انسان کی حقیقت یہ ہے کہ وہ اس نطفہ سے پیدا کیا گیا ہے جو بےجان چیزوں سے بنا تھا۔ پھر اللہ نے اس میں روح پھونکی تو نہ صرف یہ کہ وہ دوسرے جانداروں کی طرح چلنے پھرنے، کھانے پینے اور پرورش پانے لگا بلکہ اس میں عقل و فہم، قوت استنباط ، بحث و استدلال اور تقریر و خطابت کی وہ قابلتیں پیدا ہوگئیں جو دوسرے کسی جاندار کو حاصل نہ تھیں۔ اور جب وہ اس منزل پر پہنچ گیا تو اپنے خالق کے بارے میں کئی طرح کی بحثیں اور جھگڑے اٹھا کھڑے کئے ۔ فَاِذَا هُوَ خَصِيْمٌ مُّبِيْنٌ : ” خَصِيْمٌ“ مبالغے کا صیغہ ہے، بہت جھگڑنے والا۔ ”إِذَا “ فجائیہ اچانک کے معنی میں آتا ہے، یعنی ایسی عجیب چیز کا وجود میں آنا جس کا وہم و گمان نہ ہو، یعنی ایسے حقیر قطرے سے پیدا کیے جانے والے انسان کا حق تو یہ تھا کہ ہمیشہ اس کا سر ہمارے احسان کے بوجھ سے جھکا رہتا۔ یہ تو امید ہی نہ تھی کہ وہ صاف جھگڑے پر اتر آئے گا اور اتنا زیادہ جھگڑے گا۔ دیکھیے سورة نحل (٤) ۔- وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِيَ خَلْقَهٗ : یعنی ہمیں مخلوق کی طرح عاجز سمجھتا ہے کہ جس طرح انسان مردہ کو زندہ نہیں کرسکتا ہم بھی نہیں کرسکتے اور یہ بھول جاتا ہے کہ خود اسے ہم نے کس چیز سے پیدا کیا۔ کہتا ہے، آخر جب بدن گل سڑ کر ہڈیاں رہ گیا اور وہ بھی پرانی اور بوسیدہ و کھوکھلی تو انھیں دوبارہ کون زندہ کرے گا ؟ اگر یہ اپنی پیدائش کو یاد رکھتا تو یہ سوال ہرگز نہ کرتا، کیونکہ جو انسان کو ایک حقیر مردہ قطرے سے پیدا کرسکتا ہے، جب اس کا نام و نشان نہیں تھا، اس کے لیے اسے اس کی بوسیدہ ہڈیوں کو دوبارہ زندہ کرنا کیا مشکل ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے انسان کو نطفے سے پیدا کرنے کی بات کئی مقامات پر یاد دلائی ہے، سورة دہر میں فرمایا : (اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ ) [ الدھر : ٢ ] ” بلاشبہ ہم نے انسان کو ایک ملے جلے قطرے سے پیدا کیا۔ “ اور سورة مرسلات میں فرمایا : (اَلَمْ نَخْلُقْكُّمْ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّهِيْنٍ ) [ المرسلات : ٢٠ ] ” کیا ہم نے تمہیں ایک حقیر پانی سے پیدا نہیں کیا ؟ قُلْ يُحْيِيْهَا الَّذِيْٓ اَنْشَاَهَآ : یعنی جس نے ان ہڈیوں کو اس وقت پیدا کرلیا جب ان کا وجود ہی نہ تھا، پھر ان میں جان ڈال دی، وہی انھیں دوبارہ زندہ کر دے گا، کیونکہ دوبارہ بنانا تو زیادہ آسان ہوتا ہے۔ اگرچہ اس قادر مطلق کے لیے پہلی مرتبہ بنانا اور دوبارہ بنانا یکساں آسان ہے۔ دیکھیے سورة روم (٢٧) ۔- وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِـيْمُۨ : ” خَلْقٍ “ مصدر بھی ہوسکتا ہے، یعنی ” ہر طرح کا پیدا کرنا “ اور اسم مفعول بمعنی مخلوق بھی، یعنی ” ہر ہر مخلوق “ پہلا معنی ہو تو مطلب یہ ہے کہ وہ ہر چیز کے متعلق خوب جانتا ہے کہ اسے کس طرح پیدا کرنا ہے، پھر یہ بھی کہ اسے پہلی دفعہ کیسے پیدا کرنا ہے اور دوبارہ کیسے بنانا ہے، لہٰذا اس کے لیے بوسیدہ ہڈیوں کو زندہ کرنا کچھ مشکل نہیں۔ دوسرا معنی ہو تو مطلب یہ ہے کہ وہ ہر ہر مخلوق کو جانتا ہے کہ وہ کہاں ہے اور اس کے فنا ہونے کے بعد اس کے ذرات کہاں کہاں ہیں، سو وہ ہر ذرے کو اس کی جگہ سے جمع کر کے دوبارہ زندہ کرسکتا ہے۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( کَانَ رَجُلٌ یُسْرِفُ عَلٰی نَفْسِہِ ، فَلَمَّا حَضَرَہُ الْمَوْتُ قَالَ لِبَنِیْہِ إِذَا أَنَا مُتُّ فَأَحْرِقُوْنِيْ ثُمَّ اطْحَنُوْنِيْ ثُمَّ ذَرُّوْنِيْ فِی الرِّیْحِ ، فَوَ اللّٰہِ لَءِنْ قَدَرَ اللّٰہُ عَلَيَّ لَیُعَذِّبَنِّيْ عَذَابًا مَا عَذَّبَہُ أَحَدًا فَلَمَّا مَاتَ فُعِلَ بِہِ ذٰلِکَ ، فَأَمَرَ اللّٰہُ الْأَرْضَ ، فَقَالَ اجْمَعِيْ مَا فِیْکِ مِنْہُ فَفَعَلَتْ فَإِذَا ہُوَ قَاءِمٌ، فَقَالَ مَا حَمَلَکَ عَلٰی مَا صَنَعْتَ ؟ قَالَ یَا رَبِّ خَشْیَتُکَ فَغَفَرَ لَہُ ) [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب : ٣٤٨١ ] ” ایک آدمی اپنی جان پر زیادتی کرتا تھا۔ جب اس کی موت کا وقت آیا، اس نے اپنے بیٹوں سے کہا، جب میں فوت ہوجاؤں، مجھے جلا دینا، پھر مجھے پیسنا، پھر مجھے ہوا میں اڑا دینا، کیونکہ قسم ہے اللہ کی اگر اللہ نے مجھ پر قابو پا لیا تو مجھے ایسا عذاب دے گا جو اس نے کسی کو نہیں دیا۔ تو جب وہ فوت ہوگیا، اس کے ساتھ ایسے ہی کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا، فرمایا، تجھ میں اس کا جو کچھ ہے جمع کر دے، اس نے ایسے ہی کیا تو وہ اسی وقت کھڑا ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” تجھے اس طرح کرنے پر کس چیز نے آمادہ کیا ؟ “ اس نے کہا : ” اے میرے رب تیرے خوف نے۔ “ تو اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا۔ “
No comments:
Post a Comment