Wednesday, February 28, 2024

ہر امت کے لیے

 بے معنی سوال کرنے والوں کو جواب 

وقت نہ معلوم ہو نہ سہی جانتے ہیں کہ بات سچی ہے ایک دن آئے گا ضروری۔ ہدایات دی جاتی ہیں کہ انہیں جواب دے کہ  میرے اختیار میں تو کوئی بات نہیں۔ جو بات مجھے بتلا دی جائے میں تو وہی جانتا ہوں۔ کسی چیز کی مجھ میں قدرت نہیں یہاں تک کہ خود اپنے نفع نقصان کا بھی میں مالک نہیں۔ میں تو اللہ کا غلام ہوں اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔ اس نے مجھ سے فرمایا میں نے تم سے کہا کہ قیامت آئے گی ضرور۔ نہ اس نے مجھے اس کا خاص وقت بتایا نہ میں تمہیں بتا سکوں ہاں ہر زمانے کی ایک معیاد معین ہے “۔
«وَلَن يُؤَخِّرَ اللَّـهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا»
 [63-المنافقون:11] ‏‏‏‏ ” 
اور اللہ کسی نفس کو ہرگز مہلت نہیں دے گا جب اس کی اجل آجائے گی ۔“
پھر فرمایا کہ 
لَا تَاْتِيْكُمْ اِلَّا بَغْتَةً ۗ ۔
وہ تم پر محض اچانک آجائے گی ۔
[سورۃ الاعراف:187]

ممکن ہے رات کو آ جائے ، دن کو آ جائے اس کے عذاب میں دیر کیا ہے؟ پھر اس شور مچانے سے اور وقت کا تعین پوچھنے سے کیا حاصل؟
کیا جب قیامت آ جائے ، عذاب دیکھ لو تب ایمان لاؤ گے؟ وہ محض بے سود ہے۔

«رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ»
[32-السجدہ:12] ‏‏‏‏
” اے ہمارے رب! ہم نے دیکھ لیا اور ہم نے سُن لیا ، پس (اب) ہمیں (دنیا میں) واپس لوٹا دے کہ ہم نیک عمل کر لیں بیشک ہم یقین کرنے والے ہیں۔

بکھرے لوگ

تنقید کا جواب

اللہ کی محبت

یـقــیـن

Sunday, February 25, 2024

قبروں سے

 جب سب اپنی قبر سے اٹھیں گے 


بیان ہو رہا ہے کہ ” وہ وقت بھی آ رہا ہے جب قیامت قائم ہوگی اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ ان کی قبروں سے اٹھا کر میدان قیامت میں جمع کرے گا “۔ «كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحَاهَا» [79-النازعات:46] ‏‏‏‏ ” اس وقت انہیں ایسا معلوم ہو گا کہ گویا گھڑی بھر دن ہم رہے تھے۔ صبح یا شام ہی تک ہمارا رہنا ہوا تھا “۔
«يَوْمَ يُنفَخُ فِي الصُّورِ وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِينَ يَوْمَئِذٍ زُرْقًا يَتَخَافَتُونَ بَيْنَهُمْ إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا عَشْرًا نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ إِذْ يَقُولُ أَمْثَلُهُمْ طَرِيقَةً إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا يَوْمًا» 
[20-طه:102-104] ‏‏‏‏ ” کہیں گے کہ دس روز دنیا میں گزارے ہوں گے، تو بڑے بڑے حافظے والے کہیں گے کہاں کے دس دن تم تو ایک ہی دن رہے “۔
«وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُقْسِمُ الْمُجْرِمُونَ مَا لَبِثُوا غَيْرَ سَاعَةٍ كَذَٰلِكَ كَانُوا يُؤْفَكُونَ وَقَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَالْإِيمَانَ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِي كِتَابِ اللَّـهِ إِلَىٰ يَوْمِ الْبَعْثِ فَهَـٰذَا يَوْمُ الْبَعْثِ وَلَـٰكِنَّكُمْ كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ» [30-الروم:55-56] ‏‏‏‏ ” قیامت کے دن یہ قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ایک ساعت ہی رہے “
 وغیرہ۔ ایسی آیتیں قرآن کریم میں بہت سی ہیں۔
مقصود یہ ہے کہ دنیا کی زندگی آج بہت تھوڑی معلوم ہوگی۔ سوال ہوگا کہ «قَالَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ فَاسْأَلِ الْعَادِّينَ»
 [23-المؤمنون:112-114] ‏‏‏‏ کتنے سال دنیا میں گزارے، جواب دیں گے کہ ایک دن بلکہ اسے بھی کم شمار والوں سے پوچھ لو۔ جواب ملے گا کہ واقعہ میں دار دنیادار آخرت کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے اور فی الحقیقت وہاں کی زندگی بہت ہی تھوڑی تھی لیکن تم نے اس کا خیال زندگی بھر نہ کیا۔ اس وقت بھی ہر ایک دوسرے کو پہچانتا ہو گا جیسے دنیا میں تھے ویسے ہی وہاں بھی ہوں گے رشتے کنبے کو، باپ بیٹوں الگ الگ پہنچان لیں گے۔ لیکن ہر ایک نفسا نفسی میں مشغول ہوگا۔
جیسے فرمان الٰہی ہے کہ «فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا أَنسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ»
 [23-المؤمنون:101] ‏‏‏‏ ” صور کے پھونکتے ہی حسب و نسب فنا ہو جائیں گے، کوئی دوست اپنے کسی دوست سے کچھ سوال تک نہ کرے گا “۔ «وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِّلْمُكَذِّبِينَ» [77-المرسلات:15] ‏‏‏‏ ” جو اس دن کو جھٹلاتے رہے وہ آج گھاٹے میں رہیں گے ان کے لیے ہلاکت ہو گی انہوں نے اپنا ہی برا کیا اور اپنے والوں کو بھی برباد کیا “۔ اس سے بڑھ کر خسارہ اور کیا ہوگا کہ ایک دوسرے سے دور ہے دوستوں کے درمیان تفریق ہے، حسرت و ندامت کا دن ہے۔

قبر کے 4 سوال

Friday, February 23, 2024

خبردار

 اللہ عزوجل اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی فرماتا ہے کہ

 «يا عِبَادِي إني حَرَّمْتُ الظُّلْمَ على نَفْسِي وَجَعَلْتُهُ بَيْنَكُمْ مُحَرَّمًا فلا تَظَالَمُوا، يا عِبَادِي، إنما هِيَ أَعْمَالُكُمْ أُحْصِيهَا لَكُمْ، ثُمَّ أُوَفِّيكُمْ إِيَّاهَا، فَمَنْ وَجَدَ خَيْرًا فَلْيَحْمَدْ اللَّهَ، وَمَنْ وَجَدَ غير ذلك فلا يَلُومَنَّ إلا نَفْسَهُ»

 اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام کر لیا ہے اور تم پر بھی اسے حرام کر دیا ہے۔ خبردار ایک دوسرے پر ظلم ہرگز نہ کرنا۔ اس کے آخر میں ہے اے میرے بندو! یہ تو تمہارے اپنے اعمال ہیں جنہیں میں جمع کر رہا ہوں پھر تمہیں ان کا بدلہ دونگا۔ پس جو شخص بھلائی پائے وہ اللہ کا شکر بجا لائے اور جو اس کے سوا کچھ اور پائے وہ صرف اپنے نفس کو ہی ملامت کرے ۔

 [صحیح مسلم:2577] 

صلـــی الله علیـــہ وآلـــہ وسلـــم

تـوبہ

 توبہ تمام گناہوں کی معافی کا ذریعہ 


اس آیت میں تمام نافرمانوں کو گو وہ مشرک و کافر بھی ہوں توبہ کی دعوت دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اللہ کی ذات غفور و رحیم ہے۔ وہ ہر تائب کی توبہ قبول کرتا ہے۔ ہر جھکنے والی کی طرف متوجہ ہوتا ہے توبہ کرنے والے کے اگلے گناہ بھی معاف فرما دیتا ہے گو وہ کیسے ہی ہوں کتنے ہی ہوں کبھی کے ہوں۔ اس آیت کو بغیر توبہ کے گناہوں کی بخشش کے معنی میں لینا صحیح نہیں اس لیے کہ شرک بغیر توبہ کے بخشا نہیں جاتا۔  صحیح بخاری شریف میں ہے کہ بعض مشکرین جو قتل و زنا کے بھی مرتکب تھے حاضر خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہو کر عرض کرتے ہیں کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین ہمیں ہر لحاظ سے اچھا اور سچا معلوم ہوتا ہے۔ لیکن یہ بڑے بڑے گناہ جو ہم سے ہو چکے ہیں ان کا کفارہ کیا ہو گا؟
 اس پر آیت 
«وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بالْحَقِّ وَلَا يَزْنُوْنَ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا» [25-الفرقان:68] ‏‏‏‏، یہ اور آیت نازل ہوئی ۔ [صحیح بخاری:4810] ‏‏‏‏
 توبہ سے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ بندے کو رحمت رب سے مایوس نہ ہونا چاہیئے۔ گو گناہ کتنے ہی بڑے اور کتنے ہی کثرت سے ہوں۔ توبہ اور رحمت کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہوا رہتا ہے اور وہ بہت ہی وسیع ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے 
«أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ» ‏‏‏‏ 
[9-التوبة:104] ‏‏‏‏ ” کیا لوگ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے “۔
اور فرمایا 
«وَمَن يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ‌ اللَّـهَ يَجِدِ اللَّـهَ غَفُورً‌ا رَّ‌حِيمًا» 
[4-النساء:110] ‏‏‏‏، ” جو برا کام کرے یا اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے پھر اللہ سے استغفار کرے وہ اللہ کو بخشنے والا اور مہربانی کرنے والا پائے گا “۔

انسان

Wednesday, February 21, 2024

بے مثل قرآن

 اعجاز قرآن حکیم 


قرآن کریم کے اعجاز کا اور قرآن کریم کے کلام اللہ ہونے کا بیان ہو رہا ہے کہ کوئی اس کا بدل اور مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اس جیسا قرآن بلکہ اس جیسی دس سورتیں بلکہ ایک سورت بھی کسی کے بس کی نہیں۔ یہ بے مثل قرآن بے مثل اللہ کی طرف سے ہے۔ اس کی فصاحت و بلاغت، اس کی وجاہت و حلاوت، اس کے معنوں کی بلندی، اس کے مضامین کی عمدگی بالکل بے نظیر چیز ہے۔
اور یہی دلیل ہے اس کی کہ یہ قرآن اس اللہ کی طرف سے ہے جس کی ذات بے مثل صفتیں بے مثل، جس کے اقوال بے مثل، جس کے افعال بے مثل، جس کا کلام اس چیز سے عالی اور بلند کہ مخلوق کا کلام اس کے مشابہ ہوسکے۔
یہ کلام تو رب العالمین کا ہی کلام ہے، نہ کوئی اور اسے بنا سکے، نہ یہ کسی اور کا بنایا ہوا۔ یہ تو سابقہ کتابوں کی تصدیق کرتا ہے، ان پر نگہبانی کرتا ہے، ان کا اظہار کرتا ہے، ان میں جو تحریف تبدیل تاویل ہوئی ہے اسے بے حجاب کرتا ہے، حلال و حرام جائز و ناجائز غرض کل امور شرع کا شافی اور پورا بیان فرماتا ہے۔ پس اس کے کلام اللہ ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔

دنیا

خاک

 

استعمال

Monday, February 19, 2024

رب اﻟﻌﺎﻟﻣﯾن

 اللہ کی الوہیت کے منکر 


اللہ کی ربوبیت کو مانتے ہوئے اس کی الوہیت کا انکار کرنے والے قریشیوں پر اللہ کی حجت پوری ہو رہی ہے کہ 
«فَأَنبَتْنَا فِيهَا حَبًّا وَعِنَبًا وَقَضْبًا وَزَيْتُونًا وَنَخْلًا وَحَدَائِقَ غُلْبًا وَفَاكِهَةً وَأَبًّا»
 [80-عبس:27-31]
 ‏‏‏‏ ” ان سے پوچھو کہ آسمانوں سے بارش کون برساتا ہے؟ پھر اپنی قدرت سے زمین کو پھاڑ کر کھیتی و باغ کون اُگاتا ہے؟ دانے اور پھل کون پیدا کرتا ہے؟ اس کے جواب میں یہ سب کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہی “۔
«أَمَّنْ هَـٰذَا الَّذِي يَرْزُقُكُمْ إِنْ أَمْسَكَ رِزْقَهُ» 
[67-الملک:21]
 ‏‏‏‏ ” اس کے ہاتھ میں ہے چاہے روزی دے چاہے روک لے “۔
 «قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخَذَ اللَّـهُ سَمْعَكُمْ وَأَبْصَارَكُمْ وَخَتَمَ عَلَىٰ قُلُوبِكُم مَّنْ إِلَـٰهٌ غَيْرُ اللَّـهِ يَأْتِيكُم بِهِ» [6-الأنعام:46] ‏‏‏‏ ” کان آنکھیں بھی اس کے قبضے میں ہیں۔ دیکھنے کی سننے کی حالت بھی اسی کی دی ہوئی ہے اگر وہ چاہے اندھا بہرا بنا دے۔ پیدا کرنے والا وہی، اعضاء کا دینے والا وہی ہے۔ وہ اسی قوت کو چھین لے تو کوئی نہیں دے سکتا “۔
اس کی قدرت و عظمت کو دیکھو کہ مردے سے زندے کو پیدا کر دے، زندے سے مردے کو نکالے۔ وہی تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے۔ ہر چیز کی بادشاہت اسی کے ہاتھ ہے۔ سب کو وہی پناہ دیتا ہے اس کے مجرم کو کوئی پناہ نہیں دے سکتا۔ وہی متصرف و حاکم ہے کوئی اس سے بازپرس نہیں کر سکتا وہ سب پر حاکم ہے۔
«يَسْأَلُهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ»
 [55-الرحمن:29] ‏‏‏‏ 
” آسمان و زمین اس کے قبضے میں ہر تر و خشک کا مالک وہی ہے عالم بالا اور سفلی اسی کا ہے “۔
کل انس و جن فرشتے اور مخلوق اس کے سامنے عاجز و بے کس ہیں۔ ہر ایک پست و لاچار ہے۔ ان سب باتوں کا ان مشرکین کو بھی اقرار ہے۔ پھر کیا بات ہے جو یہ تقویٰ اور پرہیزگاری اختیار نہیں کرتے۔ 
فاعل خود مختار اللہ کو جانتے ہوئے رب و مالک مانتے ہوئے معبود سمجھتے ہوئے پھر بھی دوسروں کی پوجا کرتے ہیں۔ وہی ہے تم سب کا سچا معبود اللہ تعالیٰ وکیل ہے اس کے سوا تمام معبود باطل ہیں وہ اکیلا ہے بے شریک ہے۔ مستحق عبادت صرف وہی ہے۔ حق ایک ہی ہے۔ اس کے سوا سب کچھ باطل ہے۔ پس تمہیں اس کی عبادت سے ہٹ کر دوسروں کی عبادت کی طرف نہ جانا چاہیئے یاد رکھو وہی رب العلمین ہے وہی ہرچیز میں متصرف ہے۔

Friday, February 16, 2024

صلـــی الله علیـــہ وآلـــہ وسلـــم

بدگمانی

حقیقی مالک

 وہاں ہر شخص اپنے اعمال دیکھ لے گا۔ اپنی بھلائی برائی معلوم کرلے گا۔ نیک و بد سامنے آ جائے گا۔ اسرار بے نقاب ہوں گے، کھل پڑیں گے، اگلے پچھلے چھوٹے بڑے کام سامنے ہوں گے۔ نامہ اعمال کھلے ہوئے ہوں گے، ترازو چڑھی ہوئی ہوگی۔ آپ اپنا حساب کرلے گا۔ «تَبْلُوا» کی دوسری قرآت «تَتْلُوْا» بھی ہے۔ اپنے اپنے کرتوت کے پیچھے ہر شخص ہوگا۔

حدیث میں ہے ہر امت کو حکم ہو گا کہ اپنے اپنے معبودوں کے پیچھے چل کھڑی ہو جائے۔ سورج پرست سب سورج کے پیچھے ہوں گے، چاند پرست چاند کے پیچھے، بت پرست بتوں کے پیچھے ۔ [صحیح بخاری:7438] ‏‏‏‏

سارے کے سارے حق تعالیٰ مولائے برحق کی طرف لوٹائے جائیں گے تمام کاموں کے فیصلے اس کے ہاتھ ہوں گے۔ اپنے فضل سے نیکوں کو جنت میں اور اپنے عدل سے بدوں کو جہنم میں لے جائے گا۔ مشرکوں کی ساری افرا پردازیاں رکھی کی رکھی رہ جائیں گی، بھرم کھل جائیں گے، پردے اُٹھ جائیں گے۔

Wednesday, February 14, 2024

آخرت کی فکر

قـرآن

وہ رب

بـرداشـت

 

حـیـا

الفاظ

حیا ایمان کا حصہ ہے

 عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما مرفوعاً: 

«الْحَيَاء مِنْ الْإِيمَانِ».  

[صحيح] - [متفق عليه]

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: 

حیا ایمان کا حصہ ہے۔  

شرح

’حیا‘ ایمان کا ایک جز ہے کیوں کہ حیادار شخص گناہوں سے باز رہتا ہے اور فرائض کو انجام دیتا ہے۔ یہ سب ایمان باللہ ہی کی تاثیر ہوتی ہے ۔ جب دل اس ایمان سے بھرا ہو تو وہ آدمی کو گناہوں سے روکتا ہے اور فرائض کی انجام دہی پر ابھارتا ہے۔ چنانچہ بندے پر اپنی تاثیر کی بدولت ’حیا‘ ایمان کی طرح ہوگئی۔  

 حدیث کے کچھ فوائد

1-حیا کی عادت اپنانے کی ترغیب اس لیے ہے، کیوں کہ یہ ایمان کی ایک شاخ ہے 

2-حیا ایسی عادت ہے، جو اچھائی کرنے اور برائی کو ترک کرنے پر آمادہ کرتی ہے 

3-۔جو چیز تمہیں کسی خیر سے روکے، وہ حیا نہیں، بلکہ شرم، عاجزی، ذلت، رسوائی اور بزدلی ہے۔ 

4-حیا کبھی اللہ سے کی جاتی ہے۔ یہ مامورات کی بجا آوری اور ممنوعات کو ترک کر کے ہوتی ہے۔ جب کہ کبھی مخلوق سے کی جاتی ہے اور یہ ان کا احترام کر کے اور انھیں ان کا مقام و رتبہ دے کر ہوتی ہے۔ 


Thursday, February 8, 2024

نیک اعمال

 عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی 


یہاں جس    نے نیک اعمال کئے   اور       با ایمان               رہا                        وہاں       اسے بھلائیاں     اور        نیک       بدلے ملیں گے۔ 
«هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ»
 [55-الرحمن:60]
 ‏‏‏‏ ” احسان کا بدلہ احسان ہے “۔
ایک ایک نیکی                 بڑھا                چڑھا         کر     زیادہ         ملے    گی     ایک کے بدلے سات سات سو      تک۔     جنت حور قصور وغیرہ وغیرہ آنکھوں کی طرح طرح       کی ٹھنڈک   ، دل کی لذت     اور ساتھ      ہی     اللہ عزوجل                     کے چہرے   کی    زیارت       یہ سب     اللہ تعالیٰ      کا    فضل و کرم    اور اس     کا لطف و رحم ہے۔       بہت سے سلف خلف صحابہ وغیرہ سے مروی ہے کہ زیادہ سے مراد اللہ عزوجل کا دیدار ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا: جب جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے اور اس وقت ایک منادی کرنے والا ندا کرے گا      کہ اے جنتیو!    تم سے اللہ کا ایک وعدہ ہوا تھا     ، اب وہ بھی پورا ہونے کو ہے۔ یہ کہیں گے «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ»  ہمارے میزان بھاری ہوگئے، ہمارے چہرے نورانی ہوگئے، ہم جنت میں پہنچ گئے، ہم جہنم سے دور ہوئے، اب کیا چیز باقی ہے؟ اس وقت حجاب ہٹ جائے گا اور یہ اپنے پاک پرودگار کا دیدار کریں گے۔ واللہ کسی چیز میں انہیں وہ لذت و سرور نہ حاصل ہوا ہو گا جو دیدار الٰہی میں ہوگا ۔ [صحیح مسلم:181] ‏‏‏‏
غرض ظاہر اور باطنی اہانت سے    وہ    دور  ہوں گے۔ چہرے پر نور دل راحتوں سے مسرور۔ اللہ ہمیں بھی انہیں میں کرے آمین۔

صلـــی الله علیـــہ وآلـــہ وسلـــم

سب تعریف اللہ کے لیے ہے

الحمد لله رب العالمين

اللہ

امیدیں

 

زنـدگی

احباب

بہت ضروری

ننانوے قتل

 عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه أن نبي الله صلى الله عليه وسلم قال: «كان فيمن كان قبلكم رجل قتل تسعة وتسعين نفسًا، فسأل عن أعلم أهل الأرض، فَدُلَّ على راهب، فأتاه فقال: إنه قتل تسعة وتسعين نفسا فهل له من توبة؟ فقال: لا، فقتله فكمَّل به مئة، ثم سأل عن أعلم أهل الأرض، فَدُلَّ على رجل عالم، فقال: إنه قتل مائة نفس فهل له من توبة؟ فقال: نعم، ومَنْ يَحُولُ بينه وبين التوبة؟ انْطَلِقْ إلى أرض كذا وكذا فإن بها أناسا يعبدون الله تعالى فاعبد الله معهم، ولا ترجع إلى أرضك فإنها أرض سوء، فانطلق حتى إذا نَصَفَ الطريقَ أتاه الموت، فاختصمت فيه ملائكة الرحمة وملائكة العذاب، فقالت ملائكة الرحمة: جاء تائبا، مُقْبِلا بقلبه إلى الله تعالى ، وقالت ملائكة العذاب: إنه لم يعمل خيرا قط، فأتاهم ملك في صورة آدمي فجعلوه بينهم -أي حكمًا- فقال: قِيسُوا ما بين الأرضين فإلى أَيَّتِهِمَا كان أدنى فهو له، فقاسوا فوجدوه أدنى إلى الأرض التي أراد، فقبضته ملائكة الرحمة». وفي رواية في الصحيح: «فكان إلى القرية الصالحة أقرب بشبر فجعل من أهلها». وفي رواية في الصحيح: «فأوحى الله تعالى إلى هذه أن تَبَاعَدِي، وإلى هذه أن تَقَرَّبِي، وقال: قيسوا ما بينهما، فوجدوه إلى هذه أقرب بشبر فغُفِرَ له». وفي رواية: «فَنَأَى بصدره نحوها». 

[صحيح] - [متفق عليه]

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "تم سے پہلی امتوں میں ایک شخص تھا، جس نے ننانوے قتل کیے تھے۔ اس نے پوچھا کہ روئے زمین پر سب سے بڑا عالم کون ہے؟ چنانچہ اسے ایک راہب کے بارے میں بتایا گیا۔ وہ اس کے پاس گیا اور کہا کہ اس نے ننانوے قتل کیے ہیں، کیا اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ راہب نے کہا کہ نہیں! (اس کی توبہ قبول نہ ہو گی) تو اس نے اس راہب کو بھی مار ڈالا اور یوں سو (100) قتل پورے کر دیے۔ پھر اس نے لوگوں سے پوچھا کہ زمین میں سب سے بڑا عالم کون ہے؟ لوگوں نے ایک عالم کے بارے میں بتایا (تو وہ اس کے پاس گیا) اور پوچھا کہ اس نے سو قتل کیے ہیں، کیا اس کے لیے توبہ ہے؟ وہ بولا کہ ہاں ہے اور آخر توبہ کرنے میں کون سی شے حائل ہو سکتی ہے؟ تو فلاں علاقے میں جا، وہاں کچھ لوگ ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں۔ تو بھی جا کر ان کے ساتھ عبادت کر اور اپنے علاقے میں واپس نہ جانا؛ کیوں کہ وہ بری جگہ ہے۔ چنانچہ وہ اس علاقے کی طرف چل پڑا، جب آدھا سفر طے کر لیا، تو اس کو موت آ گئی۔ اب عذاب کے فرشتوں اور رحمت کے فرشتوں میں جھگڑا ہوگیا۔ رحمت کے فرشتوں نے کہا کہ یہ توبہ کر کے صدق دل کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہو کر آ رہا تھا۔ جب کہ عذاب کے فرشتوں نے کہا کہ اس نے کبھی کوئی نیکی نہیں کی! آخر ایک فرشتہ آدمی کی صورت میں آیا اور دونوں فرشتوں نے اسے حکم مان لیا۔ اس نے کہا کہ دونوں طرف کی زمین ناپو، یہ جدھر سے قریب ہوگا، اسے ادھر ہی کا مان لیا جائے گا۔ سو انھوں نے زمین کو ناپا تو اسے اس زمین سے زیادہ قریب پایا، جس کا اس نے ارادہ کیا تھا۔ چنانچہ رحمت کے فرشتے اس کو لے گئے"۔ ایک اور روایت میں ہے: ”وہ اس صالح بستی سے ایک بالشت کی مقدار زیادہ قریب تھا۔ چنانچہ اسے انہی لوگوں میں شامل کر دیا گیا“۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالی نے اس زمین کو بذریعہ وحی حکم دیا کہ تو دور ہو جا اور اس زمین کو حکم دیا کہ تو قریب ہو جا۔ اور کہاکہ ان دونوں کے مایبن کی مسافت کو ناپو۔ جب انھوں نے ناپا تو معلوم ہوا کہ وہ اس زمین سے ایک بالشت کی مقدار زیادہ قریب ہے۔ چنانچہ اس کی مغفرت کر دی گئی۔ ايک دوسری روایت میں ہے: اس نے اپنے سینے کو کھینچ کر اس زمین کی طرف کر دیا۔ 

شرح

نبی نے فرمایا کہ ہم سے پہلی امتوں میں سے کسی امت میں ایک آدمی تھا، جس نے ننانوے لوگوں کو قتل کر رکھا تھا۔ احساس ندامت سے مغلوب ہو کر اس نے لوگوں سے علاقے کے سب سے زیادہ علم رکھنے والے شخص کے بارے میں پوچھا، تاکہ اس سے اپنے بارے میں دریافت کر سکے کہ کیا اس کے لیے توبہ ہے؟ اس کی رہ نمائی ایک شخص کی طرف کی گئی، جو تھا تو عابد، لیکن اس کے پاس علم نہیں تھا۔ جب اس نے اس سے پوچھا کہ اس نے ننانوے قتل کیے ہیں، تو کیا اس کے لیے توبہ ہے؟ راہب کو یہ گناہ بہت بڑا لگا اور وہ کہنے لگا کہ تیرے لیے کوئی توبہ نہیں ہے۔ اس پر وہ شخص غصہ میں آ گیا اور بے کلی میں اس نے راہب کو بھی قتل کر دیا اور اس طرح سو قتل پورے کر دیے۔ پھر دوبارہ اس نے علاقے کے سب سے بڑے عالم کے بارے میں پوچھا۔ اسے ایک عالم شخص کا پتہ بتایا گیا۔ اس نے اس سے پوچھا کہ اس نے سو افراد کو قتل کیا ہے، کیا اس کے لیے توبہ ہے؟ اس نے جواب دیا کہ اکیوں نہیں! اس کے اور توبہ کے مابین کون سی شے حائل ہو سکتی ہے؟ توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ لیکن فلاں بستی میں جاؤ۔ اس میں کچھ لوگ ہیں، جو اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ وہ جس علاقے میں تھا، شاید وہ دار الکفر تھا۔ واللہ اعلم۔ اس لیے اس نے اس سے کہا کہ اپنے دین کی خاطر وہ اس بستی کی طرف ہجرت کر جائے، جس میں اللہ کی عبادت ہوتی ہے۔ وہ شخص پشیمان و تائب ہو کر اپنے دین کی خاطر اس علاقے کی طرف ہجرت کر گیا، جس میں اللہ کی عبادت کرنے والے لوگ تھے۔ آدھا راستہ طے کیا تھا کہ اس کی موت آ گئی۔ اب اس کے بارے میں عذاب اور رحمت کے فرشتوں کے مابین اختلاف ہو گیا؛ رحمت کے فرشتے کہنے لگے کہ اس نے توبہ کر لی تھی اور وہ نادم و تائب ہو کر آ رہا تھا (لیکن عذاب کے فرشتے اسے اپنے ساتھ کے جانے پر مصر تھے)۔ اس طرح ان کے مابین جھگڑا ہو گیا۔ چنانچہ اللہ تعالی نے ایک فرشتہ بھیجا؛ تاکہ وہ ان کے مابین فیصلہ کرے۔ اس نے کہا: دونوں جانب کی مسافت کی پیمائش کرو۔ جس علاقے سے وہ زیادہ قریب ہو، اسے اس کے باشندوں میں سے گردانا جائے گا۔ یعنی اگر وہ دار الکفر کے زیادہ قریب ہو، تو عذاب کے فرشتے اس کی روح قبض کریں گے اور اگر دار الایمان کے زیادہ قریب ہو، تو رحمت کے فرشتے اس کی روح قبض کریں گے۔ چنانچہ انھوں نے ان دونوں کی مسافت کو ناپا، تو جس علاقے کی طرف وہ جا رہا تھا، یعنی دارالایمان کی جانب، وہ اس علاقے کی بہ نسبت ایک بالشت قریب نکلا، جہاں سے وہ ہجرت کر کے آ رہا تھا۔ چنانچہ رحمت کے فرشتوں نے اس کی روح قبض کی۔

Wednesday, February 7, 2024

صفر کا مہینہ

 صفر کا مہینہ اور غلط تصورات:

• — — — — — — — — —•

صفر اسلامی کیلنڈر کا دوسرا مہینہ ہے جس کے بارے میں لوگوں میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ایک طرف اس کے ساتھ بہت سی توہمات اور بدشگونیاں وابستہ کر لی گئی ہیں.

آپ صلی الله عليه وسلم نے فرمایا:
"صفر کے مہینے میں کوئی نحوست یا بدشگونی نہیں ہے"
صحیح بخاری : حدیث نمبر 5757

رسول الله صلی الله عليه وسلم نے فرمایا:
چھوت لگنا یا بدشگونی لینا یا الو کا منحوس ہونا اور صفر کا منحوس ہونا یہ سب لغو خیالات ہیں
صحیح بخاری 5707

الله کی تقدیر وتاثیر میں زمانے کو کوئی دخل نہیں ، لہٰذا صفر کا مہینہ بھی دیگر مہینوں کی طرح ہے ۔ نفع ونقصان کے اختیار کا سو فی صد یقین الله کی ذات سے ہونا چاہیے کہ جب وہ خیر پہنچانا چاہے تو کوئی شر نہیں پہنچا سکتا اور اگر وہ کوئی مصیبت نازل کر دے تو کوئی اس سے رہائی نہیں دے سکتا۔

وَإِن یَمْسَسْکَ اللّہُ بِضُرٍّ فَلاَ کَاشِفَ لَہُ إِلاَّ ہُوَ وَإِن یُرِدْکَ بِخَیْْرٍ فَلاَ رَآدَّ لِفَضْلِہِ یُصِیْبُ بِہِ مَن یَشَاء ُ مِنْ عِبَادِہِ وَہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیْم․


(سورة یونس:107)

ترجمہ:” اور اگر اللہ تم کو کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا اس کا کوئی دور کرنے والا نہیں اور اگر تم سے بھلائی کرنا چاہے تو اس کے فضل کو کوئی روکنے والا نہیں، وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے فائدہ پہنچاتا ہے اور وہ بخشنے والا مہربان ہے۔“

اللہ تعالےسے دعاء ہے کہ وہ ہم تمام مسلمانوں کو بدعت سے بچاکر سنت پر چلنے کی توفیق بخشے۔آمین۔


عورتوں کے ساتھ حسن سلوک

 اسلام میں عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی بہت تاکید آئی ہے۔

مردوں کو تحمل اور عفو درگزر سے کام لیتے ہوئے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کا اہتمام کرنا چاہئے حسن سلوک اور خندہ پیشانی میں خوشگوار زندگی کاراز مضمر ہے۔
اور جو لوگ اس کے برعکس عورت کے ساتھ بے رحمانہ تشدر کا رویہ اختیار کرتےہیں، ان کا گھر تو جہنم کدہ بنتا ہی ہے ساتھ ہی بچوں پر برا اثر پڑتا ہے جس کے اثرات نسلوں تک جاتے ہیں!

قرآن کریم میں یہ حکم دیا گیا ہے.
’’عورتوں کے ساتھ اچھی طرح زندگی بسرکرو‘‘۔(النساء:۱۹)

اورحدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’تم میں سے بہتروہ ہے جواپنے گھروالوں کے لیے بہترہےاورمیں اپنے گھروالوں کے لیے بہترہوں‘‘۔

اس سے معلوم ہواکہ بیویوں کے ساتھ حسن سلوک اوران کے ساتھ خوش اسلوبی سے پیش آنا قرآن وسنت کے احکامات میں شامل ہے ، حسن سلوک اورحسن اخلاق کی اہمیت اورقیامت کے دن اعمال کے ترازومیں اس کے وزنی ہونے سے متعلق ترمذی  شریف میں مندرجہ ذیل حدیث موجود ہے.
’’حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا:
قیامت کے دن مومن کی میزان عمل میں سب سے زیادہ وزنی اوربھاری چیزجورکھی جائے گی وہ اس کے اچھے اخلاق ہوں گے‘‘۔


Tuesday, February 6, 2024

استخارہ

 استخارہ کا مطلب ہے کسی معاملے میں خیراور بھلائی کا طلب کرنا،یعنی روز مرہ کی زندگی میں پیش آنے والے اپنے ہرجائز کام میں اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنا اور اللہ سے اس کام میں خیر، بھلائی اور رہنمائی طلب کرنا ۔

استخارہ ایک مسنون عمل ہے، جس کا طریقہ اور دعاء نبی صلى الله عليه وسلم سے احادیث میں منقول ہے ،حضور اکرم صلى الله عليه وسلم حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ہرکام سے پہلے اہمیت کے ساتھ استخارے کی تعلیم دیا کرتے تھے، حدیث کے الفاظ پر غور فرمائیے حضرت جابر بن عبد اللہ رضى الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

اذا ھم احدکم بالامر فلیرکع رکعتین من غیر الفریضة (بخاری)

ترجمہ :جب تم میں سے کوئی شخص کسی بھی کام کا ارادہ کرے تو اس کو چاہیے کہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھے ۔
سنت کے مطابق استخارہ کا سیدھا سادہ اور آسان طریقہ یہ ہے کہ دن رات میں کسی بھی وقت (بشرطیکہ وہ نفل کی ادائیگی کا مکروہ وقت نہ ہو)دو رکعت نفل استخارہ کی نیت سے پڑھیں،نیت یہ کرے کہ میرے سامنے یہ معاملہ یا مسئلہ ہے ، اس میں جو راستہ میرے حق میں بہتر ہو ، اللہ تعالی اس کا فیصلہ فرمادیں ۔

استخارہ کی مسنون دعاء
اَللّٰهُمَّ إِنِّیْ أَسْتَخِيْرُکَ بِعِلْمِکَ، وَأَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ، وَأَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِيْمِ، فَإِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ، وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ. اَللَّهُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ. . . (يہاں اپنی حاجت کا ذکر کرے) . . . خَيْرٌ لِیْ، فِيْ دِيْنِيْ وَمَعَاشِيْ وَعَاقِبَةِ أَمْرِيْ، فَاقْدُرْهُ لِيْ وَيَسِّرْهُ لِيْ، ثُمَّ بَارِکْ لِيْ فِيْهِ، وَإنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هٰذَا الْأَمْرَ. . . (یہاں اپنی حاجت کا ذکر کرے) . . . شَرٌّ لِّيْ، فِيْ دِيْنِيْ وَمَعَاشِيْ وَعَاقِبَةِ أَمْرِيْ، فَاصْرِفْهُ عَنِي وَاصْرِفْنِيْ عَنْهُ، وَاقْدُرْ لِيَ الْخَيْرَ حَيْثُ کَانَ، ثُمَّ أَرْضِنِيْ بِهِ.

(بخاری، الصحيح، کتاب التطوع، باب ما جاء فيالتطوع مثنی مثنی، 1 : 391، رقم : 1109)

دعاء کرتے وقت جب ”ہذا الامر “پر پہنچے (جس کے نیچے لکیر بنی ہے) تو اگر عربی جانتا ہے تو اس جگہ اپنی حاجت کا تذکرہ کرے یعنی ”ہذا الامر “کی جگہ اپنے کام کا نام لے، مثلا ”ہذا السفر “یا ”ہذا النکاح “ یا ”ہذہ التجارة “یا ”ہذا البیع “کہے ، اور اگر عربی نہیں جانتا تو ”ہذا الأمر “ہی کہہ کر دل میں اپنے اس کام کے بارے میں سوچے اور دھیان دے جس کے لیے استخارہ کررہا ہے۔

’’اے اللہ! بے شک میں (اس کام میں) تجھ سے تیرے علم کی مدد سے خیر مانگتا ہوں اور (حصولِ خیر کے لیے) تجھ سے تیری قدرت کے ذریعے قدرت مانگتا ہوں اور میں تجھ سے تیرا فضل عظیم مانگتا ہوں، بے شک تو (ہر چیز پر) قادر ہے اور میں (کسی چیز پر) قادر نہیں، تو (ہر کام کے انجام کو) جانتا ہے اور میں (کچھ) نہیں جانتا اور تو تمام غیبوں کا جاننے والا ہے۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام (جس کا میں ارادہ رکھتا ہوں) میرے لیے، میرے دین، میری زندگی اور میرے انجام کار کے لحاظ سے بہتر ہے تو اسے میرے لیے مقدر کر اور آسان کر پھر اس میں میرے لیے برکت پیدا فرما اور اگر تیرے علم میں یہ کام میرے لیے میرے دین، میری زندگی اور میرے انجام کار کے لحاظ سے برا ہے تو اس (کام) کو مجھ سے اور مجھے اس سے پھیر دے اور میرے لیے بھلائی عطا کر جہاں (کہیں بھی) ہو پھر مجھے اس کے ساتھ راضی کر دے۔‘