Wednesday, May 31, 2017
اے اللہ
اے اللہ
مجھے تو صرف تیری خوشی چاہیے
درد کیسا بھی ہو
بندگی چاہیے
دنیا کی
کوئی خواہش
نہیں
آخِرَت کی بس
زندگی چاہیے
صرف تیرے ہی آگے
ہاتھ پھیلائوں
ایسی مجھے بےبسی
چاہیے
تو ہو جائے راضی
سنور جاؤں
میں
میرے مالک تیری رضا کی
آگہی چاہیے
میں جھکوں
اور بس
جھکا ہی رہوں
عبادت میں بس
ایسی عاجزی چاہیے
میں بھٹک جاؤں
اگر تو سہارا
مجھے نا دے
ایسی مجھے تیری
رہبری چاہیے
آمین
روزہ میں جھوٹ بولنا
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
’’اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا (روزہ رکھ کر) نہیں چھوڑتا تو اللہ تعالیٰ کو اسکی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا، پینا، چھوڑ دے۔‘‘
بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب من لم يدع قول الزور والعمل به فی الصوم، 2 : 673، رقم : 1804
’’اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا (روزہ رکھ کر) نہیں چھوڑتا تو اللہ تعالیٰ کو اسکی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا، پینا، چھوڑ دے۔‘‘
بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب من لم يدع قول الزور والعمل به فی الصوم، 2 : 673، رقم : 1804
●◄ #صنم
اے ایمان والو
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے ان پر فرض کیے گئے تھے جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیز گار ہو جاؤ۔
سورۃ البقرۃ :183
●★ღஐ متاع جَاں ஐღ★●
سورۃ البقرۃ :183
●★ღஐ متاع جَاں ஐღ★●
خاتون جنت، سیدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا
خاتون جنت، سیدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا
سیّدہ ‘طیبہ ‘طاہرہ فاطمة الزہرا بے شمار فضائل کی حامل ہیں۔آپ خاتون جنت ہیں‘جنت میں تمام جنتی خواتینِ عالم کی سردار ہیں۔سُلطانِ دوعالم فخرِ آدم وبنی آدم ‘حضور محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی لاڈلی صاحبزادی ہیں۔اگر چہ آپ چاروں بیٹیوں میں سے سب سے چھوٹی تھیں،لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی سب سے زیادہ حقدار ٹھہریں۔اُمُّ المومنین حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے حُسنِ تربیت اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضانِ اقدس نے آپ کے کردار کو انتہائی بُلندیوں پر پہنچادیا تھا۔بیٹی کی حیثیت سے ‘بیوی کی حیثیت سے ‘ماں کے کردار کی حیثیت سے انسانی سرفرازی کے لحاظ سے آپ اپنی مثال آپ تھیں۔
آپ فقرودرویشی ‘استغناءاورسخاوت میں اپنی مثال آپ تھیں۔آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفاتِ حسنہ کا پیکر تھیں،اپنے اباّجان کے کردار کی احسن ترین تنویر تھیں۔خاص طور سے آپ نے خواتینِ اسلام کیلئے جو اُسوئہ حسنہ پیش کیا ہے ،اس کی مثال نہیں ملتی ۔مشکیزے میں پانی خودلاتی ہیں‘جس سے سینے اورکندھوں پر نشانات پڑگئے ۔گھر کے تمام امور خود انجام دیتی ہیں،چکی اس حالت میں پیستی ہیں کہ گود میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ہیں‘ کندھے پر حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ لٹکے ہوئے ہیں۔ہاتھ چکی پیس رہے اورزبان پر قرآن حکیم کی تلاوت جاری ہے۔تین تین دن فاقے سے گزارے مگر کبھی شکایت کا ایک لفظ بھی زبان پہ آنے نہ پایا۔جو نہی وقت ملتا مصلے پر کھڑی ہوجاتیں۔تمام تمام رات مصلے پر عبادت میں گزارتیں ۔صبح کی اذان ہوتی تو فرماتیں”خدایا تیری بندی عبادت کا حق ادا نہیں کرپائی کیونکہ تیری رات ہی مختصر ہے“۔
ایک خاتون میں جس قدر خوبیاں ہونی چاہئیں وہ سب آپ کی ذات میں موجود تھیں۔حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ آپ کا نام ہے۔آپ آنحضرت سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی چھوٹی صاحبزادی تھیں اورتمام مکارم اخلاق وفضائلِ اوصاف آپ پر ختم ہوگئے تھے ۔آپ کی والدہ محترمہ حضرت خدیجہ بن خویلد رضی اللہ عنہا تھیں۔آپ سیّدہ خواتینِ عالم اورسردار النساءاہلِ جنت ہیں۔
آپ کے القاب زہرا‘طاہرہ‘مطہرہ‘زاکیہ‘راض یہ‘مرضیہ
اور بتول ہیں۔ بچپن ہی سے حضر ت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طبیعت میں بہت
زیادہ متانت ‘سادگی اورسنجیدگی تھی۔آپ کا دل کھیل میں نہیں لگتا تھا۔آپ
کہیں آنا جانا پسند نہ فرماتی تھیں۔ہمیشہ اپنی والدہ محترمہ کے پاس بیٹھی
رہتی تھیں۔
آپکی یہ سادگی اوراستغناآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت پسند تھا‘اسی وجہ سے آپ بتول کے لقب سے یادفرمائی جاتی تھیں۔چونکہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے صورت وسیرت میں بہت مشابہ تھیں ‘اس لحاظ سے آپ کا لقب زاکیہ اورراضیہ قرار پایا۔ آپ کی ولادت باسعادت نبوت سے پانچ سال قبل ہوئی۔
عبدالرحمن ابن ابی نعیم بروایت ابی سعید لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”سیدة النساءاھل الجنة“ (یعنی فاطمہ رضی اللہ عنہا )جنت کی عورتوں کی سردار ہیں۔ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر چار خط کھینچے ،پھر لوگوں سے فرمایاکہ تم لوگ جانتے ہوکہ یہ کیاہے؟سب نے عرض کیا:اللہ اوراس کا رسول زیادہ واقف ہیں۔“آپ نے فرمایا”فاطمہ بنت محمد‘خدیجہ بنت خویلد ‘مریم بنت عمران ‘آسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی) ان لوگو ں کو جنت کی عورتوں پر سب سے زیادہ فضیلت ہے۔“خدا تعالیٰ نے طبقہ نسواں میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ذات مبارک کے ساتھ جو مناقب مخصوص کردیئے تھے ان کی نظیر نہیں ملتی ۔چنانچہ یہ حدیث حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے فضائل پر شاہد ہے۔ ”تمہاری تقلید کیلئے تمام دنیا کی عورتوں میں مریم بنت عمران ‘خدیجہ بنت خویلد‘فاطمہ بنت محمد اورآسیہ (فرعون کی بیوی)کافی ہیں“۔ صداقت اورراست گوئی میں بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا کوئی جواب نہ تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:میں نے فاطمہ سے بڑھ کرکسی کونہیں دیکھا ،لیکن انکے والد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم البتہ مستثنیٰ ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر سے مراجعت فرماتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشر یف لاتے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ جس قدر محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتھی،اتنی اورکسی اولاد کے ساتھ نہ تھی ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اگر چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین اولادتھیں لیکن آپ نے کوئی دنیاوی فائدہ نہیں اٹھایا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ”تمہاری رضا مندی سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے اور تمہارے غیظ وغضب سے وہ غضب ناک ہوتا ہے۔“ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنے تمام مشاغلِ حیات میں رسول اللہ کی تقلید کرتی تھیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نشست وبرخاست‘عادات و فضائل ‘طرزِ گفتگو اورلب ولہجہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ فاطمہ سے زیادہ کسی کو نہیں دیکھا۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوجاتے‘پیشانی کو بوسہ دیتے اور اپنی جگہ پر بیٹھالیتے اوریہی طرزِ عمل حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا تھا ۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رفتار وگفتار میں بہترین نمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافاطمہ تھیں۔حضرت فاطمہ کی صورت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت ملتی تھی۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میری آنکھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد فاطمہ سے بہتر کسی کو نہیں دیکھا ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ”فاطمہ ! میرے جسم کاایک ٹکڑا ہے‘جو اس کا ناراض کریگا وہ مجھ کو ناراض کریگا“۔
(مثالی خواتین اسلام)
#اجالا
سیّدہ ‘طیبہ ‘طاہرہ فاطمة الزہرا بے شمار فضائل کی حامل ہیں۔آپ خاتون جنت ہیں‘جنت میں تمام جنتی خواتینِ عالم کی سردار ہیں۔سُلطانِ دوعالم فخرِ آدم وبنی آدم ‘حضور محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی لاڈلی صاحبزادی ہیں۔اگر چہ آپ چاروں بیٹیوں میں سے سب سے چھوٹی تھیں،لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی سب سے زیادہ حقدار ٹھہریں۔اُمُّ المومنین حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے حُسنِ تربیت اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضانِ اقدس نے آپ کے کردار کو انتہائی بُلندیوں پر پہنچادیا تھا۔بیٹی کی حیثیت سے ‘بیوی کی حیثیت سے ‘ماں کے کردار کی حیثیت سے انسانی سرفرازی کے لحاظ سے آپ اپنی مثال آپ تھیں۔
آپ فقرودرویشی ‘استغناءاورسخاوت میں اپنی مثال آپ تھیں۔آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفاتِ حسنہ کا پیکر تھیں،اپنے اباّجان کے کردار کی احسن ترین تنویر تھیں۔خاص طور سے آپ نے خواتینِ اسلام کیلئے جو اُسوئہ حسنہ پیش کیا ہے ،اس کی مثال نہیں ملتی ۔مشکیزے میں پانی خودلاتی ہیں‘جس سے سینے اورکندھوں پر نشانات پڑگئے ۔گھر کے تمام امور خود انجام دیتی ہیں،چکی اس حالت میں پیستی ہیں کہ گود میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ہیں‘ کندھے پر حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ لٹکے ہوئے ہیں۔ہاتھ چکی پیس رہے اورزبان پر قرآن حکیم کی تلاوت جاری ہے۔تین تین دن فاقے سے گزارے مگر کبھی شکایت کا ایک لفظ بھی زبان پہ آنے نہ پایا۔جو نہی وقت ملتا مصلے پر کھڑی ہوجاتیں۔تمام تمام رات مصلے پر عبادت میں گزارتیں ۔صبح کی اذان ہوتی تو فرماتیں”خدایا تیری بندی عبادت کا حق ادا نہیں کرپائی کیونکہ تیری رات ہی مختصر ہے“۔
ایک خاتون میں جس قدر خوبیاں ہونی چاہئیں وہ سب آپ کی ذات میں موجود تھیں۔حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ آپ کا نام ہے۔آپ آنحضرت سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی چھوٹی صاحبزادی تھیں اورتمام مکارم اخلاق وفضائلِ اوصاف آپ پر ختم ہوگئے تھے ۔آپ کی والدہ محترمہ حضرت خدیجہ بن خویلد رضی اللہ عنہا تھیں۔آپ سیّدہ خواتینِ عالم اورسردار النساءاہلِ جنت ہیں۔
آپ کے القاب زہرا‘طاہرہ‘مطہرہ‘زاکیہ‘راض
آپکی یہ سادگی اوراستغناآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت پسند تھا‘اسی وجہ سے آپ بتول کے لقب سے یادفرمائی جاتی تھیں۔چونکہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے صورت وسیرت میں بہت مشابہ تھیں ‘اس لحاظ سے آپ کا لقب زاکیہ اورراضیہ قرار پایا۔ آپ کی ولادت باسعادت نبوت سے پانچ سال قبل ہوئی۔
عبدالرحمن ابن ابی نعیم بروایت ابی سعید لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”سیدة النساءاھل الجنة“ (یعنی فاطمہ رضی اللہ عنہا )جنت کی عورتوں کی سردار ہیں۔ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر چار خط کھینچے ،پھر لوگوں سے فرمایاکہ تم لوگ جانتے ہوکہ یہ کیاہے؟سب نے عرض کیا:اللہ اوراس کا رسول زیادہ واقف ہیں۔“آپ نے فرمایا”فاطمہ بنت محمد‘خدیجہ بنت خویلد ‘مریم بنت عمران ‘آسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی) ان لوگو ں کو جنت کی عورتوں پر سب سے زیادہ فضیلت ہے۔“خدا تعالیٰ نے طبقہ نسواں میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ذات مبارک کے ساتھ جو مناقب مخصوص کردیئے تھے ان کی نظیر نہیں ملتی ۔چنانچہ یہ حدیث حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے فضائل پر شاہد ہے۔ ”تمہاری تقلید کیلئے تمام دنیا کی عورتوں میں مریم بنت عمران ‘خدیجہ بنت خویلد‘فاطمہ بنت محمد اورآسیہ (فرعون کی بیوی)کافی ہیں“۔ صداقت اورراست گوئی میں بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا کوئی جواب نہ تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:میں نے فاطمہ سے بڑھ کرکسی کونہیں دیکھا ،لیکن انکے والد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم البتہ مستثنیٰ ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر سے مراجعت فرماتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشر یف لاتے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ جس قدر محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتھی،اتنی اورکسی اولاد کے ساتھ نہ تھی ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اگر چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین اولادتھیں لیکن آپ نے کوئی دنیاوی فائدہ نہیں اٹھایا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ”تمہاری رضا مندی سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے اور تمہارے غیظ وغضب سے وہ غضب ناک ہوتا ہے۔“ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنے تمام مشاغلِ حیات میں رسول اللہ کی تقلید کرتی تھیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نشست وبرخاست‘عادات و فضائل ‘طرزِ گفتگو اورلب ولہجہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ فاطمہ سے زیادہ کسی کو نہیں دیکھا۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوجاتے‘پیشانی کو بوسہ دیتے اور اپنی جگہ پر بیٹھالیتے اوریہی طرزِ عمل حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا تھا ۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رفتار وگفتار میں بہترین نمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافاطمہ تھیں۔حضرت فاطمہ کی صورت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت ملتی تھی۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میری آنکھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد فاطمہ سے بہتر کسی کو نہیں دیکھا ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ”فاطمہ ! میرے جسم کاایک ٹکڑا ہے‘جو اس کا ناراض کریگا وہ مجھ کو ناراض کریگا“۔
(مثالی خواتین اسلام)
#اجالا
آیا ہے رمضان
ہر نیکی آزاد ہوئی، اور قید ہوا شیطان
فجر سے گھنٹوں پہلے ہر گھر میں ہے بیداری
نیند سے سب کو نفرت ہے اور سحری سب کو پیاری
بچے تک اٹھ بیٹھے، اللہ کی دیکھو شان
ہر نیکی آزاد ہوئی اور قید ہوا شیطان
آیا ہے رمضان، جاگ اٹھا ایمان
قبر میں کام نہ آئیں گے یہ سونا چاندی نوٹ
اب بھی وقت ہے کرلو تم دور عمل کا کھوٹ
اس رمضان میں پڑھ لو تم تفسیر القرآن
ہر نیکی آزاد ہوئی اور قید ہوا شیطان
آیا ہے رمضان، جاگ اٹھا ایمان
عصبیت کے جھگڑے اور سب فرقے بازی چھوڑو
لادینی سازش کی ساری زنجیروں کو توڑو
روز تراویح میں یہی کہتا ہے قرآن
ہر نیکی آزاد ہوئی اور قید ہوا شیطان
آیا ہے رمضان، جاگ اٹھا ایمان
سندھی، پنجابی و مہاجر اور بلوچ، پٹھان
سب کا ایک نبی ہے، اک کعبہ ہے اک قرآن
اک اللہ کے بندے بن جاؤ سب اہلِ ایمان
روزے رکھو، نفرت چھوڑو، بن جاؤ انسان
دعا کرو سب مل کر، میرا جیوے پاکستان
ہر نیکی آزاد ہوئی اور قید ہوا شیطان
آیا ہے رمضان، جاگ اٹھا ایمان
اب دنیا داری چھوڑو، رحمت سے دامن بھر لو
رات کی تنہائی میں رو رو کر توبہ کر لو
جانے کب چھن جائیں ناز اپنے جسم و جان
ہر نیکی آزاد ہوئی اور قید ہوا شیطان
آیا ہے رمضان، جاگ اٹھا ایمان
●◄ #صنم
اب بھی وقت ہے کرلو تم دور عمل کا کھوٹ
اس رمضان میں پڑھ لو تم تفسیر القرآن
ہر نیکی آزاد ہوئی اور قید ہوا شیطان
آیا ہے رمضان، جاگ اٹھا ایمان
عصبیت کے جھگڑے اور سب فرقے بازی چھوڑو
لادینی سازش کی ساری زنجیروں کو توڑو
روز تراویح میں یہی کہتا ہے قرآن
ہر نیکی آزاد ہوئی اور قید ہوا شیطان
آیا ہے رمضان، جاگ اٹھا ایمان
سندھی، پنجابی و مہاجر اور بلوچ، پٹھان
سب کا ایک نبی ہے، اک کعبہ ہے اک قرآن
اک اللہ کے بندے بن جاؤ سب اہلِ ایمان
روزے رکھو، نفرت چھوڑو، بن جاؤ انسان
دعا کرو سب مل کر، میرا جیوے پاکستان
ہر نیکی آزاد ہوئی اور قید ہوا شیطان
آیا ہے رمضان، جاگ اٹھا ایمان
اب دنیا داری چھوڑو، رحمت سے دامن بھر لو
رات کی تنہائی میں رو رو کر توبہ کر لو
جانے کب چھن جائیں ناز اپنے جسم و جان
ہر نیکی آزاد ہوئی اور قید ہوا شیطان
آیا ہے رمضان، جاگ اٹھا ایمان
●◄ #صنم
یارب
🌷دعا 🌷
تجھ سے اتنی ہے التجا یارب
بخش دے میری ہرخطا یارب
دردمندوں کے کام آؤں میں
دل مرا تو بڑا ---- بنا یارب
خوش رہوں جسطرح سے تورکھّے
شاملِ حال ہو رضا --------- یارب
تیرے احکام پر چلوں ہردم
نیک بندہ مجھے بنا یارب
جو ہے رستہ تری ہدایت کا
مجھ کو اس راہ پر چلا یارب
جس سے نیکی کی روشنی پھیلے
مجھ کو ایسا دِیا بنا -------- یارب
گمرہی سے بچالے تومجھکو
نیک توفیق کر عطا ---- یارب
ریاض انور بلڈانوی
#دلِ_مضطر
دل مرا تو بڑا ---- بنا یارب
خوش رہوں جسطرح سے تورکھّے
شاملِ حال ہو رضا --------- یارب
تیرے احکام پر چلوں ہردم
نیک بندہ مجھے بنا یارب
جو ہے رستہ تری ہدایت کا
مجھ کو اس راہ پر چلا یارب
جس سے نیکی کی روشنی پھیلے
مجھ کو ایسا دِیا بنا -------- یارب
گمرہی سے بچالے تومجھکو
نیک توفیق کر عطا ---- یارب
ریاض انور بلڈانوی
#دلِ_مضطر
خوبصورت احساس
کتنا خوبصورت احساس ہے کہ ہم ﷲ سے اپنے دل کی بات کرتے ہیں اور وہ سب کچھ پہلے سے جانتا ہے لیکن پھر بھی ہمیں سننا چاہتا ہے...!
#اجالا
#اجالا
ﺻَﻠَّﻮ ﻋَﻠَﯿﮧِ ﻭَ ﺍٰﻟِﮧ
ﺍُﮌﺗﮯ ﭘﺮﻧﺪﮮ ﺻﺒﺢ ﺻﺒﺢ
ﻟﮯ ﮐﺮ ﮬﺮ ﺍﮎ ﮔﻞ ﮐﯽ ﺑﻮ
ﮐﺮ ﺭﮬﮯ ﺗﮭﮯ ﯾﮧ ﮔﻔﺘﮕﻮ
ﺑَﻠَﻎَ ﺍﻟﻌُﻠٰﮯ ﺑِﮑَﻤَﺎﻟِﮧ
ﺗﮭﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﯼ ﻓﻀﺎﺀ
ﺟﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﺍﭨﮭﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﻧﮕﺎﮦ
ﺁﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﮬﺮ ﺳﻮ ﯾﮧ ﺻﺪﺍ
ﮐَﺸَﻒَ ﺍﻟﺪُّﺟَﯽٰ ﺑِﺠَﻤَﺎﻟِﮧ
ﺑﻠﺒﻞ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﻕ ﻣﯿﮟ
ﮈﺍﻟﮯ ﮬﻮﮰ ﮔﻞ ﻃﻮﻕ ﻣﯿﮟ
ﮐﮩﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺫﻭﻕ ﻣﯿﮟ
ﺣَﺴُﻨَﺖ ﺟﻤﯿﻊُ ﺧِﺼَﺎﻟِﮧ
ﭼﮍﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﻦ ﮐﺮ ﭼﮩﭽﮩﮯ
ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺑﮭﻼ ﮐﯿﻮﮞ ﭼﭗ ﺭﮬﮯ
ﻻﺯﻡ ﮬﮯ ﺍﺱ ﭘﮧ ﯾﻮﮞ ﮐﮩﮯ
ﺻَﻠَّﻮ ﻋَﻠَﯿﮧِ ﻭَ ﺍٰﻟِﮧ...!!!! <3
ﻟﮯ ﮐﺮ ﮬﺮ ﺍﮎ ﮔﻞ ﮐﯽ ﺑﻮ
ﮐﺮ ﺭﮬﮯ ﺗﮭﮯ ﯾﮧ ﮔﻔﺘﮕﻮ
ﺑَﻠَﻎَ ﺍﻟﻌُﻠٰﮯ ﺑِﮑَﻤَﺎﻟِﮧ
ﺗﮭﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﯼ ﻓﻀﺎﺀ
ﺟﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﺍﭨﮭﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﻧﮕﺎﮦ
ﺁﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﮬﺮ ﺳﻮ ﯾﮧ ﺻﺪﺍ
ﮐَﺸَﻒَ ﺍﻟﺪُّﺟَﯽٰ ﺑِﺠَﻤَﺎﻟِﮧ
ﺑﻠﺒﻞ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﻕ ﻣﯿﮟ
ﮈﺍﻟﮯ ﮬﻮﮰ ﮔﻞ ﻃﻮﻕ ﻣﯿﮟ
ﮐﮩﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺫﻭﻕ ﻣﯿﮟ
ﺣَﺴُﻨَﺖ ﺟﻤﯿﻊُ ﺧِﺼَﺎﻟِﮧ
ﭼﮍﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﻦ ﮐﺮ ﭼﮩﭽﮩﮯ
ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺑﮭﻼ ﮐﯿﻮﮞ ﭼﭗ ﺭﮬﮯ
ﻻﺯﻡ ﮬﮯ ﺍﺱ ﭘﮧ ﯾﻮﮞ ﮐﮩﮯ
ﺻَﻠَّﻮ ﻋَﻠَﯿﮧِ ﻭَ ﺍٰﻟِﮧ...!!!! <3
ﺑَﻠَﻎَ ﺍﻟﻌُﻠٰﮯ ﺑِﮑَﻤَﺎﻟِﮧ ﮐَﺸَﻒَ ﺍﻟﺪُّﺟَﯽٰ ﺑِﺠَﻤَﺎﻟِﮧﺣَﺴُﻨَﺖ ﺟﻤﯿﻊُ ﺧِﺼَﺎﻟِﮧﺻَﻠَّﻮ ﻋَﻠَﯿﮧِ ﻭَ ﺍٰﻟِﮧ
#دلِ_مضطر
#دلِ_مضطر
ماہِ صیام
اہلِ ایماں کے لئے ہے یہ مسرت کا پیام
آگیا سرچشمہء فضلِ خدا ..... ماہِ صیام
روح پرور ہے یہ تسبیح و تلاوت کا سماں
کررہے ہیں سب بقدرِ ظرف اس کا اہتمام
مسجدیں فضلِ خدا سے مطلعِ انوار ہیں
پی رہے ہیں اہلِ ایماں بادہء وحدت کا جام
بارگاہِ رب العزت میں سبھی ہیں سجدہ ریز
دید کے قابل ہے یہ قانونِ قدرت کا نظام
طالبِ فضلِ خدا ہیں بچے بوڑھے اور جوان
بھوکے پیاسے ہیں مگر پھر بھی نہیں ہیں تشنہ کام
ماہِ رمضاں میں یہ افطار و سحر کا انتظار
ہے نشاطِ روح کا ساماں برائے خاص و عام
(ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی)
‿✿⁀°متاع جَاں°‿✿⁀
آگیا سرچشمہء فضلِ خدا ..... ماہِ صیام
روح پرور ہے یہ تسبیح و تلاوت کا سماں
کررہے ہیں سب بقدرِ ظرف اس کا اہتمام
مسجدیں فضلِ خدا سے مطلعِ انوار ہیں
پی رہے ہیں اہلِ ایماں بادہء وحدت کا جام
بارگاہِ رب العزت میں سبھی ہیں سجدہ ریز
دید کے قابل ہے یہ قانونِ قدرت کا نظام
طالبِ فضلِ خدا ہیں بچے بوڑھے اور جوان
بھوکے پیاسے ہیں مگر پھر بھی نہیں ہیں تشنہ کام
ماہِ رمضاں میں یہ افطار و سحر کا انتظار
ہے نشاطِ روح کا ساماں برائے خاص و عام
(ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی)
‿✿⁀°متاع جَاں°‿✿⁀
کوئی مِثل، مصطفےٰ ﷺ
کوئی مِثل، مصطفےٰ ﷺ کا کبھی تھا، نہ ہے، نہ ہو گا
کسی اور کا یہ رُتبہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی تھا، نہ ہے، نہ ہو گا
#صلی_اللہ_علیہ_وسلم <3
●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬▬▬●
اللَّهُـمّ صَــــــلٌ علَےَ مُحمَّــــــــدْ و علَےَ آل مُحمَّــــــــدْ
كما صَــــــلٌيت علَےَ إِبْرَاهِيمَ و علَےَ آل إِبْرَاهِيمَ إِنَّك حَمِيدٌ
مَجِيدٌ اللهم بارك علَےَ مُحمَّــــــــدْ و علَےَ آل مُحمَّــــــــدْ كما
باركت علَےَ إِبْرَاهِيمَ و علَےَ آل إِبْرَاهِيمَ إِنَّك حَمِيدٌ مَجِيدٌ
●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬▬▬●
#ایڈمن_صنم
"ذرا سوچیے”
سب احباب سے ڈیجیٹل نماز اور روزوں سے پرہیز کی گزراش کی جاتی ہے۔۔۔
روزہ رکھ کر یہ واویلا مچا دینا روزہ لگ رہا ہے ، فلاں کر دیا روزہ نے ، مر گیا ، بھلا بھلا بھلا۔
یہ جہاں تک میری سمجھ ہے تو مجھے روزہ کی بے حرمتی میں شمار لگتا ہے۔
روزہ مساوی ہے صبر اور برداشت اور خدا کی خوشنودی کی طلب سے تو پھر یہ واویلا کس کاری۔۔۔!
روزے کا مقصد مساکین ، اور غریبوں کے لیے احساس پیدا کرنا ہے کہ انسان خدا کی رحمتوں سے سارا سال لطف اندوز تو ھوتا رہتا ہے ۔ مگر شکر اور تقسیم کی طرف ذرا سا بھی راغب نہیں ھوتا۔
یہ ماہ ہمیں اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ ہم پورا سال کن کن لوازمات کے مزے اڑاتے ہیں اور کتنا کھانا ہم ضائع کرتے ہیں، جس کے لیے کتنے ہی غریب اور فقراء ترس رہے ھوتے ہیں۔
دیکھا جائے تو ہم رمضان مبارک میں سحری میں کچھ زیادہ نہیں کھاتے اور افطار میں تو بالکل بھی کھایا نہیں جاتا۔کل ملا کر دو وقت کا کھانا عام روٹین کے کھانے کا آدھا حصہ رہ جاتا ہے۔
تو اس سے کیا پتا چلتا ہے کہ عام دنوں میں دن میں چار سے پانچ بار کھایا جانے والا کھانا ، ہماری ضرورت نہیں خواہش ہے اور خواہشات انسان کے بس میں ھوتی ہیں جس کا روزہ کی حالت میں بخوبی آپ اندازہ کر سکتے ہیں اور تو بہترین مثال ہے خواہشات پر قابو کی۔
بیشک رمضان میں شیطان باندھ جاتے ہیں ، مگر نفس جو سب سے بڑا شیطان ہے وہ ہر وقت ہر دن ہر پل ہمارے ساتھ ہے۔شیطان سے بچنے سے زیادہ اس کو قابو کرنا مشکل ہے۔ جس کا تعلق صرف ہماری برداشت اور صبر سے ہے۔
عام دنوں میں چار کی بجائے تین دفعہ کھانا کھا کر ایک وقت کا کسی غریب کے گھر میں چپکے سے دیں آئیں تو یقین جانیں ہماری کھانے کی کمی کی وجہ سے کبھی بھی موت نہیں واقع ھو گئی۔
کچھ صاحبان کو شاید یہ گلہ ھو یا اعتراض کہ تقسیم کرنا پہلے اپنی عادت بناو تو کہو۔
تو دلیل میں یہ کہوں گا کہ میں جب کھانا کھانے جاتا ھوں تو ایک فرد کا کھانا خود کھاتا ھوں اور ایک فرد کا پارسل بناوا لیتا ھوں۔
جو بہت عرصہ سے میری روٹین کا حصہ ہے۔
ایک اور گزارش کہ دیکھا جاتا ہے کہ اس ماہ میں رزق کی بہت بے حرمتی بھی کی جاتی ہے چونکہ رزق وافر مقدار میں تقسیم کیا جاتا ہے تو جگہ جگہ گرا ملتا ہے ۔ وافر مقدار ھونے کی وجہ سے جمع بھی کر لیا جاتا ہے جو کہ دوسرے دن نئے لوازمات کے آجانے پر گند کی ٹوکریوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔
ااس چیز سے بھی اجتناب کیجیے گا۔۔۔۔۔۔
روزہ رکھ کر یہ واویلا مچا دینا روزہ لگ رہا ہے ، فلاں کر دیا روزہ نے ، مر گیا ، بھلا بھلا بھلا۔
یہ جہاں تک میری سمجھ ہے تو مجھے روزہ کی بے حرمتی میں شمار لگتا ہے۔
روزہ مساوی ہے صبر اور برداشت اور خدا کی خوشنودی کی طلب سے تو پھر یہ واویلا کس کاری۔۔۔!
روزے کا مقصد مساکین ، اور غریبوں کے لیے احساس پیدا کرنا ہے کہ انسان خدا کی رحمتوں سے سارا سال لطف اندوز تو ھوتا رہتا ہے ۔ مگر شکر اور تقسیم کی طرف ذرا سا بھی راغب نہیں ھوتا۔
یہ ماہ ہمیں اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ ہم پورا سال کن کن لوازمات کے مزے اڑاتے ہیں اور کتنا کھانا ہم ضائع کرتے ہیں، جس کے لیے کتنے ہی غریب اور فقراء ترس رہے ھوتے ہیں۔
دیکھا جائے تو ہم رمضان مبارک میں سحری میں کچھ زیادہ نہیں کھاتے اور افطار میں تو بالکل بھی کھایا نہیں جاتا۔کل ملا کر دو وقت کا کھانا عام روٹین کے کھانے کا آدھا حصہ رہ جاتا ہے۔
تو اس سے کیا پتا چلتا ہے کہ عام دنوں میں دن میں چار سے پانچ بار کھایا جانے والا کھانا ، ہماری ضرورت نہیں خواہش ہے اور خواہشات انسان کے بس میں ھوتی ہیں جس کا روزہ کی حالت میں بخوبی آپ اندازہ کر سکتے ہیں اور تو بہترین مثال ہے خواہشات پر قابو کی۔
بیشک رمضان میں شیطان باندھ جاتے ہیں ، مگر نفس جو سب سے بڑا شیطان ہے وہ ہر وقت ہر دن ہر پل ہمارے ساتھ ہے۔شیطان سے بچنے سے زیادہ اس کو قابو کرنا مشکل ہے۔ جس کا تعلق صرف ہماری برداشت اور صبر سے ہے۔
عام دنوں میں چار کی بجائے تین دفعہ کھانا کھا کر ایک وقت کا کسی غریب کے گھر میں چپکے سے دیں آئیں تو یقین جانیں ہماری کھانے کی کمی کی وجہ سے کبھی بھی موت نہیں واقع ھو گئی۔
کچھ صاحبان کو شاید یہ گلہ ھو یا اعتراض کہ تقسیم کرنا پہلے اپنی عادت بناو تو کہو۔
تو دلیل میں یہ کہوں گا کہ میں جب کھانا کھانے جاتا ھوں تو ایک فرد کا کھانا خود کھاتا ھوں اور ایک فرد کا پارسل بناوا لیتا ھوں۔
جو بہت عرصہ سے میری روٹین کا حصہ ہے۔
ایک اور گزارش کہ دیکھا جاتا ہے کہ اس ماہ میں رزق کی بہت بے حرمتی بھی کی جاتی ہے چونکہ رزق وافر مقدار میں تقسیم کیا جاتا ہے تو جگہ جگہ گرا ملتا ہے ۔ وافر مقدار ھونے کی وجہ سے جمع بھی کر لیا جاتا ہے جو کہ دوسرے دن نئے لوازمات کے آجانے پر گند کی ٹوکریوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔
ااس چیز سے بھی اجتناب کیجیے گا۔۔۔۔۔۔
Subscribe to:
Posts (Atom)