Tuesday, April 19, 2022

صدقہ خیرات

سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا والی روایت

 آیت «لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّـهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ» 

[ 60-سورة الممتحنة: 8 ] ‏‏‏‏ کی تفسیر میں آئے گی ان شاءاللہ، یہاں فرمایا تم جو نیکی کرو گے اپنے لیے ہی کرو گے 

جیسے اور جگہ ہے «مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهٖ وَمَنْ اَسَاءَ فَعَلَيْهَا» [ 45۔ الجاثیہ: 15 ] ‏‏‏‏ 

اور «مَّنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ» [ 41-فصلت: 46 ] ‏‏‏‏ 

اس جیسی اور آیتیں بھی بہت ہیں، حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ایماندار کا ہر خرچ اللہ ہی کیلئے ہوتا ہے گو وہ خود کھائے پئے، [تفسیر ابن ابی حاتم:1115/3] ‏‏‏‏ 

عطا خراسان اس کا یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ جب تم نے اپنی مرضی سے مولا اور رضائے رب کیلئے دِیا تو لینے والا خواہ کوئی بھی ہو اور کیسے ہی اعمال کا کرنے والا ہو، 

[تفسیر ابن ابی حاتم:1113/3] ‏‏‏‏ 

یہ مطلب بھی بہت اچھا ہے، حاصل یہ ہے کہ نیک نیتی سے دینے والے کا اجر تو اللہ کے ذمہ ثابت ہو گیا ہے۔ اب خواہ وہ مال کسی نیک کے ہاتھ لگے یا بد کے یا غیر مستحق کے، اسے اپنے قصد اور اپنی نیک نیتی کا ثواب مل گیا۔ جبکہ اس نے دیکھ بھال کر لی پھر غلطی ہوئی تو ثواب ضائع نہیں جاتا اسی لیے آیت کے آخر میں بدلہ ملنے کی بشارت دی گئی۔

اور بخاری و مسلم کی حدیث میں آیا کہ ایک شخص نے قصد کیا کہ آج رات میں صدقہ دوں گا، لے کر نکلا اور چپکے سے ایک عورت کو دے کر چلا آیا، صبح لوگوں میں باتیں ہونے لگیں کہ آج رات کو کوئی شخص ایک بدکار عورت کو خیرات دے گیا، اس نے بھی سنا اور اللہ کا شکر ادا کیا، پھر اپنے جی میں کہا آج رات اور صدقہ دوں گا، لے کر چلا اور ایک شخص کی مٹھی میں رکھ کر چلا آیا، صبح سنتا ہے کہ لوگوں میں چرچا ہو رہا ہے کہ آج شب ایک مالدار کو کوئی صدقہ دے گیا، اس نے پھر اللہ کی حمد کی اور ارادہ کیا کہ آج رات کو تیسرا صدقہ دوں گا، دے آیا، دن کو پھر معلوم ہوا کہ وہ چور تھا تو کہنے لگا، اللہ تیری تعریف ہے زانیہ عورت کے دئیے جانے پر بھی، مالدار شخص کو دئیے جانے پر بھی اور چور کو دینے پر بھی، خواب میں دیکھتا ہے کہ فرشتہ آیا اور کہہ رہا ہے تیرے تینوں صدقے قبول ہو گئے۔ شاید بدکار عورت مال پا کر اپنی حرام کاری سے رُک جائے اور شاید مالدار کو عبرت حاصل ہو اور وہ بھی صدقے کی عادت ڈال لے اور شاید چور مال پا کر چوری سے باز رہے۔ 

[صحیح بخاری:1421] ‏‏‏‏

ابتدا میں مسلمان اپنے غیر مسلم رشتے داروں اور عام غیر مسلم اہل حاجت کی مدد کرنے میں تامل کرتے تھے ۔ ان کا خیال یہ تھا کہ صرف مسلمان حاجت مندوں ہی کی مدد کرنا انفاق فی سبیل اللہ ہے ۔ اس آیت میں ان کی یہ غلط فہمی دور کی گئی ہے ۔ ارشاد الہٰی کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کے دلوں میں ہدایت اتار دینے کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے ۔ تم حق بات پہنچا کر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوچکے ۔ اب یہ اللہ کے اختیار میں ہے کہ ان کو بصیرت کا نور عطا کرے یا نہ کرے ۔ رہا دنیوی مال و متاع سے ان کی حاجتیں پوری کرنا ، تو اس میں تم محض اس وجہ سے تامل نہ کرو کہ انہوں نے ہدایت قبول نہیں کی ہے ۔ اللہ کی رضا کے لیے جس حاجت مند انسان کی بھی مدد کرو گے ، اس کا اجر اللہ تمہیں دے گا ۔





No comments:

Post a Comment