روزے کی حیثیت کو سامنے رکھو، پھر
غور کرو کہ جو شخص حقیقت میں روزے رکھتا ہے اور اس میں چوری چھپے کچھ نہیں
کھاتا پیتا، سخت گرمی کی حالت میں بھی جبکہ پیاس سے حلق چٹخا جاتا ہے،
پانی کا ایک قطرہ حلق سے نیچے نہیں اتارتا، سخت بھوک کی حالت میں جبکہ
آنکھوں میں دم آرہا ہو، کوئی چیز کھانے کا ارادہ نہیں کرتا۔ اے اللہ تعالیٰ
کے عالم الغیب ہونے پر کتنا ایمان ہے؟ کس قدر زبردست یقین کیساتھ وہ جانتا
ہے کہ اس کی کوئی حرکت چاہے ساری دنیا سے چھپ جائے، مگر اللہ سے نہیں چھپ
سکتی؟ کیسا خوف خدا اسکے دل میں ہے کہ بڑی سے بڑی تکلیف اٹھاتا ہے مگر صرف
اللہ کے خوف کی وجہ سے کوئی ایسا کام نہیں کرتا جو اس کے روزے کو توڑنے
والا ہو؟ کس قدر مضبوط اعتقاد ہے اس کو آخرت کی جزا اور سزا پر کہ مہینہ
بھر میں وہ کم از کم تین سو ساٹھ گھنٹے کے روزے رکھتا ہے اور اس دوران میں
کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی اس کے دل میں آخرت کے متعلق شک کا شائبہ تک نہیں
آتا اگر اسے اس بات میں ذرا سا بھی شک ہوتا کہ آخرت ہوگی یا نہ ہوگی اور اس
میں عذاب و ثواب ہوگا یا نہ ہوگا تو وہ کبھی اپنا روزہ پورا نہیں کرسکتا۔
شک آنے کے بعد یہ ممکن نہیں ہے کہ آدمی خدا کے حکم کی تعمیل میں کچھ نہ
کھانے اور نہ پینے کے ارادے پر قائم رہ جائے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ ہر سال
کامل ایک مہینہ تک مسلمان کے ایمان کو مسلسل آزمائش میں دالتا ہے اور اس
آزمائش میں جتنا جتنا آدمی پورا پورا اترتا جاتا ہے اتنا ہی اس کا ایمان
مضبوط ہوتا جاتا ہے۔ یہ گویا آزمائش ہے اور ٹریننگ کی ٹریننگ۔ آپ جب کسی
شخص کے پاس امانت رکھواتے ہیں تو گویا اسکی ایمانداری کی آزمائش کرتے ہیں
اگر وہ اس آزمائش پو میں پورا اترتے اور امانت میں خیانت نہ کرے تو اسکے
اندر امانتوں کا بوجھ سنبھالنے کی اور زیادہ طاقت پیدا ہوجاتی ہو اور وہ
زیادہ امین بنتا چلا جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی مسلسل ایک مہینے تک
روزانہ بارہ بارہ چودہ چودہ گھنٹے تک آپکے ایمان کو کڑی آزمائش میں ڈالتا
ہے اور جب اس آزمائش میں آپ پورے اترتے ہیں تو آپ کے اندر اس بات کی مزید
قابلیت پیدا ہونے لگتی ہے کہ اللہ سے ڈر کر دوسرے گناہوں سے بھی پرہیز
کریں۔ اللہ کو عالم الغیب جان کر چوری چھپے بھی اس کے قانون کو توڑنے سے
بچیں۔ اور ہر موقع پر قیامت کا وہ دن آپ کو یاد آجایا کرے جب سب کچھ کھل
جائے گا اور بغیر کسی رور عایت کے بھلائی اور برائی کا برا بدلہ ملے گا۔
یہی مطلب ہے اس آیت کا کہ
ترجمہ: یعنی ’’اے اہل ایمان! تمہارے اوپر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پو بھی فرض کئے گئے تھے، شاید کہ تم پرہیز گار بن جاؤ‘‘۔
(البقرۃ: ۱۸۳
No comments:
Post a Comment