یہ وہ حقیقت ہے جس پر مذکورہ صفات کے حامل فرشتوں کی قسم کھائی گئی ہے ۔ گویا دوسرے الفاظ میں یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ پورا نظام کائنات جو اللہ کی بندگی میں چل رہا ہے ، اور اس کائنات کے وہ سارے مظاہر جو اللہ کی بندگی سے انحراف کرنے کے برے نتائج انسانوں کے سامنے لاتے ہیں ، اور اس کائنات کے اندر یہ انتظام کہ ابتدائے آفرینش سے آج تک پے در پے ایک ہی حقیقت کی یاد دہانی مختلف طریقوں سے کرائی جا رہی ہے ، یہ سب چیزیں اس بات پر گواہ ہیں کہ انسانوں کا اِلٰہ صرف ایک ہی ہے ۔ اِلٰہ کے لفظ کا اطلاق دو معنوں پر ہوتا ہے ۔ ایک وہ معبود جس کی بالفعل بندگی و عبادت کی جا رہی ہو ۔ دوسرے وہ معبود جو فی الحقیقت اس کا مستحق ہو کہ اس کی بندگی و عبادت کی جائے ۔ یہاں الٰہ کا لفظ دوسرے معنی میں استعمال کیا گیا ہے ، کیونکہ پہلے معنی میں تو انسانوں نے دوسرے بہت سے الٰہ بنا رکھے ہیں ۔ اسی بنا پر ہم نے اِلٰہ کا ترجمہ معبود حقیقی کیا ہے ۔ سورج ہمیشہ ایک ہی مطلع سے نہیں نکلتا بلکہ ہر روز ایک نئے زاویے سے طلوع ہوتا ہے ۔ نیز ساری زمین پر وہ بیک وقت طابع نہیں ہو جاتا بلکہ زمین کے مختلف حصوں پر مختلف اوقات میں اس کا طلوع ہوا کرتا ہے ۔ ان وجوہ سے مشرق کے بجائے مشارق کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ، اور اس کے ساتھ مغارب کا ذکر نہیں کیا گیا ، کیونکہ مشارق کا لفظ خود ہی مغارب پر دلالت کرتا ہے ، تاہم ایک جگہ رَبُّ المَشَارق و المغارب کے الفاظ بھی آئے ہیں ( المعارج ۔ 40 ) ۔ سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :4 ان آیات میں جو حقیقت ذہن نشین کرائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ کائنات کا مالک و فرمانروا ہی انسانوں کا اصل معبود ہے ، اور وہی درحقیقت معبود ہو سکتا ہے ، اور اسی کو معبود ہونا چاہیے ۔ یہ بات سراسر عقل کے خلاف ہے کہ رب ( یعنی مالک اور حاکم اور مربی و پروردگار ) کوئی ہو اور الٰہ ( عبادت کا مستحق ) کوئی اور ہو جائے ۔ عبادت کی بنیادی وجہ ہی یہ ہے کہ آدمی کا نفع و ضرر ، اس کی حاجتوں اور ضرورتوں کا پورا ہونا ، اس کی قسمت کا بننا اور بگڑنا ، بلکہ بجائے خود اس کا وجود و بقا ہی جس کے اختیار میں ہے ، اس کی بالا تری تسلیم کرنا اور اس کے آگے جھکنا آدمی کی فطرت کا عین تقاضا ہے ۔ اس وجہ کو آدمی سمجھ لے تو خود بخود اس کی سمجھ میں یہ بات آ جاتی ہے کہ اختیارات والے کی عبادت کرنا ، دونوں صریح خلاف عقل و فطرت ہیں ۔ عبادت کا استحقاق پہنچتا ہی اس کو ہے جو اقتدار رکھتا ہے ۔ رہیں بے اقتدار ہستیاں تو وہ نہ اس کی مستحق ہیں کہ ان کی عبادت کی جائے ، اور نہ ان کی عبادت کرنے اور ان سے دعائیں مانگنے کا کچھ حاصل ہے ، کیونکہ ہماری کسی درخواست پر کوئی کارروائی کرنا سرے سے ان کے اختیار میں ہے ہی نہیں ۔ ان کے آگے عاجزی و نیاز مندی کے ساتھ جھکنا اور ان سے دعا مانگنا بالکل ویسا ہی احمقانہ فعل ہے جیسے کوئی شخص کسی حاکم کے سامنے جائے اور اس کے حضور درخواست پیش کرنے کے بجائے جو دوسرے سائلین وہاں درخواستیں لیے کھڑے ہوں ان ہی میں سے کسی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو جائے ۔
No comments:
Post a Comment