Monday, November 28, 2022
اللہ تعالٰی سے ڈر
تو ہی ہے
اے اللہ
متقیوں کا تعارف
دنیاوی فائدہ
اے اللہ
ہماری سمجھ سے بلند آیات
خالقِ کل
قرآن کریم
نیکی کا فاہدہ
بقرہ کی آخری آیات اور ان کی فضیلت
انسان کے ضمیر سے خطاب
گواہی کو نہ چھپاؤ
ادھار کے معاملات
سو د
مومن بندے
Wednesday, May 4, 2022
سود کا کاروبار برکت سے محروم ہوتا ہے۔
سود خور سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ سود کو برباد کرتا ہے یعنی یا تو اسے بالکل غارت کر دیتا ہے یا سودی کاروبار سے خیر و برکت ہٹا دیتا ہے۔
علاوہ ازیں دنیا میں بھی وہ تباہی کا باعث بنتا ہے اور آخرت میں عذاب کا سبب، جیسے ہے
«قُل لَّا يَسْتَوِي الْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ أَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيثِ»
[ 5-المائدة: 100 ]
یعنی ناپاک اور پاک برابر نہیں ہوتا گو تمہیں ناپاک کی زیادتی تعجب میں ڈالے۔
ارشاد فرمایا
«وَيَجْعَلَ الْخَبِيثَ بَعْضَهُ عَلَىٰ بَعْضٍ فَيَرْكُمَهُ جَمِيعًا فَيَجْعَلَهُ فِي جَهَنَّمَ»
[ 8-الأنفال: 37 ] ۔
الا یہ خباثت والی چیزوں کو تہ و بالا کر کے وہ جہنم میں جھونک دے گا۔
سود کا مال بظاہر جتنا بھی بڑھ جائے حقیقت میں نہیں بڑھتا، فرمایا
«وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ»
[ 30۔ الروم: 39 ]
” اور جو کوئی سودی قرض تم اس لیے دیتے ہو کہ لوگوں کے اموال میں بڑھ جائے تو وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا۔ “
اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھاتا ہے اور ان میں خیر و برکت ہوتی ہے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جو شخص پاک کمائی میں سے ایک کھجور بھی صدقہ کرے اور اللہ تعالیٰ پاک مال ہی کو قبول کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے قبول فرماتا ہے، پھر اسے صدقہ کرنے والے کے لیے اس طرح پالتا پوستا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گھوڑی کے بچے کی پرورش کرتا ہے، حتیٰ کہ وہ صدقہ (بڑھ کر) پہاڑ کی طرح ہوجاتا ہے۔ “ [ بخاری، الزکاۃ، باب الصدقۃ من کسب طیب : ١٤١٠۔ مسلم : ١٠١٤، عن أبی ہریرۃ (رض) ]
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :
(عَنْ زَیْنَبَ امْرأَۃِ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَتْ کُنْتُ فِي الْمَسْجِدِ فَرَأَیْتُ النَّبِيَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ تَصَدَّقْنَ وَلَوْ مِنْ حُلِیِّکُنَّ )
[ رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ، باب الزکاۃ علی الزوج ]
” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی بیوی زینب (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مسجد میں دیکھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : راہ خدا میں صدقہ کیا کرو اگرچہ تمہیں اپنے زیورات میں سے دینا پڑے۔ “
(عَنْ اَسْمَاءَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنْفِقِیْ وَلَا تُحْصِیْ فَیُحْصِی اللّٰہُ عَلَیْکِ وَلَا تُوْعِیْ فَیُوْعِی اللّٰہُ عَلَیْکِ )
[ رواہ مسلم : کتاب الزکاۃ، باب الحث علی الإنفاق وکراھیۃ الإحصاء ]
” حضرت اسماء (رض) بیان کرتی ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا خرچ کر اور اسے شمار نہ کرو، ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تجھے گن کر دے گا اور نہ ہی حساب کرو، ورنہ وہ بھی تجھ سے حساب کرے گا۔ “ یعنی فراخ دلی اور کشادہ دستی سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہنا چاہیے۔
مسائل
١۔ اللہ تعالیٰ سود کو مٹانا اور صدقات کو بڑھانا چاہتا ہے۔ ٍ
٢۔ اللہ تعالیٰ ناشکرے اور گناہگار کو پسند نہیں کرتا۔
Monday, April 25, 2022
رات دن مال خرچ کرنے والوں کی فضیلت
رات دن مال خرچ کرنے والوں کی فضیلت اور منقبت اس آیت میں رات دن اللہ کی رضا کے لیے مال خرچ کرنے کا تذکرہ ہے۔ جو پوشیدہ طور پر اللہ کی راہ میں مال خرچ کریں گے یا علانیہ طور پر قیامت کے دن ان کا خرچ کیا ہوا مال اجر وثواب کی صورت میں انہیں مل جائے گا ۔ وہ وہاں غمگین نہ ہوں گے ، جبکہ بہت سے لوگ بدعملی کی وجہ سے یا اپنے مالوں کو گناہوں میں خرچ کرنے کی وجہ سے غمگین ہوں گے۔ اس آیت میں مال خرچ کرنے کے بیان میں سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً فرمایا اس سے معلوم ہوا کہ لوگوں کے سامنے مال خرچ کرنا ریا کاری میں شامل نہیں جس سے گناہ ہو ، اور خرچ کرنا اکارت ہوجاتا ہو ، گو خفیہ طریقہ پر خرچ کرنے کی فضیلت زیادہ ہے لیکن اگر دکھاوا مقصود نہ ہو نام و نمود پیش نظر نہ ہو اور مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا ہی ہو تو لوگوں کے سامنے خرچ کرنے سے ریا کاری میں شمار نہ ہوگا ، ریا کاری اپنے دل کے جذبہ اور ارادہ کا نام ہے ، اگر کوئی شخص تنہائی میں نیک عمل کرے اور مال خرچ کرے اور پھر لوگوں کو معتقد بنانے کے لیے اپنے عمل کو ظاہر کرے یا دل میں یہ تڑپ ہو کہ میرے اعمال لوگوں پر ظاہر ہوں تاکہ میری تعریف ہو تو یہ بھی ریا میں شامل ہوجائے گا بلکہ اس میں دہرا ریا ہے کہ لوگ یوں کہیں گے کہ دیکھو کیسے مخلص ہیں تنہائیوں میں عمل کرتے ہیں۔
نیت میں اخلاص ہو تو اعلانیہ صدقہ کرنا ریاکاری میں شامل نہیں۔ صدقہ کرنے کے انداز اور طریقہ کے بارے میں پہلے ارشاد یہ تھا کہ چھپا کر صدقہ کرو یا اعلانیہ دونوں صورتیں تمہارے لیے بہتر ہیں۔ اس کے بدلے تمہارے گناہوں کو معاف کردیا جائے گا۔ یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ جو لوگ رات کی تاریکی میں صدقہ کریں یا دن کی روشنی میں سب کے سامنے کریں یا چھپ کر ایسے لوگوں کے اخلاص ، جذبات اور صدقات کے مطابق ان کے رب کے ہاں نہایت ہی عمدہ اجر ہے۔ جس میں ایک رائی کے دانے کے برابر بھی کمی نہیں کی جائے گی۔ اس اجر کے ساتھ انہیں یہ بھی انعام سنایا جاتا ہے کہ انہیں اپنے مستقبل کے بارے میں خوفزدہ اور فکر مند ہونے کا اندیشہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ غربت کے خوف اور دولت کے لالچ سے بےنیاز ہو کر مستحق غریب کو معاشی غم سے نجات دلایا کرتے ہیں اس کے بدلے ان پر نہ خوف طاری ہوگا اور نہ ہی انہیں کسی قسم کی پریشانی اور پشیمانی ہوگی۔ دنیا میں بھی ان کا مال کم نہیں ہوگا۔
مسائل
1۔ صدقہ دن رات، چھپ کر یا اعلانیہ کیا جائے اس کا اجر اللہ کے ہاں محفوظ ہے۔
2۔ صدقہ کرنے والے کو کوئی خوف و خطر نہیں ہوگا۔ تفسیر بالقرآن
خوف وغم سے مبرّا حضرات :
1۔ ہدایت پر عمل پیرا ہونے والا خوف زدہ اور غمگین نہیں ہوگا۔
(البقرۃ : 38)
2۔ ایمان اور عمل صالح کرنے والے خوف زدہ نہ ہوں گے۔
(البقرۃ : 62 )
3۔ رضائے الٰہی کے لیے خرچ کرنے والے بےخوف وبے غم ہوں گے۔
(البقرۃ : 262)
4۔ ایمان، نماز اور زکوٰۃ مومن کو بےخوف وبے غم کرتی ہے۔
(البقرۃ : 277)
5۔ ایمان پر قائم رہنے والوں اور اصلاح کرنے والوں پر خوف وغم نہ ہوگا۔
(الانعام : 48)
Saturday, April 23, 2022
مستحق صدقات کون ہیں
مستحق صدقات کون ہیں
صدقہ ان مہاجرین کا حق ہے جو دنیوی تعلقات کاٹ کر ہجرتیں کر کے وطن چھوڑ کر کنبے قبیلے سے منہ موڑ کر اللہ کی رضا مندی کیلئے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ گئے ہیں، جن کے معاش کا کوئی ایسا ذریعہ نہیں جو انہیں کافی ہو اور وہ سفر کر سکتے ہیں کہ چل پھر کر اپنی روزی حاصل کریں «ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ» کے معنی مسافرت کے ہیں جیسے
«وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ»
[ 4-النسأ: 101 ] اور
«يَضْرِبُونَ فِي الْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِن فَضْلِ اللَّـهِ»
[ 73۔ المزمل: 20 ]
میں ان کے حال سے جو لوگ ناواقف ہیں وہ ان کے لباس اور ظاہری حال اور گفتگو سے انہیں مالدار سمجھتے ہیں۔
ایک حدیث میں ہے مسکین وہی نہیں جو دربدر جاتے ہیں کہیں سے دو ایک کھجوریں مل گئیں کہیں سے دو ایک لقمے مل گئے، کہیں سے دو ایک وقت کا کھانا مل گیا بلکہ وہ بھی مسکین ہے جس کے پاس اتنا نہیں جس سے وہ بےپرواہ ہو جائے اور اس نے اپنی حالت بھی ایسی نہیں بنائی جس سے ہر شخص اس کی ضرورت کا احساس کرے اور کچھ احسان کرے اور نہ وہ سوال کے عادی ہیں۔
[صحیح بخاری:1479]
تو انہیں ان کی اس حالت سے جان لے گا جو صاحب بصیرت پر مخفی نہیں رہتیں۔
جیسے اور جگہ ہے
«سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ»
[ 48۔ الفتح: 29 ]
ان کی نشانیاں ان کے چہروں پر ہیں اور فرمایا
«وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِيْ لَحْنِ الْـقَوْلِ»
[ 47۔ محمد: 30 ]
ان کے لب و لہجہ سے تم انہیں پہچان لو گے
سنو قرآن کا فرمان ہے
«اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِيْنَ»
[ 45۔ الحجر: 75 ]
بالیقین اس میں اہل بصیرت کیلئے نشانیاں ہیں، یہ لوگ کسی پر بوجھل نہیں ہیں، کسی سے ڈھٹائی کے ساتھ سوال نہیں کرتے نہ اپنے پاس ہوتے ہوئے کسی سے کچھ طلب کرتے ہیں، جس کے پاس ضرورت کے مطابق ہو اور پھر بھی وہ سوال کرے وہ چپک کر مانگنے والا کہلاتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ایک دو کھجوریں اور ایک دو لقمے لے کر چلے جانے والے ہی مسکین نہیں بلکہ حقیقتاً مسکین وہ ہیں جو باوجود حاجت کے خودداری برتیں اور سوال سے بچیں۔
پھر فرمایا تمہارے تمام صدقات کا اللہ کو علم ہے اور جبکہ تم پورے محتاج ہو گئے، اللہ پاک اس وقت تمہیں اس کا بدلہ دے گا، اس پر کوئی چیز مخفی نہیں۔ پھر ان لوگوں کی تعریفیں ہو رہی ہیں جو ہر وقت اللہ کے فرمان کے مطابق خرچ کرتے رہتے ہیں، انہیں اجر ملے گا اور ہر خوف سے امن پائیں گے، بال بچوں کے کھلانے پر بھی انہیں ثواب ملے گا، جیسے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ فتح مکہ والے سال جبکہ آپ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما کی عیادت کو گئے تو فرمایا ایک روایت میں ہے کہ حجۃ الوداع والے سال فرمایا تو جو کچھ اللہ کی خوشی کیلئے خرچ کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے بدلے تیرے درجات بڑھائے گا، یہاں تک کہ تو جو اپنی بیوی کو کھلائے پلائے اس کے بدلے بھی۔
[صحیح بخاری:6733:صحیح]
لَيْلَـةِ الْقَدْرِ کی دعاء
Friday, April 22, 2022
لیلۃ القدر کی تلاش میں محنت
لیلۃ القدر کی تلاش میں محنت
1. عَنْ عَائِشَةَ رضي ﷲ عنها أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: قَالَ: تَحَرَّوْا لَیْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْوِتْرِ مِنَ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، وَفِي رِوَایَةٍ: فِي السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب صلاة التراویح، باب تحري لیلة القدر في الوتر من العشر الأواخر، 2/710، الرقم: 1913، ومسلم في الصحیح، کتاب الصیام، باب فضل لیلة القدر والحث علی طلبھا وبیان محلھا وأرجی أوقات طلبھا، 2/823، الرقم: 1165/1169، والترمذي في السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء في لیلة القدر، 3/158، الرقم: 792
’’حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: شبِ قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں (اور ایک روایت میں ہے کہ رمضان کی آخری سات طاق راتوں) میں تلاش کیا کرو۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
2. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي ﷲ عنہما أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: الْتَمِسُوْهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ لَیْلَةَ الْقَدْرِ فِي تَاسِعَةٍ تَبْقٰی، فِي سَابِعَةٍ تَبْقٰی، فِي خَامِسَةٍ تَبْقٰی. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالْبَیْهَقِيُّ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الصیام، باب تحري لیلة القدر في الوتر من العشر الأواخر، 2/711، الرقم: 1917، والبیهقي في السنن الکبری، 4/308، الرقم: 8316، وابن حجر العسقلاني في تغلیق التعلیق، 3/205، والشوکاني في نیل الأوطار، 4/370
’’حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی ﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس (یعنی شبِ قدر) کو رمضان المبارک کے آخری عشرے میں باقی رہنے والی راتوں میں سے نویں، ساتویں اور پانچویں رات میں تلاش کرو۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری اور بیہقی نے روایت کیا ہے
Tuesday, April 19, 2022
روزہ کا اصل مقصد
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ياَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَيْکُمُ الصِّيَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ.
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے ان پر فرض کیے گئے تھے جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیز گار ہو جاؤ''۔
تقویٰ کا حصول اس وقت تک ممکن نہیں ، جب تک کہ انسان دنیا کی خواہشات کے بندھن سے آزاد نہ ہو جائے اور ماہِ رمضان خواہشاتِ نفس کے بے لگام گھوڑے کو لگام ڈالتا ہے۔ روزہ بظاہر ایک مشقت والی عبادت ہے لیکن حقیقت میں اپنے مقصد اور نتیجے کے لحاظ سے یہ دنیا میں موجب راحت اور آخرت میں باعث رحمت ہے۔ روزہ دار دن بھر اپنے رب کے حکم کی تعمیل میں نہ کچھ کھاتا ہے نہ پیتا ہے لیکن افطار کے وقت اس پابندی کے اختتام کو بھی اپنے لئے باعث مسرت سمجھتا ہے۔
آپ نماز کیوں پڑھتے ہیں۔؟
آپ نماز کیوں پڑھتے ہیں۔؟
یہ سوال میری لائف کا بہت مشکل سوال ثابت ہوا۔
فرض ہے۔۔،؟
شکر ادا کرنے کے لئے۔۔،؟
خدا ہے ہی اس قابل۔۔،؟
جہنم کے خوف سے۔۔،؟
یہ وہ جواب ہیں جو مجھے اس کے جواب میں ملتے۔
ایک ٹائم تھا جب میں نماز جہنم کے خوف سے پڑھتا تھا
جہنم کا خوف مجھے اٹھا کے نماز کے لئے جا کھڑا کرتا تھا
پر مجھے وہ نماز فرض کی ادائیگی کبھی بھی نہ لگ سکی۔
پھر مجھ سے نماز نہ تو آرام سے پڑھی جاتی تھی، اور نہ یکسوئی سے
پھر خوف بھی کم ہوتا گیا۔
پھر جنّت کا بیان پڑھا تو اس کو پا لینے کی چاہ جاگی۔
میں پھر سے نماز پڑھنے لگا۔
مگر یہ بھی چند دن ہی رہی کیفیت۔
اپنے ابّا جی سے کہا تو بولے۔۔
بیٹا اس نے دنیا کی ھر نعمت سے نوازا ہے تم ان کا شکر ادا کرنے کے لئے پڑھا کرو۔
ذہن میں یہ رکھ کر بھی نماز پڑھ لی۔
دل کی حالت اب بھی وہی تھی۔
پھر ایک دن بہت عجیب بات ہوئی۔۔
میں جائے نماز پہ کھڑا ہوا اور مجھے نماز بھول گئی۔
بہت یاد کرنے کی کوشش کی۔
بھلا نماز ہم کیسےبھول سکتےہیں؟
مجھے خود پہ بہت رونا آیا۔
اور میں وہیں بیٹھ کے رونے لگا۔
تو مجھے لگا کوئی تسلی دینے والا ہاتھ ہے میرے سر پہ،، جیسے بچہ رو رہا ہو تو ہم سر پہ ہاتھ رکھ کے دلاسا دیتے ہیں
مجھے لگا کوئی پوچھ رہا ہے، کہ کیا ہوا۔؟ میں نے کہا نماز یاد نہیں۔
تو جیسے پوچھا گیا ،،، تَو ؟
میں حیران پریشان ،، اس تَو کا جواب تو میرے پاس بھی نہیں تھا شائد
پھر لگا کوئی مسکرا یا ہو ،، اور کہا ہو
نماز کیوں پڑھتے ہو ، ؟
خوف سے ؟
پر وہ تو غفور ہے ، رحیم ہے ، پھر خوف کیسا ؟
جنّت کے واسطے ؟ پر وہ تو درگزر فرماتا ہے
شکر ادا کرنا ہے ؟ اسےضرورت نہیں ،،،،
فرض ہے؟ تو زمین پہ سر ٹکرانے کو نماز نہیں کہا جاتا
وہ اس قابل ہے ؟ تم کیا جانو وہ کس قابل ہے ،،،،
میرے پاس الفاظ ختم، میں بس اس آواز میں گم ،،،،،
وہ جو ہے نہ ،،،
وہ تم سے کلام چاہتا ہے
تم اسی کو دوست مانو ، اسی سے مشورہ کرو
اسی کو داستان سناؤ ،،،
جیسے اپنے دوست کو سناتے ہو ، دل کی بیقراری کم ہوگی
پھر نماز میں سکون ملے گا ،،،،،
میری آنکھ کھلی ، وہ یقیناً خواب تھا
میں نے دوبارہ سے وضو کر کے نماز شروع کی
نماز خود بخود ادا ہوتی چلی گئی ،،،،،
دل میں سکون آتا چلا گیا
مگر میرا دل سجدے سے سر اٹھانے کو نہ کرے ، مجھے لگا میرے پاس ہے وہ ، مجھ سے بات کر رہا ہے
پھر اپنے دل کی ساری باتیں ہوتی چلی گیئں ،،
گرہیں کھلتی گیئں ،
سکون ملتا گیا ،،،
آسانیاں ہوتی گیئں ،،،
پھر آنکھ اذان سے پہلے کھلتی
محبوب سے ملاقات کا انتظار رہنے لگا
فرض کے ساتھ نفلی نمازیں بھی ادا ہوتی گیئں
اللہ کا کرم ہو گیا ،