Thursday, February 29, 2024
Wednesday, February 28, 2024
ہر امت کے لیے
بے معنی سوال کرنے والوں کو جواب
«وَلَن يُؤَخِّرَ اللَّـهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا»
پھر فرمایا کہ
Sunday, February 25, 2024
قبروں سے
جب سب اپنی قبر سے اٹھیں گے
«يَوْمَ يُنفَخُ فِي الصُّورِ وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِينَ يَوْمَئِذٍ زُرْقًا يَتَخَافَتُونَ بَيْنَهُمْ إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا عَشْرًا نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ إِذْ يَقُولُ أَمْثَلُهُمْ طَرِيقَةً إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا يَوْمًا»
مقصود یہ ہے کہ دنیا کی زندگی آج بہت تھوڑی معلوم ہوگی۔ سوال ہوگا کہ «قَالَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ فَاسْأَلِ الْعَادِّينَ»
جیسے فرمان الٰہی ہے کہ «فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا أَنسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ»
Friday, February 23, 2024
خبردار
اللہ عزوجل اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی فرماتا ہے کہ
«يا عِبَادِي إني حَرَّمْتُ الظُّلْمَ على نَفْسِي وَجَعَلْتُهُ بَيْنَكُمْ مُحَرَّمًا فلا تَظَالَمُوا، يا عِبَادِي، إنما هِيَ أَعْمَالُكُمْ أُحْصِيهَا لَكُمْ، ثُمَّ أُوَفِّيكُمْ إِيَّاهَا، فَمَنْ وَجَدَ خَيْرًا فَلْيَحْمَدْ اللَّهَ، وَمَنْ وَجَدَ غير ذلك فلا يَلُومَنَّ إلا نَفْسَهُ»
اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام کر لیا ہے اور تم پر بھی اسے حرام کر دیا ہے۔ خبردار ایک دوسرے پر ظلم ہرگز نہ کرنا۔ اس کے آخر میں ہے اے میرے بندو! یہ تو تمہارے اپنے اعمال ہیں جنہیں میں جمع کر رہا ہوں پھر تمہیں ان کا بدلہ دونگا۔ پس جو شخص بھلائی پائے وہ اللہ کا شکر بجا لائے اور جو اس کے سوا کچھ اور پائے وہ صرف اپنے نفس کو ہی ملامت کرے ۔
[صحیح مسلم:2577]
تـوبہ
توبہ تمام گناہوں کی معافی کا ذریعہ
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
اور فرمایا
Wednesday, February 21, 2024
بے مثل قرآن
اعجاز قرآن حکیم
اور یہی دلیل ہے اس کی کہ یہ قرآن اس اللہ کی طرف سے ہے جس کی ذات بے مثل صفتیں بے مثل، جس کے اقوال بے مثل، جس کے افعال بے مثل، جس کا کلام اس چیز سے عالی اور بلند کہ مخلوق کا کلام اس کے مشابہ ہوسکے۔ یہ کلام تو رب العالمین کا ہی کلام ہے، نہ کوئی اور اسے بنا سکے، نہ یہ کسی اور کا بنایا ہوا۔ یہ تو سابقہ کتابوں کی تصدیق کرتا ہے، ان پر نگہبانی کرتا ہے، ان کا اظہار کرتا ہے، ان میں جو تحریف تبدیل تاویل ہوئی ہے اسے بے حجاب کرتا ہے، حلال و حرام جائز و ناجائز غرض کل امور شرع کا شافی اور پورا بیان فرماتا ہے۔ پس اس کے کلام اللہ ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔
Monday, February 19, 2024
رب اﻟﻌﺎﻟﻣﯾن
اللہ کی الوہیت کے منکر
«أَمَّنْ هَـٰذَا الَّذِي يَرْزُقُكُمْ إِنْ أَمْسَكَ رِزْقَهُ»
اس کی قدرت و عظمت کو دیکھو کہ مردے سے زندے کو پیدا کر دے، زندے سے مردے کو نکالے۔ وہی تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے۔ ہر چیز کی بادشاہت اسی کے ہاتھ ہے۔ سب کو وہی پناہ دیتا ہے اس کے مجرم کو کوئی پناہ نہیں دے سکتا۔ وہی متصرف و حاکم ہے کوئی اس سے بازپرس نہیں کر سکتا وہ سب پر حاکم ہے۔
«يَسْأَلُهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ»
کل انس و جن فرشتے اور مخلوق اس کے سامنے عاجز و بے کس ہیں۔ ہر ایک پست و لاچار ہے۔ ان سب باتوں کا ان مشرکین کو بھی اقرار ہے۔ پھر کیا بات ہے جو یہ تقویٰ اور پرہیزگاری اختیار نہیں کرتے۔
Friday, February 16, 2024
حقیقی مالک
وہاں ہر شخص اپنے اعمال دیکھ لے گا۔ اپنی بھلائی برائی معلوم کرلے گا۔ نیک و بد سامنے آ جائے گا۔ اسرار بے نقاب ہوں گے، کھل پڑیں گے، اگلے پچھلے چھوٹے بڑے کام سامنے ہوں گے۔ نامہ اعمال کھلے ہوئے ہوں گے، ترازو چڑھی ہوئی ہوگی۔ آپ اپنا حساب کرلے گا۔ «تَبْلُوا» کی دوسری قرآت «تَتْلُوْا» بھی ہے۔ اپنے اپنے کرتوت کے پیچھے ہر شخص ہوگا۔
حدیث میں ہے ہر امت کو حکم ہو گا کہ اپنے اپنے معبودوں کے پیچھے چل کھڑی ہو جائے۔ سورج پرست سب سورج کے پیچھے ہوں گے، چاند پرست چاند کے پیچھے، بت پرست بتوں کے پیچھے ۔ [صحیح بخاری:7438] سارے کے سارے حق تعالیٰ مولائے برحق کی طرف لوٹائے جائیں گے تمام کاموں کے فیصلے اس کے ہاتھ ہوں گے۔ اپنے فضل سے نیکوں کو جنت میں اور اپنے عدل سے بدوں کو جہنم میں لے جائے گا۔ مشرکوں کی ساری افرا پردازیاں رکھی کی رکھی رہ جائیں گی، بھرم کھل جائیں گے، پردے اُٹھ جائیں گے۔
Wednesday, February 14, 2024
حیا ایمان کا حصہ ہے
عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما مرفوعاً:
«الْحَيَاء مِنْ الْإِيمَانِ».
[صحيح] - [متفق عليه]
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
حیا ایمان کا حصہ ہے۔
شرح
’حیا‘ ایمان کا ایک جز ہے کیوں کہ حیادار شخص گناہوں سے باز رہتا ہے اور فرائض کو انجام دیتا ہے۔ یہ سب ایمان باللہ ہی کی تاثیر ہوتی ہے ۔ جب دل اس ایمان سے بھرا ہو تو وہ آدمی کو گناہوں سے روکتا ہے اور فرائض کی انجام دہی پر ابھارتا ہے۔ چنانچہ بندے پر اپنی تاثیر کی بدولت ’حیا‘ ایمان کی طرح ہوگئی۔
حدیث کے کچھ فوائد
1-حیا کی عادت اپنانے کی ترغیب اس لیے ہے، کیوں کہ یہ ایمان کی ایک شاخ ہے
2-حیا ایسی عادت ہے، جو اچھائی کرنے اور برائی کو ترک کرنے پر آمادہ کرتی ہے
3-۔جو چیز تمہیں کسی خیر سے روکے، وہ حیا نہیں، بلکہ شرم، عاجزی، ذلت، رسوائی اور بزدلی ہے۔
4-حیا کبھی اللہ سے کی جاتی ہے۔ یہ مامورات کی بجا آوری اور ممنوعات کو ترک کر کے ہوتی ہے۔ جب کہ کبھی مخلوق سے کی جاتی ہے اور یہ ان کا احترام کر کے اور انھیں ان کا مقام و رتبہ دے کر ہوتی ہے۔
Thursday, February 8, 2024
نیک اعمال
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
ایک ایک نیکی بڑھا چڑھا کر زیادہ ملے گی ایک کے بدلے سات سات سو تک۔ جنت حور قصور وغیرہ وغیرہ آنکھوں کی طرح طرح کی ٹھنڈک ، دل کی لذت اور ساتھ ہی اللہ عزوجل کے چہرے کی زیارت یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کا لطف و رحم ہے۔ بہت سے سلف خلف صحابہ وغیرہ سے مروی ہے کہ زیادہ سے مراد اللہ عزوجل کا دیدار ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا: جب جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے اور اس وقت ایک منادی کرنے والا ندا کرے گا کہ اے جنتیو! تم سے اللہ کا ایک وعدہ ہوا تھا ، اب وہ بھی پورا ہونے کو ہے۔ یہ کہیں گے «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ» ہمارے میزان بھاری ہوگئے، ہمارے چہرے نورانی ہوگئے، ہم جنت میں پہنچ گئے، ہم جہنم سے دور ہوئے، اب کیا چیز باقی ہے؟ اس وقت حجاب ہٹ جائے گا اور یہ اپنے پاک پرودگار کا دیدار کریں گے۔ واللہ کسی چیز میں انہیں وہ لذت و سرور نہ حاصل ہوا ہو گا جو دیدار الٰہی میں ہوگا ۔ [صحیح مسلم:181]
غرض ظاہر اور باطنی اہانت سے وہ دور ہوں گے۔ چہرے پر نور دل راحتوں سے مسرور۔ اللہ ہمیں بھی انہیں میں کرے آمین۔
ننانوے قتل
عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه أن نبي الله صلى الله عليه وسلم قال: «كان فيمن كان قبلكم رجل قتل تسعة وتسعين نفسًا، فسأل عن أعلم أهل الأرض، فَدُلَّ على راهب، فأتاه فقال: إنه قتل تسعة وتسعين نفسا فهل له من توبة؟ فقال: لا، فقتله فكمَّل به مئة، ثم سأل عن أعلم أهل الأرض، فَدُلَّ على رجل عالم، فقال: إنه قتل مائة نفس فهل له من توبة؟ فقال: نعم، ومَنْ يَحُولُ بينه وبين التوبة؟ انْطَلِقْ إلى أرض كذا وكذا فإن بها أناسا يعبدون الله تعالى فاعبد الله معهم، ولا ترجع إلى أرضك فإنها أرض سوء، فانطلق حتى إذا نَصَفَ الطريقَ أتاه الموت، فاختصمت فيه ملائكة الرحمة وملائكة العذاب، فقالت ملائكة الرحمة: جاء تائبا، مُقْبِلا بقلبه إلى الله تعالى ، وقالت ملائكة العذاب: إنه لم يعمل خيرا قط، فأتاهم ملك في صورة آدمي فجعلوه بينهم -أي حكمًا- فقال: قِيسُوا ما بين الأرضين فإلى أَيَّتِهِمَا كان أدنى فهو له، فقاسوا فوجدوه أدنى إلى الأرض التي أراد، فقبضته ملائكة الرحمة». وفي رواية في الصحيح: «فكان إلى القرية الصالحة أقرب بشبر فجعل من أهلها». وفي رواية في الصحيح: «فأوحى الله تعالى إلى هذه أن تَبَاعَدِي، وإلى هذه أن تَقَرَّبِي، وقال: قيسوا ما بينهما، فوجدوه إلى هذه أقرب بشبر فغُفِرَ له». وفي رواية: «فَنَأَى بصدره نحوها».
[صحيح] - [متفق عليه]نبی ﷺ نے فرمایا کہ ہم سے پہلی امتوں میں سے کسی امت میں ایک آدمی تھا، جس نے ننانوے لوگوں کو قتل کر رکھا تھا۔ احساس ندامت سے مغلوب ہو کر اس نے لوگوں سے علاقے کے سب سے زیادہ علم رکھنے والے شخص کے بارے میں پوچھا، تاکہ اس سے اپنے بارے میں دریافت کر سکے کہ کیا اس کے لیے توبہ ہے؟ اس کی رہ نمائی ایک شخص کی طرف کی گئی، جو تھا تو عابد، لیکن اس کے پاس علم نہیں تھا۔ جب اس نے اس سے پوچھا کہ اس نے ننانوے قتل کیے ہیں، تو کیا اس کے لیے توبہ ہے؟ راہب کو یہ گناہ بہت بڑا لگا اور وہ کہنے لگا کہ تیرے لیے کوئی توبہ نہیں ہے۔ اس پر وہ شخص غصہ میں آ گیا اور بے کلی میں اس نے راہب کو بھی قتل کر دیا اور اس طرح سو قتل پورے کر دیے۔ پھر دوبارہ اس نے علاقے کے سب سے بڑے عالم کے بارے میں پوچھا۔ اسے ایک عالم شخص کا پتہ بتایا گیا۔ اس نے اس سے پوچھا کہ اس نے سو افراد کو قتل کیا ہے، کیا اس کے لیے توبہ ہے؟ اس نے جواب دیا کہ اکیوں نہیں! اس کے اور توبہ کے مابین کون سی شے حائل ہو سکتی ہے؟ توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ لیکن فلاں بستی میں جاؤ۔ اس میں کچھ لوگ ہیں، جو اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ وہ جس علاقے میں تھا، شاید وہ دار الکفر تھا۔ واللہ اعلم۔ اس لیے اس نے اس سے کہا کہ اپنے دین کی خاطر وہ اس بستی کی طرف ہجرت کر جائے، جس میں اللہ کی عبادت ہوتی ہے۔ وہ شخص پشیمان و تائب ہو کر اپنے دین کی خاطر اس علاقے کی طرف ہجرت کر گیا، جس میں اللہ کی عبادت کرنے والے لوگ تھے۔ آدھا راستہ طے کیا تھا کہ اس کی موت آ گئی۔ اب اس کے بارے میں عذاب اور رحمت کے فرشتوں کے مابین اختلاف ہو گیا؛ رحمت کے فرشتے کہنے لگے کہ اس نے توبہ کر لی تھی اور وہ نادم و تائب ہو کر آ رہا تھا (لیکن عذاب کے فرشتے اسے اپنے ساتھ کے جانے پر مصر تھے)۔ اس طرح ان کے مابین جھگڑا ہو گیا۔ چنانچہ اللہ تعالی نے ایک فرشتہ بھیجا؛ تاکہ وہ ان کے مابین فیصلہ کرے۔ اس نے کہا: دونوں جانب کی مسافت کی پیمائش کرو۔ جس علاقے سے وہ زیادہ قریب ہو، اسے اس کے باشندوں میں سے گردانا جائے گا۔ یعنی اگر وہ دار الکفر کے زیادہ قریب ہو، تو عذاب کے فرشتے اس کی روح قبض کریں گے اور اگر دار الایمان کے زیادہ قریب ہو، تو رحمت کے فرشتے اس کی روح قبض کریں گے۔ چنانچہ انھوں نے ان دونوں کی مسافت کو ناپا، تو جس علاقے کی طرف وہ جا رہا تھا، یعنی دارالایمان کی جانب، وہ اس علاقے کی بہ نسبت ایک بالشت قریب نکلا، جہاں سے وہ ہجرت کر کے آ رہا تھا۔ چنانچہ رحمت کے فرشتوں نے اس کی روح قبض کی۔
Wednesday, February 7, 2024
صفر کا مہینہ
صفر کا مہینہ اور غلط تصورات:
• — — — — — — — — —•صفر اسلامی کیلنڈر کا دوسرا مہینہ ہے جس کے بارے میں لوگوں میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ایک طرف اس کے ساتھ بہت سی توہمات اور بدشگونیاں وابستہ کر لی گئی ہیں.
►آپ صلی الله عليه وسلم نے فرمایا:
"صفر کے مہینے میں کوئی نحوست یا بدشگونی نہیں ہے"
صحیح بخاری : حدیث نمبر 5757
►رسول الله صلی الله عليه وسلم نے فرمایا:
چھوت لگنا یا بدشگونی لینا یا الو کا منحوس ہونا اور صفر کا منحوس ہونا یہ سب لغو خیالات ہیں
صحیح بخاری 5707
الله کی تقدیر وتاثیر میں زمانے کو کوئی دخل نہیں ، لہٰذا صفر کا مہینہ بھی دیگر مہینوں کی طرح ہے ۔ نفع ونقصان کے اختیار کا سو فی صد یقین الله کی ذات سے ہونا چاہیے کہ جب وہ خیر پہنچانا چاہے تو کوئی شر نہیں پہنچا سکتا اور اگر وہ کوئی مصیبت نازل کر دے تو کوئی اس سے رہائی نہیں دے سکتا۔
وَإِن یَمْسَسْکَ اللّہُ بِضُرٍّ فَلاَ کَاشِفَ لَہُ إِلاَّ ہُوَ وَإِن یُرِدْکَ بِخَیْْرٍ فَلاَ رَآدَّ لِفَضْلِہِ یُصِیْبُ بِہِ مَن یَشَاء ُ مِنْ عِبَادِہِ وَہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیْم․
(سورة یونس:107)
ترجمہ:” اور اگر اللہ تم کو کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا اس کا کوئی دور کرنے والا نہیں اور اگر تم سے بھلائی کرنا چاہے تو اس کے فضل کو کوئی روکنے والا نہیں، وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے فائدہ پہنچاتا ہے اور وہ بخشنے والا مہربان ہے۔“
اللہ تعالےسے دعاء ہے کہ وہ ہم تمام مسلمانوں کو بدعت سے بچاکر سنت پر چلنے کی توفیق بخشے۔آمین۔
عورتوں کے ساتھ حسن سلوک
اسلام میں عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی بہت تاکید آئی ہے۔
مردوں کو تحمل اور عفو درگزر سے کام لیتے ہوئے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کا اہتمام کرنا چاہئے حسن سلوک اور خندہ پیشانی میں خوشگوار زندگی کاراز مضمر ہے۔اور جو لوگ اس کے برعکس عورت کے ساتھ بے رحمانہ تشدر کا رویہ اختیار کرتےہیں، ان کا گھر تو جہنم کدہ بنتا ہی ہے ساتھ ہی بچوں پر برا اثر پڑتا ہے جس کے اثرات نسلوں تک جاتے ہیں!
قرآن کریم میں یہ حکم دیا گیا ہے.
’’عورتوں کے ساتھ اچھی طرح زندگی بسرکرو‘‘۔(النساء:۱۹)
اورحدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’تم میں سے بہتروہ ہے جواپنے گھروالوں کے لیے بہترہےاورمیں اپنے گھروالوں کے لیے بہترہوں‘‘۔
اس سے معلوم ہواکہ بیویوں کے ساتھ حسن سلوک اوران کے ساتھ خوش اسلوبی سے پیش آنا قرآن وسنت کے احکامات میں شامل ہے ، حسن سلوک اورحسن اخلاق کی اہمیت اورقیامت کے دن اعمال کے ترازومیں اس کے وزنی ہونے سے متعلق ترمذی شریف میں مندرجہ ذیل حدیث موجود ہے.
’’حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا:
قیامت کے دن مومن کی میزان عمل میں سب سے زیادہ وزنی اوربھاری چیزجورکھی جائے گی وہ اس کے اچھے اخلاق ہوں گے‘‘۔
Tuesday, February 6, 2024
استخارہ
استخارہ کا مطلب ہے کسی معاملے میں خیراور بھلائی کا طلب کرنا،یعنی روز مرہ کی زندگی میں پیش آنے والے اپنے ہرجائز کام میں اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنا اور اللہ سے اس کام میں خیر، بھلائی اور رہنمائی طلب کرنا ۔
استخارہ ایک مسنون عمل ہے، جس کا طریقہ اور دعاء نبی صلى الله عليه وسلم سے احادیث میں منقول ہے ،حضور اکرم صلى الله عليه وسلم حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ہرکام سے پہلے اہمیت کے ساتھ استخارے کی تعلیم دیا کرتے تھے، حدیث کے الفاظ پر غور فرمائیے حضرت جابر بن عبد اللہ رضى الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد گرامی ہے :اذا ھم احدکم بالامر فلیرکع رکعتین من غیر الفریضة (بخاری)
ترجمہ :جب تم میں سے کوئی شخص کسی بھی کام کا ارادہ کرے تو اس کو چاہیے کہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھے ۔
سنت کے مطابق استخارہ کا سیدھا سادہ اور آسان طریقہ یہ ہے کہ دن رات میں کسی بھی وقت (بشرطیکہ وہ نفل کی ادائیگی کا مکروہ وقت نہ ہو)دو رکعت نفل استخارہ کی نیت سے پڑھیں،نیت یہ کرے کہ میرے سامنے یہ معاملہ یا مسئلہ ہے ، اس میں جو راستہ میرے حق میں بہتر ہو ، اللہ تعالی اس کا فیصلہ فرمادیں ۔
استخارہ کی مسنون دعاء
اَللّٰهُمَّ إِنِّیْ أَسْتَخِيْرُکَ بِعِلْمِکَ، وَأَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ، وَأَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِيْمِ، فَإِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ، وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ. اَللَّهُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ. . . (يہاں اپنی حاجت کا ذکر کرے) . . . خَيْرٌ لِیْ، فِيْ دِيْنِيْ وَمَعَاشِيْ وَعَاقِبَةِ أَمْرِيْ، فَاقْدُرْهُ لِيْ وَيَسِّرْهُ لِيْ، ثُمَّ بَارِکْ لِيْ فِيْهِ، وَإنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هٰذَا الْأَمْرَ. . . (یہاں اپنی حاجت کا ذکر کرے) . . . شَرٌّ لِّيْ، فِيْ دِيْنِيْ وَمَعَاشِيْ وَعَاقِبَةِ أَمْرِيْ، فَاصْرِفْهُ عَنِي وَاصْرِفْنِيْ عَنْهُ، وَاقْدُرْ لِيَ الْخَيْرَ حَيْثُ کَانَ، ثُمَّ أَرْضِنِيْ بِهِ.
(بخاری، الصحيح، کتاب التطوع، باب ما جاء فيالتطوع مثنی مثنی، 1 : 391، رقم : 1109)
دعاء کرتے وقت جب ”ہذا الامر “پر پہنچے (جس کے نیچے لکیر بنی ہے) تو اگر عربی جانتا ہے تو اس جگہ اپنی حاجت کا تذکرہ کرے یعنی ”ہذا الامر “کی جگہ اپنے کام کا نام لے، مثلا ”ہذا السفر “یا ”ہذا النکاح “ یا ”ہذہ التجارة “یا ”ہذا البیع “کہے ، اور اگر عربی نہیں جانتا تو ”ہذا الأمر “ہی کہہ کر دل میں اپنے اس کام کے بارے میں سوچے اور دھیان دے جس کے لیے استخارہ کررہا ہے۔
’’اے اللہ! بے شک میں (اس کام میں) تجھ سے تیرے علم کی مدد سے خیر مانگتا ہوں اور (حصولِ خیر کے لیے) تجھ سے تیری قدرت کے ذریعے قدرت مانگتا ہوں اور میں تجھ سے تیرا فضل عظیم مانگتا ہوں، بے شک تو (ہر چیز پر) قادر ہے اور میں (کسی چیز پر) قادر نہیں، تو (ہر کام کے انجام کو) جانتا ہے اور میں (کچھ) نہیں جانتا اور تو تمام غیبوں کا جاننے والا ہے۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام (جس کا میں ارادہ رکھتا ہوں) میرے لیے، میرے دین، میری زندگی اور میرے انجام کار کے لحاظ سے بہتر ہے تو اسے میرے لیے مقدر کر اور آسان کر پھر اس میں میرے لیے برکت پیدا فرما اور اگر تیرے علم میں یہ کام میرے لیے میرے دین، میری زندگی اور میرے انجام کار کے لحاظ سے برا ہے تو اس (کام) کو مجھ سے اور مجھے اس سے پھیر دے اور میرے لیے بھلائی عطا کر جہاں (کہیں بھی) ہو پھر مجھے اس کے ساتھ راضی کر دے۔‘