Monday, August 10, 2015

آمیـــــــــن

کل کے لیے

ﺍﻟﮩﯽ ﺗﯿﺮﮮ ﮐﻌﺒﮧ ﻣﯿﮟ






ﺍﻟﮩﯽ ﺗﯿﺮﮮ ﮐﻌﺒﮧ ﻣﯿﮟ
ﺗﯿﺮﮮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﺁﺅﮞ
ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﺳﺠﺪﮦ ﮐﺮﻭﮞ ﺍﯾﺴﺎ
ﮐﮯ ﮨﺴﺘﯽ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﺟﺎﺅﮞ
ﻧﺠﺎﺕ ﺁﺧﺮﺕ ﮐﺎ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﮐﺮ ﺟﺎﺅﮞ
ﮐﮧ ﮐﻌﺒﮧ ﺟﺎ ﮐﮯ
ﺍﮎ ﺳﺠﺪﮦ ﮐﺮﻭﮞ
ﺍﻭﺭ
ﺳﺠﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﻣﺮ ﺟﺎﺅﮞ

#اجالا
 
 
 

اہل ایمان کی دعاء

والدین کی خدمت جنت کا دروازہ


والدین کی خدمت جنت کا دروازہ ہے۔خوش نصیب لوگ اس دروازے کو ان کی زندگی میں،اور بدنصیب ان کی موت کے بعد ڈھونڈتے کی کوشش کرتےہیں۔

●◄ #صنم




توبہ

اللہ ہمیں صراط مستقیم پرثابت قدم رکھ

صدقہ فطر کا فرض ہونا



صدقہ فطر کا فرض ہونا

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطر کی زکوٰۃ ( صدقہ فطر ) ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو فرض قرار دی تھی۔ غلام ‘ آزاد ‘ مرد ‘ عورت ‘ چھوٹے اور بڑے تمام مسلمانوں پر۔ آپ کا حکم یہ تھا کہ نماز ( عید ) کے لیے جانے سے پہلے یہ صدقہ ادا کردیا جائے۔

كتاب الزکوۃ - صحيح البخاري:حديث - 1503

#اجالا
 
 
 
 

طاق کھجوریں کھانا سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم



طاق کھجوریں کھانا سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ قَالَ أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَکْرِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَغْدُو يَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّی يَأْکُلَ تَمَرَاتٍ وَقَالَ مُرَجَّأُ بْنُ رَجَائٍ حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي أَنَسٌ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَأْکُلُهُنَّ وِتْرًا

انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عید الفطر کے دن جب تک چند کھجوریں نہ کھا لیتے، عیدگاہ کی طرف نہ جاتے اور مرجی بن رجاء نے عبیداللہ بن ابی بکر سے اور انہوں نے انس سے اور انس نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھجوریں طاق عدد میں کھاتے تھے۔
( طاق یعنی 3۔5۔7۔9 عدد کھجوریں)

صحیح بخاری:جلد اول:باب:عیدگاہ جانے سے پہلے عیدالفطر کے دن کھانے کا بیان:حديث - 953

#اجالا

آزمائش



روزے کی حیثیت کو سامنے رکھو،  پھر غور کرو کہ جو شخص حقیقت میں روزے رکھتا ہے اور اس میں چوری چھپے کچھ نہیں کھاتا پیتا، سخت گرمی کی حالت میں بھی جبکہ پیاس سے حلق چٹخا جاتا ہے، پانی کا ایک قطرہ حلق سے نیچے نہیں اتارتا، سخت بھوک کی حالت میں جبکہ آنکھوں میں دم آرہا ہو، کوئی چیز کھانے کا ارادہ نہیں کرتا۔ اے اللہ تعالیٰ کے عالم الغیب ہونے پر کتنا ایمان ہے؟ کس قدر زبردست یقین کیساتھ وہ جانتا ہے کہ اس کی کوئی حرکت چاہے ساری دنیا سے چھپ جائے، مگر اللہ سے نہیں چھپ سکتی؟ کیسا خوف خدا اسکے دل میں ہے کہ بڑی سے بڑی تکلیف اٹھاتا ہے مگر صرف اللہ کے خوف کی وجہ سے کوئی ایسا کام نہیں کرتا جو اس کے روزے کو توڑنے والا ہو؟ کس قدر مضبوط اعتقاد ہے اس کو آخرت کی جزا اور سزا پر کہ مہینہ بھر میں وہ کم از کم تین سو ساٹھ گھنٹے کے روزے رکھتا ہے اور اس دوران میں کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی اس کے دل میں آخرت کے متعلق شک کا شائبہ تک نہیں آتا اگر اسے اس بات میں ذرا سا بھی شک ہوتا کہ آخرت ہوگی یا نہ ہوگی اور اس میں عذاب و ثواب ہوگا یا نہ ہوگا تو وہ کبھی اپنا روزہ پورا نہیں کرسکتا۔ شک آنے کے بعد یہ ممکن نہیں ہے کہ آدمی خدا کے حکم کی تعمیل میں کچھ  نہ کھانے اور نہ پینے کے ارادے پر قائم رہ جائے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ ہر سال کامل ایک مہینہ تک مسلمان کے ایمان کو مسلسل آزمائش میں دالتا ہے اور اس آزمائش میں جتنا جتنا آدمی پورا پورا اترتا جاتا ہے اتنا ہی اس کا ایمان مضبوط ہوتا جاتا ہے۔ یہ گویا آزمائش ہے اور ٹریننگ کی ٹریننگ۔ آپ جب کسی شخص کے پاس امانت رکھواتے ہیں تو گویا اسکی ایمانداری کی آزمائش کرتے ہیں اگر وہ اس آزمائش پو میں پورا اترتے اور امانت میں خیانت نہ کرے تو اسکے اندر امانتوں کا بوجھ سنبھالنے کی اور زیادہ طاقت پیدا ہوجاتی ہو اور وہ زیادہ امین بنتا چلا جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی مسلسل ایک مہینے تک روزانہ بارہ بارہ چودہ چودہ گھنٹے تک آپکے ایمان کو کڑی آزمائش میں ڈالتا ہے اور جب اس آزمائش میں آپ پورے اترتے ہیں تو آپ کے اندر اس بات کی مزید قابلیت پیدا ہونے لگتی ہے کہ اللہ سے ڈر کر دوسرے گناہوں سے بھی پرہیز کریں۔ اللہ کو عالم الغیب جان کر چوری چھپے بھی اس کے قانون کو توڑنے سے بچیں۔ اور ہر موقع پر قیامت کا وہ دن آپ کو یاد آجایا کرے جب سب کچھ کھل جائے گا اور بغیر کسی رور عایت کے بھلائی اور برائی کا برا بدلہ ملے گا۔ یہی مطلب ہے اس آیت کا کہ

ترجمہ: یعنی ’’اے اہل ایمان! تمہارے اوپر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پو بھی فرض کئے گئے تھے، شاید کہ تم پرہیز گار بن جاؤ‘‘۔ 
  
(البقرۃ:  ۱۸۳

روزہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تقویٰ کی صفت




( روزہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تقویٰ کی صفت ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


روزے فرض کرنے کا اصل مقصد یہ ھے کہ انسان میں تقویٰ کی صفت پیدا ھو ۔۔ تقویٰ کے اصل معنی حذر اور خوف کے ھیں ۔۔۔ اسلامی اصطلاح میں اس سے مراد خدا سے ڈرنا اور اس کی نافرمانی سے بچنا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اس لفظ کی بہترین تفسیر جو میری نظر سے گزری ھے ، وہ ھے جو حضرت اُبی ابن کعب رض نے بیان کی ۔۔۔۔۔
حضرت عمر رض نے اُن سے پوچھا : تقویٰ کسے کہتے ھیں ؟"
انہوں نے عرض کیا : " امیر المومنین ، آپ کو کبھی کسی ایسے رَستے سے گزرنے کا اتفاق ھوا ھے جس کے دونوں طرف خاردار جھاڑیاں ھوں اور راستہ تنگ ھو ؟"
حضرت عمر رض نے فرمایا : " بار ھا ۔ "
انہوں نے پوچھا : " تو ایسے موقع پر آپ کیا کرتے ھیں ؟"
حضرت عمر رض نے فرمایا : " میں دامن سمیٹ لیتا ھوں اور بچتا ھوا چلتا ھوں کہ دامن کانٹوں میں نہ اُلجھ جائے ۔۔"
حضرت اُبی رض نے کہا : " بس اسی کا نام تقویٰ ھے ۔۔"

زندگی کا یہ راستہ جس پر انسان سفر کر رھا ھے ، دونوں طرف افراط و تفریط ، خواھشات اور میلاناتِ نفس ، وساوس اور ترغیبات ( Temptations ) ، گمراہیوں اور نافرمانیوں کی خاردار جھاڑیوں سے گھرا ھوا ھے ۔۔۔ اس راستے پر کانٹوں سے اپنا دامن بچاتے ھوئے چلنا اور اطاعتِ حق کی راہ سے ھٹ کر بد اندیشی و بد کرداری کی جھاڑیوں میں نہ اُلجھنا ، یہی تقویٰ ھے ۔۔۔۔۔
اور یہی تقویٰ پیدا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے روزے فرض کیے ھیں ۔۔۔۔

( سیّد ابوالاعلٰی مودودی رح ، اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر )

ایڈمن#صنم