Thursday, October 17, 2024

صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : 

مَنْ صَلَّی عَلَيَّ وَاحِدَةً صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ عَشْرًا ۔ (رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَ أَبُوْ دَاوُدَ )

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : 

جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود شریف پڑھے گا ، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا ۔ ‘‘ (اس حدیث کو امام مسلم اور ابو داود نے روایت کیا ہے۔ )

محنت کرو

بلا تحقیق فیصلہ نہ کرو

 یعنی جس بات کا علم نہ ہو اس میں زبان نہ ہلاؤ۔ بغیر علم کے کسی کی عیب جوئی اور بہتان بازی نہ کرو۔ جھوٹی شہادتیں نہ دیتے پھرو۔ بن دیکھے نہ کہہ دیا کرو کہ میں نے دیکھا، نہ بےسنے سننا بیان کرو، نہ بےعلمی پر اپنا جاننا بیان کرو۔ کیونکہ ان تمام باتوں کی جواب دہی اللہ کے ہاں ہو گی۔ غرض وہم خیال اور گمان کے طور پر کچھ کہنا منع ہو رہا ہے۔

جیسے فرمان قرآن ہے آیت 
«يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ» 
[49-الحجرات:12]
 ‏‏‏‏ ” زیادہ گمان سے بچو، بعض گمان گناہ ہیں۔ “

حدیث میں ہے
 گمان سے بچو، گمان بدترین جھوٹی بات ہے۔
 [صحیح بخاری:6066] ‏‏‏‏

اور حدیث میں ہے 
بدترین بہتان یہ ہے کہ انسان جھوٹ موٹ کوئی خواب گھڑلے۔ 
[صحیح بخاری:7043] ‏‏‏‏

اور صحیح حدیث میں ہے 
جو شخص ایسا خواب از خود گھڑلے قیامت کے دن اسے یہ تکلیف دی جائے گی کہ وہ دو جو کے درمیان گرہ لگائے اور یہ اس سے ہرگز نہیں ہونا۔ 
[صحیح بخاری:7042] ‏‏‏‏

قیامت کے دن آنکھ کان دل سب سے بازپرس ہو گی سب کو جواب دہی کرنی ہو گی۔ یہاں «تِلْکَ» کی جگہ «أُولَٰئِكَ» کا استعمال ہے، عرب میں یہ استعمال برابر جاری ہے یہاں تک کہ شاعروں کے شعروں میں بھی۔ مثلاً «ذم المنازل بعد منزلة اللوى والعيش بعد أولئك الأيام» ۔

ناشکری نہ کریں

بکھرے لوگ

برا راستہ

Monday, October 14, 2024

انا اورعاجزی

میری طرف آکر تو دیکھ

قتل اولاد کی مذمت

 دیکھو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہ نسبت ان کے ماں باپ کے بھی زیادہ مہربان ہے۔ ایک طرف ماں باپ کو حکم دیتا ہے کہ اپنا مال اپنے بچوں کو بطور ورثے کے دو اور دوسری جانب فرماتا ہے کہ انہیں مار نہ ڈالا کرو۔ جاہلیت کے لوگ نہ تو لڑکیوں کو ورثہ دیتے تھے نہ ان کا زندہ رکھنا پسند کرتے تھے بلکہ دختر کشی ان کی قوم کا ایک عام رواج تھا۔

قرآن اس بد انجام رواج کی تردید کرتا ہے کہ یہ خیال کس قدر بودا ہے کہ انہیں کھلائیں گے کہاں سے؟ کسی کی روزی کسی کے ذمہ نہیں سب کا روزی رساں اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ 
سورۃ الانعام میں فرمایا آیت «‏‏‏‏وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُم مِّنْ إِمْلَاقٍ» ‏‏‏‏ 
[6-الأنعام:151] ‏‏‏‏

فقیری اور تنگ دستی کے خوف سے اپنی اولاد کی جان نہ لیا کرو۔ تمہیں اور انہیں روزیاں دینے والے ہم ہیں۔ ان کا قتل جرم عظیم اور گناہ کبیرہ ہے۔ خطا کی دوسری قرأت خطا ہے دونوں کے معنی ایک ہی ہیں۔

بخاری و مسلم میں ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا یہ کہ تو کسی کو اللہ کا شریک ٹھیرائے حالانکہ اسی اکیلے نے تجھے پیدا کیا ہے۔ میں نے پوچھا اس کے بعد؟ فرمایا یہ کہ تو اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالے کہ وہ تیرے ساتھ کھائیں گے۔ میں نے کہا اس کے بعد؟ فرمایا یہ کہ تو اپنی پڑوسن سے زناکاری کرے۔ 
[صحیح بخاری:7520] 

بےشک

 بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے بخیل اور سخی کی مثال ان دو شخصوں جیسی ہے جن پر دو لوہے کے جبے ہوں، سینے سے گلے تک، سخی تو جوں جوں خرچ کرتا ہے اس کی کڑیاں ڈھیلی ہوتی جاتی ہیں اور اس کے ہاتھ کھلتے جاتے ہیں اور وہ جبہ بڑھ جاتا ہے یہاں تک کہ اس کی پوریوں تک پہنچ جاتا ہے اور اس کے اثر کو مٹاتا ہے اور بخیل جب کبھی خرچ کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے جبے کی کڑیاں اور سمٹ جاتی ہیں وہ ہر چند اسے وسیع کرنا چاہتا ہے لیکن اس میں گنجائش نہیں نکلتی۔

 [صحیح بخاری:1443] ‏‏‏‏


بخاری و مسلم میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ اسما بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے فرمایا اللہ کی راہ میں خرچ کرتی رہ جمع نہ رکھا کر، ورنہ اللہ بھی روک لے گا، بند باندھ کر روک نہ لیا کر ورنہ پھر اللہ بھی رزق کا منہ بند کر لے گا۔
 [صحیح بخاری:1433] ‏‏‏‏

ایک اور روایت میں ہے شمار کر کے نہ رکھا کر ورنہ اللہ تعالیٰ بھی گنتی کر کے روک لے گا۔
 [صحیح بخاری:2591] ‏‏‏‏

صحیح مسلم شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تو اللہ کی راہ میں خرچ کیا کر، اللہ تعالیٰ تجھے دیتا رہے گا۔ 
[صحیح مسلم:993] ‏‏‏‏

بخاری و مسلم میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر صبح دو فرشتے آسمان سے اترتے ہیں ایک دعا کرتا ہے کہ اے اللہ سخی کو بدلہ دے اور دوسرا دعا کرتا ہے کہ بخیل کا مال تلف کر۔
 [صحیح بخاری:1442] ‏‏‏‏

مسلم شریف میں ہے صدقے خیرات سے کسی کا مال نہیں گھٹتا اور ہر سخاوت کرنے والے کو اللہ ذی عزت کر دیتا ہے اور جو شخص اللہ کے حکم کی وجہ سے دوسروں سے عاجزانہ برتاؤ کرے اللہ اسے بلند درجے کا کر دیتا ہے۔
 [صحیح مسلم:2588] 

حسن سلوک

Saturday, October 12, 2024

توبہ

گناہ اور استغفار اس سے مراد وہ لوگ ہیں ، جن سے جلدی میں اپنے ماں باپ کے ساتھ کوئی ایسی بات ہو جاتی ہے جسے وہ اپنے نزدیک عیب کی اور گناہ کی بات نہیں سمجھتے ہیں چونکہ ان کی نیت بخیر ہوتی ہے ، اس لیے اللہ ان پر رحمت کرتا ہے جو ماں باپ کا فرمانبردار نمازی ہو اس کی خطائیں اللہ کے ہاں معاف ہیں ۔ کہتے ہیں کہ اوابین وہ لوگ ہیں جو مغرب عشا کی درمیان نوافل پڑھیں ۔ بعض کہتے ہیں جو صبح کی نماز ادا کرتے رہیں جو ہر گناہ کے بعد توبہ کر لیا کریں ۔ جو جلدی سے بھلائی کی طرف لوٹ آیا کریں ۔ تنہائی میں اپنے گناہوں کو یاد کر کے خلوص دل سے استغفار کر لیا کریں ۔ عبید کہتے ہیں جو برابر ہر مجلس سے اٹھتے ہوئے یہ دعا پڑھ لیا کریں ۔ 
دعا ( اللہم اغفرلی ما اصبت فی مجلسی ھذا ) ابن دریر فرماتے ہیں اولیٰ قول یہ ہے کہ جو گناہ سے توبہ کر لیا کریں ۔ معصیت سے طاعت کی طرف آ جایا کریں ۔ اللہ کی ناپسندیدگی کے کاموں کو ترک کر کے اس کے اس کی رضا مندی اور پسندیدگی کے کام کرنے لگیں ۔ یہی قول بہت ٹھیک ہے کیونکہ لفظ اواب مشتق ہے اوب سے اور اس کے معنی رجوع کرنے کے ہیں جیسے عرب کہتے ہیں اب فلان اور جیسے قران میں ہے آیت ( اِنَّ اِلَيْنَآ اِيَابَهُمْ 25؀ۙ ) 88- الغاشية:25 ) ان کا لوٹنا ہماری ہی طرف ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے لوٹتے تو فرماتے دعا ( ائبون تائبون عابدون لربنا حامدون ) لوٹنے والے توبہ 
کرنے والے عبادتیں کرنے والے اپنے رب کی ہی تعریفیں کرنے والے
 

Friday, October 11, 2024

صدقہ

صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

باخبر

اے میرے رب

 والدین سے بہتر سلوک کیسا ہو ؟ اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ متصل والدین کا کیوں ذکر فرمایا ؟:۔ یعنی والدین سے تمہارا سلوک ایسا ہونا چاہیے جیسے غلام کا اپنے آقا سے ہوتا ہے۔ ان سے ادب و انکساری سے پیش آؤ اور ساتھ ہی ساتھ ان کے حق میں اللہ تعالیٰ سے رحمت و مغفرت کی دعا بھی کرتے رہو۔ کیونکہ وہی تمہاری پرورش و تربیت کا سبب بنے تھے۔ یہیں سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر کے ساتھ ہی متصلاً والدین سے بہتر سلوک کا ذکر کیوں فرمایا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر چیز کا پروردگار تو رب کائنات ہے۔ جس نے زمین بنائی، ہوا، پانی، سورج، چاند وغیرہ پیدا کئے۔ پھر بارش برسائی اور پھر انسان کی ساری ضروریات زندگی زمین سے وابستہ کردیں۔ اس طرح انسان، تمام جانداروں اور باقی سب چیزوں کا پالنے والا اور پرورش و تربیت کرنے والا حقیقتاً اللہ رب العالمین ہی ہوا۔ پھر اس کے بعد انسان کی پرورش کا ظاہری سبب اس کے والدین کو بنایا اور یہ تو ظاہر ہے کہ جس قدر مشکل سے انسان کا بچہ پلتا ہے کسی جانور کا بچہ اتنی مشکل سے نہیں پلتا۔ دوسرے جانوروں کے بچے پیدا ہوتے ہی چلنے پھرنے لگتے ہیں۔ پھر ان پر گرمی یا سردی یا بارش کا اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا انسان کے بچے پر ہوتا ہے دوسرے جانوروں کے بچے اتنے بیمار بھی نہیں ہوتے جتنا انسان کا بچہ فوراً بیمار ہوجاتا ہے۔ پھر ماں راتوں کو جاگ جاگ کر اور بچے کے آرام پر اپنا آرام قربان کرتی ہے۔ باپ بچہ اور اس کی ماں دونوں کے اخراجات بھی برداشت کرتا ہے پھر اس کی تربیت میں پورا تعاون بھی کرتا ہے۔ تب جاکر انسان کا بچہ بڑا ہوتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے والدین کے دل میں اپنی اولاد کے لیے اتنی بےپناہ محبت اور ایثار کا جذبہ نہ رکھ دیا ہوتا تو انسان کے بچہ کی کبھی تربیت نہ ہوسکتی۔ اب اگر انسان اپنے والدین کو بڑھاپے کی حالت میں بےیارو و مددگار چھوڑ دے اور ان کی طرف توجہ نہ کرے یا ان سے گستاخی سے پیش آئے تو اس سے زیادہ بےانصافی اور ظلم اور کیا ہوسکتا ہے ؟ معاشرتی زندگی کا یہ وہ نہایت اہم باب ہے جس کی طرف سے دنیادار انسان ہمیشہ غافل ہی رہے ہیں مگر اسلام نے اس طرف بھرپور توجہ دلائی ہے اور دعا سے مقصود یہ ہے کہ یا اللہ میں تو ان کا حق الخدمت پوری طرح بجا لانے سے قاصر ہوں لہذا تو ہی ان پر بڑھاپے میں اور مرنے کے بعد نظر رحمت فرما۔ اب ہم اس سلسلہ میں چند ارشادات نبوی پیش کرتے ہیں :- والدین سے بہتر سلوک کے متعلق چند احادیث :۔- ١۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے آپ سے پوچھا یارسول اللہ کو سب سے زیادہ کون سا عمل پسند ہے ؟ فرمایا : نماز کی بروقت ادائیگی میں نے پوچھا پھر کون سا ؟ فرمایا : ماں باپ سے اچھا سلوک کرنا میں نے پوچھا پھر کون سا فرمایا : اللہ کی راہ میں جہاد کرنا (بخاری۔ کتاب الادب)- ٢۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ سے پوچھا میرے بہتر سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟ فرمایا : تیری ماں اس نے کہا پھر کون ؟ فرمایا : تیری ماں اس نے پوچھا پھر کون ؟ فرمایا : تیری ماں اس نے چوتھی بار پوچھا پھر کون ؟ آپ نے فرمایا : تیرا باپ (بخاری۔ کتاب الادب من احق الناس بحسن الصحبۃ)- ٣۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا۔ سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ کو گالی دے لوگوں نے کہا۔ یارسول اللہ بھلا کون ماں باپ کو گالی دیتا ہے ؟ فرمایا، ماں باپ کو گالی دینا یوں ہے کہ ایک آدمی دوسرے کے باپ یا ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ جواب میں اس کے باپ یا ماں کو گالی دیتا ہے (بخاری۔ کتاب الادب باب لایسب الرجل والدیہ)- ٤۔ ایک دفعہ آپ نے صحابہ کرام (رض) سے فرمایا کیا میں تمہیں بڑے بڑے گناہوں سے خبردار نہ کروں ؟ ہم نے کہا، ضرور بتائیے یارسول اللہ آپ نے فرمایا : اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، عقوق والدین جھوٹ بولنا، جھوٹی گواہی دینا، سن لو، جھوٹ بولنا، جھوٹی گواہی دینا۔ برابر آپ یہی فرماتے رہے۔ میں سمجھا کہ آپ چپ ہی نہ ہوں گے۔ (بخاری، کتاب الادب، باب عقوق الوالدین)- ٥۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ سے عرض کیا، میں جہاد پر جانا چاہتا ہوں آپ نے اس سے پوچھا تمہارے والدین زندہ ہیں کہنے لگا جی ہاں آپ نے فرمایا : انہی کی خدمت کر (یہی تیرا جہاد ہے) (بخاری، کتاب الادب، باب لایجاہد الاباذن الابوین)- ٦۔ سیدہ اسماء بنت ابی بکر کہتی ہیں کہ میری ماں میرے پاس مدینہ آئی اور وہ کافرہ تھی۔ میں نے آپ سے پوچھا یارسول اللہ کیا میں اس سے صلہ رحمی کروں ؟ آپ نے فرمایا ضرور (بخاری، کتاب الادب، باب صلۃ الوالد المشرک)

خاک

راسـتــــہ

 

والدین کے ساتھ حسن سلوک

ہم نے

ہر فریق کو

جزاء و سزا

 یہ قانون جزاء و سزا کا ایک نہایت اہم جزو ہے یعنی جو کرے گا وہی بھرے گا ایک کے گناہ کا بار دوسرے کی طرف منتقل نہیں ہوسکتا۔ اور جتنا کسی کا گناہ ہوگا اتنی اسے سزا ضرور ملے گی اور اتنی ہی ملے گی نہ کم نہ زیادہ۔ اس آیت سے جو اہم بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ہر ایک سے فرداً فرداً باز پرس ہوگی۔ کوئی شخص اپنے گناہ کا بار معاشرہ پر ڈال کر خود بری الذمہ نہ ہوسکے گا بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ اس اجتماعی جرم میں اس خاص فرد کا کتنا حصہ ہے۔ اسی کے مطابق اسے سزا ملے گی۔ لہذا ہر شخص کو اپنے کردار پر نظر رکھنا چاہیے۔ اسے یہ نہ دیکھنا چاہیئے کہ دوسرے کیا کر رہے ہیں اور نہ ہی ایسا سہارا لینا چاہیئے۔ ایسا سہارا کسی کام نہ آسکے گا بلکہ اپنے اعمال و افعال پر نظر رکھنا چاہیے۔

صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

تــوبــہ

نامہ اعمال

انسان کے اعمال اوپر کی آیتوں میں زمانے کا ذکر کیا جس میں انسان کے اعمال ہوتے ہیں اب یہاں فرمایا ہے کہ اس کا جو عمل ہوتا ہے بھلا ہو یا برا وہ اس پر چپک جاتا ہے بدلہ ملے گا ۔ نیکی کا نیک ۔ بدی کا بد ۔ خواہ وہ کتنی ہی کم مقدار میں کیوں نہ ہو ؟ جیسے فرمان ہے ذرہ برابر کی خیر اور اتنی ہی شر ہر شر ہر شخص قیامت کے دن دیکھ لے گا ۔ اور جیسے فرمان ہے دائیں اور بائیں جانب وہ بیٹھے ہوئے ہیں جو بات منہ سے نکلے وہ اسی وقت لکھ لیتے ہیں ۔ اور جگہ ہے آیت ( وَاِنَّ عَلَيْكُمْ لَحٰفِظِيْنَ 10۝ۙ ) 82- الإنفطار:10 ) تم پر نگہبان ہیں جو بزرگ ہیں اور لکھنے والے ہیں ۔ تمہارے ہر ہر فعل سے باخبر ہیں ۔ اور آیت میں ہے تمہیں صرف تمہارے کئے ہوئے اعمال کا بدلہ ملے گا ۔ اور جگہ ہے ہر برائی کرنے والے کو سزا دی جائے گی ۔ مقصود یہ کہ ابن آدم کے چھوٹے بڑے ظاہر و باطن نیک و بد اعمال صبح شام دن رات برابر لکھے جا رہے ہیں ۔ اس کے اعمال کے مجموعے کی کتاب قیامت کے دن یا تو اس کے دائیں ہاتھ میں دی جائے گی یا بائیں میں ۔ نیکوں کے دائیں ہاتھ میں اور بروں کے بائیں ہاتھ میں کھلی ہوئی ہو گی کہ وہ بھی پرھ لے اور دوسرے بھی دیکھ لیں اس کی تمام عمر کے کل عمل اس میں لکھے ہوئے ہوں گے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( يُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ يَوْمَىِٕذٍۢ بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ 13؀ۭ ) 75- القيامة:13 ) اس دن انسان اپنے تمام اگلے پچھلے اعمال سے خبردار کر دیا جائے گا انسان تو اپنے معاملے میں خود ہی حجت ہے گو اپنی بےگناہی کے کتنے ہی بہانے پیش کر دے ۔ اس وقت اس سے فرمایا جائے گا کہ تو خوب جانتا ہے کہ تجھ پر ظلم نہ کیا جائے گا ۔ اس میں وہی لکھا گیا ہے جو تو نے کیا ہے اس وقت چونکہ بھولی بسری چیزیں بھی یاد آ جائیں گی ۔ اس لئے درحقیقت کوئی عذر پیش کرنے کی گنجائش نہ رہے گی پھر سامنے کتاب ہے جو پڑھ رہا ہے خواہ وہ دنیا میں ان پڑھ ہی تھا لیکن آج ہر شخص اسے پڑھ لے گا ۔ گردن کا ذکر خاص طریقے پر اس لئے کیا کہ وہ ایک مخصوص حصہ ہم اس میں جو چیز لٹکا دی گئی ہو چپک گئی ضروری ہو گئی شاعرونں نے بھی اس خیال کو ظاہر کیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے بیماری کا متعدی ہونا کوئی چیز نہیں ، فال کوئی چیز نہیں ، ہر انسان کا عمل اس کے گلے کا ہار ہے اور روایت میں ہے کہ ہر انسان کا شگون اس کے گلے کا ہار ہے ۔ آپ کا فرمان ہے کہ ہر دن کے عمل پر مہر لگ جاتی ہے جب مومن بیمار پڑتا ہے تو فرشتے کہتے ہیں اے اللہ تو نے فلاں کو تو روک لیا ہے اللہ تعالیٰ جل جلالہ فرماتا ہے اس کے جو عمل تھے وہ برابر لکھتے جاؤ یہاں تک کہ میں اسے تندرست کر دوں یا فوت کر دو قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں طائر سے مراد عمل ہیں ۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اے ابن آدم تیرے دائیں بائیں فرشتے بیٹھے ہیں صحیفے کھلے رکھے ہیں داہنی جانب والا نیکیاں اور بائیں طرف والا بدیاں لکھ رہا ہے اب تجھے اختیار ہے نیکی کر یا بدی کر یا زیادہ تیری موت پر یہ دفتر لپیٹ دئے جائیں گے اور تیری قبر میں تیری گردن میں لٹکا دیئے جائیں گے قیامت کے دن کھلے ہوئے تیرے سامنے پیش کر دئے جائیں گے اور تجھ سے کہا جائے گا لے اپنا نامہ اعمال خود پڑھ لے اور تو ہی حساب اور انصاف کر لے ۔ اللہ کی قسم وہ بڑا ہی عادل ہے جو تیرا معاملہ تیرے ہی سپرد کر رہا ہے 

یاد رکھو

پت جھڑ

اپنے ہی لئے

سب

اللہ

اگر بدلہ لو

تاریک

توبہ

نعمت کا شکر

 حلال و حرام صرف اللہ کی طرف سے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو اپنی دی ہوئی پاک روزی حلال کرتا ہے اور شکر کرنے کی ہدایت کرتا ہے ۔ اس لئے کہ نعمتوں کا داتا وہی ہے ، اسی لئے عبادت کے لائق بھی صرف وہی ایک ہے ، اس کا کوئی شریک اور ساجھی نہیں ۔ پھر ان چیزوں کا بیان فرما رہا ہے جو اس نے مسلمانوں پر حرام کر دی ہیں جس میں ان کے دین کا نقصان بھی ہے اور ان کی دنیا کا نقصان بھی ہے جیسے از خود مرا ہوا جانور اور بوقت ذبح کیا جائے ۔ لیکن جو شخص ان کے کھانے کی طرف بےبس ، لاچار ، عاجز ، محتاج ، بےقرار ہو جائے اور انہیں کھا لے تو اللہ بخشش و رحمت سے کام لینے والا ہے ۔ سورہ بقرہ میں اسی جیسی آیت گزر چکی ہے اور وہیں اس کی کامل تفسیر بھی بیان کر دی اب دوبارہ دہرانے کی حاجت نہیں فالحمد اللہ پھر کافروں کے رویہ سے مسلمانوں کو روک رہا ہے کہ جس طرح انہوں نے از خود اپنی سمجھ سے حلت حرمت قائم کر لی ہے تم نہ کرو آپس میں طے کر لیا کہ فلاں کے نام سے منسوب جانور حرمت و عزت والا ہے ۔ بحیرہ ، سائبہ ، وصیلہ ، حام وغیرہ تو فرمان ہے کہ اپنی زبانوں سے جھوٹ موٹ اللہ کے ذمے الزام رکھ کر آپ حلال حرام نہ ٹھہرا لو ۔ اس میں یہ بھی داخل ہے کہ کوئی اپنی طرف سے کسی بدعت کو نکالے جس کی کوئی شرعی دلیل نہ ہو ۔ یا اللہ کے حرام کو حلال کرے یا مباح کو حرام قرار دے اور اپنی رائے اور تشبیہ سے احکام ایجاد کرے ۔ لما تصف میں ما مصدریہ ہے یعنی تم اپنی زبان سے حلال حرام کا جھوٹ وصف نہ گھڑ لو ۔ ایسے لوگ دنیا کی فلاح سے آخرت کی نجات سے محروم ہو جاتے ہیں دنیا میں گو تھوڑا سا فائدہ اٹھا لیں لیکن مرتے ہی المناک عذابوں کا لقمہ بنیں گے ۔ یہاں کچھ عیش و عشرت کرلیں وہاں بےبسی کے ساتھ سخت عذاب برداشت کرنے پڑیں گے ۔ جیسے فرمان الٰہی ہے اللہ پر جھوٹ افترا کرنے والے نجات سے محروم ہیں ۔ دنیا میں چاہے تھوڑا سا فائدہ اٹھا لیں پھر ہم ان کے کفر کی وجہ سے انہیں سخت عذاب چکھائیں گے ۔

صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

بےشک

جس دن

یااللہ

گناہ

اللہ کی پناہ

 تلاوت سے پہلے تعوذ پڑھنا : 
ایمان کی حقیقت اور اعمال صالحہ کے علم کا منبع قرآن ہی ہے لہذا قرآن کی تلاوت بذات خود بہت بڑا صالح عمل ہے جیسا کہ احادیث میں آیا ہے کہ ( خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہُ ) (تم میں سے بہتر شخص وہ ہے کہ جو خود قرآن سیکھے پھر اسے دوسروں کو سکھلائے) اور قرآن کی تلاوت کے آداب میں سے ایک یہ ہے کہ تلاوت شروع کرنے سے پہلے اَعُوْذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پڑھ لیا جائے یعنی میں شیطان مردود سے اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں یا اللہ کی پناہ میں آتا ہوں۔ پناہ عموماً کسی نقصان دینے والی چیز یا دشمن سے درکار ہوتی ہے اور ایسی ہستی سے پناہ طلب کی جاتی ہے جو اس نقصان پہنچانے والی چیز یا دشمن سے زیادہ طاقتور ہو، شیطان چونکہ غیر محسوس طور پر تلاوت کرنے والے آدمی کی فکر پر اثر انداز ہوسکتا ہے اور تلاوت کے دوران اسے گمراہ کن وسوسوں اور کج فکری میں مبتلا کرسکتا ہے۔ لہذا شیطان کی اس وسوسہ اندازی سے اللہ کی پناہ طلب کرنے کا حکم دیا گیا ہے جس کے آگے شیطان بالکل بےبس ہے۔ گویا یہ دعا دراصل قرآن سے صحیح رہنمائی حاصل کرنے کی دعا ہے۔ جبکہ شیطان کی انتہائی کوشش ہی یہ ہوتی ہے کہ کوئی شخص قرآن سے ہدایت نہ حاصل کرنے پائے۔
:اللہ تعالیٰ پر ایمان و توکل شیطانی تسلط سے نجات کا راستہ ہے 
اس آیت میں یہ واضح کردیا کہ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو ایسی قوت نہیں دی کہ وہ کسی بھی انسان کو برائی پر مجبور و  بے اختیار کر دے انسان خود اپنے اختیار وقدرت کو غفلت یا کسی غرض نفسانی سے استعمال نہ کرے تو یہ اس کا قصور ہے اسی لئے فرمایا کہ جو لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اپنے احوال و اعمال میں اپنی قوت ارادی کے بجائے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہیں کہ وہی ہر خیر کی توفیق دینے والا اور ہر شر سے بچانے والا ہے ایسے لوگوں پر شیطان کا تسلط نہیں ہوتا ہاں جو اپنے اغراض نفسانی کے سبب شیطان ہی سے دوستی کرتے ہیں اسی کی باتوں کو پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ غیروں کو شریک ٹھراتے ہیں ان پر شیطان مسلط ہوجاتا ہے کہ کسی خیر کی طرف نہیں جانے دیتا اور ہر برائی میں وہ آگے اگے ہوتے ہیں ،- یہی مضمون سورة حجر کی آیت کا ہے جس میں شیطان کے دعوے کے مقابلہ میں خود حق تعالیٰ نے یہ جواب دے دیا ہے (آیت) اِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغٰوِيْنَ یعنی میرے خاص بندوں پر تیرا تسلط نہیں ہوسکتا ہاں اس پر ہوگا جو خود ہی گمراہ ہو اور تیرا اتباع کرنے لگے۔
 شیطان کا داؤ کیسے لوگوں پر چلتا ہے ؟
 شیطان کے پاس کوئی ایسی طاقت نہیں کہ وہ اپنی بات بزور کسی سے منوا سکے۔ نہ ہی اس کے پاس کوئی عقلی یا نقلی دلیل ہے جس کی بنا پر وہ کسی کو اپنی بات کا قائل کرسکے۔ وہ صرف وسوسے ڈال سکتا ہے۔ دل میں گمراہ کن خیالات پیدا کرسکتا ہے۔ اب جو لوگ پہلے ہی ضعیف الاعتقاد ہوتے ہیں وہ فوراً اس کے دام میں پھنس جاتے ہیں اور شیطان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہوتی ہے کہ وہ انسان کو شرک کی راہوں پر ڈال دے اور اس طرح ابن آدم سے انتقام لے سکے۔ رہے وہ لوگ جو صرف اللہ پر توکل کرنے والے اور اپنے عقیدہ میں مضبوط ہوتے ہیں تو ایسے لوگوں پر شیطان کا کوئی داؤ کارگر نہیں ہوتا اور ایسے لوگ قرآن سے یقینا ہدایت ہی حاصل 
کرتے ہیں۔

ظرف

یا رب

خاموشی