Sunday, April 20, 2025

واپسی ناممکن ہو گی

 وَيَوْمَ تَــقُوْمُ السَّاعَةُ يُـقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَ ۔۔ : قیامت کے دن مجرم لوگ قسمیں کھائیں گے کہ وہ ایک گھڑی کے سوا نہیں ٹھہرے، یعنی دنیا میں ان کی زندگی ایک گھڑی سے زیادہ نہیں تھی۔ انھیں اتنا وقت ہی نہیں ملا کہ وہ اپنے رب کو پہچانتے یا اپنے پیغمبروں کی باتوں پر عمل کرتے۔ اس سے ان کا مقصد یہ ہوگا کہ اتنے تھوڑے وقت میں ہم پر حجت قائم نہیں ہوئی، اس لیے ہم معذور ہیں۔ (ابن کثیر) یعنی جس طرح یہ لوگ دنیا میں حق کو پہچانتے تھے اور جانتے بوجھتے ہوئے اسے چھوڑ کر باطل کی طرف جاتے اور باطل کے سچا ہونے پر قسمیں اٹھاتے تھے، اسی طرح آخرت میں بھی یہ جانتے ہوئے کہ وہ دنیا میں اتنی مدت رہے ہیں کہ اگر جاننا یا ماننا چاہتے تو یہ کام کرسکتے تھے۔ (فاطر : ٣٧) جھوٹی قسمیں کھائیں گے کہ وہ دنیا میں ایک گھڑی سے زیادہ رہے ہی نہیں اور سمجھ رہے ہوں گے کہ دنیا کی طرح یہاں بھی قسموں کی وجہ سے ہمارا جھوٹ چل جائے گا۔ دیکھیے سورة مجادلہ (١٨) ۔

واپسی ناممکن ہوگی اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ کفار دنیا اور آخرت کے کاموں سے بالکل جاہل ہیں ۔ دنیا میں ان کی جہالت تو یہ ہے کہ اللہ کیساتھ اوروں کو شریک کرتے رہے اور اخرت میں یہ جہالت کریں گے کہ قسمیں کھاکر کہیں گے کہ ہم دنیا میں صرف ایک ساعت ہی رہے ۔ اس سے ان کامقصد یہ ہوگا کہ اتنے تھوڑے سے وقت میں ہم پر کوئی حجت قائم نہیں ہوئی ۔ ہمیں معذور سمجھا جائے ۔ اسی لیے فرمایا کہ یہ جیسے یہاں بہکی بہکی باتیں کررے ہیں دنیا میں یہ بہکے ہوئے ہی رہے ۔ فرماتا ہے کہ علماء کرام جس طرح ان کے اس کہنے پر دنیا میں انہیں دلائل دے کر قائل معقول کرتے رہے آخرت میں بھی ان سے کہیں گے کہ تم جھوٹی قسمیں کھا رہے ہو ۔ تم کتاب اللہ یعنی کتاب اعمال میں اپنی پیدائش سے لے کر جی اٹھنے تک ٹھہرے رہے لیکن تم بےعلم اور نرے جاہل لوگ ہو ۔ پس قیامت کے دن ظالموں کو اپنے کرتوت سے معذرت کرنا محض بےسود رہے گا ۔ اور دنیا کی طرف لوٹائے نہ جائیں گے ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَاِنْ يَّسْـتَعْتِبُوْا فَمَا هُمْ مِّنَ الْمُعْتَـبِيْنَ» ‏‏‏‏ 

[41-فصلت:24]

 ‏‏‏‏ یعنی ” اگر وہ دنیا کی طرف لوٹنا چاہیں تو لوٹ نہیں سکتے “۔

انسان کی تدریجی حالتیں

حق و ہدایت کی آواز

صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

یہ قرآن

اس پار

پسند

رحمت الٰہی

سیلف ہیلپ

ہمیشہ زندہ

اللہ وہ ہے

سـکون

آؤ مل کر

تم شکر گزاری کرو

توحید اور آخرت

سود کی بےبرکتی

صلہ رحمی کی تاکید

فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ : فاء (پس) کا مطلب یہ ہے کہ جب ثابت ہوگیا کہ رزق کا فراخ ہونا یا تنگ ہونا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے تو آدمی کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے دریغ نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ اگر اس کا رزق فراخ ہے تو خرچ کرنے سے کم نہیں ہوگا اور اگر تنگ ہے تو روک کر رکھنے سے زیادہ نہیں ہوگا، بلکہ صدقے کی برکت سے اس میں اضافہ ہی ہوگا۔ ” حَقَّهٗ “ (اس کا حق) کا مطلب یہ ہے کہ تم قرابت دار، مسکین اور مسافر کو کچھ دے رہے ہو تو یہ اس کا حق ہے، جو تم ادا کر رہے ہو، جس کے ادا نہ کرنے پر اسی طرح باز پرس ہوگی جس طرح کسی قرض خواہ کا قرض ادا نہ کرنے پر باز پرس ہوگی۔ سورة توبہ (٦٠) میں زکوٰۃ کے آٹھ مصارف بیان فرمائے ہیں، یہاں ان میں سے صرف تین ذکر فرمائے۔ رازی نے اس میں یہ حکمت بیان فرمائی ہے کہ ان تینوں پر زکوٰۃ کے علاوہ خرچ کرنا بھی حق ہے، مثلاً والدین اور اولاد کا نفقہ ہے، اسی طرح درجہ بدرجہ قرابت داروں کی ضروریات پر خرچ ہے، یہ زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد بھی واجب رہتا ہے۔ اسی طرح مسکین اور مسافر پر بھی خرچ واجب ہے۔ آدمی زکوٰۃ ادا کرنے کے ساتھ ان کے حقوق سے سبک دوش نہیں ہوجاتا۔ مثلاً ایک شخص زکوٰۃ ادا کرچکا ہے، اس کے پاس کوئی مہمان آجاتا ہے یا ایسا مسافر جس کا زاد راہ ختم ہوچکا ہے، یا مسکین آجاتا ہے جس نے کھانا نہیں کھایا یا وہ اپنی مسکینی کی وجہ سے پاؤں سے ننگا ہے تو ان کا حق ہے کہ ان پر خرچ کیا جائے۔ فقیر کی حالت مسکین سے بھی پتلی ہوتی ہے، اس لیے اس کا الگ ذکر نہیں فرمایا، کیونکہ اس پر خرچ کرنا بالاولیٰ واجب ہے۔ رہے زکوٰۃ کے باقی چار مصارف، یعنی عاملین، مؤلفۃ القلوب، غارمین اور فی سبیل اللہ، تو وہ ایسے مصارف ہیں کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے بعد ان پر خرچ اس طرح واجب نہیں جس طرح آیت میں مذکور دیگر لوگوں پر واجب ہے۔ (واللہ اعلم)- ذٰلِكَ خَيْرٌ لِّــلَّذِيْنَ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ : عام طور پر اس کا مطلب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہیں۔ اگرچہ ” وَجْهَ “ کا مطلب رضا ہوسکتا ہے، مگر ” وَجْهَ “ کا اصل معنی تو چہرہ ہے۔ دوسرا معنی اس وقت کیا جاتا ہے جب حقیقی معنی مراد نہ لیا جاسکتا ہو، جب کہ یہاں حقیقی معنی مراد لینے میں کوئی مشکل نہیں، بلکہ جو لطف حقیقی معنی مراد لینے میں ہے وہ مجازی معنی مراد لینے میں نہیں، یعنی یہ ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے چہرے کے دیدار کے طلب گار ہیں، کیونکہ اللہ کے دیدار سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں۔ اس آیت سے خرچ کرتے وقت نیت اللہ کے لیے خالص ہونے کی اہمیت ظاہر ہو رہی ہے۔- وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ : معلوم ہوا جو لوگ قرابت داروں، مسکینوں اور مسافروں کو ان کا حق ادا نہیں کرتے وہ کامل فلاح پانے والے نہیں ہوسکتے

Saturday, April 19, 2025

صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

صابـر

کیا انہوں نے نہیں دیکھا

وہ دل

مخلص

انسان کی ناشکری

یاد رکھیں

دربان

خوش رہا کرو

نماز قائم رکھو

رب کو پکارا

بات یہ ہے

عظیم قدرتوں کا مالک

ایک بار کی آواز

صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

اللہ کا ذکر

اللہ تعالیٰ کی عظمت

الحمد للہ

ســجـدہ

نشانیاں

احساس

بہرے بن جاؤ

قدرت کاملہ

مٹی سے پیدا کیا

قادرمطلق

تسبیح وتحمید

صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

واحد لاشریک

تــوبـہ

آمــیـن

اللہ تعالٰی ہی

عظیم خوشخبری

شرک