Friday, November 28, 2025
پانی مبدا حیات ہے
زندگی کے لئے پانی کی اہمیت :۔ پانی کا ذخیرہ یا تو زمین کے نیچے ہوتا ہے۔ وہ بھی اللہ کے قبضہ ئقدرت میں ہے۔ وہ چاہے تو پانی کی سطح کو بہت نیچے لے جائے اور انسان پانی حاصل ہی نہ کرسکے۔ یا بارش کی صورت میں نازل ہوتا ہے۔ وہ بھی خالصتاً اللہ کے قبضہ ئقدرت میں ہے۔ وہ چاہے تو کسی مقام پر سالہا سال بارش ہی نہ ہو یا پھر پہاڑوں پر سردیوں میں برفباری ہوتی ہے جو گرمیوں میں پگھل کر دریاؤں کی صورت میں رواں ہوتی ہے۔ لیکن کئی دفعہ دریاؤں میں پانی کی انتہائی کمی واقع ہوجاتی ہے حالانکہ پانی اللہ کی اتنی بڑی نعمت ہے جس کے بغیر نہ انسان زندہ رہ سکتا ہے نہ دوسرے جاندار اور نہ ہی نباتات اگ سکتی ہیں۔ یعنی پانی نہ ہونے سے انسان خوراک سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔
آیت ٢٢ (وَاَرْسَلْنَا الرِّيٰحَ لَوَاقِحَ )- لَوَاقِحَ کا مفہوم پہلے تو یہی سمجھا جاتا تھا کہ یہ ہوائیں بادلوں کو اٹھا کر لاتی ہیں اور بارش کا سبب بنتی ہیں لیکن اب جدید سائنسی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بیج بھی ہواؤں کے ذریعے منتقل ہوتے ہیں جن سے پھولوں کی فرٹیلائزیشن ہوتی ہے جس کے نتیجے میں فصلیں اور پھل پیدا ہوتے ہیں۔ یوں یہ سارا نباتاتی نظام بھی ہواؤں کی وجہ سے چل رہا ہے۔ - (فَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَسْقَيْنٰكُمُوْهُ )- پانی مبدا حیات ہے۔ زمین پر ہر طرح کی زندگی کے وجود کا منبع اور سرچشمہ بھی پانی ہے اور پھر پانی پر ہی زندگی کی بقا کا انحصار بھی ہے۔ پانی کی اس اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے اس کی تقسیم و ترسیل کا ایک لگا بندھا نظام وضع کیا ہے جسے آج کی سائنس نے واٹر سائیکل کا نام دیا ہے۔ واٹر سائیکل کا یہ عظیم الشان نظام اللہ تعالیٰ کے عجائبات میں سے ہے۔ سمندروں سے ہواؤں تک بخارات پہنچا کر بارش اور برفباری کا انتظام گلیشیئرز کی شکل میں بلند وبالا پہاڑوں پر واٹر سٹوریج کا اہتمام پھر چشموں ندی نالوں اور دریاؤں کے ذریعے سے اس پانی کی وسیع و عریض میدانی علاقوں تک رسائی اور زیر زمین پانی کا عظیم الشان ذخیرہ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وضع کردہ وہ واٹرسائیکل ہے جس پر پوری دنیا میں ہر قسم کی زندگی کا دارومدار ہے۔- (وَمَآ اَنْتُمْ لَهٗ بِخٰزِنِيْنَ )- یہ تمہارے بس میں نہ تھا کہ تم پانی کے اس ذخیرے کو جمع کرتے
وَاَرْسَلْنَا الرِّيٰحَ لَوَاقِحَ ۔۔ : ” لَوَاقِحَ “ ” لَاقِحٌ“ کی جمع بھی ہوسکتی ہے، یہ لفظ مذکر ہونے کے باوجود مؤنث ہے، جیسے ” حَاءِضٌ“ اور ” حَامِلٌ“ ، ” لِقَاحٌ“ نر جانور کے مخصوص پانی کو کہتے ہیں۔ ” لَاقِحٌ“ وہ اونٹنی جس نے ” لِقَاحٌ“ کو قبول کرلیا ہو، یعنی حاملہ ہوچکی ہو اور اپنے پیٹ میں جنین اٹھائے پھرتی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ہواؤں کو حمل اٹھانے والی اس لیے قرار دیا کہ وہ اپنے اندر حاملہ اونٹنیوں کی طرح ایسے آبی بخارات اور بادلوں کا بوجھ اٹھا کر چلتی ہیں جو بارش برسانے کا ذریعہ بنتے ہیں اور یہ ” لَاقِحٌ“ بمعنی ” مُلْقِحٌ“ (باب افعال سے اسم فاعل، یعنی وہ نر جو حاملہ کرتا ہے) کی جمع بھی ہوسکتی ہے، یعنی یہ ہوائیں بادلوں پر اور مادہ درختوں پر، مثلاً کھجور وغیرہ، یا مادہ پھولوں پر عمل کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں کہ ہواؤں کے ذریعے سے بادل برسنے کے قابل ہوتے ہیں، ہواؤں ہی کے ذریعے سے نر درختوں اور نر پھولوں کا بور ان کے مادہ درختوں اور پھولوں تک پہنچتا ہے، جس سے ان کے پھل لانے کا عمل وجود میں آتا ہے۔ آیت کا کمال بلاغت یہ ہے کہ ” لَوَاقِحَ “ کا لفظ استعمال فرمایا جو حاملہ ہونے اور حاملہ کرنے کے دونوں مفہوم ادا کرتا ہے۔ - فَاَسْقَيْنٰكُمُوْهُ : ” سَقٰی یَسْقِیْ “ پلانا، ” أَسْقٰی یُسْقِیْ “ پلانے کے لیے دینا، مہیا کرنا، یعنی ہم نے آسمان سے پانی اتارا اور تمہیں ایک دوسرے کو پلانے اور اپنے جانوروں اور پودوں کو پلانے کے لیے عطا فرمایا۔ - وَمَآ اَنْتُمْ لَهٗ بِخٰزِنِيْنَ : یعنی نہ اوپر آسمان میں بارش کا خزانہ تمہارے قبضے میں ہے اور نہ نیچے زمین میں کنووں، چشموں، تالابوں کے خزانے پر تمہارا کوئی اختیار ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی پانی کو جس مقدار میں چاہتا ہے رکھتا ہے، وہ جب چاہے بارش برسائے تم اسے روک نہیں سکتے، یا جب چاہے روک لے تم اسے اپنی مرضی سے برسا نہیں سکتے۔ اسی طرح اگر وہ چاہے تو چشموں اور کنووں میں تمام جمع شدہ پانی زمین میں جذب ہوجائے اور تمہیں ایک قطرہ بھی پینے کو نہ ملے۔
Thursday, November 27, 2025
Wednesday, November 26, 2025
قیامت کے دن
۔ یعنی تم نہ اتفاقی طور پر پیدا ہوتے ہو اور نہ اپنے اختیار سے پیدا ہوتے ہو۔ اسی طرح تمہاری موت نہ اتفاقی طور پر آتی ہے۔ اور نہ تمہارے اپنے اختیار سے آتی ہے بلکہ تمہاری زندگی اور تمہاری موت کی باگ ڈور مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ وہی تمہیں زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ اور جب چاہے گا تمہیں دوبارہ بھی زندہ اٹھا کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ اس میں تمہارا اپنا عملی دخل یا اختیار کچھ بھی نہیں ہوگا۔- یعنی تمہیں متفرق طور پر زندہ نہیں کرے گا کہ کچھ لوگوں کو ایک وقت زندہ کیا۔ دوسروں کو کسی اور وقت اور باقی کو کسی تیسرے وقت جیسا کہ اس دنیا میں ہوتا ہے بلکہ سب اگلوں پچھلوں کو ایک ہی وقت زندہ کرکے جمع کردے گا اور وہ وقوع قیامت کے بعد ہوگا۔ اس سے پہلے نہیں۔
خواہش نفس
خواہش نفس کو خدا بنا لینے سے مراد یہ ہے کہ آدمی اپنی خواہش کا بندہ بن کر رہ جائے ۔ جس کام کو اس کا دل چاہے اسے کر گزرے ، خواہ خدا نے اسے حرام کیا ہو ، اور جس کام کو اس کا دل نہ چاہے اسے نہ کرے ، خواہ خدا نے اسے فرض کر دیا ہو ۔ جب آدمی اس طرح کسی کی اطاعت کرنے لگے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کا معبود خدا نہیں ہے بلکہ وہ ہے جس کی وہ اس طرح اطاعت کر رہا ہے ، قطع نظر اس سے کہ وہ زبان سے اس کو اپنا اِلٰہ اور معبود کہتا ہو یا نہ کہتا ہو ، اور اس کا بت بنا کر اس کی پوجا کرتا ہو یا نہ کرتا ہو ۔ اس لیے کہ ایسی بے چوں چرا اطاعت ہی اس کے معبود بن جانے کے لیے کافی ہے اور اس عملی شرک کے بعد ایک آدمی صرف اس بنا پر شرک کے جرم سے بری نہیں ہو سکتا کہ اس نے اپنے اس مطاع کو زبان سے معبود نہیں کہا ہے اور سجدہ اس کو نہیں کیا ہے ۔ اس آیت کی یہی تشریح دوسرے اکابر مفسرین نے بھی کی ہے ۔ ابن جریر اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ اس نے اپنی خواہش نفس کو معبود بنا لیا ۔ جس چیز کی نفس نے خواہش کی اس کا ارتکاب کر گزرا ۔ نہ اللہ کے حرام کیے ہوئے کو حرام کیا ، نہ اس کے حلال کیے ہوئے کو حلال کیا ۔ ابوبکر جصاص اس کے معنی یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ خواہش نفس کی اس طرح اطاعت کرتا ہے جیسے کوئی خدا کی اطاعت کرے ۔ زمخشری اس کی تشریح یوں کرتے ہیں کہ وہ خواہش نفس کا نہایت فرمانبردار ہے ۔ جدھر اس کا نفس اسے بلاتا ہے اسی طرف وہ چلا جاتا ہے ، گویا وہ اس کی بندگی اس طرح کرتا ہے جیسے کوئی شخص اپنے خدا کی بندگی کرے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، الفرقان ، حاشیہ ۵٦ ۔ جلد چہارم ، تفسیر سورہ سبا ، حاشیہ 63 ۔ یٰس ، حاشیہ 53 ۔ الشوریٰ ، حاشیہ 38 ) سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :31 اصل الفاظ ہیں اَضَلَّہُ اللہُ عَلیٰ عِلْمِہ ۔ ایک مطلب ان الفاظ کا یہ ہو سکتا ہے کہ وہ شخص عالم ہونے کے باوجود اللہ کی طرف سے گمراہی میں پھینکا گیا ، کیونکہ وہ خواہش نفس کا بندہ بن گیا تھا ۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ نے اپنے اس علم کی بنا پر کہ وہ اپنے نفس کی خواہش کو اپنا خدا بنا بیٹھا ہے ، اسے گمراہی میں پھینک دیا ۔ سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :32 اللہ کے کسی کو گمراہی میں پھینک دینے اور اس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دینے اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دینے کی تشریح اس سے پہلے ہم متعدد مقامات پر اس کتاب میں کر چکے ہیں ۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، البقرہ ، حواشی ۱۰ ۔ ۱٦ ، الانعام ، حواشی ۱۷ ۔ ۲۷ ، جلد دوم ، الاعراف ، حاشیہ۸۰ ، التوبہ ، حواشی ۸۹ ۔ ۹۳ ، یونس ، حاشیہ ۷۱ ، الرعد ، حاشیہ ٤٤ ، ابراہیم ، حواشی ٦ ۔ ۷ ۔ ٤۰ ، النحل ، حاشیہ ۱۱ ، بنی اسرائیل ، حاشیہ ۵۱ ، جلد سوم ، الروم ، حاشیہ ۸٤ ، جلد چہارم ، فاطر ، آیت 8 ، حواشی 16 ۔ 17 ، المومن ، حاشیہ 54 ۔ سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :33 جس سیاق و سباق میں یہ آیت آئی ہے اس سے یہ بات خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ آخرت کا انکار دراصل وہی لوگ کرتے ہیں جو خواہشات نفس کی بندگی کرنا چاہتے ہیں اور عقیدہ آخرت کو اپنی اس آزادی میں مانع سمجھتے ہیں ۔ پھر جب وہ آخرت کا انکار کر دیتے ہیں تو ان کی بندگی نفس اور زیادہ بڑھتی چلی جاتی ہے اور وہ اپنی گمراہی میں روز بروز زیادہ ہی بھٹکتے چلے جاتے ہیں ۔ کوئی برائی ایسی نہیں ہوتی جس کے ارتکاب سے وہ باز رہ جائیں ۔ کسی کا حق مارنے میں انہیں تامل نہیں ہوتا ۔ کسی ظلم اور زیادتی کا موقع پا جانے کے بعد ان سے یہ توقع ہی نہیں کی جاسکتی کہ وہ اس سے صرف اس لیے رک جائیں گے کہ حق و انصاف کا کوئی احترام ان کے دلوں میں ہے جن واقعات کو دیکھ کر کوئی انسان عبرت حاصل کر سکتا ہے ، وہی واقعات ان کی آنکھوں کے سامنے بھی آتے ہیں ، مگر وہ ان سے الٹا یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں اور ہمیں یہی کچھ کرنا چاہیے ۔ کوئی کلمہ نصیحت ان پر کارگر نہیں ہوتا ۔ جو دلیل بھی کسی انسان کو برائی سے روکنے کے لیے مفید ہو سکتی ہے ، وہ ان کے دل کو اپیل نہیں کرتی ، بلکہ وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ساری دلیلیں اپنی اسی بے قید آزادی کے حق میں نکالتے چلے جاتے ہیں ، اور ان کے دل و دماغ کسی اچھی فکر کے بجائے شب و روز اپنی اغراض و خواہشات ہر ممکن طریقے سے پوری کرنے کی ادھیڑ بن ہی میں لگے رہتے ہیں ۔ یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ عقیدہ آخرت کا انکار انسانی اخلاق کے لیے تباہ کن ہے ۔ آدمی کو آدمیت کے دائرے میں اگر کوئی چیز رکھ سکتی ہے تو وہ صرف یہ احساس ہے کہ ہم غیر ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ ہمیں خدا کے حضور اپنے اعمال کی جوابدہی کرنی ہو گی ۔ اس احساس سے خالی ہو جانے کے بعد کوئی شخص بڑے سے بڑا عالم بھی ہو تو وہ جانوروں سے بدتر رویہ اختیار کیے بغیر نہیں رہتا ۔
Saturday, November 22, 2025
Testifying Faith in the Grave
Narrated Al-Bara' bin 'Azib : The Prophet (pbuh) said, "When a faithful believer is made to sit in his grave, then (the angels) come to him and he testifies that none has the right to be worshipped but Allah and Muhammad is Allah's Apostle. And that corresponds to Allah's statement: Allah will keep firm those who believe with the word that stands firm . . . (14:27). Narrated Shu'ba: Same as above and added, "Allah will keep firm those who believe . . . (14:27) was revealed concerning the punishment of the grave".
Wednesday, November 19, 2025
قرآن
قرآن سب لوگوں کے لئے رحمت کیسے ہے ؟ یعنی اس قرآن میں بصیرت افروز دلائل تو سب لوگوں کے لیے موجود ہیں۔ لیکن ان دلائل سے فائدہ صرف وہ لوگ اٹھا سکتے ہیں جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ پھر جو لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں انہیں یہ کتاب دنیا میں زندگی گزارنے کے طریقہ کی مکمل رہنمائی کرتی ہے۔ اس طریقہ زندگی پر عمل کرنے سے انسان کی آخرت بھی سنور جاتی ہے۔ یہ تو اللہ کی رحمت کا ایک پہلو ہوا کہ اس نے اس دنیا میں ہی اخروی زندگی کی فلاح و نجات کا طریقہ بتادیا۔ اور اللہ کی رحمت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ قرآن زندگی گزارنے اور اس دنیا میں پرامن رہنے کے لیے سب انسانوں کے لیے ایسے متناسب اور متوازن اصول پیش کرتا ہے۔ جن سے سب لوگوں کے حقوق کی ٹھیک تعیین ہوجاتی ہے اور کسی کی حق تلفی نہیں ہوتی۔ انسان کی عقل اگر ہزاروں سال بھی تجربے کرتی اور ٹھوکریں کھاتی پھرتی تب بھی ایسے متوازن اور متناسب اصول دریافت نہ کرسکتی تھی۔ اللہ کی لوگوں پر خاص رحمت ہے کہ اس نے اس قرآن کے ذریعہ لوگوں کو ایسی ہدایات مفت میں دے دی ہیں۔
قرآن
گردش لیل ونہار
وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآئِ مِنْ رِّزْقٍ ” اور رات اور دن کے اختلاف میں ‘ اور اس میں جو اللہ آسمان سے رزق اتارتا ہے “- رزق سے مراد یہاں بارش کا پانی ہے جو زمین سے روزی کے نکلنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ بارش کے پانی کا نزول گویا انسانوں اور دوسرے جانداروں کے لیے رزق کا نزول ہے۔- فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا ” پھر زندہ کردیتا ہے اس سے زمین کو اس کی موت کے بعد “- وہ زمین جو بنجر اور بےآب وگیاہ پڑی تھی بارش کے برستے ہی ہریالی اور طرح طرح کے نباتات کے لباس میں ملبوس نظر آنے لگی۔- وَتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ اٰیٰتٌ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ” اور ہوائوں کے چلنے میں ‘ نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیں۔ “- - اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلاَفِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآئِ مِنْ مَّآئٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَبَثَّ فِیْہَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃٍص وَّتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ - ” یقینا آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں ‘ اور رات اور دن کے الٹ پھیر میں ‘ اور ان کشتیوں ( اور جہازوں) میں جو سمندر میں (یا دریائوں میں) لوگوں کے لیے نفع بخش سامان لے کر چلتی ہیں ‘ اور اس پانی میں کہ جو اللہ نے آسمان سے اتارا ہے ‘ پھر اس سے زندگی بخشی زمین کو اس کے مردہ ہوجانے کے بعد ‘ اور ہر قسم کے حیوانات (اور چرند پرند) اس کے اندر پھیلادیے ‘ اور ہوائوں کی گردش میں ‘ اور ان بادلوں میں جو معلق کردیے گئے ہیں آسمان اور زمین کے درمیان ‘ نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیں۔ “- گویا سورة البقرۃ کی اس آیت میں جو نشانیاں بیان ہوئی ہیں ان میں سے اکثر کا ذکر زیر مطالعہ تین آیات میں آگیا ہے۔
Satan who is known as Khinzab
عن عُثْمَانَ بْنَ أَبِي الْعَاصِ رضي الله عنه:
أنه أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ حَالَ بَيْنِي وَبَيْنَ صَلَاتِي وَقِرَاءَتِي يَلْبِسُهَا عَلَيَّ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ذَاكَ شَيْطَانٌ يُقَالُ لَهُ خِنْزَِبٌ، فَإِذَا أَحْسَسْتَهُ فَتَعَوَّذْ بِاللهِ مِنْهُ، وَاتْفُلْ عَلَى يَسَارِكَ ثَلَاثًا»، قَالَ: فَفَعَلْتُ ذَلِكَ فَأَذْهَبَهُ اللهُ عَنِّي.
[صحيح] - [رواه مسلم] - [صحيح مسلم: 2203]
‘Uthmān ibn Abi al-‘Ās (may Allah be pleased with him) reported:
I came to the Prophet (may Allah's peace and blessings be upon him) and said: "O Messenger of Allah, Satan intervenes between me and my prayer and my recitation of the Qur'an, confounding me." So, the Messenger of Allah (may Allah's peace and blessings be upon him) said: "That is Satan who is known as Khinzab. If you perceive his effect, seek refuge with Allah from him and spit three times to your left." He said: I did that, and Allah caused him to depart from me.
[Authentic hadith] - [Sahih Muslim - 2203]
Explanation
‘Uthmān ibn Abi al-‘Ās (may Allah be pleased with him) came to the Prophet (may Allah's peace and blessings be upon him) and said: O Messenger of Allah, Satan intervenes between me and my prayer and prevents me from offering it with Khushū‘ (humility and focus) and makes me confused and doubtful about my recitation in it. Thereupon, the Messenger of Allah (may Allah's peace and blessings be upon him) said to him: That is Satan, who is known as Khinzab. If you perceive that and feel it, seek refuge with Allah from him and blow three times to your left with a bit of saliva. 'Uthmān said: I did what the Prophet (may Allah's peace and blessings be upon him) commanded me to do, and Allah caused him to depart from me.
Benefits from the Hadith:
Thursday, November 13, 2025
The Consequence of Worshipping Others Along with Allah
Narrated 'Abdullah: Allah's Messenger ﷺ said, "Anyone who dies worshipping others along with Allah will definitely enter the Fire". I said, "Anyone who dies worshipping none along with Allah will definitely enter Paradise".
Sahih al-Bukhari 1238 (Book 23, Hadith 2)
Friday, November 7, 2025
اصلی زاد راہ تقویٰ ہے
زمین گہوارہ کیسے ہے ؟ گہوارہ میں بچہ بڑے آرام سے جھولے لیتا ہے، آرام کرتا اور سوتا ہے۔ اس لیے کہ جھولے کی رفتار میں یکسانیت ہوتی ہے۔ بالکل یہی صورت زمین کی ہے جو ایک بہت بڑا عظیم الجثہ کرہ ہے۔ اور فضائے بسیط میں معلق ہزارہا میل فی منٹ کی تیز رفتاری سے محو گردش ہے۔ مگر اس کی اس تیز رفتاری میں بھی یکسانیت ہے۔ جس کی وجہ سے تمہیں اس کی یہ حرکت محسوس تک نہیں ہوتی اگر اس کے اندر سے کوئی آتش فشاں پہاڑ یا آتش گیر مادہ پھٹ پڑے اور اس میں زلزلہ پیدا ہوجائے تو اسی وقت تمہاری جان پر بن جاتی ہے۔ اور پروردگار یاد آنے لگتا ہے اور اگر خدانخواستہ اس کی رفتار میں بےترتیبی واقع ہوجائے تو تمہاری تباہی یقینی ہے۔ یہ اللہ ہی کی ذات ہے جس نے اس مہیب کرہ کو اپنے کنٹرول میں رکھ کر اسے تمہارے حق میں گہوارے کی طرح آرام دہ بنادیا ہے۔ تم اس پر بڑے سکون و اطمینان سے چلتے پھرتے اور رہتے سہتے ہو۔ - [٩] راستوں سے راہ پانے کے دو مفہوم :۔ اللہ تعالیٰ نے زمین بنائی تو ایک جیسی نہیں بنائی۔ کہیں نشیب ہیں کہیں فراز، کہیں پہاڑ ہیں اور کہیں ریت کے تودے، پھر ان پہاڑوں کی بلندی بھی یکساں نہیں بنائی۔ کہیں کٹاؤ ہیں کہیں درے ہیں۔ جنہیں پار کرکے انسان ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ یا دوسرے علاقہ کی طرف جاسکتا ہے۔ پھر ان پہاڑوں میں وادیاں بنائیں جو پانی کی گزر گاہیں ہیں۔ انہیں گزر گاہوں پر چلنے کے راستے بن گئے۔ پھر زمین پر بیشمار امتیازی نشانات بنا دیئے۔ ان سب باتوں کا فائدہ یہ ہوا کہ انسان انہیں نشانات اور راہوں کی مدد سے دنیا کے ایک حصہ سے دوسرے حصہ تک سفر کرسکتا ہے اور بھولتا نہیں۔ اگر ایسے نشانات نہ ہوتے اور ساری زمین ایک جیسی ہوتی تو انسان نہ سفر کرنے کے قابل ہوسکتا اور نہ ہی راستے بن سکتے تھے۔ راستے اگرچہ انسان ہی بناتا ہے لیکن چونکہ راستوں کے ذرائع اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ ہیں اس لیے انہیں براہ راست اپنی طرف منسوب کیا۔ اس آیت کے بھی دو مطلب ہیں۔ ایک تو ترجمہ سے واضح ہے اور دوسرا یہ کہ ان امتیازی نشانات میں غور کرکے ہدایت کی راہ پاسکو اور اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرسکو۔
دنیا میں نازل ہونے والی بارش کی مجموعی مقدار یکساں رہتی ہے :۔ اس کے بھی دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ سمندر، جس سے آبی بخارات بن کر اوپر اٹھتے ہیں، کا رقبہ خشکی کے رقبہ سے تین گناہ زیادہ ہے۔ یہ بھی ممکن تھا کہ اس کا ایک کثیر حصہ آبی بخارات میں تبدیل ہوجاتا، پھر بارش کی صورت اختیار کرلیتا جس سے زمین کا کثیر حصہ زیرآب آجاتا اور مخلوق تباہ ہوجاتی۔ لیکن اللہ تعالیٰ ایسا نہیں ہونے دیتا اور آبی بخارات اتنے ہی بنتے ہیں یا اتنی ہی بارش ہوتی ہے جو مخلوق کے لیے فائدہ بخش ہو۔ دوسرا پہلو یہ ہے زمین کے ہر علاقہ میں بارش کی سالانہ اوسط مقدار دوسرے علاقوں سے الگ ہوتی ہے۔ پھر اس اوسط مقدار میں کمی بیشی بھی ہوتی رہتی ہے۔ کہیں سیلاب آجاتا ہے اور کہیں خشک سالی ہوتی ہے۔ ان باتوں کے باوجود اللہ تعالیٰ پانی کی مجموعی مقدار اتنی ہی نازل فرماتا ہے جو ساری زمین کی مخلوق کی ضروریات کو پورا کرسکے۔- [١١] نباتات سے بعث بعد الموت پر دلیل :۔ اللہ تعالیٰ کے لیے نباتات کو زمین سے نکالنا یا اگانا اور تمہیں زمین سے نکالنا یا اگانا ایک ہی بات ہے اور اس میں کچھ فرق نہیں اور اس کی وضاحت سورة نوح میں یوں بیان فرمائی۔ ( وَاللّٰهُ اَنْۢبَتَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا 17:71 ) ۔ نوح :17) (اور اللہ نے تمہیں زمین سے نباتات کی طرح اگایا پھر اسی زمین میں تمہیں لوٹا دے گا۔ پھر تمہیں اسی زمین سے (قیامت کے دن) نکال بھی لے گا) یعنی زمین سے غلے پھل اور غذائیں اگتی ہیں۔ انہی سے انسان کا گوشت پوست خون اور نطفہ بنتا ہے۔ جو انسان کی پیدائش کا ذریعہ بنتا ہے۔ اسی لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کو براہ راست زمین سے اگانے سے منسوب کردیا ہے۔ گویا جس طرح آج نباتات کو اور پھر تمہیں زمین سے اگا رہا ہے۔ اسی طرح قیامت کے دن بھی تمہیں زمین سے نکال کر اٹھا کھڑا کرے گا
.jpg)

.jpg)
.jpg)
.jpg)
.jpg)
.jpg)
.jpg)
.jpg)
.jpg)
.jpg)

.jpg)
.jpeg)

.jpg)
.jpg)

.jpg)
.jpg)
.jpg)
.jpg)
.jpg)






.jpg)
.jpg)

.jpg)


.jpg)



.jpg)

.jpg)
.jpg)
.jpg)

.jpg)

.jpg)
.jpg)
.jpg)