تلاوت سے پہلے تعوذ پڑھنا :
ایمان کی حقیقت اور اعمال صالحہ کے علم کا منبع قرآن ہی ہے لہذا قرآن کی تلاوت بذات خود بہت بڑا صالح عمل ہے جیسا کہ احادیث میں آیا ہے کہ ( خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہُ ) (تم میں سے بہتر شخص وہ ہے کہ جو خود قرآن سیکھے پھر اسے دوسروں کو سکھلائے) اور قرآن کی تلاوت کے آداب میں سے ایک یہ ہے کہ تلاوت شروع کرنے سے پہلے اَعُوْذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پڑھ لیا جائے یعنی میں شیطان مردود سے اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں یا اللہ کی پناہ میں آتا ہوں۔ پناہ عموماً کسی نقصان دینے والی چیز یا دشمن سے درکار ہوتی ہے اور ایسی ہستی سے پناہ طلب کی جاتی ہے جو اس نقصان پہنچانے والی چیز یا دشمن سے زیادہ طاقتور ہو، شیطان چونکہ غیر محسوس طور پر تلاوت کرنے والے آدمی کی فکر پر اثر انداز ہوسکتا ہے اور تلاوت کے دوران اسے گمراہ کن وسوسوں اور کج فکری میں مبتلا کرسکتا ہے۔ لہذا شیطان کی اس وسوسہ اندازی سے اللہ کی پناہ طلب کرنے کا حکم دیا گیا ہے جس کے آگے شیطان بالکل بےبس ہے۔ گویا یہ دعا دراصل قرآن سے صحیح رہنمائی حاصل کرنے کی دعا ہے۔ جبکہ شیطان کی انتہائی کوشش ہی یہ ہوتی ہے کہ کوئی شخص قرآن سے ہدایت نہ حاصل کرنے پائے۔
:اللہ تعالیٰ پر ایمان و توکل شیطانی تسلط سے نجات کا راستہ ہے
اس آیت میں یہ واضح کردیا کہ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو ایسی قوت نہیں دی کہ وہ کسی بھی انسان کو برائی پر مجبور و بے اختیار کر دے انسان خود اپنے اختیار وقدرت کو غفلت یا کسی غرض نفسانی سے استعمال نہ کرے تو یہ اس کا قصور ہے اسی لئے فرمایا کہ جو لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اپنے احوال و اعمال میں اپنی قوت ارادی کے بجائے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہیں کہ وہی ہر خیر کی توفیق دینے والا اور ہر شر سے بچانے والا ہے ایسے لوگوں پر شیطان کا تسلط نہیں ہوتا ہاں جو اپنے اغراض نفسانی کے سبب شیطان ہی سے دوستی کرتے ہیں اسی کی باتوں کو پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ غیروں کو شریک ٹھراتے ہیں ان پر شیطان مسلط ہوجاتا ہے کہ کسی خیر کی طرف نہیں جانے دیتا اور ہر برائی میں وہ آگے اگے ہوتے ہیں ،- یہی مضمون سورة حجر کی آیت کا ہے جس میں شیطان کے دعوے کے مقابلہ میں خود حق تعالیٰ نے یہ جواب دے دیا ہے (آیت) اِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغٰوِيْنَ یعنی میرے خاص بندوں پر تیرا تسلط نہیں ہوسکتا ہاں اس پر ہوگا جو خود ہی گمراہ ہو اور تیرا اتباع کرنے لگے۔
شیطان کا داؤ کیسے لوگوں پر چلتا ہے ؟
شیطان کے پاس کوئی ایسی طاقت نہیں کہ وہ اپنی بات بزور کسی سے منوا سکے۔ نہ ہی اس کے پاس کوئی عقلی یا نقلی دلیل ہے جس کی بنا پر وہ کسی کو اپنی بات کا قائل کرسکے۔ وہ صرف وسوسے ڈال سکتا ہے۔ دل میں گمراہ کن خیالات پیدا کرسکتا ہے۔ اب جو لوگ پہلے ہی ضعیف الاعتقاد ہوتے ہیں وہ فوراً اس کے دام میں پھنس جاتے ہیں اور شیطان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہوتی ہے کہ وہ انسان کو شرک کی راہوں پر ڈال دے اور اس طرح ابن آدم سے انتقام لے سکے۔ رہے وہ لوگ جو صرف اللہ پر توکل کرنے والے اور اپنے عقیدہ میں مضبوط ہوتے ہیں تو ایسے لوگوں پر شیطان کا کوئی داؤ کارگر نہیں ہوتا اور ایسے لوگ قرآن سے یقینا ہدایت ہی حاصل
کرتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment