خزانہ اور کوڑھی سانپ
دنیا میں نعمتوں کی فراوانی اس بات کی دلیل نہیں ہوتی کہ اللہ ان پر خوش ہے۔ مال و دولت اسی صورت میں اللہ کی نعمت کہلا سکتا ہے جب کہ اس سے مال کے حقوق ادا کردیئے جائیں اور اگر بخل سے کام لیا جائے تو یہی مال و دولت عذاب کا باعث بن جاتا ہے ۔بخیل شخص اپنے مال کو اپنے لیے بہتر نہ سمجھے وہ تو اس کے لیے سخت خطرناک چیز ہے، دین میں تو معیوب ہے ہی لیکن بسا اوقات دینوی طور پر بھی اس کا انجام اور نتیجہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ حکم ہے کہ بخیل کے مال کا قیامت کے دن اسے طوق ڈالا جائے گا۔
صحیح بخاری میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جسے اللہ مال دے اور وہ اس کی زکوٰۃ ادا نہ کرے اس کا مال قیمت کے دن گنجا سانپ بن کر جس کی آنکھوں پر دو نشان ہوں گے طوق کی طرح اس کے گلے میں لپٹ جائے گا اور اس کی باچھوں کو چیرتا رہے گا اور کہتا جائے گا کہ میں تیرا مال ہوں میں تیرا خزانہ ہوں پھر آپ نے اسی آیت
«وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰىھُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِھٖ ھُوَ خَيْرًا لَّھُمْ»
[3-آل عمران:180] کی تلاوت فرمائی۔
[صحیح بخاری:4565]
یعنی جو مال تم چھوڑ کر مرجاؤ گے وہ تمہارے وارثوں کا ہوگا اور بالآخر اللہ کی ہی میراث میں چلا جائے گا چناچہ حدیث میں آیا ہے کہ آپ نے فرمایا : انسان کہتا رہتا ہے کہ یہ میرا مال ہے۔ یہ میرا مال ہے۔ حالانکہ اس کا مال وہی ہے۔ جو اس نے کھالیا یا پہن لیا یا اللہ کی راہ میں دے دیا۔ باقی مال تو اس کے وارثوں کا ہوگا ہے نیز آپ سے کسی نے سوال کیا کہ افضل صدقہ کون سا ہے۔ آپ نے فرمایا : جو تو تندرستی کی حالت میں مال کی خواہش مالدار ہونے کی امید اور محتاجی کا ڈر رکھتے ہوئے کرے اور اتنی دیر مت لگا کہ حلق میں دم آجائے تو اس وقت یوں کہنے لگے کہ اتنا مال فلاں کو دے دینا اور اتنا فلاں کو۔ حالانکہ اب وہ تو فلاں کا ہو ہی چکا
(بخاری، کتاب الوصایا، باب الصدقہ عندالموت)
عبداللہ بن شخیر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اور آپ «ألهاكم التكاثر» کی تلاوت کر رہے تھے تو آپ نے فرمایا: ”ابن آدم کہتا ہے کہ میرا مال، میرا مال، حالانکہ تمہارا مال صرف وہ ہے جو تم نے صدقہ کر دیا اور اسے آگے چلا دیا ۱؎، اور کھایا اور اسے ختم کر دیا یا پہنا اور اسے پرانا کر دیا“۔
سنن ترمذي: 2342۔ 3354۔ امام ترمذی کہتے ہیں:یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الزہد 1 (2959)، سنن النسائی/الوصایا 1 (3643)، ویأتي عند المؤلف في تفسیر ”التکاثر“ (3349) (تحفة الأشراف: 5346)، و مسند احمد (4/24، 26) (صحیح)»
مطلب یہ ہے کہ آدمی اس مال کو اپنا مال سمجھتا ہے جو اس کے پاس ہے حالانکہ حقیقی مال وہ ہے جو حصول ثواب کی خاطر اس نے صدقہ کر دیا، اور یوم جزاء کے لیے جسے اس نے باقی رکھ چھوڑا ہے، باقی مال کھا پی کر اسے ختم کر دیا یا پہن کر اسے بوسیدا اور پرانا کر دیا، صدقہ کئے ہوئے مال کے علاوہ کوئی مال آخرت میں اس کے کام نہیں آئے گا، اس حدیث میں مستحقین پر اور اللہ کی پسندیدہ راہوں پر خرچ کرنے کی ترغیب ہے۔
زمین و آسمان کی جو چیز بھی کوئی مخلوق استعمال کر رہی ہے وہ دراصل اللہ کی ملک ہے اور اس پر مخلوق کا قبضہ و تصرف عارضی ہے ۔ ہر ایک اپنے مقبوضات سے بہرحال بے دخل ہونا ہے اور آخر کار سب کچھ اللہ ہی کے پاس رہ جانے والا ہے ۔ لہٰذا عقل مند ہے وہ جو اس عارضی قبضہ کے دوران میں اللہ کے مال کو اللہ کی راہ میں دل کھول کر صرف کرتا ہے ۔ اور سخت بیوقوف ہے وہ جو اسے بچا بچا کر رکھنے کی کوشش کرتا ہے ۔

No comments:
Post a Comment