

اور آیت میں ہے
 «وَالْمَلَائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِم مِّن كُلِّ بَابٍ سَلَامٌ عَلَيْكُم»
 [13-الرعد:23، 24] 
‏‏‏‏ ” ہر دروازے سے ان کے پاس فرشتے آئیں گے اور سلام علیکم کہیں گے “۔

اور آیت میں ہے کہ 
«أُولَـٰئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا وَيُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَسَلَامًا»
 [25-الفرقان:75] 
‏‏‏‏ ” وہاں تحیۃ اور سلام ہی سنائے جائیں گے “۔

اور آیت میں ہے 
«دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّـهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَامٌ وَآخِرُ‌ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَ‌بِّ الْعَالَمِينَ»
 [10-یونس:10]
 ‏‏‏‏ ” ان کی پکار وہاں اللہ کی پاکیزگی کا بیان ہو گا اور ان کا تحفہ وہاں سلام ہو گا۔ اور ان کی آخر آواز اللہ رب العالمین کی حمد ہوگی “۔