Tuesday, October 14, 2025
قریب ہے
وہ بلندیوں والا اور بڑائیوں والا ہے وہ بہت بڑا اور بہت بلند ہے وہ اونچائی والا اور کبریائی والا ہے۔ اس کی عظمت اور جلالت کا یہ حال ہے کہ قریب ہے آسمان پھٹ پڑیں۔ فرشتے اس کی عظمت سے کپکپاتے ہوئے اس کی پاکی اور تعریف بیان کرتے رہتے ہیں اور زمین والوں کے لیے مغفرت طلب کرتے رہتے ہیں۔
خوشحالی میں اکثر انسانوں کا اللہ کو بھول جانا
یعنی جب انسان پر خوشحالی اور آسودگی کا دور آتا ہے تو پھولا نہیں سماتا اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اس وقت دراصل وہ خود خدا بنا بیٹھا ہوتا ہے۔ اور اگر اسے اللہ کی آیات سنائی جائیں اور یہ بتایا جائے کہ یہ سب انعام اللہ ہی نے کیا لہذا تمہیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ اس کے حقوق ادا کرنے چاہیں اور اپنے برے انجام سے ڈرنا چاہئے تو اسے ایسی باتیں ناگوار اور تلخ محسوس ہوتی ہیں جنہیں وہ سننا بھی گوارا نہیں کرتا اور اٹھ کر چلا جاتا ہے۔ لیکن جب پھر کسی بلا میں پھنس جاتا ہے تو اس وقت اسے اپنا وہ پروردگار یاد آنے لگتا ہے جس کی آیات سننے سے بھی بدکتا تھا۔ دل میں تو مایوس ہوتا ہے کیونکہ اسے اس مصیبت سے نجات کے ظاہری اسباب نظر نہیں آتے۔ مگر جب تکلیف اسے پریشان کردیتی ہے تو بےاختیار اس کے ہاتھ اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھ جاتے ہیں۔ اور پھر وہ اللہ سے لمبی چوڑی دعائیں بھی کرتا ہے اور وعدے وعید بھی کرنے لگتا ہے۔ اور یہ حالت چونکہ اس کی اضطراری کیفیت ہوتی ہے۔ لہذا اگر اللہ اسے اس مصیبت سے نجات دے بھی دے تو بعد میں پھر وہ وہی کچھ بن جاتا ہے جو پہلے تھا۔ اِلا ماشاء اللہ تھوڑے ہی لوگ ہوتے ہیں جو بعد میں اللہ سے کئے ہوئے اس قول وقرار کو یاد رکھتے اور حقیقتاً اس کے فرمانبردار بن جاتے ہیں۔ اکثریت ایسی ہی ہوتی ہے جو خوشحالی کے دور میں اپنے پروردگار کو یکسر بھول ہی جاتی ہے۔
جب انسان اللہ کی نعمتیں پا لیتا ہے تو اطاعت سے منہ موڑ لیتا ہے اور ماننے سے جی چراتا ہے ‘۔ جیسے فرمایا «فَتَوَلّٰى بِرُكْنِهٖ وَقَالَ سٰحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ» ۱؎ [51-الذاريات:39] ’ اور جب اسے کچھ نقصان پہنچتا ہے تو بڑی لمبی چوڑی دعائیں کرنے بیٹھ جاتا ہے ‘۔ ”عریض کلام“ اسے کہتے ہیں جس کے الفاظ بہت زیادہ ہوں اور معنی بہت کم ہوں۔ اور جو کلام اس کے خلاف ہو یعنی الفاظ تھوڑے ہوں اور معنی زیادہ ہوں تو اسے ”وجیز کلام“ کہتے ہیں۔ وہ بہت کم اور بہت کافی ہوتا ہے۔
اسی مضمون کو اور جگہ اس طرح بیان کیا گیا ہے «وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَان الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْبِهٖٓ اَوْ قَاعِدًا اَوْ قَاىِٕمًا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهٗ مَرَّ كَاَنْ لَّمْ يَدْعُنَآ اِلٰى ضُرٍّ مَّسَّهٗ كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِيْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ» ۱؎ [10-یونس:12] ، ’ جب انسان کو مصیبت پہنچتی ہے تو اپنے پہلو پر لیٹ کر اور بیٹھ کر اور اکٹھے ہو کر غرض ہر وقت ہم سے مناجات کرتا رہتا ہے اور جب وہ تکلیف ہم دور کر دیتے ہیں تو اس بےپرواہی سے چلا جاتا ہے کہ گویا اس مصیبت کے وقت اس نے ہمیں پکارا ہی نہ تھا ‘۔
انسان کی حرص کی انتہا
آیت ٤٩ لَا یَسْئَمُ الْاِنْسَانُ مِنْ دُعَآئِ الْخَیْرِ ” انسان بھلائی مانگنے سے نہیں تھکتا “- یہاں بھلائی (خیر) سے مراد دنیوی نعمتوں اور مال و دولت کی فراوانی ہے۔ کسی انسان کے پاس جتنی چاہے دولت ہو اور جس قدر چاہے نعمتیں اسے میسر ہوں ‘ پھر بھی مزید حاصل کرنے کی اس کی خواہش کبھی ختم نہیں ہوتی۔- وَاِنْ مَّسَّہُ الشَّرُّ فَیَئُوْسٌ قَنُوْطٌ ” اور اگر کہیں اسے کوئی تکلیف پہنچ جائے تو بالکل مایوس و دل شکستہ ہوجاتا ہے۔ “
۔ یعنی ایک عام اور دنیا دار انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ مال و دولت سے کبھی سیر نہیں ہوتا۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ ہر طرح کی بھلائیاں میرے ہی لیے ہوں۔ رزق بھی کشادہ اور وافر ملے، خوشحالی اور عیش و عشرت نصیب ہو، تندرستی بھی ہو اور اولاد بھی اچھی ہو۔ غرض بھلائی کی جو قسم ہوسکتی ہے وہ چاہتا ہے کہ سب کچھ اسے مہیا ہو اور اگر یہ سب چیزیں مہیا ہو بھی جائیں تو پھر یہ چاہتا ہے کہ ان میں ہر آن اضافہ بھی ہوتا رہے اور اس کی یہ حرص کبھی ختم ہونے کو نہیں آتی۔ چناچہ سیدنا عبداللہ بن زبیر نے فرمایا کہ رسول اللہ نے فرمایا : اگر آدمی کو ایک وادی بھر سونا مل جائے جب بھی (قناعت نہیں کرنے کا) دوسری وادی چاہے گا اور اگر دوسری مل جائے تو تیسری چاہے گا۔ بات یہ ہے کہ آدمی کا پیٹ مٹی ہی بھرتی ہے (بخاری۔ کتاب الرقاق۔ باب ما یتقی من فتنۃ المال)- [٦٥] تکلیف میں مایوس اور شاکی :۔ اور اس کی طبیعت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب اسے کوئی تنگی، فاقہ یا بیماری یا اسی قسم کا کوئی دوسرا دکھ پہنچتا ہے اور اسے اس تکلیف کے دور ہونے کے ظاہری اسباب نظر نہیں آتے تو اللہ کی رحمت سے مایوس ہو کر ناشکری کی باتیں کرنے لگتا ہے۔ وہ یہ نہیں سمجھتا کہ ان ظاہری اسباب کے علاوہ بیشمار باطنی اسباب بھی موجود ہیں جو اسے نظر نہیں آسکتے اور اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہوتے ہیں۔ اگر وہ اللہ پر بھروسہ کرنا سیکھ جائے تو یقیناً اس کی یہ حالت نہ ہو۔
علم الٰہی کی وسعتیں
اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ قیامت کب آئے گی؟ اس کا علم اس کے سوا اور کسی کو نہیں ‘۔ { تمام انسانوں کے سردار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے جب فرشتوں کے سرداروں میں سے ایک سردار یعنی جبرائیل علیہ السلام نے قیامت کے آنے کا وقت پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { جس سے پوچھا جاتا ہے وہ بھی پوچھنے والے سے زیادہ جاننے والا نہیں }۔
[صحیح بخاری:50]
قرآن کریم کی ایک آیت میں ہےاسی طرح اللہ تعالیٰ جل شانہ نے اور جگہ فرمایا آیت «لَا يُجَلِّيْهَا لِوَقْتِهَآ اِلَّا هُوَ ۂ ثَقُلَتْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَا تَاْتِيْكُمْ اِلَّا بَغْتَةً يَسْــــَٔـلُوْنَكَ كَاَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللّٰهِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ»
پھر فرماتا ہے کہ ’ ہر چیز کو اس اللہ کا علم گھیرے ہوئے ہے یہاں تک کہ جو پھل شگوفہ سے کھل کر نکلے ‘، «اللَّـهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ أُنثَىٰ وَمَا تَغِيضُ الْأَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ وَكُلُّ شَيْءٍ عِندَهُ بِمِقْدَارٍ» [13-الرعد:8] ’ جس عورت کو حمل رہے جو بچہ اسے ہو یہ سب اس کے علم میں ہے۔ زمین و آسمان کا کوئی ذرہ اس کے وسیع علم سے باہر نہیں ‘۔
جیسے فرمایا آیت «لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْـقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ وَلَآ اَصْغَرُ مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْبَرُ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ»
قیامت والے دن مشرکوں سے تمام مخلوق کے سامنے اللہ تعالیٰ سوال کرے گا کہ ’ جنہیں تم میرے ساتھ پرستش میں شریک کرتے تھے وہ آج کہاں ہیں؟‘ وہ جواب دیں گے کہ تو ہمارے بارے میں علم رکھتا ہے۔ آج تو ہم میں سے کوئی بھی اس کا اقرار نہ کرے گا کہ تیرا کوئی شریک بھی ہے، قیامت والے ان کے معبود ان باطل سب گم ہو جائیں گے کوئی نظر نہ آئے گا جو انہیں نفع پہنچا سکے۔ اور یہ خود جان لیں گے کہ آج اللہ کے عذاب سے چھٹکارے کی کوئی صورت نہیں یہاں ظن یقین کے معنی میں ہے۔
Friday, October 3, 2025
نیک اعمال لوگ
ایماندار نیک اعمال لوگ جنتوں میں جائیں گے جہاں چاہیں جائیں آئیں چلیں پھریں کھائیں پیئیں ہمیشہ ہمیش کے لیے وہیں رہیں۔ یہاں نہ آزردہ ہوں نہ دل بھرے نہ طبیعت بھرے نہ مارے جائیں نہ نکالے جائیں نہ نعمتیں کم ہوں۔ وہاں ان کا تحفہ سلام ہی سلام ہو گا ۔
جیسے فرمان ہے «حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوهَا وَفُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلَامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ» [39-الزمر:73] ، یعنی ’ جب جنتی جنت میں جائیں گے اور اس کے دروازے ان کے لیے کھولے جائیں گے اور وہاں کے داروغہ انہیں سلام علیک کہیں گے ‘، الخ۔اور آیت میں ہے «وَالْمَلَائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِم مِّن كُلِّ بَابٍ سَلَامٌ عَلَيْكُم» [13-الرعد:23، 24] ’ ہر دروازے سے ان کے پاس فرشتے آئیں گے اور سلام علیکم کہیں گے ۔
اور آیت میں ہے کہ «أُولَـٰئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا وَيُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَسَلَامًا» [25-الفرقان:75] ’ وہاں تحیۃ اور سلام ہی سنائے جائیں گے۔
اور آیت میں ہے «دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّـهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَامٌ وَآخِرُ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» [10-یونس:10] ’ ان کی پکار وہاں اللہ کی پاکیزگی کا بیان ہو گا اور ان کا تحفہ وہاں سلام ہو گا۔ اور ان کی آخر آواز اللہ رب العالمین کی حمد ہوگی ‘۔
I am near.
And when My servants ask you, [O Muhammad], concerning Me - indeed I am near. I respond to the invocation of the supplicant when he calls upon Me.
Surat Al-Baqarah [2:186] -
Indeed
Indeed, I am Allah . There is no deity except Me, so worship Me and establish prayer for My remembrance.
Surat Taha [20:14] -
شیطانی شر سے بچنے کا طریقہ
آیت ٣٦ وَاِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ ” اور اگر کبھی تمہیں شیطان کی طرف سے کوئی چوک لگنے لگے تو اللہ کی پناہ طلب کرلیا کرو۔ “- اگر کبھی کسی کے ناروا سلوک اور مخالفانہ رویے پر غصہ آجائے تو فوراً سمجھ لو کہ یہ شیطان کی اکساہٹ ہے ‘ شیطان تم پر حملہ آور ہوا چاہتا ہے۔ چناچہ ایسی کیفیت میں فوراً اللہ کی پناہ طلب کرلیا کرو ‘ کیونکہ صرف اسی کی پناہ میں آکر تم شیطان کے وار سے بچ سکتے ہو۔- اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ” یقینا وہی ہے سب کچھ سننے والا ‘ سب کچھ جاننے والا۔ “- یہ آیت سورة الاعراف (آیت ٢٠٠) میں بھی آچکی ہے۔ وہاں اِنَّہٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ کے الفاظ ہیں۔ گویا یہاں اللہ تعالیٰ کی مذکورہ صفات (السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ) کے بارے میں زیادہ زور اور تاکید کا انداز پایا جاتا ہے۔
غصہ کا علاج :۔ سیدنا سلیمان بن صُرَد کہتے ہیں کہ ایک دفعہ دو آدمیوں نے رسول اللہ کے سامنے گالی گلوچ کی اور ایک کو اتنا غصہ آیا کہ اس کا چہرہ پھول گیا۔ اور رنگ بدل گیا آپ نے فرمایا : مجھے ایک ایساکلمہ معلوم ہے۔ اگر غصہ کرنے والا شخص وہ کلمہ کہے تو اس کا غصہ جاتا رہتا ہے۔ ایک دوسرا شخص اس کے پاس گیا اور آپ نے جو فرمایا تھا اسے اس کی خبر دی اور کہا : شیطان سے اللہ کی پناہ مانگ وہ کہنے لگا کیا تم نے مجھے دیوانہ سمجھ لیا ہے یا مجھے کوئی روگ ہوگیا ہے ؟ (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب ما ینہی من السباب واللعن) حالانکہ اس کا یہ جواب ہی دیوانگی کی علامت ہے۔ غصہ میں انسان کی عقل پر جذبات غالب آجاتے ہیں۔ اور عقل جاتی رہتی ہے اور دیوانہ بھی اسے کہتے ہیں جس میں عقل نہ ہو۔ رہا یہ سوال کہ وہ کلمہ کون سا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ اللہ سے پناہ مانگے یا ( أعُوْذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیطْنِ الرَّجِیْمِ ) کہے
سورۂ اعراف میں ہے جہاں ارشاد ہے «خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِيْنَ» ۱؎ [7-الأعراف:199] ، اور سورۃ مومنین کی آیت «اِدْفَعْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ السَّيِّئَةَ» ۱؎ [23-المؤمنون:96] ، میں حکم ہوا ہے کہ ’ در گزر کرنے کی عادت ڈالو اور اللہ کی پناہ میں آ جایا کرو برائی کا بدلہ بھلائی سے دیا کرو ‘
نیکی اور برائی
بدی کا جواب بدی سے دینے سے دعوت کو نقصان پہنچتا ہے اور بھلائی سے دینے سے دشمن بھی دوست بن جاتا ہے۔ اس آیت میں دعوت الیٰ اللہ کا ایک زریں اصول بیان کیا گیا ہے۔ پہلے تو یہ بتایا گیا ہے کہ نیکی اور بدی کبھی ایک جیسے نہیں ہوسکتے۔ اور یہ اس لیے بتایا گیا ہے کہ کفار مکہ دعوت اسلام کو کچلنے کے لیے بدترین ہتھکنڈوں پر اتر آئے تھے۔ مسلمانوں کو یہ سمجھایا جارہا ہے کہ بدی کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوسکتا۔ بدی بالآخر بدی کرنے والے کا ہی بھٹہ بٹھا دیتی ہے۔ لہذا داعی الیٰ اللہ کو بدی کا جواب کبھی بدی سے نہ دینا چاہئے۔ بلکہ اسے برداشت کرنا چاہئے اسے کوئی فوری جواب نہ دینا چاہئے اور اس سے اگلا اقدام یہ ہونا چاہئے کہ اس کی بدی کا جواب بھلائی سے دیا جائے۔ اس طرح دشمن خود نگوسار اور شرمندہ ہوگا اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے گا کہ میں نے کیا سلوک کیا تھا۔ اور فریق مخالف کا میرے حق میں سلوک کیا ہے ؟ وہ آپ کے خلوص اور آپ کی خیرخواہی اور راست بازی کا معتقد ہوجائے گا حتیٰ کہ آپ کی مخالفت چھوڑ کر آپ کے ساتھ آملے گا اور آپ کا جگری دوست بن جائے گا۔ اور اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کی دعوت الی اللہ کی منزل کھوٹی نہیں ہوگی۔ بلکہ اس میں مزید پیش رفت ہوجائے گی۔ اور اگر آپ برائی کا جواب برائی سے دیں گے تو پھر ادھر سے مزید برائی اٹھے گی اس طرح ایک تو مخالفت پہلے سے بھی بڑھ جائے گی۔ دوسرے تمہارا اصل مقصد فوت ہوجائے گا اور دعوت الی اللہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ جائے گا۔
تخلیق کائنات کا مرحلہ وار ذکر
یعنی پہاڑوں کو زمین میں سے ہی پیدا کر کے ان کو اس کے اوپر گاڑ دیا تاکہ زمین ادھر یا ادھر نہ ڈولے۔ 10۔ 2 یہ اشارہ ہے پانی کی کثرت، انواع و اقسام کے رزق، معدنیات اور دیگر اسی قسم کی اشیاء کی طرف یہ زمین کی برکت ہے، کثرت خیر کا نام ہی برکت ہے 10۔ 3 اقوات، قوت غذا، خوراک کی جمع ہے یعنی زمین پر بسنے والی تمام مخلوقات کی خوارک اس میں مقدر کردی ہے یا بندوبست کردیا ہے اور رب کی اس تقدیر یا بندوبست کا سلسلہ اتنا وسیع ہے کہ کوئی زبان اسے بیان نہیں کرسکتی کوئی قلم اسے رقم نہیں کرسکتا اور کوئی کیلکولیٹر اسے گن نہیں سکتا بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ہر زمین کے دوسرے حصوں میں پیدا نہیں ہوسکتیں تاکہ ہر علاقے کی یہ مخصوص پیداوار ان ان علاقوں کی تجارت و معیشت کی بنیادیں بن جائیں چناچہ یہ مفہوم بھی اپنی جگہ صحیح اور بالکل حقیقت ہے۔ 10۔ 4 یعنی تخلیق کے پہلے دو دن اور وحی کے دو دن سارے دن ملا کر یہ کل چار دن ہوئے، جن میں یہ سارا عمل تکمیل کو پہنچا۔ 10۔ 5 سوآء کا مطلب ہے۔ ٹھیک چار دن میں ہوا۔ یعنی پوچھنے والوں کو بتلا دو کہ یہ عمل ٹھیک چار دن میں ہوا۔ یا پورا یا برابر جواب ہے سائلین کے لئے۔
آیت ١١ ثُمَّ اسْتَوٰٓی اِلَی السَّمَآئِ وَہِیَ دُخَانٌ ” پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا ‘ اور ابھی وہ ایک دھواں سا تھا “- یہ اس وقت کا ذکر ہے جب آسمان ایک دھویں کی شکل میں تھا اور ابھی سات آسمانوں کی الگ الگ صورتیں وجود میں نہیں آئی تھیں۔ ان آیات میں کائنات کی تخلیق کے ابتدائی مرحلے سے متعلق کچھ اشارے پائے جاتے ہیں۔ سائنسی شواہد کے مطابق کے بعد آگ کا ایک بہت ہی بڑا گولا وجود میں آیا۔ پھر اس گولے میں مزید دھماکے ہوئے اور اس طرح اس مادے کے جو حصے علیحدہ ہوئے ان سے کہکشائیں بننا شروع ہوئیں۔ - فَقَالَ لَہَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا اَوْ کَرْہًا ” تو اس نے آسمان اور زمین سے کہا کہ تم دونوں چلے آئو خوشی سے یا جبراً “- قَالَتَآ اَتَیْنَا طَآئِعِیْنَ ” ان دونوں نے کہا کہ ہم حاضر ہیں پوری آمادگی کے ساتھ۔ “ .
آیت ١٢ فَقَضٰہُنَّ سَبْعَ سَمٰواتٍ فِیْ یَوْمَیْنِ ” پھر اس نے ان کو سات آسمانوں کی شکل دے دی ‘ دو دنوں میں۔ “- قرآن حکیم میں سات مقامات پر یہ ذکر ملتا ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق چھ دنوں میں ہوئی ‘ لیکن یہ قرآن کا واحد مقام ہے جہاں نہ صرف ان چھ دنوں کی مزید تفصیل دی گئی ہے بلکہ اس تخلیقی عمل کی ترتیب کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے۔ یعنی پہلے زمین بنی اور سات آسمان اس کے بعد وجود میں آئے۔ لیکن ابھی تک ہم نہ تو مذکورہ چھ دنوں کے مفہوم کو سمجھ سکے ہیں اور نہ ہی زمین و آسمان کے تخلیقی عمل کی ترتیب سے متعلق سائنٹیفک انداز میں کچھ جان سکتے ہیں۔ بہر حال ہمارا یمان ہے کہ مستقبل میں کسی وقت سائنس ضرور ان معلومات تک رسائی حاصل کرے گی اور انسان اس حقیقت کی تہہ تک ضرور پہنچ جائے گا کہ زمین و آسمان کے وجود میں آنے کی صحیح ترتیب وہی ہے جو قرآن نے بیان فرمائی ہے۔- وَاَوْحٰی فِیْ کُلِّ سَمَآئٍ اَمْرَہَا ” اور اس نے وحی کردیا ہر آسمان پر اس کا حکم “- سات آسمان بنانے کے بعد ہر آسمان پر اس سے متعلق تفصیلی احکامات بھیج دیے گئے۔- وَزَیَّنَّا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَحِفْظًا ” اور ہم نے آسمانِ دنیا کو چراغوں سے ّمزین کردیا اور اس کی خوب حفاظت کی۔ “- چراغوں سے مراد ستارے ہیں۔ ستارے زمین سے قریب ترین آسمان کے لیے باعث زینت بھی ہیں اور شیاطین جن کی سرگرمیوں کے خلاف حفاظتی چوکیوں کا کام بھی دیتے ہیں۔ چناچہ جو شیاطین جن غیب کی خبریں حاصل کرنے کے لیے ممنوعہ حدود میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں ان پر ان ستاروں سے میزائل داغے جاتے ہیں۔ (اس موضوع پر مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : سورة الحجر کی آیت ١٧ اور سورة الانبیاء کی آیت ٣٢ کی تشریح۔ )- ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ ” یہ اس ہستی کا بنایا ہوا اندازہ ہے جو زبردست ہے اور ُ کل علم رکھنے والا ہے۔ “
Thursday, September 25, 2025
صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم
بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں ، اے ایمان والو تم بھی اس پر درود اور سلام بھیجو۔
مسئلہ رزق
اللہ جس کی روزی میں کشادگی دینا چاہے قادر ہے، جسے تنگ روزی دینا چاہے قادر ہے، یہ سب کچھ حکمت وعدل سے ہو رہا ہے۔ کافروں کو دنیا پر ہی سہارا ہوگیا۔ یہ آخرت سے غافل ہو گئے سمجھنے لگے کہ یہاں رزق کی فراوانی حقیقی اور بھلی چیز ہے حالانکہ دراصل یہ مہلت ہے اور آہستہ پکڑ کی شروع ہے لیکن انہیں کوئی تمیز نہیں۔
«قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقَىٰ وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِيلًا»
[4-النساء:77]
’ مومنوں کو جو آخرت ملنے والی ہے اس کے مقابل تو یہ کوئی قابل ذکر چیز نہیں یہ نہایت ناپائیدار اور حقیر چیز ہے آخرت بہت بڑی اور بہتر چیز۔ لیکن عموماً لوگ دینا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں ‘۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کلمہ کی انگلی سے اشارہ کر کے فرمایا کہ اسے کوئی سمندر میں ڈبو لے اور دیکھے کہ اس میں کتنا پانی آتا ہے؟ جتنا یہ پانی سمندر کے مقابلے پر ہے اتنی ہی دنیا آخرت کے مقابلے میں ہے
۔ [صحیح مسلم:2858]
ایک چھوٹے چھوٹے کانوں والی بکری کے مرے ہوئے بچے کو راستے میں پڑا ہوا دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جیسا یہ ان لوگوں کے نزدیک ہے جن کا یہ تھا اس سے بھی زیادہ بے کار اور ناچیز اللہ کے سامنے ساری دنیا ہے“ }۔
[صحیح مسلم:29570]
مال ودولت کی فراوانی اللہ کی نظر رحمت کی دلیل نہیں :۔ دنیا دار لوگوں کا ہمیشہ سے یہی دستور رہا ہے کہ وہ کسی شخص کی قدر و قیمت کو مال و دولت اور دنیوی جاہ و حشم کے پیمانوں سے ناپتے ہیں۔ ان لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ جو شخص جس قدر خوشحالی سے زندگی بسر کر رہا ہے اتنا ہی اس کا پروردگار اس پر مہربان ہے اور کسی کی معیشت کا تنگ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ اس سے ناراض ہے۔ اس آیت میں اسی نظریہ کی تردید کی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ رزق کی کمی بیشی کے لیے ایک دوسرا ہی قانون ہے جس میں دوسری قسم کی مصلحتیں ہیں دنیا میں رزق کی کمی بیشی کا انسان کی ہدایت اور فلاح و نجات سے کچھ تعلق نہیں بلکہ رزق کی زیادتی اکثر انسانوں کے لیے گمراہی کا سبب بن جاتی ہے۔ لہذا دنیوی مال و متاع پر ریجھ نہ جانا چاہئے۔ کیونکہ یہ سب چیزیں فانی ہیں اور ان دائمی اور پائیدار نعمتوں کے مقابلہ میں بالکل ہیچ ہیں جو اللہ کے فرمانبردار لوگوں کو اخروی زندگی میں عطا کی جائیں گی۔