Monday, November 28, 2022

بڑے فضل والا


 

بےشک


 

حق وہی ہے


 

جو لوگ


 

خفیہ تدبیر


 

اے رب


 

بے شک


 

رب کی بندگی


 

رب کو یاد


 

زکریا علیہ السلام کی دعاء


 

بےشک


 

کہہ دو



جس دن



اللہ تعالٰی سے ڈر


اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ پوشیدہ کو اور چھپی ہوئی باتوں کو اور ظاہر باتوں کو بخوبی جانتا ہے کوئی چھوٹی سے چھوٹی بات بھی اس پر پوشیدہ نہیں اس کا علم سب چیزوں کو ہر وقت اور ہر لحظہ گھیرے ہوئے ہے۔ زمین کے گوشوں میں، پہاڑوں میں، سمندروں میں، آسمانوں میں، ہواؤں میں، سوراخوں میں، غرض جو کچھ جہاں کہیں ہے سب اس کے علم میں ہے پھر ان سب پر اس کی قدرت ہے جس طرح چاہے رکھے جو چاہے جزا سزا دے، پس اتنے بڑے وسیع علم والے اتنی بڑی زبردست قدرت والے سے ہر شخص کو ڈرتے ہوئے رہنا چاہیئے۔ اس کی فرمانبرداری میں مشغول رہنا چاہیئے اور اس کی نافرمانیوں سے علیحدہ رہنا چاہیئے، وہ عالم بھی ہے اور قادر بھی ہے ممکن ہے کسی کو ڈھیل دیدے لیکن جب پکڑے گا تب دبوچ لے گا پھر نہ مہلت ملے گی نہ رخصت، ایک دن آنے والا ہے جس دن تمام عمر کے برے بھلے سب کام سامنے رکھ دئیے جائیں گے، نیکیوں کو دیکھ کر خوشی ہو گی اور برائیوں پر نظریں ڈال کر دانت پیسے گا اور حسرت و افسوس کرے گا اور چاہے گا کہ میں ان سے کوسوں دور رہتا اور پرے ہی پرے رہتا۔

قرآن نے اور جگہ فرمایا 
«يُنَبَّأُ الْإِنسَانُ يَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ» 
[75-القيامة:13] ‏‏‏‏ 
سب گزری ہوئی باتیں اس دن پیش کر دی جائیں گی، شیطان جو اس کے ساتھ دنیا میں رہتا تھا اور اسے برائیوں پر اکساتا تھا اس سے بھی اس دن بیزاری کرے گا اور کہے گا 
«يَا لَيْتَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ بُعْدَ الْمَشْرِقَيْنِ فَبِئْسَ الْقَرِينُ»
 [43-الزخرف:38] ‏‏‏‏ 
کیا اچھا ہوتا کہ اے شیطان میرے اور تیرے درمیان مشرق و مغرب کا فاصلہ ہوتا وہ تو بڑا برا ساتھی ہے۔

تو ہی ہے


تو ہی رات کی زیادتی کو دن کے نقصان میں بڑھا کر دن رات کو برابر کر دیتا ہے، زمین و آسمان پر سورج چاند پر پورا پورا قبضہ اور تمام تر تصرف تیرا ہی ہے، اسی طرح جاڑے کو گرمی اور گرمی کو جاڑے سے بدلنا بھی تیری قدرت میں ہے، بہارو خزاں پر قادر تو ہی ہے۔ تو ہی ہے کہ زندہ سے مردہ کو اور مردہ سے زندہ کو نکالے کھیتی سے دانے اگاتا ہے اور دانہ سے کھیتوں کو لہلہاتا ہے، کھجور گٹھلی سے اور گٹھلی کھجور سے تو ہی پیدا کرتا ہے۔

تمام تر چیزیں تیرے ہی قبضہ میں ہیں، تو جسے چاہے اتنا مال دے دے جو نہ گنا جائے نہ احاطہٰ کیا جائے اور جسے چاہے بھوک کے برابر روٹی بھی نہ دے، ہم مانتے ہیں کہ یہ کام حکمت سے پر ہیں اور تیرے ارادے اور تیری چاہت سے ہی ہوتے ہیں۔

اے اللہ


 اے اللہ تو مالک الملک ہے، تیری ملکیت میں تمام ملک ہے، جسے تو چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے اپنا دیا ہوا واپس لے لے، تو ہی دینے اور لینے والا ہے تو جو چاہتا ہے ہو جاتا ہے اور جو نہ چاہے ہو ہی نہیں سکتا۔

قیامت والے دن


 

اللہ کے حکم سے انکار


 

بےشک


 

آمین


متقیوں کا تعارف


اللہ تعالیٰ اپنے متقی بندوں کے اوصاف بیان فرماتا ہے کہ وہ کہتے ہیں اے پروردگار ہم تجھ پر اور تیری کتاب پر اور تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے، ہمارے اس ایمان کے باعث جو تیری ذات اور تیری شریعت پر ہے تو ہمارے گناہوں کو اپنے فضل و کرم سے معاف فرما اور ہمیں جہنم کے عذاب سے نجات دے، یہ متقی لوگ اللہ کی اطاعت بجا لاتے ہیں اور حرام چیزوں سے الگ رہتے ہیں، صبر کے سہارے کام لیتے ہیں اور اپنے ایمان کے دعوے میں بھی سچے ہیں۔

کل اچھے اعمال بجا لاتے ہیں خواہ وہ ان کے نفس کو کتنے بھاری پڑیں، اطاعت اور خشوع خضوع والے ہیں، اپنے مال اللہ کی راہ میں جہاں جہاں حکم ہے خرچ کرتے ہیں، صلہ رحمی میں رشتہ داری کا پاس رکھنے میں برائیوں کے روکنے آپس میں ہمدردی اور خیر خواہی کرنے میں حاجت مندوں، مسکینوں اور فقیروں کے ساتھ احسان کرنے میں سخاوت سے کام لیتے ہیں اور سحری کے وقت پچھلی رات کو اٹھ اٹھ کر استغفار کرتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ اس وقت استغفار افضل ہے۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ قرآن کریم کی اس آیت میں یعقوب نے اپنے بیٹوں سے یہی فرمایا تھا کہ 
«سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّيْ» 
[12-يوسف:98] ‏‏‏‏ 
میں ابھی تھوڑی دیر میں تمہارے لیے اپنے رب سے بخشش طلب کروں گا، اس سے مراد بھی سحری کا وقت ہے، اپنی اولاد سے فرماتے ہیں کہ سحری کے وقت میں تمہارے لیے استغفار کروں گا۔

بخاری و مسلم وغیرہ کی حدیث میں جو بہت سے صحابیوں سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان موجود ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہر رات آخری تہائی باقی رہتے ہوئے آسمان دنیا پر اترتا ہے اور فرماتا ہے کہ کوئی سائل ہے؟ جسے میں دوں، کوئی دعا مانگنے والا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں، کوئی استغفار کرنے والا ہے کہ میں اسے بخشوں؟
 [صحیح بخاری:1145] ‏‏‏‏

دنیاوی فائدہ

 یہ سب دنیاوی فائدہ کی چیزیں ہیں، یہاں کی زینت اور یہاں ہی کی دلکشی کے سامان ہیں جو فانی اور زوال پالنے والے ہیں، اچھی لوٹنے کی جگہ اور بہترین ثواب کا مرکز اللہ کے پاس ہے۔

نو اللہ سے ڈرنے والوں کیلئے جنت ہے جس کے کنارے کنارے اور جس کے درختوں کے درمیان قسم قسم کی نہریں بہہ رہی ہیں، کہیں شہد کی، کہیں دودھ کی، کہیں پاک شراب کی، کہیں نفیس پانی کی، اور وہ نعمتیں ہیں جو نہ کسی کان نے سنی ہوں نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہوں نہ کسی دِل میں خیال بھی گزرا ہو، ان جنتوں میں یہ متقی لوگ ابدالآباد رہیں گے نہ یہ نکالے جائیں نہ انہیں دی ہوئی نعمتیں گم ہوں گی نہ فنا ہوں گی، پھر وہاں بیویاں ملیں گی جو میل کچیل سے خباثت اور برائی سے  گندگی اور پلیدی سے پاک ہیں، ہر طرح ستھری اور پاکیزہ، ان سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کی رضا مندی انہیں حاصل ہو جائے گی اور ایسی کہ اس کے بعد ناراضگی کا کھٹکا ہی نہیں، 

اسی لیے سورۃ برات کی آیت میں فرمایا 
«وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللَّـهِ أَكْبَرُ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ» 
[9-التوبة:72] ‏‏‏‏ 
کی تھوڑی سی رضا مندی کا حاصل ہو جانا بھی سب سے بڑی چیز ہے، یعنی تمام نعمتوں سے اعلیٰ نعمت رضائے رب اور مرضی مولا ہے۔ تمام بندے اللہ کی نگاہ میں ہیں وہ بخوبی جانتا ہے کہ کون مہربانی کا مستحق ہے۔

دنیا کی زندگی


 

اے اللہ


 اے اللہ تو قیامت کے دن اپنی تمام مخلوق کو جمع کرنے والا ہے اور ان میں فیصلے اور حکم کرنے والا ہے، ان کے اختلافات کو سمیٹنے والا ہے اور ہر ایک کو بھلے برے عمل کا بدلہ دینے والا ہے اس دن کے آنے میں اور تیرے وعدوں کے سچے ہونے میں کوئی شک نہیں۔

اے رب


 

ہماری سمجھ سے بلند آیات


یہاں یہ بیان ہو رہا ہے کہ قرآن میں ایسی آیتیں بھی ہیں جن کا بیان بہت واضح بالکل صاف اور سیدھا ہے۔ ہر شخص اس کے مطلب کو سمجھ سکتا ہے، اور بعض آیتیں ایسی بھی ہیں جن کے مطلب تک عام ذہنوں کی رسائی نہیں ہو سکتی، اب جو لوگ نہ سمجھ میں آنے والی آیتوں کے مفہوم کو پہلی قسم کی آیتوں کی روشنی میں سمجھ لیں یعنی جس مسئلہ کی صراحت جس آیت میں پائیں لے لیں، وہ تو راستی پر ہیں اور جو صاف اور صریح آیتوں کو چھوڑ کر ایسی آیتوں کو دلیل بنائیں جو ان کے فہم سے بالاتر ہیں، ان میں الجھ جائیں تو منہ کے بل گر پڑیں، ام الکتاب یعنی کتاب اللہ اصل اصولوں کی وہ صاف اور واضح آیتیں ہیں، شک و شبہ میں نہ پڑو اور کھلے احکام پر عمل کرو انہی کو فیصلہ کرنے والی مانو اور جو نہ سمجھ میں آئے اسے بھی ان سے ہی سمجھو، بعض اور آیتیں ایسی بھی ہیں کہ ایک معنی تو ان کا ایسا نکلتا ہے جو ظاہر آیتوں کے مطابق ہو اور اس کے سوا اور معانی بھی نکلتے ہیں، گو وہ حرف لفظ اور ترکیب کے اعتبار سے واقعی طور پر نہ ہو تو ان غیر ظاہر معنوں میں نہ پھنسو۔

خالقِ کل


اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ آسمان و زمین کے غیب کو وہ بخوبی جانتا ہے اس پر کوئی چیز مخفی نہیں، وہ تمہیں تمہاری ماں کے پیٹ میں جس طرح کی چاہتا ہے اچھی، بری نیک اور بد صورتیں عنایت فرماتا ہے، اس کے سوا عبادت کے لائق کوئی نہیں وہ غالب ہے حکمت والا ہے، جبکہ صرف اسی ایک نے تمہیں بنایا، پیدا کیا، پھر تم دوسرے کی عبادت کیوں کرو؟ وہ لازوال عزتوں والا غیرفانی حکمتوں والا، اٹل احکام والا ہے۔

 جیسے اور جگہ ہے 
«يَخْلُقُكُمْ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ خَلْقًا مِّن بَعْدِ خَلْقٍ فِي ظُلُمَاتٍ ثَلَاثٍ ذَٰلِكُمُ اللَّـهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ فَأَنَّىٰ تُصْرَفُونَ»
 [39۔ الزمر:6]
 ‏‏‏‏ وہ اللہ جو تمہیں ماؤں کے پیٹوں میں پیدا کرتا ہے، ہر ایک کی پیدائش طرح طرح کے مرحلوں سے گزرتی ہے۔

لوگوں کی ہدایت



قرآن کریم


اللہ تعالیٰ نے تجھ پر اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کو حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے جس میں کوئی شک نہیں بلکہ یقیناً وہ اللہ کی طرف سے ہے، جسے اس نے اپنے علم کی وسعتوں کے ساتھ اتارا ہے، فرشتے اس پر گواہ ہیں اور اللہ کی شہادت کافی وافی ہے۔ یہ قرآن اپنے سے پہلے کی تمام آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اور وہ کتابیں بھی اس قرآن کی سچائی پر گواہ ہیں، اس لیے کہ ان میں جو اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے اور اس کتاب کے اترنے کی خبر تھی وہ سچی ثابت ہوئی۔ اسی نے موسیٰ بن عمران علیہ السلام پر توراۃ اور عیسیٰ بن مریم پر انجیل اتاری، وہ دونوں کتابیں بھی اس زمانے کے لوگوں کیلئے ہدایت دینے والی تھیں۔ اس نے فرقان اتارا جو حق و باطل، ہدایت و ضلالت، گمراہی اور راہِ راست میں فرق کرنے والا ہے، اس کی واضح روشن دلیلیں اور زبردست ثبوت ہر معترض کیلئے مثبت جواب ہیں۔

اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں



 

نیکی کا فاہدہ


 اللہ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا یہ اس کا لطف و کرم اور احسان و انعام ہے۔ 
جو چیز طاقت سے باہر ہے اس پر عذاب نہیں کیونکہ دِل میں کسی خیال کا دفعتاً آ جانا روکے رُک نہیں سکتا ، بلکہ حدیث سے یہ بھی معلوم ہو چکا ہے کہ ایسے وسوسوں کو برا جاننا دلیل ایمان ہے، بلکہ اپنی اپنی کرنی اپنی اپنی بھرنی، اعمال صالحہ کرو گے ، جزا پاؤ گے، برے اعمال کرو گے تو سزا بھگتو گے۔

بقرہ کی آخری آیات اور ان کی فضیلت

صحیح بخاری میں ہے جو شخص ان دونوں آیتوں کو رات کو پڑھ لے اسے یہ دونوں کافی ہیں۔ 
[صحیح بخاری:5009:صحیح] ‏‏‏‏ 

صحیح مسلم شریف میں ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کرائی گئی اور آپ سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے جو ساتویں آسمان میں ہے، جو چیز آسمان کی طرف چڑھتی ہے وہ یہیں تک ہی پہنچتی ہے اور یہاں سے ہی لے جائی جاتی ہے اور جو چیز اوپر سے نازل ہوتی ہے وہ بھی یہیں تک پہنچتی ہے، پھر یہاں سے آگے لے جائی جاتی ہے اور اسے سونے کی ٹڈیاں ڈھکے ہوئے تھیں، وہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تین چیزیں دی گئیں۔ پانچ وقت کی نمازیں، سورۃ البقرہ کے خاتمہ کی آیتیں اور توحید والوں کے تمام گناہوں کی بخشش۔
 [صحیح مسلم:173:صحیح] ‏‏‏‏

ایک اور حدیث میں ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جہاں جبرائیل علیہ السلام بھی تھے کہ اچانک ایک دہشت ناک بہت بڑے دھماکے کی آواز کے ساتھ آسمان کا وہ دروازہ کھلا جو آج تک کبھی نہیں کھلا تھا، اس سے ایک فرشتہ اترا، اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشی مبارک ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ دو نور دئیے جاتے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی نبی کو نہیں دئیے گئے سورۃ فاتحہ اور سورۃ البقرہ کی آخری آیتیں۔ ان کے ایک ایک حرف پر آپ کو نور دیا جائے گا۔ 
[صحیح مسلم:805:صحیح] ‏‏‏‏ 

انسان کے ضمیر سے خطاب


یعنی آسمان و زمین کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ چھوٹی بڑی چھپی یا کھلی ہر بات کو وہ جانتا ہے۔ ہر پوشیدہ اور ظاہر عمل کا وہ حساب لینے والا ہے، 
جیسے اور جگہ فرمایا 
«قُلْ إِن تُخْفُوا مَا فِي صُدُورِكُمْ أَوْ تُبْدُوهُ يَعْلَمْهُ اللَّـهُ وَيَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ» 
[ 3-آل عمران: 29 ] ‏‏‏‏ 
کہہ دے کہ تمہارے سینوں میں جو کچھ ہے اسے خواہ تم چھپاؤ یا ظاہر کرو اللہ تعالیٰ کو اس کا بخوبی علم ہے، وہ آسمان و زمین کی ہرچیز کا علم رکھتا ہے اور ہر چیز پر قادر ہے
 اور فرمایا 
«يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى» 
[ 20-طه: 7 ]
 ‏‏‏‏ وہ ہر چھپی ہوئی اور علانیہ بات کو خوب جانتا ہے،
 مزید اس معنی کی بہت سی آیتیں ہیں، یہاں اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ وہ اس پر حساب لے گا،

جب یہ آیت اتری تو صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم بہت پریشان ہوئے کہ چھوٹی بڑی تمام چیزوں کا حساب ہو گا، اپنے ایمان کی زیادتی اور یقین کی مضبوطی کی وجہ سے وہ کانپ اٹھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر گھٹنوں کے بل گر پڑے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم نماز، روزہ، جہاد، صدقہ وغیرہ کا ہمیں حکم ہوا، وہ ہماری طاقت میں تھا ہم نے حتیٰ المقدور کیا لیکن اب جو یہ آیت اتری ہے اسے برداشت کرنے کی طاقت ہم میں نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم یہود و نصاریٰ کی طرح یہ کہنا چاہتے ہو کہ ہم نے سنا اور نہیں مانا، تمہیں چاہیئے کہ یوں کہو 

ہم نے سنا اور مانا، اے اللہ ہم تیری بخشش چاہتے ہیں۔ ہمارے رب ہمیں تو تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسے تسلیم کر لیا اور زبانوں پر یہ کلمات جاری ہو گئے تو آیت 
«اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ»
 [ 2۔ البقرہ: 285 ]
 ‏‏‏‏ اتری اور اللہ تعالیٰ نے اس تکلیف کو دور کر دیا 
اور آیت 
«لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ» 
[ 2۔ البقرہ: 286 ] ‏‏‏‏ نازل ہوئی۔ [صحیح مسلم:125:صحیح] ‏‏‏‏

صحیح مسلم میں بھی یہ حدیث ہے اس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس تکلیف کو ہٹا کر 
«لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ»
 [ 2-البقرہ: 286 ] ‏‏‏‏ اتاری، [صحیح مسلم:125-126:صحیح] ‏‏‏‏ 
اور جب مسلمانوں نے کہا کہ اے اللہ ہماری بھول چوک اور ہماری خطا پر ہمیں نہ پکڑ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا «نعم»، یعنی میں یہی کروں گا۔ انہوں نے کہا «رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا» 
[ 2-البقرہ: 286 ] ‏‏‏‏، 
اللہ ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو ہم سے اگلوں پر ڈالا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ بھی قبول، 
پھر کہا «رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ» 
[ 2-البقرہ: 286 ] ‏‏‏‏ 
اے اللہ ہم پر ہماری طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈال، اسے بھی قبول کیا گیا۔
 پھر دعا مانگی 
«وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ» 
[ 2-البقرہ: 286 ]
 ‏‏‏‏ اے اللہ ہمیں معاف فرما دے، ہمارے گناہ بخش اور کافروں پر ہماری مدد کر، اللہ تعالیٰ نے اسے بھی قبول فرمایا، 
یہ حدیث اور بھی بہت سے انداز سے مروی ہے۔


ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس جا کر واقعہ بیان کیا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس آیت «وَإِن تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُم بِهِ اللَّـهُ» 
[ البقرہ: 284 ] ‏‏‏‏ کی تلاوت فرمائی اور بہت روئے، 

 صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دِلی خیالات سے درگزر فرما لیا، گرفت اسی پر ہو گی جو کہیں یا کریں۔ 
[صحیح بخاری:2528:صحیح] ‏‏‏‏

بخاری مسلم میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب میرا بندہ برائی کا ارادہ کرے تو اسے نہ لکھو جب تک اس سے برائی سرزد ہو، اگر کر گزرے تو ایک برائی لکھو اور جب نیکی کا اراد کرے تو صرف ارادہ سے ہی نیکی لکھ لو اور اگر نیکی کر بھی لے تو ایک کے بدلے دس نیکیاں لکھو۔ [صحیح بخاری:7501:صحیح]
 ‏‏‏‏ اور روایت میں ہے کہ ایک نیکی کے بدلے ساتھ سو تک لکھی جاتی ہیں، 
[صحیح مسلم:128] ‏‏‏‏

اور روایت میں ہے کہ جب بندہ برائی کا ارادہ کرتا ہے تو فرشتے جناب باری میں عرض کرتے ہیں کہ اللہ تیرا یہ بندہ بدی کرنا چاہتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رُکے رہو جب تک کر نہ لے، اس کے نامہ اعمال میں نہ لکھو اگر لکھو گے تو ایک لکھنا اور اگر چھوڑ دے تو ایک نیکی لکھ لینا کیونکہ مجھ سے ڈر کر چھوڑتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو پختہ اور پورا مسلمان بن جائے اس کی ایک ایک نیکی کا ثواب دس سے لے کر سات سو تک بڑھتا جاتا ہے اور برائی نہیں بڑھتی، اور روایت میں ہے کہ سات سو سے بھی کبھی کبھی،
 [صحیح مسلم:129]
 ‏‏‏‏ نیکی بڑھا دی جاتی ہے، 
[صحیح مسلم:131:صحیح]
 ‏‏‏‏ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ بڑا برباد ہونے والا وہ ہے جو باوجود اس رحم و کرم کے بھی برباد ہو، ایک مرتبہ اصحاب رضی اللہ عنہم نے آ کر عرض کیا کبھی کبھی تو ہمارے دِل میں ایسے وسوسے اٹھتے ہیں کہ زبان سے ان کا بیان کرنا بھی ہم پر گراں گزرتا ہے۔ آپ نے فرمایا ایسا ہونے لگا؟ انہوں نے عرض کیا ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ صریح ایمان ہے۔ 
[صحیح مسلم:132:صحیح] ‏‏‏‏

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ قیامت والے دن جب تمام مخلوق کو اللہ تعالیٰ جمع کرے گا تو فرمائے گا کہ میں تمہیں تمہارے دِلوں کے ایسے بھید بتاتا ہوں جس سے میرے فرشتے بھی آگاہ نہیں، مومنوں کو تو بتانے کے بعد پھر معاف فرما دیا جائے گا لیکن منافق اور شک و شبہ کرنے والے لوگوں کو ان کے کفر کی درپردہ اطلاع دے کر بھی ان کی پکڑ ہو گی۔ ارشاد ہے آیت «وَلَـٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ» [ البقرہ: 225 ] ‏‏‏‏ یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارے دِلوں کی کمائی پر ضرور پکڑے گا یعنی دِلی شک اور دِلی نفاق کی بنا پر، حسن بصری بھی اسے منسوخ نہیں کہتے، امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی روایت سے متفق ہیں اور فرماتے ہیں کہ حساب اور چیز ہے عذاب اور چیز ہے۔ حساب لیے جانے اور عذاب کیا جانا لازم نہیں، ممکن ہے حساب کے بعد معاف کر دیا جائے اور ممکن ہے سزا ہو،

چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ ہم طواف کر رہے تھے ایک شخص نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کی سرگوشی کے متعلق کیا سنا ہے؟ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا اللہ تعالیٰ ایمان والے کو اپنے پاس بلائے گا یہاں تک کہ اپنا بازو اس پر رکھ دے گا پھر اس سے کہے گا بتا تو نے فلاں فلاں گناہ کیا؟ فلاں فلاں گناہ کیا؟ وہ غریب اقرار کرتا جائے گا، جب بہت سے گناہ ہونے کا اقرار کر لے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا سُن دنیا میں بھی میں نے تیرے ان گناہوں کی پردہ پوشی کی، اور اب آج کے دن بھی میں ان تمام گناہوں کو معاف فرما دیتا ہوں، اب اسے اس کی نیکیوں کا صحیفہ اس کے داہنے ہاتھ میں دے دیا جائے گا، 

ہاں البتہ کفار و منافق کو تمام مجمع کے سامنے رسوا کیا جائے گا اور ان کے گناہ ظاہر کئے جائیں گے اور پکارا جائے گا کہ 
«هَـٰؤُلَاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَىٰ رَبِّهِمْ أَلَا لَعْنَةُ اللَّـهِ عَلَى الظَّالِمِينَ» 
[ 11-هود: 18 ]
 ‏‏‏‏ یہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر تہمت لگائی، ان ظالموں پر اللہ کی پھٹکار ہے۔ 
[صحیح بخاری:2441] ‏‏‏‏

گواہی کو نہ چھپاؤ


سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ فرماتے ہیں جھوٹی شہادت دینی یا شہادت کو چھپانا گناہِ کبیرہ ہے۔
یہاں بھی فرمایا اس کا چھپانے والا خطا کار دِل والا ہے ۔جیسے اور جگہ ہے
 «وَلَا نَكْتُمُ شَهَادَةَ اللّٰهِ اِنَّآ اِذًا لَّمِنَ الْاٰثِمِيْنَ» 
[ 5۔ المائدہ: 106 ] ‏‏‏‏
 یعنی ہم اللہ کی شہادت کو نہیں چھپاتے، اگر ہم ایسا کریں گے تو یقیناً ہم گنہگاروں میں سے ہیں۔

 اور جگہ فرمایا 
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّـهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّـهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَن تَعْدِلُوا وَإِن تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا» 
[ 4-النساء: 135 ]
 ‏‏‏‏ ایمان والو عدل و انصاف کے ساتھ اللہ کے حکم کی تعمیل یعنی گواہیوں پر ثابت قدم رہو، گو اس کی برائی خود تمہیں پہنچے یا تمہارے ماں باپ کو یا رشتے کنبے والوں کو اگر وہ مالدار ہو تو اور فقیر ہو تو اللہ تعالیٰ ان دونوں سے اولیٰ ہے، خواہشوں کے پیچھے پڑ کر عدل سے نہ ہٹو اور اگر تم زبان دباؤ گے یا پہلو تہی کرو گے تو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ بھی تمہارے اعمال سے خبردار ہے، اسی طرح یہاں بھی فرمایا کہ گواہی کو نہ چھپاؤ اس کا چھپانے والا گنہگار دِل والا ہے اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو خوب جانتا ہے۔

ادھار کے معاملات


اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ایماندار بندوں کو ارشاد فرمایا ہے کہ وہ ادھار کے معاملات لکھ لیا کریں تاکہ رقم اور معیاد خوب یاد رہے، گواہ کو بھی غلطی نہ ہو، اس سے ایک وقت مقررہ کیلئے ادھار دینے کا جواز بھی ثابت ہوا، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ معیاد مقرر کر کے قرض کے لین دین کی اجازت اس آیت سے بخوبی ثابت ہوتی ہے۔

صحیح بخاری شریف میں ہے کہ مدینے والوں کا ادھار لین دین دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ناپ تول یا وزن مقرر کر لیا کرو، بھاؤ تاؤ چکا لیا کرو اور مدت کا بھی فیصلہ کر لیا کرو۔ 
[صحیح بخاری:2239:صحیح] ‏‏‏‏

گواہوں کو چاہیئے کہ جب وہ بلائے جائیں انکار نہ کریں یعنی جب ان سے کہا جائے کہ آؤ اس معاملہ پر گواہ رہو تو انہیں انکار نہ کرنا چاہیئے۔
صحیح مسلم اور سنن کی حدیث میں ہے اچھے گواہ وہ ہیں جو بے پوچھے ہی گواہی دے دیا کریں۔
[صحیح مسلم:1719:صحیح] 

‏‏‏‏ بخاری و مسلم کی دوسری حدیث میں جو آیا ہے کہ بدترین گواہ وہ ہیں جن سے گواہی طلب نہ کی جائے اور وہ گواہی دینے بیٹھ جائیں۔
[صحیح بخاری:6428:صحیح]

 ‏‏‏‏ اور وہ حدیث جس میں ہے کہ پھر ایسے لوگ آئیں گے جن کی قسمیں گواہیوں پر اور گواہیاں قسموں پر پیش پیش رہیں گی۔
[صحیح بخاری:2652:صحیح]

 ‏‏‏‏ اور روایت میں آیا ہے کہ ان سے گواہی نہ لی جائے گی تاہم وہ گواہی دیں گے۔
[صحیح بخاری:2651:صحیح] ‏‏‏‏ 


«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِن رَّحْمَتِهِ وَيَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ وَيَغْفِرْ لَكُمْ» 
[ 57-الحديد: 28 ] ‏‏‏‏ 
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھو وہ تمہیں دوہری رحمتیں دے گا اور تمہیں نور عطا فرمائے گا جس کی روشنی میں تم چلتے رہو گے۔ پھر فرمایا تمام کاموں کا انجام اور حقیقت سے ان کی مصلحتوں اور دور اندیشیوں سے اللہ آگاہ ہے اس سے کوئی چیز مخفی نہیں، اس کا علم تمام کائنات کو گھیرے ہوئے ہے اور ہرچیز کا اسے حقیقی علم ہے۔

سو د



اے میرے مومن بندو ! سو د کا معمولی اور عارضی فائدہ حاصل کرنے کی بجائے دائمی سکون، اطمینان اور میرے ہاں اجر پانے کے لیے مجھ سے ڈرو اور جو کچھ سود کے بقایا جات ہیں انہیں ترک کردو اگر تم حقیقتاً میرا حکم ماننے اور مجھ پر ایمان لانے والے ہو۔ حقیقی ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ تم سود سے کنارہ کش ہوجاؤ اگر تم نے اس نعمت کے باوجود سود نہ چھوڑا تو یاد رکھو یہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کھلی جنگ ہوگی۔ ہاں اگر تم تائب ہوجاؤ تو پھر اصل مال لینے کا تمہیں پورا پورا حق ہے۔ نہ ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے۔

(عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِيِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُْوْبِقَاتِ قَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَاھُنَّ قَالَ اَلشِّرْکُ باللّٰہِ وَالسِّحْرُ وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰہُ إِلَّا بالْحَقِّ وَأَکْلُ الرِّبَاوَأَکْلُ مَالِ الْیَتِیْمِ وَالتَّوَلِّيْ یَوْمَ الزَّحْفِ وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ الْغَافِلَاتِ ) [ رواہ البخاری : کتاب الوصایا، باب قول اللہ تعالیٰ إن الذین یأکلون أموال الیتامی ظلما ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچ جاؤ صحابہ کرام (رض) نے عرض کی اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ گناہ کون کون سے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا ‘ جادو کرنا ‘ ناحق کسی جان کو قتل کرنا ‘ سود کھانا ‘ یتیم کا مال کھانا ‘ میدان جنگ سے پیٹھ پھیر کر بھاگنا اور پاکدامن ‘ مومن ‘ بیخبر عورتوں پر تہمت لگانا۔ “ 

ابولیلیٰ نے ایک حدیث روایت کی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قیامت کے دن ایک بندہ اللہ کے سامنے لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اس سے سوال کرے گا کہ بتا میرے لیے تو نے کیا نیکی کی ہے؟ وہ کہے گا اے اللہ ایک ذرے کے برابر بھی کوئی ایسی نیکی مجھ سے نہیں ہوئی جو آج میں اس کی جزا طلب کر سکوں، اللہ اس سے پھر پوچھے گا وہ پھر یہی جواب دے گا پھر پوچھے گا پھر یہی کہے گا، پروردگار ایک چھوٹی سی بات البتہ یاد پڑتی ہے کہ تو نے اپنے فضل سے کچھ مال بھی مجھے دے رکھا تھا میں تجارت پیشہ شخص تھا، لوگ ادھار سدھار لے جاتے تھے، میں اگر دیکھتا کہ یہ غریب شخص ہے اور وعدہ پر قرض نہ ادا کر سکا تو میں اسے اور کچھ مدت کی مہلت دے دیتا، عیال داروں پر سختی نہ کرتا، زیادہ تنگی والا اگر کسی کو پاتا تو معاف بھی کر دیتا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا پھر میں تجھ پر آسانی کیوں نہ کروں، میں تو سب سے زیادہ آسانی کرنے والا ہوں، جا میں نے تجھے بخشا جنت میں داخل ہو جا، 
[صحیح بخاری:2077] ‏‏‏‏

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو شخص کسی سختی والے کو ڈھیل دے یا معاف کر دے، اللہ تعالیٰ اسے اپنے سایہ میں جگہ دے گا، 
[صحیح مسلم:3006] ‏‏‏‏

مسائل 
١۔ اللہ تعالیٰ سے ڈر کر سود اور اس کی باقیات کو چھوڑ دیا جائے۔ 
٢۔ سود نہ چھوڑنے والے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کرتے ہیں۔ 
٣۔ سود سے توبہ کے بعد اصل مال وصول کیا جاسکتا ہے۔ 
٤۔ سود خور نہ ظلم کریں اور نہ ان پر ظلم ہو۔ 

مومن بندے

 


 ان بندوں کی تعریف ہو رہی ہے جو اپنے رب کے احکام کی بجا آوری کریں، مخلوق کے ساتھ سلوک و احسان قائم کریں، نمازیں قائم کریں، زکوٰۃ دیتے رہیں، یہ قیامت کے دن تمام دکھ درد سے امن میں رہیں گے کوئی کھٹکا بھی ان کے دل پر نہ گزرے گا بلکہ رب العالمین اپنے انعام و اکرام سے انہیں سرفراز فرمائے گا۔


Wednesday, May 4, 2022

سود کا کاروبار برکت سے محروم ہوتا ہے۔


سود خور سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ سود کو برباد کرتا ہے یعنی یا تو اسے بالکل غارت کر دیتا ہے یا سودی کاروبار سے خیر و برکت ہٹا دیتا ہے۔ 

 علاوہ ازیں دنیا میں بھی وہ تباہی کا باعث بنتا ہے اور آخرت میں عذاب کا سبب، جیسے ہے 

«قُل لَّا يَسْتَوِي الْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ أَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيثِ» 

[ 5-المائدة: 100 ] ‏‏‏‏

 یعنی ناپاک اور پاک برابر نہیں ہوتا گو تمہیں ناپاک کی زیادتی تعجب میں ڈالے۔

 ارشاد فرمایا 

«وَيَجْعَلَ الْخَبِيثَ بَعْضَهُ عَلَىٰ بَعْضٍ فَيَرْكُمَهُ جَمِيعًا فَيَجْعَلَهُ فِي جَهَنَّمَ» 

[ 8-الأنفال: 37 ] ‏‏‏‏۔ 

الا یہ خباثت والی چیزوں کو تہ و بالا کر کے وہ جہنم میں جھونک دے گا۔ 

 سود کا مال بظاہر جتنا بھی بڑھ جائے حقیقت میں نہیں بڑھتا، فرمایا 

«وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ» 

[ 30۔ الروم: 39 ] ‏‏‏‏

” اور جو کوئی سودی قرض تم اس لیے دیتے ہو کہ لوگوں کے اموال میں بڑھ جائے تو وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا۔ “

 اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھاتا ہے اور ان میں خیر و برکت ہوتی ہے۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جو شخص پاک کمائی میں سے ایک کھجور بھی صدقہ کرے اور اللہ تعالیٰ پاک مال ہی کو قبول کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے قبول فرماتا ہے، پھر اسے صدقہ کرنے والے کے لیے اس طرح پالتا پوستا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گھوڑی کے بچے کی پرورش کرتا ہے، حتیٰ کہ وہ صدقہ (بڑھ کر) پہاڑ کی طرح ہوجاتا ہے۔ “ [ بخاری، الزکاۃ، باب الصدقۃ من کسب طیب : ١٤١٠۔ مسلم : ١٠١٤، عن أبی ہریرۃ (رض) ]


نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :

 (عَنْ زَیْنَبَ امْرأَۃِ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَتْ کُنْتُ فِي الْمَسْجِدِ فَرَأَیْتُ النَّبِيَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ تَصَدَّقْنَ وَلَوْ مِنْ حُلِیِّکُنَّ )

 [ رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ، باب الزکاۃ علی الزوج ]

 ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی بیوی زینب (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مسجد میں دیکھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : راہ خدا میں صدقہ کیا کرو اگرچہ تمہیں اپنے زیورات میں سے دینا پڑے۔ “ 

(عَنْ اَسْمَاءَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنْفِقِیْ وَلَا تُحْصِیْ فَیُحْصِی اللّٰہُ عَلَیْکِ وَلَا تُوْعِیْ فَیُوْعِی اللّٰہُ عَلَیْکِ ) 

[ رواہ مسلم : کتاب الزکاۃ، باب الحث علی الإنفاق وکراھیۃ الإحصاء ] 

” حضرت اسماء (رض) بیان کرتی ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا خرچ کر اور اسے شمار نہ کرو، ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تجھے گن کر دے گا اور نہ ہی حساب کرو، ورنہ وہ بھی تجھ سے حساب کرے گا۔ “ یعنی فراخ دلی اور کشادہ دستی سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہنا چاہیے۔ 

مسائل 

١۔ اللہ تعالیٰ سود کو مٹانا اور صدقات کو بڑھانا چاہتا ہے۔ ٍ 

٢۔ اللہ تعالیٰ ناشکرے اور گناہگار کو پسند نہیں کرتا۔ 



Monday, April 25, 2022

رات دن مال خرچ کرنے والوں کی فضیلت

  رات دن مال خرچ کرنے والوں کی فضیلت اور منقبت اس آیت میں رات دن اللہ کی رضا کے لیے مال خرچ کرنے کا تذکرہ ہے۔ جو پوشیدہ  طور پر اللہ کی راہ میں مال خرچ کریں گے یا علانیہ طور پر قیامت کے دن ان کا خرچ کیا ہوا مال اجر وثواب کی صورت میں انہیں مل جائے گا ۔ وہ وہاں غمگین نہ ہوں گے ، جبکہ بہت سے لوگ بدعملی کی وجہ سے یا اپنے مالوں کو گناہوں میں خرچ  کرنے کی وجہ سے غمگین ہوں گے۔ اس آیت میں مال خرچ کرنے کے بیان میں سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً فرمایا اس سے معلوم ہوا کہ لوگوں کے سامنے مال خرچ کرنا ریا کاری میں شامل نہیں جس سے گناہ ہو ، اور خرچ کرنا اکارت ہوجاتا ہو ، گو خفیہ طریقہ پر خرچ کرنے کی فضیلت زیادہ ہے لیکن اگر دکھاوا مقصود نہ ہو نام و نمود پیش نظر نہ ہو اور مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا ہی ہو تو لوگوں کے سامنے خرچ کرنے سے ریا کاری میں شمار نہ ہوگا ، ریا کاری اپنے دل کے جذبہ اور ارادہ کا نام ہے ، اگر کوئی شخص تنہائی میں نیک عمل کرے اور مال خرچ کرے اور پھر لوگوں کو معتقد بنانے کے لیے اپنے عمل کو ظاہر کرے یا دل میں یہ تڑپ ہو کہ میرے اعمال لوگوں پر ظاہر ہوں تاکہ میری تعریف ہو تو یہ بھی ریا میں شامل ہوجائے گا بلکہ اس میں دہرا ریا ہے کہ لوگ یوں کہیں گے کہ دیکھو کیسے مخلص ہیں تنہائیوں میں عمل کرتے ہیں۔

نیت میں اخلاص ہو تو اعلانیہ صدقہ کرنا ریاکاری میں شامل نہیں۔ صدقہ کرنے کے انداز اور طریقہ کے بارے میں پہلے ارشاد یہ تھا کہ چھپا کر صدقہ کرو یا اعلانیہ دونوں صورتیں تمہارے لیے بہتر ہیں۔ اس کے بدلے تمہارے گناہوں کو معاف کردیا جائے گا۔ یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ جو لوگ رات کی تاریکی میں صدقہ کریں یا دن کی روشنی میں سب کے سامنے کریں یا چھپ کر ایسے لوگوں کے اخلاص ، جذبات اور   صدقات کے مطابق ان کے رب کے ہاں نہایت ہی عمدہ اجر ہے۔ جس میں ایک رائی کے دانے کے برابر بھی کمی نہیں کی جائے گی۔ اس اجر کے ساتھ انہیں یہ بھی انعام سنایا جاتا ہے کہ انہیں اپنے مستقبل کے بارے میں خوفزدہ اور فکر مند ہونے کا اندیشہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ غربت کے خوف اور دولت کے لالچ سے بےنیاز ہو کر مستحق غریب کو معاشی غم سے نجات دلایا کرتے ہیں اس کے بدلے ان پر نہ خوف طاری ہوگا اور نہ ہی انہیں کسی قسم کی پریشانی اور پشیمانی ہوگی۔ دنیا میں بھی ان کا مال کم نہیں ہوگا۔ 


مسائل 

1۔ صدقہ دن رات، چھپ کر یا اعلانیہ کیا جائے اس کا اجر اللہ کے ہاں محفوظ ہے۔ 

2۔ صدقہ کرنے والے کو کوئی خوف و خطر نہیں ہوگا۔ تفسیر بالقرآن


 خوف وغم سے مبرّا حضرات : 

1۔ ہدایت پر عمل پیرا ہونے والا خوف زدہ اور غمگین نہیں ہوگا۔ 

(البقرۃ : 38) 

2۔ ایمان اور عمل صالح کرنے والے خوف زدہ نہ ہوں گے۔ 

(البقرۃ : 62 ) 

3۔ رضائے الٰہی کے لیے خرچ کرنے والے بےخوف وبے غم ہوں گے۔

 (البقرۃ : 262) 

4۔ ایمان، نماز اور زکوٰۃ مومن کو بےخوف وبے غم کرتی ہے۔

 (البقرۃ : 277)

5۔ ایمان پر قائم رہنے والوں اور اصلاح کرنے والوں پر خوف وغم نہ ہوگا۔ 

(الانعام : 48)



آمیـــــــن


 

اے اللہ


 

Saturday, April 23, 2022

مستحق صدقات کون ہیں

 مستحق صدقات کون ہیں

صدقہ ان مہاجرین کا حق ہے جو دنیوی تعلقات کاٹ کر ہجرتیں کر کے وطن چھوڑ کر کنبے قبیلے سے منہ موڑ کر اللہ کی رضا مندی کیلئے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ گئے ہیں، جن کے معاش کا کوئی ایسا ذریعہ نہیں جو انہیں کافی ہو اور وہ سفر کر سکتے ہیں کہ چل پھر کر اپنی روزی حاصل کریں «ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ» کے معنی مسافرت کے ہیں جیسے 

«وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ» 

[ 4-النسأ: 101 ] ‏‏‏‏ اور 

«يَضْرِبُونَ فِي الْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِن فَضْلِ اللَّـهِ» 

[ 73۔ المزمل: 20 ] ‏‏‏‏ 

میں ان کے حال سے جو لوگ ناواقف ہیں وہ ان کے لباس اور ظاہری حال اور گفتگو سے انہیں مالدار سمجھتے ہیں۔ 

ایک حدیث میں ہے مسکین وہی نہیں جو دربدر جاتے ہیں کہیں سے دو ایک کھجوریں مل گئیں کہیں سے دو ایک لقمے مل گئے، کہیں سے دو ایک وقت کا کھانا مل گیا بلکہ وہ بھی مسکین ہے جس کے پاس اتنا نہیں جس سے وہ بےپرواہ ہو جائے اور اس نے اپنی حالت بھی ایسی نہیں بنائی جس سے ہر شخص اس کی ضرورت کا احساس کرے اور کچھ احسان کرے اور نہ وہ سوال کے عادی ہیں۔ 

[صحیح بخاری:1479] ‏‏‏‏ 

تو انہیں ان کی اس حالت سے جان لے گا جو صاحب بصیرت پر مخفی نہیں رہتیں۔

جیسے اور جگہ ہے 

«سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ» 

[ 48۔ الفتح: 29 ] ‏‏‏‏ 

ان کی نشانیاں ان کے چہروں پر ہیں اور فرمایا 

«وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِيْ لَحْنِ الْـقَوْلِ» 

[ 47۔ محمد: 30 ] ‏‏‏‏ 

ان کے لب و لہجہ سے تم انہیں پہچان لو گے

‏‏‏‏ سنو قرآن کا فرمان ہے 

«اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِيْنَ» 

[ 45۔ الحجر: 75 ] ‏‏‏‏ 

بالیقین اس میں اہل بصیرت کیلئے نشانیاں ہیں، یہ لوگ کسی پر بوجھل نہیں ہیں، کسی سے ڈھٹائی کے ساتھ سوال نہیں کرتے نہ اپنے پاس ہوتے ہوئے کسی سے کچھ طلب کرتے ہیں، جس کے پاس ضرورت کے مطابق ہو اور پھر بھی وہ سوال کرے وہ چپک کر مانگنے والا کہلاتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ایک دو کھجوریں اور ایک دو لقمے لے کر چلے جانے والے ہی مسکین نہیں بلکہ حقیقتاً مسکین وہ ہیں جو باوجود حاجت کے خودداری برتیں اور سوال سے بچیں۔

پھر فرمایا تمہارے تمام صدقات کا اللہ کو علم ہے اور جبکہ تم پورے محتاج ہو گئے، اللہ پاک اس وقت تمہیں اس کا بدلہ دے گا، اس پر کوئی چیز مخفی نہیں۔ پھر ان لوگوں کی تعریفیں ہو رہی ہیں جو ہر وقت اللہ کے فرمان کے مطابق خرچ کرتے رہتے ہیں، انہیں اجر ملے گا اور ہر خوف سے امن پائیں گے، بال بچوں کے کھلانے پر بھی انہیں ثواب ملے گا، جیسے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ فتح مکہ والے سال جبکہ آپ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما کی عیادت کو گئے تو فرمایا ایک روایت میں ہے کہ حجۃ الوداع والے سال فرمایا تو جو کچھ اللہ کی خوشی کیلئے خرچ کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے بدلے تیرے درجات بڑھائے گا، یہاں تک کہ تو جو اپنی بیوی کو کھلائے پلائے اس کے بدلے بھی۔

[صحیح بخاری:6733:صحیح]


‏‏‏‏

صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم__❤


 

اَسْتَغْفِرُ اللهَ




گنتی کے چند روز

اَيَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ ۚ

گنتی کے چند روز

البقرۃ:184




لَيْلَـةِ الْقَدْرِ کی دعاء

 

لَيْلَـةِ الْقَدْرِ کی دعاء
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو
لیلۃ القدر میں پڑھنے کے لیے یہ دعاء سکھلائی:
«اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّى»
''اے اللہ! آپ معاف کرنے والے ہیں۔ معافیوں کو پسند کرتے ہیں۔ مجھے بھی معاف فرمائیں۔''
سنن ترمذی:3513 ، سنن ابن ماجہ:3850



Friday, April 22, 2022

لیلۃ القدر کی تلاش میں محنت

 لیلۃ القدر کی تلاش میں محنت


1. عَنْ عَائِشَةَ رضي ﷲ عنها أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: قَالَ: تَحَرَّوْا لَیْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْوِتْرِ مِنَ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، وَفِي رِوَایَةٍ: فِي السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب صلاة التراویح، باب تحري لیلة القدر في الوتر من العشر الأواخر، 2/710، الرقم: 1913، ومسلم في الصحیح، کتاب الصیام، باب فضل لیلة القدر والحث علی طلبھا وبیان محلھا وأرجی أوقات طلبھا، 2/823، الرقم: 1165/1169، والترمذي في السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء في لیلة القدر، 3/158، الرقم: 792


’’حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: شبِ قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں (اور ایک روایت میں ہے کہ رمضان کی آخری سات طاق راتوں) میں تلاش کیا کرو۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

2. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي ﷲ عنہما أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: الْتَمِسُوْهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ لَیْلَةَ الْقَدْرِ فِي تَاسِعَةٍ تَبْقٰی، فِي سَابِعَةٍ تَبْقٰی، فِي خَامِسَةٍ تَبْقٰی. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالْبَیْهَقِيُّ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الصیام، باب تحري لیلة القدر في الوتر من العشر الأواخر، 2/711، الرقم: 1917، والبیهقي في السنن الکبری، 4/308، الرقم: 8316، وابن حجر العسقلاني في تغلیق التعلیق، 3/205، والشوکاني في نیل الأوطار، 4/370


’’حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی ﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس (یعنی شبِ قدر) کو رمضان المبارک کے آخری عشرے میں باقی رہنے والی راتوں میں سے نویں، ساتویں اور پانچویں رات میں تلاش کرو۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری اور بیہقی نے روایت کیا ہے



Tuesday, April 19, 2022

روزہ کا اصل مقصد

 


روزہ کا اصل مقصد تزکیہ و تقوی کا حصول ہے ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ياَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَيْکُمُ الصِّيَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ. 

(البقره،2:183)

اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے ان پر فرض کیے گئے تھے جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیز گار ہو جاؤ''۔

تقویٰ کا حصول اس وقت تک ممکن نہیں ، جب تک کہ انسان دنیا کی خواہشات کے بندھن سے آزاد نہ ہو جائے اور ماہِ رمضان خواہشاتِ نفس کے بے لگام گھوڑے کو لگام ڈالتا ہے۔ روزہ بظاہر ایک مشقت والی عبادت ہے لیکن حقیقت میں اپنے مقصد اور نتیجے کے لحاظ سے یہ دنیا میں موجب راحت اور آخرت میں باعث رحمت ہے۔ روزہ دار دن بھر اپنے رب کے حکم کی تعمیل میں نہ کچھ کھاتا ہے نہ پیتا ہے لیکن افطار کے وقت اس پابندی کے اختتام کو بھی اپنے لئے باعث مسرت سمجھتا ہے۔




آپ نماز کیوں پڑھتے ہیں۔؟


آپ نماز کیوں پڑھتے ہیں۔؟
یہ سوال میری لائف کا بہت مشکل سوال ثابت ہوا۔
فرض ہے۔۔،؟

شکر ادا کرنے کے لئے۔۔،؟
خدا ہے ہی اس قابل۔۔،؟
جہنم کے خوف سے۔۔،؟
یہ وہ جواب ہیں جو مجھے اس کے جواب میں ملتے۔

ایک ٹائم تھا جب میں نماز جہنم کے خوف سے پڑھتا تھا
جہنم کا خوف مجھے اٹھا کے نماز کے لئے جا کھڑا کرتا تھا
پر مجھے وہ نماز فرض کی ادائیگی کبھی بھی نہ لگ سکی۔
پھر مجھ سے نماز نہ تو آرام سے پڑھی جاتی تھی، اور نہ یکسوئی سے
پھر خوف بھی کم ہوتا گیا۔

پھر جنّت کا بیان پڑھا تو اس کو پا لینے کی چاہ جاگی۔
میں پھر سے نماز پڑھنے لگا۔
مگر یہ بھی چند دن ہی رہی کیفیت۔

اپنے ابّا جی سے کہا تو بولے۔۔
بیٹا اس نے دنیا کی ھر نعمت سے نوازا ہے تم ان کا شکر ادا کرنے کے لئے پڑھا کرو۔
ذہن میں یہ رکھ کر بھی نماز پڑھ لی۔
دل کی حالت اب بھی وہی تھی۔

پھر ایک دن بہت عجیب بات ہوئی۔۔
میں جائے نماز پہ کھڑا ہوا اور مجھے نماز بھول گئی۔
بہت یاد کرنے کی کوشش کی۔
بھلا نماز ہم کیسےبھول سکتےہیں؟
مجھے خود پہ بہت رونا آیا۔
اور میں وہیں بیٹھ کے رونے لگا۔
تو مجھے لگا کوئی تسلی دینے والا ہاتھ ہے میرے سر پہ،، جیسے بچہ رو رہا ہو تو ہم سر پہ ہاتھ رکھ کے دلاسا دیتے ہیں
مجھے لگا کوئی پوچھ رہا ہے، کہ کیا ہوا۔؟ میں نے کہا نماز یاد نہیں۔
تو جیسے پوچھا گیا ،،، تَو ؟
میں حیران پریشان ،، اس تَو کا جواب تو میرے پاس بھی نہیں تھا شائد 
پھر لگا کوئی مسکرا یا ہو ،، اور کہا ہو 
نماز کیوں پڑھتے ہو ، ؟
خوف سے ؟
پر وہ تو غفور ہے ، رحیم ہے ، پھر خوف کیسا ؟
جنّت کے واسطے ؟ پر وہ تو درگزر فرماتا ہے 
شکر ادا کرنا ہے ؟ اسےضرورت نہیں ،،،،
فرض ہے؟ تو زمین پہ سر ٹکرانے کو نماز نہیں کہا جاتا 
وہ اس قابل ہے ؟ تم کیا جانو وہ کس قابل ہے ،،،،
میرے پاس الفاظ ختم، میں بس اس آواز میں گم ،،،،،
وہ جو ہے نہ ،،،
وہ تم سے کلام چاہتا ہے 
تم اسی کو دوست مانو ، اسی سے مشورہ کرو 
اسی کو داستان سناؤ ،،،
جیسے اپنے دوست کو سناتے ہو ، دل کی بیقراری کم ہوگی 
پھر نماز میں سکون ملے گا ،،،،،
میری آنکھ کھلی ، وہ یقیناً خواب تھا 
میں نے دوبارہ سے وضو کر کے نماز شروع کی
نماز خود بخود ادا ہوتی چلی گئی ،،،،،
دل میں سکون آتا چلا گیا 
مگر میرا دل سجدے سے سر اٹھانے کو نہ کرے ، مجھے لگا میرے پاس ہے وہ ، مجھ سے بات کر رہا ہے 
پھر اپنے دل کی ساری باتیں ہوتی چلی گیئں ،،
گرہیں کھلتی گیئں ،
سکون ملتا گیا ،،،
آسانیاں ہوتی گیئں ،،،
پھر آنکھ اذان سے پہلے کھلتی 
محبوب سے ملاقات کا انتظار رہنے لگا 
فرض کے ساتھ نفلی نمازیں بھی ادا ہوتی گیئں 
اللہ کا کرم ہو گیا ،