Wednesday, May 31, 2017

خاتون جنت، سیدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا


خاتون جنت، سیدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا

سیّدہ ‘طیبہ ‘طاہرہ فاطمة الزہرا بے شمار فضائل کی حامل ہیں۔آپ خاتون جنت ہیں‘جنت میں تمام جنتی خواتینِ عالم کی سردار ہیں۔سُلطانِ دوعالم فخرِ آدم وبنی آدم ‘حضور محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی لاڈلی صاحبزادی ہیں۔اگر چہ آپ چاروں بیٹیوں میں سے سب سے چھوٹی تھیں،لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی سب سے زیادہ حقدار ٹھہریں۔اُمُّ المومنین حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے حُسنِ تربیت اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضانِ اقدس نے آپ کے کردار کو انتہائی بُلندیوں پر پہنچادیا تھا۔بیٹی کی حیثیت سے ‘بیوی کی حیثیت سے ‘ماں کے کردار کی حیثیت سے انسانی سرفرازی کے لحاظ سے آپ اپنی مثال آپ تھیں۔
آپ فقرودرویشی ‘استغناءاورسخاوت میں اپنی مثال آپ تھیں۔آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفاتِ حسنہ کا پیکر تھیں،اپنے اباّجان کے کردار کی احسن ترین تنویر تھیں۔خاص طور سے آپ نے خواتینِ اسلام کیلئے جو اُسوئہ حسنہ پیش کیا ہے ،اس کی مثال نہیں ملتی ۔مشکیزے میں پانی خودلاتی ہیں‘جس سے سینے اورکندھوں پر نشانات پڑگئے ۔گھر کے تمام امور خود انجام دیتی ہیں،چکی اس حالت میں پیستی ہیں کہ گود میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ہیں‘ کندھے پر حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ لٹکے ہوئے ہیں۔ہاتھ چکی پیس رہے اورزبان پر قرآن حکیم کی تلاوت جاری ہے۔تین تین دن فاقے سے گزارے مگر کبھی شکایت کا ایک لفظ بھی زبان پہ آنے نہ پایا۔جو نہی وقت ملتا مصلے پر کھڑی ہوجاتیں۔تمام تمام رات مصلے پر عبادت میں گزارتیں ۔صبح کی اذان ہوتی تو فرماتیں”خدایا تیری بندی عبادت کا حق ادا نہیں کرپائی کیونکہ تیری رات ہی مختصر ہے“۔

ایک خاتون میں جس قدر خوبیاں ہونی چاہئیں وہ سب آپ کی ذات میں موجود تھیں۔حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ آپ کا نام ہے۔آپ آنحضرت سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی چھوٹی صاحبزادی تھیں اورتمام مکارم اخلاق وفضائلِ اوصاف آپ پر ختم ہوگئے تھے ۔آپ کی والدہ محترمہ حضرت خدیجہ بن خویلد رضی اللہ عنہا تھیں۔آپ سیّدہ خواتینِ عالم اورسردار النساءاہلِ جنت ہیں۔
آپ کے القاب زہرا‘طاہرہ‘مطہرہ‘زاکیہ‘راضیہ‘مرضیہ اور بتول ہیں۔ بچپن ہی سے حضر ت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طبیعت میں بہت زیادہ متانت ‘سادگی اورسنجیدگی تھی۔آپ کا دل کھیل میں نہیں لگتا تھا۔آپ کہیں آنا جانا پسند نہ فرماتی تھیں۔ہمیشہ اپنی والدہ محترمہ کے پاس بیٹھی رہتی تھیں۔
آپکی یہ سادگی اوراستغناآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت پسند تھا‘اسی وجہ سے آپ بتول کے لقب سے یادفرمائی جاتی تھیں۔چونکہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے صورت وسیرت میں بہت مشابہ تھیں ‘اس لحاظ سے آپ کا لقب زاکیہ اورراضیہ قرار پایا۔ آپ کی ولادت باسعادت نبوت سے پانچ سال قبل ہوئی۔

عبدالرحمن ابن ابی نعیم بروایت ابی سعید لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”سیدة النساءاھل الجنة“ (یعنی فاطمہ رضی اللہ عنہا )جنت کی عورتوں کی سردار ہیں۔ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر چار خط کھینچے ،پھر لوگوں سے فرمایاکہ تم لوگ جانتے ہوکہ یہ کیاہے؟سب نے عرض کیا:اللہ اوراس کا رسول زیادہ واقف ہیں۔“آپ نے فرمایا”فاطمہ بنت محمد‘خدیجہ بنت خویلد ‘مریم بنت عمران ‘آسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی) ان لوگو ں کو جنت کی عورتوں پر سب سے زیادہ فضیلت ہے۔“خدا تعالیٰ نے طبقہ نسواں میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ذات مبارک کے ساتھ جو مناقب مخصوص کردیئے تھے ان کی نظیر نہیں ملتی ۔چنانچہ یہ حدیث حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے فضائل پر شاہد ہے۔ ”تمہاری تقلید کیلئے تمام دنیا کی عورتوں میں مریم بنت عمران ‘خدیجہ بنت خویلد‘فاطمہ بنت محمد اورآسیہ (فرعون کی بیوی)کافی ہیں“۔ صداقت اورراست گوئی میں بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا کوئی جواب نہ تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:میں نے فاطمہ سے بڑھ کرکسی کونہیں دیکھا ،لیکن انکے والد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم البتہ مستثنیٰ ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر سے مراجعت فرماتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشر یف لاتے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ جس قدر محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتھی،اتنی اورکسی اولاد کے ساتھ نہ تھی ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اگر چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین اولادتھیں لیکن آپ نے کوئی دنیاوی فائدہ نہیں اٹھایا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ”تمہاری رضا مندی سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے اور تمہارے غیظ وغضب سے وہ غضب ناک ہوتا ہے۔“ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنے تمام مشاغلِ حیات میں رسول اللہ کی تقلید کرتی تھیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نشست وبرخاست‘عادات و فضائل ‘طرزِ گفتگو اورلب ولہجہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ فاطمہ سے زیادہ کسی کو نہیں دیکھا۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوجاتے‘پیشانی کو بوسہ دیتے اور اپنی جگہ پر بیٹھالیتے اوریہی طرزِ عمل حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا تھا ۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رفتار وگفتار میں بہترین نمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافاطمہ تھیں۔حضرت فاطمہ کی صورت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت ملتی تھی۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میری آنکھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد فاطمہ سے بہتر کسی کو نہیں دیکھا ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ”فاطمہ ! میرے جسم کاایک ٹکڑا ہے‘جو اس کا ناراض کریگا وہ مجھ کو ناراض کریگا“۔

(مثالی خواتین اسلام)

#اجالا

No comments:

Post a Comment