Sunday, July 28, 2024

صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

قومی زبان

جنت کا خزانہ

اللہ کو یاد کرو

وہی خدا ہے

ہمارا مقصد

قـرآن

 اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ عظیم الشان کتاب ہم نے تیری طرف اتاری ہے ۔ یہ کتاب تمام کتابوں سے اعلیٰ ، رسول تمام رسولوں سے افضل وبالا ۔ جہاں اتری وہ جگہ دنیا کی تمام جگہوں سے بہترین اور عمدہ ۔ اس کتاب کا پہلا وصف یہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے تو لوگوں کو اندھیروں سے اجالے میں لا سکتا ہے ۔ تیرا پہلا کام یہ ہے کہ گمراہیوں کو ہدایت سے برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے ایمانداروں کا حمایتی خود اللہ ہے وہ انہیں اندھیروں سے اجالے میں لاتا ہے اور کافروں کے کے ساتھی اللہ کے سوا اور ہیں جو انہیں نور سے ہٹا کر تاریکیوں میں پھانس دیتے ہیں اللہ اپنے غلام پر اپنی روشن اور واضح نشانیاں اتارتا ہے کہ وہ تمہیں تاریکیوں سے ہٹا کر نور کی طرف پہنچا دے ۔ اصل ہادی اللہ ہی ہے رسولوں کے ہاتھوں جن کی ہدایت اسے منظور ہوتی ہے وہ راہ پالیتے ہیں اور غیر مغلوب پر غالب زبردست اور ہر چیز پر بادشاہ بن جاتے ہیں اور ہر حال میں تعریفوں والے اللہ کی راہ کی طرف ان کی رہبری ہو جاتی ہے

آمــــیـن

مـیری رحـمت

Saturday, July 27, 2024

اصل تدبیر

 وَقَدْ مَكَرَ الَّذِيْنَ ۔۔ : یعنی ان سے پہلے کفار نے بھی اپنے رسولوں کو ستانے اور اسلام کو نیچا دکھانے کی بہت تدبیریں کیں، یہ کوئی نئی بات آپ ہی کو پیش نہیں آرہی، پھر کوئی تدبیر اللہ کی مشیت کے بغیر کچھ بھی نہیں کرسکتی، کیونکہ اختیار ہر چیز کا اسی کے ہاتھ میں ہے۔ سو اگر ان کی کوئی تدبیر کامیاب ہوئی تو وہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہی کا تقاضا تھا، لہٰذا آپ پریشان نہ ہوں۔ ان کافروں کو بھی بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ اس دنیا کے گھر کا اچھا انجام کس کے حق میں ہوتا ہے۔

اللہ کا

صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

مہربان رب

اللہ کا حکم

 اس آیت میں جس صورت حال کا ذکر ہے اس کا عملی مظاہرہ ہجرت کے بعد بہت تیزی کے ساتھ سامنے آیا۔ حضور نے مدینہ تشریف لانے کے بعد ایک طرف قریش مکہ کے لیے ان کی تجارتی شاہراہوں کو مخدوش بنا دیا تو دوسری طرف مدینہ کے آس پاس کے قبائل کے ساتھ سیاسی معاہدات کر کے اس پورے علاقے سے قریش مکہ کے اثر و رسوخ کی بساط لپیٹ دی۔ مدینہ کے مضافات میں آباد بیشتر قبائل قریش مکہ کے حلیف تھے مگر اب ان میں سے اکثر یا تو مسلمانوں کے حلیف بن گئے یا انہوں نے غیر جانبدار رہنے کا اعلان کردیا۔ قریش مکہ کی معاشی ناکہ بندی ، اور سیاسی انقطاع ، کے لیے رسول اللہ کے یہ اقدامات اس قدر مؤثر تھے کہ اس کے بعد انہیں اپنے اردگرد سے سکڑتی ہوئی زمین بہت واضح انداز میں دکھائی دینے لگی۔

 زمین کو ہر طرف سے کم کرنے سے مراد ؟:۔ یعنی اسلام چاروں طرف پھیلتا جارہا ہے اور کفر کی سرزمین ہر طرف سے سمٹتی اور کم ہوتی جارہی ہے اور اس کا حلقہ تنگ سے تنگ تر ہوتا جارہا ہے۔ اسلام کو غلبہ دینا اور اسے پھیلانا ایسی بات ہے جس کا اللہ فیصلہ کرچکا ہے جسے کوئی طاقت روک نہیں سکتی اور جوں جوں اسلام پھیلتا ہے ان پر عرصہ حیات تنگ ہوتا جارہا ہے۔

- وَاللّٰهُ يَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهٖ : کیونکہ اس کے فیصلے پر نظر ثانی کرکے اسے وہی بدل سکتا ہے جو اس پر غالب ہو، جب کہ ایسی کسی ہستی کا کہیں وجود ہی نہیں۔ - وَهُوَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ : یعنی اس کے حساب لینے کا وقت نہایت تیزی کے ساتھ آ رہا ہے، حتیٰ کہ اس کے آنے پر مجرم قسمیں کھا کر کہیں گے کہ ہم دنیا میں صرف ایک گھڑی رہے ہیں۔ (روم : ٥٥) دوسرا مطلب یہ ہے کہ اسے حساب لینے میں ذرہ برابر دیر نہیں لگتی بلکہ قیامت کے دن پل بھر میں سارا حساب سامنے آجائے گا۔

جنت

اے اللہ

اچھا دوسـت

پروردگار پر بھروسہ

اللہ کا گھر

مثبت ســوچ

جو لوگ

میعار

کردار

آخرت کا گھر

یعنی راہ حق میں پیش آنے والی مشکلات کو ثابت قدمی کے ساتھ برداشت کیا اور اللہ تعالیٰ کے احکام و حدود میں اللہ کی رضا کی خاطر اپنے نفس کی خواہشات پر کنٹرول کیا۔ اس لحاظ سے ایک مومن کی ساری زندگی ہی دراصل صبر کی زندگی ہوتی ہے۔- [٣١] یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے خواہ وہ امیر ہو یا غریب ہو۔ خوشحال ہو یا تنگ دست ہو۔ ہر ایک کو اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے۔ قرآن کی بعض دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ پوشیدہ طور پر صدقہ کرنا علانیہ صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔ غالباً اسی لیے پہلے پوشیدہ صدقہ کا ذکر کیا گیا۔ پھر صدقہ کی دو بڑی قسمیں ہیں۔ ایک فرضی یعنی زکوٰۃ دوسرے نفلی۔ علماء کہتے ہیں کہ فرضی صدقہ علانیہ کرنا بہتر ہے۔ تاکہ دوسروں کو بھی رغبت پیدا ہو اور نفلی صدقات پوشیدہ طور پر کرنے چاہئیں پھر رزق سے مراد صرف مال و دولت ہی نہیں اللہ کی ہر نعمت رزق ہے جو انسان کی جسمانی یا روحانی تربیت میں کارآمد ہو۔ اس لحاظ سے علم دین، پاکیزہ فنون اور صحت وغیرہ سب رزق میں شامل ہیں اور اللہ کی راہ میں ان میں سے بھی خرچ کرنا ضروری ہے یہ مضمون بہت طویل ہے اور قرآن میں جابجا مذکور ہے۔ اس لیے یہاں اسی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔- [٣٢] یَدْرَءُ وْنَ کا لغوی معنی دور ہٹانا اور پرے کرنا ہے۔ اس لحاظ سے اس جملہ کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ جب ان سے کوئی برا کام ہوجاتا ہے تو بعد میں اچھے کام کرکے تلافی مافات کردیتے ہیں۔ کیونکہ نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب ان سے کوئی برائی کرے تو اس کا جواب برائی سے نہیں بلکہ بھلائی سے دیتے ہیں اور عفو و درگزر سے کام لیتے ہیں اور اس بارے میں بھی بہت سی احادیث وارد ہیں۔ مثلاً آپ نے فرمایا کہ صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بھلائی کا بدلہ بھلائی سے دے بلکہ وہ ہے کہ اگر دوسرا اسے برے سلوک سے قطع کرنے کی کوشش کرے تو وہ اچھا سلوک کرکے اسے جوڑے رکھنے کی کوشش کرے۔ (بخاری، کتاب الادب، باب لیس الواصل بالمکافیئ) اور یہ بات صرف رشتہ داروں سے مختص نہیں بلکہ ہر شخص کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرنا چاہیے۔
 اس مقام پر مومنوں کی مندرجہ بالا نو صفات بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ ایسے ہی لوگ جنت کے مستحق ہیں۔ پھر ایسے لوگوں کے آباء ان کی بیویاں اور ان کی اولاد میں سے جو لوگ نیک ہونگے۔ اگرچہ ان کے اعمال اس درجہ پر نہ پہنچے ہوں پھر بھی اللہ تعالیٰ انھیں ان کے ساتھ ملا کر جنت میں اکٹھا کردے گا اور فرشتے جس دروازے سے بھی ان پر داخل ہوں گے انھیں سلامتی کی دعائیں دیا کریں گے۔

تین مقامات

صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

فقط اللہ

دو پھول

آل محمد ﷺ

حق وباطل

 باطل بےثبات ہے حق وباطل کے فرق ، حق کی پائیداری اور باطل کی بےثباتی کی یہ دو مثالیں بیان فرمائیں ۔ ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ بادلوں سے مینہ برساتا ہے ، چشموں دریاؤں نالیوں وغیرہ کے ذریعے برسات کا پانی بہنے لگتا ہے ۔ کسی میں کم ، کسی میں زیادہ ، کوئی چھوٹی ، کوئی بڑی ۔ یہ دلوں کی مثال ہے اور ان کے تفاوت کی ۔ کوئی آسمانی علم بہت زیادہ حاصل کرتا ہے کوئی کم ۔ پھر پانی کی اس رو پر جھاگ تیرنے لگتا ہے ۔ ایک مثال تو یہ ہوئی ۔ دوسری مثال سونے چاندی لوہے تانبے کی ہے کہ اسے آگ میں تپایا جاتا ہے سونے چاندی زیور کے لئے لوہا تانبا برتن بھانڈے وغیرہ کے لئے ان میں بھی جھاگ ہوتے ہیں تو جیسے ان دونوں چیزوں کے جھاگ مٹ جاتے ہیں ، اسی طرح باطل جو کبھی حق پر چھا جاتا ہے ، آخر چھٹ جاتا ہے اور حق نتھر آتا ہے جیسے پانی نتھر کر صاف ہو کر رہ جاتا ہے اور جیسے چاندی سونا وغیرہ تپا کر کھوٹ سے الگ کر لئے جاتے ہیں ۔ اب سونے چاندی پانی وغیرہ سے تو دنیا نفع اٹھاتی رہتی ہے اور ان پر جو کھوٹ اور جھاگ آ گیا تھا ، اس کا نام ونشان بھی نہیں رہتا ۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے سمجھانے کے لئے کتنی صاف صاف مثالیں بیان فرما رہا ہے ۔ کہ سوچیں سمجھیں ۔ جیسے فرمایا ہے کہ ہم یہ مثالیں لوگوں کے سامنے بیان فرماتے ہیں لیکن اسے علماء خوب سمجھتے ہیں ۔ بعض سلف کی سمجھ میں جو کوئی مثال نہیں آتی تھی تو وہ رونے لگتے تھے کیونکہ انہیں نہ سمجھنا علم سے خالی لوگوں کا وصف ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پہلی مثال میں بیان ہے ان لوگوں کا جن کے دل یقین کے ساتھ علم الہٰی کے حامل ہوتے ہیں اور بعض دل وہ بھی ہیں ، جن میں رشک باقی رہ جاتا ہے پس شک کے ساتھ کا علم بےسود ہوتا ہے ۔ یقین پورا فائدہ دیتا ہے ۔ ابد سے مراد شک ہے جو کمتر چیز ہے ، یقین کار آمد چیز ہے ، جو باقی رہنے والی ہے ۔ جیسے زیور جو آگ میں تپایا جاتا ہے تو کھوٹ جل جاتا ہے اور کھری چیز رہ جاتی ہے ، اسی طرح اللہ کے ہاں یقین مقبول ہے شک مردود ہے ۔ پس جس طرح پانی رہ گیا اور پینے وغیرہ کا کام آیا اور جس طرح سونا چاندی اصلی رہ گیا اور اس کے سازو سامان بنے ، اسی طرح نیک اور خالص اعمال عامل کو نفع دیتے ہیں اور باقی رہتے ہیں ۔ ہدایت وحق پر جو عامل رہے ، وہ نفع پاتا ہے جیسے لوہے کی چھری تلوار بغیر تپائے بن نہیں سکتی ۔ اسی طرح باطل ، شک اور ریاکاری والے اعمال اللہ کے ہاں کار آمد نہیں ہو سکتے ۔ قیامت کے دن باطل ضائع ہو جائے گا ۔ اور اہل حق کو حق نفع دے گا ۔ سورہ بقرہ کے شروع میں منافقوں کی دو مثالیں اللہ رب العزت نے بیان فرمائیں ۔ ایک پانی کی ایک آگ کی ۔ سورہ نور میں کافروں کی دو مثالیں بیان فرمائیں ۔ ایک سراب یعنی ریت کی دوسری سمندر کی تہ کے اندھیروں کی ۔ ریت کا میدان موسم گرما میں دور سے بالکل لہریں لیتا ہوا دریا کا پانی معلوم ہوتا ہے ۔ چنانچہ بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن یہودیوں سے پوچھا جائے گا کہ تم کیا مانگتے ہو ؟ کہیں گے پیاسے ہو رہے ہیں ، پانی چاہئے تو ان سے کہا جائے گا کہ پھر جاتے کیوں نہیں ہو؟ چنانچہ جہنم انہیں ایسی نظر آئے گی جیسے دنیا میں ریتلے میدان ۔ دوسری آیت میں فرمایا آیت ( او کظلمات فی البحر لجی ) الخ بخری ومسلم میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جس ہدایت وعلم کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایا ہے اس کی مثال اس بارش کی طرح ہے جو زمین پر برسی ۔ زمین کے ایک حصہ نے تو پانی کو قبول کیا ، گھاس چارہ بکثرت آ گیا ۔ بعض زمین جاذب تھی ، اس نے پانی کو روک لیا پس اللہ نے اس سے بھی لوگوں کو نفع پہنچایا ۔ پانی ان کے پینے کے ، پلانے کے ، کھیت کے کام آیا اور جو ٹکڑا زمین کا سنگلاخ اور سخت تھا نہ اس میں پانی ٹھیرا نہ وہاں کچھ بیداوار ہوئی ۔ پس یہ اس کی مثال ہے جس نے دین میں سمجھ حاصل کی اور میری بعثت سے اللہ نے اسے فائدہ پہنچایا اس نے خود علم سیکھا دوسروں کو سکھایا اور مثال ہے اس کی جس نے اس کے لئے سر بھی نہ اٹھایا اور نہ اللہ کی وہ ہدایت قبول کی جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں ۔ پس وہ سنگلاخ زمین کی مثل ہے ایک اور حدیث میں ہے میری اور تمہاری مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ جلائی جب آگ نے اپنے آس پاس کی جیزیں روشن کر دیں تو پتنگے اور پروانے وغیرہ کیڑے اس میں گر گر کر جان دینے لگے وہ انہیں ہر چند روکتا ہے لیکن بس پھر بھی وہ برابر گر رہے ہیں بالکل یہی مثال میری اور تمہاری ہے کہ میں تمہاری کمر پکڑ پکڑ کر تمہیں روکتا ہوں اور کہہ رہا ہوں کہ آگ سے پرے ہٹو لیکن تم میری نہیں سنتے ، نہیں مانتے ، مجھ سے چھوٹ چھوٹ کر آگ میں گرے چلے جاتے ہو ۔ پس حدیث میں بھی پانی اور آگ کی دونوں مثالیں آ چکی ہیں ۔

رب کون

زمین

ہر وقت اللہ سے استغفار

اللہ کو پکارنا

  یعنی خوف اور امید کے وقت اسی ایک اللہ کو پکارنا صحیح ہے کیونکہ وہی ہر ایک کی پکار سنتا ہے اور قبول فرماتا ہے یا دعوت۔ عبادت کے معنی میں ہے یعنی، اسی کی عبادت حق اور صحیح ہے اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں، کیونکہ کائنات کا خالق، مالک اور مدبر صرف وہی ہے اس لئے عبادت صرف اسی کا حق ہے۔ 14۔ 2 یعنی جو اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو مدد کے لئے پکارتا ہیں۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص دور سے پانی کی طرف اپنی دونوں ہتھلیاں پھیلا کر پانی سے کہے کہ میرے منہ تک آجا، ظاہر بات ہے کہ پانی جامد چیز ہے، اسے پتہ ہی نہیں کہ ہتھیلیاں پھیلانے والے کی حاجت کیا ہے، اور نہ اسے پتہ ہے کہ وہ مجھ سے اپنے منہ تک پہنچنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اور نہ اس میں یہ قدرت ہے کہ اپنی جگہ سے حرکت کر کے اس کے ہاتھ یا منہ تک پہنچ جائے اسی طرح یہ مشرک اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انھیں نہ یہ پتہ ہے کہ کوئی انھیں پکار رہا ہے اور اس کی فلاں حاجت ہے اور نہ اس حاجت روائی کی ان میں قدرت ہی ہے۔ 14۔ 3 اور بےفائدہ بھی ہے، کیونکہ اس سے ان کو کئی نفع نہیں ہوگا۔   

انسان

آپ نماز کیوں پڑھتے ہیں۔؟


آپ نماز کیوں پڑھتے ہیں۔؟
یہ سوال میری لائف کا بہت مشکل سوال ثابت ہوا۔
فرض ہے۔۔،؟
شکر ادا کرنے کے لئے۔۔،؟
خدا ہے ہی اس قابل۔۔،؟
جہنم کے خوف سے۔۔،؟
یہ وہ جواب ہیں جو مجھے اس کے جواب میں ملتے۔

ایک ٹائم تھا جب میں نماز جہنم کے خوف سے پڑھتا تھا،
جہنم کا خوف مجھے اٹھا کے نماز کے لئے جا کھڑا کرتا تھا،
پر مجھے وہ نماز فرض کی ادائیگی کبھی بھی نہ لگ سکی۔
پھر مجھ سے نماز نہ تو آرام سے پڑھی جاتی تھی، اور نہ یکسوئی سے،
پھر خوف بھی کم ہوتا گیا۔

پھر جنّت کا بیان پڑھا تو اس کو پا لینے کی چاہ جاگی۔
میں پھر سے نماز پڑھنے لگا۔
مگر یہ بھی چند دن ہی رہی کیفیت۔

اپنے ابّا جی سے کہا تو بولے۔۔
بیٹا اس نے دنیا کی ھر نعمت سے نوازا ہے تم ان کا شکر ادا کرنے کے لئے پڑھا کرو۔
ذہن میں یہ رکھ کر بھی نماز پڑھ لی۔
دل کی حالت اب بھی وہی تھی۔

پھر ایک دن بہت عجیب بات ہوئی۔۔
میں جائے نماز پہ کھڑا ہوا اور مجھے نماز بھول گئی۔
بہت یاد کرنے کی کوشش کی۔
بھلا نماز ہم کیسےبھول سکتےہیں؟
مجھے خود پہ بہت رونا آیا۔
اور میں وہیں بیٹھ کے رونے لگا۔
تو مجھے لگا کوئی تسلی دینے والا ہاتھ ہے میرے سر پہ،، جیسے بچہ رو رہا ہو تو ہم سر پہ ہاتھ رکھ کے دلاسا دیتے ہیں،
مجھے لگا کوئی پوچھ رہا ہے، کہ کیا ہوا۔؟ میں نے کہا نماز یاد نہیں۔
تو جیسے پوچھا گیا ،،، تَو ؟
میں حیران پریشان ،، اس تَو کا جواب تو میرے پاس بھی نہیں تھا شائد ،،
پھر لگا کوئی مسکرا یا ہو ،، اور کہا ہو ،
نماز کیوں پڑھتے ہو ، ؟
خوف سے ؟
پر وہ تو غفور ہے ، رحیم ہے ، پھر خوف کیسا ؟
جنّت کے واسطے ؟ پر وہ تو درگزر فرماتا ہے ،،
شکر ادا کرنا ہے ؟ اسےضرورت نہیں ،،،،
فرض ہے؟ تو زمین پہ سر ٹکرانے کو نماز نہیں کہا جاتا ،
وہ اس قابل ہے ؟ تم کیا جانو وہ کس قابل ہے ،،،،
میرے پاس الفاظ ختم، میں بس اس آواز میں گم ،،،،،
وہ جو ہے نہ ،،،
وہ تم سے کلام چاہتا ہے ،
تم اسی کو دوست مانو ، اسی سے مشورہ کرو ،
اسی کو داستان سناؤ ،،،
جیسے اپنے دوست کو سناتے ہو ، دل کی بیقراری کم ہوگی ،
پھر نماز میں سکون ملے گا ،،،،،
میری آنکھ کھلی ، وہ یقیناً خواب تھا ،
میں نے دوبارہ سے وضو کر کے نماز شروع کی،
نماز خود بخود ادا ہوتی چلی گئی ،،،،،
دل میں سکون آتا چلا گیا ،
مگر میرا دل سجدے سے سر اٹھانے کو نہ کرے ، مجھے لگا میرے پاس ہے وہ ، مجھ سے بات کر رہا ہے ،
پھر اپنے دل کی ساری باتیں ہوتی چلی گیئں ،،
گرہیں کھلتی گیئں ،
سکون ملتا گیا ،،،
آسانیاں ہوتی گیئں ،،،
پھر آنکھ اذان سے پہلے کھلتی ،
محبوب سے ملاقات کا انتظار رہنے لگا ،
فرض کے ساتھ نفلی نمازیں بھی ادا ہوتی گیئں ،
اللہ کا کرم ہو گیا ،

اللہ ہم سب کو اسطرح نماز ادا کرنیکی توفیق دیں۔۔
اور ہمارا دل بدل جائے ۔۔۔۔ آمـــــيـن


بےشک

روشــنـی

تـوکل

ملائکہ کی صفت

 لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ ۔۔ : ” مُعَقِّبٰتٌ“ (باری باری ایک دوسرے کے بعد آنے والے) یہ ملائکہ کی صفت ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی نگرانی و حفاظت کا جو انتظام کر رکھا ہے اس کی ایک جھلک دکھائی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس نے ہر انسان پر کتنے فرشتے مقرر کر رکھے ہیں، کیونکہ دو فرشتے تو نیک و بدعمل لکھنے والے دائیں اور بائیں ہیں۔

(ق : ١٧، ١٨)

حفاظت کرنے والوں کی تعداد یہاں بیان نہیں فرمائی جو چاروں طرف سے انسان کی ہر آفت و مصیبت سے حفاظت کرتے ہیں، سوائے اس مصیبت کے جو اللہ نے اس کے لیے لکھی ہے۔ فرشتوں کی ایک اور قسم کے متعلق عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ وَقَدْ وُکِّلَ بِہٖ قَرِیْنُہٗ مِنَ الْجِنِّ ، قَالُوْا وَ إِیَّاکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ قَالَ وَإِیَّايَ إِلاَّ أَنَّ اللّٰہَ أَعَانَنِيْ عَلَیْہِ فَأَسْلَمَ فَلاَ یَأْمُرُنِيْ إِلاَّ بِخَیْرٍ )

[ مسلم، صفات المنافقین، باب تحریش الشیطان۔۔ : ٢٨١٤ ]

 تم میں سے جو بھی شخص ہے اس کے ساتھ اس کا ایک قرین (ساتھ رہنے والا) جنوں سے مقرر کیا گیا ہے اور ایک قرین فرشتوں سے۔ “ لوگوں نے پوچھا : ” یا رسول اللہ آپ کے ساتھ بھی (جن مقرر ہے) ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ”(ہاں) میرے ساتھ بھی، مگر اللہ نے اس کے مقابلے میں میری مدد فرمائی ہے تو وہ تابع ہوگیا ہے، سو وہ مجھے خیر کے سوا کوئی حکم نہیں دیتا۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتایا کہ باری والے فرشتے صبح اور عصر کے وقت تبدیل ہوتے ہیں، ان وقتوں میں آنے اور جانے والوں کی ملاقات ان دونوں نمازوں میں ہوتی ہے۔ 

[ بخاري، مواقیت الصلاۃ، باب فضل صلاۃ العصر : ٥٥٥۔ مسلم : ٦٣٢ ]

اس حقیقت کے اظہار کا مقصد یہ ہے کہ انسان ہر آن اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہتا ہے اور اس کی کوئی حرکت اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں۔ 

سوچیں ضرور

استغفار