Saturday, April 23, 2022

مستحق صدقات کون ہیں

 مستحق صدقات کون ہیں

صدقہ ان مہاجرین کا حق ہے جو دنیوی تعلقات کاٹ کر ہجرتیں کر کے وطن چھوڑ کر کنبے قبیلے سے منہ موڑ کر اللہ کی رضا مندی کیلئے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ گئے ہیں، جن کے معاش کا کوئی ایسا ذریعہ نہیں جو انہیں کافی ہو اور وہ سفر کر سکتے ہیں کہ چل پھر کر اپنی روزی حاصل کریں «ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ» کے معنی مسافرت کے ہیں جیسے 

«وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ» 

[ 4-النسأ: 101 ] ‏‏‏‏ اور 

«يَضْرِبُونَ فِي الْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِن فَضْلِ اللَّـهِ» 

[ 73۔ المزمل: 20 ] ‏‏‏‏ 

میں ان کے حال سے جو لوگ ناواقف ہیں وہ ان کے لباس اور ظاہری حال اور گفتگو سے انہیں مالدار سمجھتے ہیں۔ 

ایک حدیث میں ہے مسکین وہی نہیں جو دربدر جاتے ہیں کہیں سے دو ایک کھجوریں مل گئیں کہیں سے دو ایک لقمے مل گئے، کہیں سے دو ایک وقت کا کھانا مل گیا بلکہ وہ بھی مسکین ہے جس کے پاس اتنا نہیں جس سے وہ بےپرواہ ہو جائے اور اس نے اپنی حالت بھی ایسی نہیں بنائی جس سے ہر شخص اس کی ضرورت کا احساس کرے اور کچھ احسان کرے اور نہ وہ سوال کے عادی ہیں۔ 

[صحیح بخاری:1479] ‏‏‏‏ 

تو انہیں ان کی اس حالت سے جان لے گا جو صاحب بصیرت پر مخفی نہیں رہتیں۔

جیسے اور جگہ ہے 

«سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ» 

[ 48۔ الفتح: 29 ] ‏‏‏‏ 

ان کی نشانیاں ان کے چہروں پر ہیں اور فرمایا 

«وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِيْ لَحْنِ الْـقَوْلِ» 

[ 47۔ محمد: 30 ] ‏‏‏‏ 

ان کے لب و لہجہ سے تم انہیں پہچان لو گے

‏‏‏‏ سنو قرآن کا فرمان ہے 

«اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِيْنَ» 

[ 45۔ الحجر: 75 ] ‏‏‏‏ 

بالیقین اس میں اہل بصیرت کیلئے نشانیاں ہیں، یہ لوگ کسی پر بوجھل نہیں ہیں، کسی سے ڈھٹائی کے ساتھ سوال نہیں کرتے نہ اپنے پاس ہوتے ہوئے کسی سے کچھ طلب کرتے ہیں، جس کے پاس ضرورت کے مطابق ہو اور پھر بھی وہ سوال کرے وہ چپک کر مانگنے والا کہلاتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ایک دو کھجوریں اور ایک دو لقمے لے کر چلے جانے والے ہی مسکین نہیں بلکہ حقیقتاً مسکین وہ ہیں جو باوجود حاجت کے خودداری برتیں اور سوال سے بچیں۔

پھر فرمایا تمہارے تمام صدقات کا اللہ کو علم ہے اور جبکہ تم پورے محتاج ہو گئے، اللہ پاک اس وقت تمہیں اس کا بدلہ دے گا، اس پر کوئی چیز مخفی نہیں۔ پھر ان لوگوں کی تعریفیں ہو رہی ہیں جو ہر وقت اللہ کے فرمان کے مطابق خرچ کرتے رہتے ہیں، انہیں اجر ملے گا اور ہر خوف سے امن پائیں گے، بال بچوں کے کھلانے پر بھی انہیں ثواب ملے گا، جیسے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ فتح مکہ والے سال جبکہ آپ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما کی عیادت کو گئے تو فرمایا ایک روایت میں ہے کہ حجۃ الوداع والے سال فرمایا تو جو کچھ اللہ کی خوشی کیلئے خرچ کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے بدلے تیرے درجات بڑھائے گا، یہاں تک کہ تو جو اپنی بیوی کو کھلائے پلائے اس کے بدلے بھی۔

[صحیح بخاری:6733:صحیح]


‏‏‏‏

No comments:

Post a Comment