مرتا ہوں خامشی پر ، یہ آرزو ہے میری ۔
دامن میں کوہ کے اِک چھوٹا سا جھونپڑا ہو۔
راتوں کو چلنے والے رہ جائیں تھک کے جس دَم۔
اُمِّید اُن کی، میرا ٹُوٹا ہُوا دِیا ہو۔
بجلی چمک کے اُن کو کُٹیا مِری دِکھا دے۔
جب آسماں پہ ہر سُو بادل گِھرا ہُوا ہو۔
پچھلے پہر کی کوئل ، وہ صُبْح کی مؤذّن۔
میں اُس کا ہمنَوا ہُوں ، وہ میری ہم نَوا ہو۔
کانوں پہ ہو نہ میرے دَیر وحَرَم کا احساں۔
روزن ہی جھونپڑی کا مجھ کو سَحر نُما ہو۔
پُھولوں کو آئے جس دَم شبنم وضو کرانے۔
رونا مِرا وضو ہو ، نالہ مِری دُعا ہو۔
اُس خامشی میں جائیں اتنے بُلند نالے۔
تاروں کے قافلے کو، میری صدا درا ہو۔
ہر دردمند دِل کو رونا مِرا رُلا دے ۔
بے ہوش جو پڑے ہیں ، شاید اُنھیں جگا دے ۔
(‛‛علامہ اقبال ‛‛ بانگِ درا ‛‛ سے انتخاب)
#متـــــاع_جـــــاں
No comments:
Post a Comment