Thursday, August 28, 2025

انسان کا ناشکرا پن

 انسان کا ناشکرا پن ۔ اللہ تعالیٰ انسان کی حالت کو بیان فرماتا ہے کہ مشکل کے وقت تو وہ آہ و زاری شروع کردیتا ہے ، اللہ کی طرف پوری طرح راجع اور راغب ہو جاتا ہے ، لیکن جہاں مشکل ہوگئی جہاں راحت و نعمت حاصل ہوئی یہ سرکش و متکبر بنا ۔ اور اکڑتا ہوا کہنے لگا کہ یہ تو اللہ کے ذمے میرا حق تھا ۔ میں اللہ کے نزدیک اس کا مستحق تھا ہی ۔ میری اپنی عقل مندی اور خوش تدبیری کی وجہ سے اس نعمت کو میں نے حاصل کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بات یوں نہیں بلکہ دراصل عقل مندی اور خوش تدبیری کی وجہ سے اس نعمت کو میں نے حاصل کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بات یوں نہیں بلکہ دراصل یہ ہماری طرف کی آزمائش ہے گو ہمیں ازل سے علم حاصل ہے لیکن تاہم ہم اسے ظہور میں لانا چاہتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اس نعمت کا یہ شکر ادا کرتا ہے یا ناشکری؟ لیکن یہ لوگ بےعلم ہیں ۔ دعوے کرتے ہیں منہ سے بات نکال دیتے ہیں لیکن اصلیت سے بےخبر ہیں ، یہی دعویٰ اور یہی قول ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی کیا اور کہا ، لیکن ان کا قول صحیح ثابت نہ ہوا اور ان نعمتوں نے ، کسی اور چیز نے اور ان کے اعمال نے انہیں کوئی نفع نہ دیا ، جس طرح ان پر وبال ٹوٹ پڑا اسی طرح ان پر بھی ایک دن ان کی بداعمالیوں کا وبال آپڑے گا اور یہ اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے ۔ نہ تھکا اور ہرا سکتے ہیں ۔ جیسے کہ قارون سے اس کی قوم نے کہا تھا کہ اس قدر اکڑ نہیں اللہ تعالیٰ خود پسندوں کو محبوب نہیں رکھتا ۔ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو خرچ کرکے آخرت کی تیاری کر اور وہاں کا سامان مہیا کر ۔ اس دنیا میں بھی فائدہ اٹھاتا رہ اور جیسے اللہ نے تیرے ساتھ سلوک کیا ہے ، تو بھی لوگوں کے ساتھ احسان کرتا رہ ۔ زمین میں فساد کرنے والا مت بن اللہ تعالیٰ مفسدوں سے محبت نہیں کرتا ۔ اس پر قارون نے جواب دیا کہ ان تمام نعمتوں اور جاہ و دولت کو میں نے اپنی دانائی اور علم و ہنر سے حاصل کیا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کیا اسے یہ معلوم نہیں کہ اس سے پہلے اس سے زیادہ قوت اور اس سے زیادہ جمع جتھا والوں کو میں نے ہلاک و برباد کردیا ہے ، مجرم اپنے گناہوں کے بارے میں پوچھے نہ جائیں گے ۔ الغرض مال و اولاد پر پھول کر اللہ کو بھول جانا یہ شیوہ کفر ہے ۔ کفار کا قول تھا کہ ہم مال و اولاد میں زیادہ ہیں ہمیں عذاب نہیں ہوگا ، کیا انہیں اب تک یہ معلوم نہیں کہ رزق کا مالک اللہ تعالیٰ ہے جس کیلئے چاہے کشادگی کرے اور جس پر چاہے تنگی کرے ۔ اس میں ایمان والوں کیلئے طرح طرح کی عبرتیں اور دلیلیں ہیں ۔

کبھی کبھی

زبان سے

تمام سفارش

  قُلْ لِّلّٰہِ الشَّفَاعَۃُ جَمِیْعًا ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہیے کہ شفاعت ُ کل کی کل اللہ کے اختیار میں ہے۔ “- قیامت کے دن جو کوئی بھی کسی کی شفاعت کرے گا تو وہ اللہ کی اجازت سے ہی کرے گا ‘ اور پھر کسی شفاعت کا قبول کرنا یا نہ کرنا بھی اسی کے اختیار میں ہے۔ کسی کی مجال نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے کوئی بات اللہ سے منوا لے۔- لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِط ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَآسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کے لیے ہے۔ پھر تم اسی کی طرف لوٹا دیے جائو گے۔ “

قرآن پڑھو

مخلص رہیں

بہت سی نشانیاں

  نیند کی حالت میں روح قبض کرنے سے مراد احساس و شعور ، فہم و ادراک اور اختیار و ارادہ کی قوتوں کو معطل کر دینا ہے ۔ یہ ایک ایسی حالت ہے جس پر اردو زبان کی یہ کہاوت فی الواقع راست آتی ہے کہ سویا اور موا برابر ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :61 اس ارشاد سے اللہ تعالیٰ ہر انسان کو یہ احساس دلانا چاہتا ہے کہ موت اور زیست کس طرح اس کے دست قدرت میں ہے ۔ کوئی شخص بھی یہ ضمانت نہیں رکھتا کہ رات کو جب وہ سوئے گا تو صبح لازماً زندہ ہی اٹھے گا ۔ کسی کو بھی یہ معلوم نہیں کہ ایک گھڑی بھر میں اس پر کیا آفت آسکتی ہے اور دوسرا لمحہ اس پر زندگی کا لمحہ ہوتا ہے یا موت کا ۔ ہر وقت سوتے میں یا جاگتے میں ، گھر بیٹھے یا کہیں چلتے پھرتے آدمی کے جسم کی کوئی اندرونی خرابی ، یا باہر سے کوئی نامعلوم آفت یکایک وہ شکل اختیار کر سکتی ہے جو اس کے لیے پیام موت ثابت ہو ۔ اس طرح جو انسان خدا کے ہاتھ میں بے بس ہے وہ کیسا سخت نادان ہے اگر اسی خدا سے غافل یا منحرف ہو 

مسکراہٹ

گناہ

حدیث نبوی ﷺ

ذراغورکرو

جسےاللہ ہدایت دے

کیا اللہ کافی نہیں؟

Friday, August 22, 2025

صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

یہ لوگ

قرآن میں

تا کہ

اپنی اپنی تھکن

بہترین کلام

  اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتٰـبًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِیَ ” اللہ نے بہترین کلام نازل کیا ہے کتاب کی صورت میں ‘ جس کے مضامین باہم مشابہ ہیں اور بار بار دہرائے گئے ہیں “- ہمارے ہاں لوگ عام طور پر لفظ ” حدیث “ کے صرف ایک ہی مفہوم سے آشنا ہیں جو کہ اس لفظ کا اصطلاحی مفہوم ہے ‘ یعنی فرمانِ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اصطلاحاً حدیث کہا جاتا ہے۔ جبکہ اس لفظ کے لغوی معنی بات یا کلام کے ہیں اور قرآن میں لفظ ” حدیث “ اسی مفہوم میں آیا ہے۔ جیسے سورة المرسلات میں فرمایا گیا : فَبِاَیِّ حَدِیْثٍم بَعْدَہٗ یُؤْمِنُوْنَ ۔ کہ اس قرآن کے بعد اب یہ لوگ بھلا اور کس بات پر ایمان لائیں گے ؟ چناچہ آیت زیر مطالعہ میں اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کا مطلب ہے : بہترین کلام۔- مُّتَشَابِہًا سے مراد قرآن کے الفاظ ‘ اس کی آیات اور اس کے مضامین کا باہم مشابہ ہونا ہے۔ یہ مشابہت قرآن کے اہم مضامین کی تکرار کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ جیسے ہم دیکھتے ہیں کہ قصہ آدم ( علیہ السلام) و ابلیس قرآن میں سات مقامات پر مذکور ہے۔ بظاہر سب مقامات پر یہ قصہ ایک سا معلوم ہوتا ہے مگر ہر جگہ سیاق وسباق کے حوالے سے اس میں کوئی نہ کوئی نئی بات ضرور سامنے آتی ہے۔ اگر ایک شخص اپنے معمول کے مطابق سات روز میں قرآن مجید ختم کرتا ہو تو وہ ہر روز کہیں نہ کہیں اس قصے کی تلاوت کرے گا۔ اس لحاظ سے اس قصے کی تفصیلات ‘ متعلقہ آیات اور ان آیات کے الفاظ اسے باہم مشابہ محسوس ہوں گے۔ اسی طرح بعض سورتوں کی بھی آپس میں گہری مشابہت ہے اور اسی مشابہت کی بنا پر انہیں جوڑوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ - ۔ - مَثَانِیَکا معنی ہے دہرائی ہوئی یا جوڑوں کی صورت میں۔ - تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ ” اس (کی تلاوت) سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔ “- متقی لوگ جب قرآن مجید کو پڑھتے ہیں تو ان پر اللہ کا خوف طاری ہوجاتا ہے اور اس خوف کی وجہ سے ان کی یہ کیفیت ہوجاتی ہے۔- ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُہُمْ وَقُلُوْبُہُمْ اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ ” پھر ان کی کھالیں اور ان کے دل اللہ کی یاد کے لیے نرم پڑجاتے ہیں۔ “- یعنی ان کے بدن اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف جھک پڑتے ہیں۔- ذٰلِکَ ہُدَی اللّٰہِ یَہْدِیْ بِہٖ مَنْ یَّشَآئُ ” یہ اللہ کی ہدایت ہے جس سے وہ ہدایت بخشتا ہے جس کو چاہتا ہے۔ “- وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنْ ہَادٍ ” اور جس کو اللہ گمراہ کر دے پھر اس کے لیے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ “- جس کی گمراہی پر اللہ ہی کی طرف سے مہر ثبت ہوچکی ہو پھر اسے کون ہدایت دے سکتا ہے ؟

وہی پل

اختیار

اللہ سبحان و تعالیٰ

والدین کا گھر

یاد دہانی اور نصیحت

 اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً فَسَلَکَہٗ یَنَابِیْعَ فِی الْاَرْضِ ” کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے اتارا آسمان سے پانی ‘ پھر اس کو چلا دیا چشموں کی شکل میں زمین میں “- ثُمَّ یُخْرِجُ بِہٖ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُہٗ ” پھر اس کے ذریعے سے وہ نکالتا ہے کھیتی جس کے مختلف رنگ ہیں “- ثُمَّ یَہِیْجُ فَتَرٰٹہُ مُصْفَرًّا ” پھر وہ پک کر تیار ہوجاتی ہے ‘ پھر تم اسے دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہوگئی ہے “- ثُمَّ یَجْعَلُہٗ حُطَامًاط ” پھر وہ اسے چورا چورا کردیتا ہے۔ “- کچھ عرصہ پہلے جس کھیت میں فصل لہلہا رہی تھی اب وہاں خاک اڑ رہی ہے اور خشک بھوسے کے کچھ تنکے ہیں جو ادھر ادھر بکھرے نظر آ رہے ہیں۔- اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِاُولِی الْاَلْبَابِ ” یقینا اس میں یاد دہانی (اور سبق) ہے ہوشمند لوگوں کے لیے۔ “- یعنی اگر غور سے دیکھا جائے تو فصل کے اگنے ‘ نشوونما پا کر پوری طرح تیار ہونے ‘ پک کر سوکھ جانے اور پھر کٹ کر چورا چورا ہوجانے میں انسانی زندگی ہی کے مختلف مراحل کا نقشہ نظر آتا ہے۔ جس طرح فصل کے اپچنے پر کسان خوش ہوتا ہے اسی طرح ہمارے ہاں بچے کی پیدائش پر خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ پھر وہ بچہ پرورش پا کر جوان ہوتا ہے ‘ اس کے بعد آہستہ آہستہ بالوں میں سفیدی آنے لگتی ہے۔ جوانی کی طاقت گھٹنا شروع ہوجاتی ہے ‘ قویٰ کمزور پڑنے لگتے ہیں اور پھر ایک دن اسے قبر میں اتار دیا جاتا ہے ‘ جہاں وہ مٹی میں مل کر مٹی ہوجاتا ہے۔ چناچہ موسمی فصلوں اور انسانوں کا ایک سا ہے۔ دونوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ فصل کے اگنے سے لے کر کٹنے تک چند ماہ کا عرصہ درکار ہے جبکہ انسانی زندگی میں یہ دورانیہ پچاس ساٹھ سال کا ہے۔ بہر حال ” زندگی “ دونوں جگہ مشترک ہے۔ سائنسی نقطہ نظر سے بھی دیکھیں تو نباتاتی زندگی اور حیوانی زندگی  دونوں حیاتیات ہی کی شاخیں ہیں۔

رب کا وعدہ

بہترین بات

Saturday, August 16, 2025

صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

بہترین ٹھکانا

  طوبیٰ سے مراد کیا ہے ؟ لفظ طوبٰی کے معنی ایسی خوشی حاصل ہونا ہے جس سے انسان کے دل کے علاوہ اس کے حواس بھی لطف اندوز ہوں (مفردات) اور جنت کی نعمتیں سب ایسی ہی ہوں گی بعض مفسرین نے طوبیٰ سے مراد وہ درخت لیا ہے جس کا ذکر احادیث میں آتا ہے کہ وہ جنت میں ایک درخت ہے جس کے سایہ میں ایک سوار اگر سو سال بھی چلتا رہے تو اس کا سایہ ختم نہ ہو۔ (بخاری، کتاب التفسیر، سورة ئواقعہ زیر آیت ( وَّظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ 30 ۝ ۙ ) 56 ۔ الواقعة :30) اہل عرب کے لیے ایسے درخت کا جنت میں موجود ہونا ایک بہت بڑی خوشخبری ہے۔ کیونکہ عرب کا اکثر علاقہ سنگلاخ اور ریگستانی ہے۔ شدت کی گرمی پڑتی ہے۔ لوئیں چلتی ہیں مگر درخت یا درختوں کے سائے بہت کم پائے جاتے ہیں۔ اسی لیے جنت کی نعمتوں کا جہاں ذکر آتا ہے وہاں ٹھنڈے پانی اور گھنی اور ٹھنڈی چھاؤں کا بالخصوص ذکر ہوتا ہے۔...

میرے بندو

 قُلْ يٰعِبَادِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا رَبَّكُمْ : سورت کے شروع سے توحید کا بیان آرہا ہے، اب بڑی محبت کے ساتھ ایمان والوں کو ” میرے بندو “ کہہ کر انھیں یہ پیغام دینے کا حکم دیا کہ صرف زبان سے توحید کا اقرار کافی نہیں، بلکہ اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو۔ ” تَقْوٰی “ ” وَقٰی یَقِيْ وِقَایَۃً “ کا مصدر ہے، اس کا لفظی معنی ” بچنا “ ہے، مراد ایسے تمام کام چھوڑ دینا ہے جن کے کرنے سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کا ڈر ہے اور ایسے تمام کام کرنا جن کے چھوڑنے سے اس کے عذاب کا ڈر ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی کرو اور اس کی نافرمانی سے اجتناب کرو۔- لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا فِيْ هٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَـنَةٌ“ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے۔” فِيْ هٰذِهِ الدُّنْيَا ‘ کا تعلق ” حَسَـنَةٌ‘ کے ساتھ ہے، یعنی جن لوگوں نے اس دنیا میں نیک اعمال کیے ان کے لیے عظیم بھلائی ہے۔ اس بھلائی سے مراد دنیا کی بھلائی بھی ہے اور آخرت کی بھلائی بھی، کیونکہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اکثر دعا یہ تھی : (اَللّٰھُمَّ آتِنَا فِي الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِي الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَاب النَّارِ ) [ بخاري، الدعوات، باب قول النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ربنا ۔۔ : ٦٣٨٩ ] ” اے اللہ ہمیں اس دنیا میں بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچانا۔ مزید دیکھیے سورة بقرہ (٢٠١) کی تفسیر۔ دنیا اور آخرت دونوں میں اس بھلائی کی تفصیل کے لیے سورة نحل (٩٧) کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔- وَاَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةٌ: یہ ہجرت کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی اگر کسی جگہ تم اللہ کے تقویٰ پر کار بند نہیں رہ سکتے اور اللہ کے دین پر عمل کرنے میں کوئی رکاوٹ ہے تو اللہ کی زمین وسیع ہے، کسی دوسری جگہ چلے جاؤ، جہاں آزادی سے اللہ کے احکام پر عمل کرسکو۔ اس جملے کی مفصل تفسیر کے لیے سورة نساء کی آیات (٩٧ تا ١٠٠) اور ان کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔- اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ : صبر کا لفظی معنی باندھنا ہے۔ اہل علم نے صبر کی تین قسمیں بیان فرمائی ہیں، اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی پر صبر، اس کی منع کردہ چیزوں سے اجتناب پر صبر اور پیش آنے والی تکلیفوں اور مصیبتوں پر صبر۔ صابر وہ ہے جس کی خصلت ہی صبر ہو۔ فرمایا، جن لوگوں کی خصلت صبر ہے، صرف یہی لوگ ہیں جنھیں ان کا اجر کسی حساب کے بغیر دیا جائے گا۔ اس میں ہجرت کے دوران پیش آنے والی تکالیف پر صبر کی تلقین ہے اور اس پر بےحساب اجر کی بشارت ہے۔ بغیر حساب اجر سے مراد جنت ہے، کیونکہ وہ ہمیشہ رہنے والی ہے۔ دنیا کی ہر نعمت خواہ کتنی ہو ختم ہونے والی ہے اور ختم ہونے والی ہر چیز کا حساب ہوسکتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (مَنْ عَمِلَ سَيِّئَةً فَلَا يُجْزٰٓى اِلَّا مِثْلَهَا ۚ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰۗىِٕكَ يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُوْنَ فِيْهَا بِغَيْرِ حِسَابٍ ) [ المؤمن : ٤٠ ] اور جس نے کوئی نیک عمل کیا، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہوا تو یہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے، اس میں بےحساب رزق دیے جائیں گے۔

علم والے اور بے علم

 اَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ اٰنَاۗءَ الَّيْلِ ۔۔ : ” قَانِتٌ“ کا معنی عبادت کرنے والا بھی ہے، فرماں بردار بھی اور خشوع و عاجزی کرنے والا بھی۔ ” امن “ (یا وہ شخص) کے لفظ سے ظاہر ہے کہ اس سے پہلے کچھ الفاظ محذوف ہیں، یعنی ” أَ ھٰذَا خَیْرٌ“ (کیا یہ مصیبت میں اپنے رب کو پکارنے والا اور نعمت عطا ہونے پر اسے بھول جانے والا بہتر ہے) ” اَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ“ یا وہ شخص جو صرف دن کے وقت ہی نہیں بلکہ رات کی گھڑیوں میں بھی سجدے اور قیام کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنے والا اور ہر حال میں اسی کا فرماں بردار ہے ؟ جواب ظاہر ہے کہ یہ مومن (قانت) ہر لحاظ سے اس سے بہتر ہے۔- يَّحْذَرُ الْاٰخِرَةَ وَيَرْجُوْا رَحْمَةَ رَبِّهٖ : ایمان اللہ تعالیٰ کے خوف اور اس سے امید کے درمیان ہے۔ انس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک نوجوان کے پاس گئے جو موت (کے چل چلاؤ) میں تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( کَیْفَ تَجِدُکَ ؟ قَالَ وَاللّٰہِ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنِّيْ أَرْجُو اللّٰہَ وَ إِنِّيْ أَخَافُ ذُنُوْبِيْ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ لَا یَجْتَمِعَانِ فِيْ قَلْبِ عَبْدٍ فِيْ مِثْلِ ہٰذَا الْمَوْطِنِ إِلَّا أَعْطَاہ اللّٰہُ مَا یَرْجُوْ وَ آمَنَہُ مِمَّا یَخَافُ ) [ ترمذي، الجنائز، باب الرجاء باللّٰہ والخوف بالذنب عند الموت : ٩٨٣ ] ” تو اپنے آپ کو کس حال میں پاتا ہے ؟ “ اس نے کہا : ” اللہ کی قسم یا رسول اللہ میں اللہ سے امید رکھتا ہوں اور اپنے گناہوں سے ڈرتا بھی ہوں۔ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اس جیسے مقام پر کسی بندے کے دل میں یہ دونوں چیزیں جمع نہیں ہوتیں مگر اللہ تعالیٰ اسے وہ چیز عطا کردیتا ہے جس کی وہ امید رکھتا ہے اور اس چیز سے اسے امن عطا کردیتا ہے جس سے وہ ڈرتا ہے۔ “- قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ ۔۔ : یہاں ” الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ “ (جاننے والے) ان لوگوں کو کہا گیا ہے جو دن رات، خوش حالی و بدحالی میں ہر وقت ایک اللہ ہی کی عبادت کرنے والے اور اسی کے فرماں بردار ہیں اور ” والَّذِيْنَ لا يَعْلَمُوْنَ “ (نہ جاننے والے) ان لوگوں کو کہا گیا ہے جو تکلیف اور مصیبت میں تمام معبودوں سے واپس پلٹ کر ایک اللہ ہی کو پکارتے ہیں، مگر خوش حالی میں اسے بھول کر اللہ تعالیٰ کے لیے کئی شریک بنا لیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جاننے کے باوجود کہ تمام اختیارات کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے، نعمت عطا ہونے پر اسے بھلا دیتے ہیں اور اس کے شریک بنا لیتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے انھیں نہ جاننے والے قرار دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص اپنے علم پر عمل نہیں کرتا وہ جاہل (لَا یَعْلَمُ ) ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰۗؤُا) [ فاطر : ٢٨ ] ” اللہ سے تو اس کے بندوں میں سے صرف علماء (جاننے والے) ہی ڈرتے ہیں۔ “ اللہ تعالیٰ سے نہ ڈرنے والے اللہ کے نزدیک علماء نہیں، خواہ ان کے پاس کتنی ڈگریاں اور کتنے عہدے ہوں اور خواہ انھوں نے کتنی کتابیں یا کتب خانے چاٹ رکھے ہوں۔- 3 اس آیت سے علم اور اس پر عمل کرنے والے اہل علم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَیْنِ رَجُلٌ آتَاہ اللّٰہُ الْقُرْآنَ فَہُوَ یَتْلُوْہُ آنَاء اللَّیْلِ وَ آنَاء النَّہَارِ ، وَ رَجُلٌ آتَاہ اللّٰہُ مَالًا فَہُوَ یُنْفِقُہُ آنَاء اللَّیْلِ وَآنَاء النَّہَارِ ) [ بخاري، التوحید، باب قول النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رجل آتاہ اللّٰہ القرآن۔۔ : ٧٥٢٩ ] ” دو چیزوں کے سوا رشک کرنا درست نہیں، ایک وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن دیا تو وہ رات کی گھڑیوں میں اور دن کی گھڑیوں میں اس کی تلاوت کرتا ہے، اور ایک وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے کھلا مال عطا کیا ہے تو وہ رات کی گھڑیوں اور دن کی گھڑیوں میں اسے خرچ کرتا ہے۔ “ امام بخاری (رض) نے ” بَابُ فَضْلِ الْعِلْمِ “ میں علم کی فضیلت میں دو آیات نقل فرمائی ہیں، ایک سورة مجادلہ کی : (يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ ۙ وَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ ) [ المجادلۃ : ١١ ] ” اللہ ان لوگوں کو درجوں میں بلند کرے گا جو تم میں سے ایمان لائے اور جنھیں علم دیا گیا۔ “ اور دوسری سورة طٰہٰ کی : (وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا) [ طٰہٰ : ١١٤ ] ” اور کہہ اے میرے رب مجھے علم میں زیادہ کر۔ “ موسیٰ اور خضر ( علیہ السلام) کا واقعہ بھی علم کی فضیلت کی دلیل ہے۔ (دیکھیے بخاری : ٧٤)- اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ “ الْاَلْبَابِ ” لُبٌّ“ کی جمع ہے، مغز، عقل۔ جمع ہونے کی وجہ سے ترجمہ ” عقلوں والے “ کیا گیا ہے۔ ان عقلوں والوں سے مراد اہل ایمان ہیں نہ کہ کفار، گو وہ اپنے آپ کو کس قدر عقل و دانش والے سمجھتے ہوں، کیونکہ جب وہ اپنی عقلوں کو استعمال کر کے نصیحت حاصل ہی نہیں کرتے تو عقلوں والے کیسے ہوئے ؟

Wednesday, August 13, 2025

تمہارا لوٹنا

لوٹ آئیں

دل کے سخی

اجنبیت

اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے

تین اندھیروں کے اندر

  خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا ” اس نے پیدا کیا تمہیں ایک جان سے ‘ پھر اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا “- جو لوگ نظریہ ارتقاء  کو مانتے ہیں یا یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید کے ساتھ اس کے بعض اجزاء کی مطابقت ہے ‘ وہ اس کی تعبیر یوں کرتے ہیں کہ ابتدا میں پیدا کیے جانے والے حیوانات  میں نر اور مادہ کی تقسیم نہیں تھی۔ جیسے امیبا ہے جو دو حصوں میں تقسیم ہو کر اپنے جیسے ایک نئے وجود کو جنم دے دیتا ہے۔ اس کے بعد اگلے مرحلے پر ان کا خیال ہے کہ ایسے جانور پیدا کیے گئے جن کے اندر بیک وقت مذکر اور مونث دونوں جنسیں  موجود تھیں۔ جیسے کہ برسات کے موسم میں زمین سے نکلنے والے کینچو وں  میں سے ہر ایک کیڑا مذکر و مونث دونوں جنسوں کا حامل  ہوتا ہے۔ اس کے بعدرفتہ رفتہ دونوں جنسوں میں مزید تفریق ہوئی اور پھر تیسرے مرحلے میں دونوں جنسیں علیحدہ علیحدہ پیدا ہونا شروع ہوئیں۔- وَاَنْزَلَ لَکُمْ مِّنَ الْاَنْعَامِ ثَمٰنِیَۃَ اَزْوَاجٍ ” اور تمہارے لیے مویشیوں میں سے آٹھ جوڑے اتار دیے “- مویشیوں کے آٹھ جوڑوں کے بارے میں قبل ازیں ہم سورة الانعام (آیت ١٤٣ ‘ ١٤٤) میں بھی پڑھ چکے ہیں۔ ان میں اونٹ نر اور مادہ ‘ گائے نر اور مادہ ‘ بھیڑ نر اور مادہ اور بکری نر اور مادہ آٹھ مویشی شامل ہیں جو اس وقت عرب میں عموماً پائے جاتے تھے۔- یَخْلُقُکُمْ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّہٰتِکُمْ خَلْقًا مِّنْم بَعْدِ خَلْقٍ ” وہ پیدا کرتا ہے تمہیں تمہارے مائوں کے پیٹوں میں ایک خلق کے بعد دوسری خلق “- یہاں پر خَلْقًا مِّنْم بَعْدِ خَلْقٍسے تخلیق کے مختلف مراحل مراد ہیں۔ ان مراحل کا ذکر قرآن میں متعدد مقامات پر نُطْفَۃ ‘ عَلَقَۃ ‘ مُضْغَۃ ‘ مُضْغَۃ مُخَلَّقَۃ وَّغَیْرِ مُخَلَّقَۃ اور خَلْقًا اٰخَرَ کے الفاظ سے ہوا ہے۔ البتہ سورة المومنون کے پہلے رکوع کی آیات اس موضوع پر قرآن کے ذروہ سنام کا درجہ رکھتی ہیں۔ - فِیْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ ” (یہ تخلیق ہوتی ہے) تین اندھیروں کے اندر “- ماں کے پیٹ میں بچے کی تخلیق کا یہ عمل تین پردوں کے اندر ہوتا ہے۔ یعنی ایک پردہ تو پیٹ کی بیرونی دیوار  کا ہے۔ دوسرا پردہ رحم  کی موٹی دیوار ہے ‘ جبکہ تیسرا پردہ رحم کے اندر کی وہ جھلی (مَشِیمہ) ہے جس کے اندر بچہ لپٹا ہوتا ہے۔ اس میں غور طلب نکتہ یہ ہے کہ تین پردوں کی یہ بات قرآن نے صدیوں پہلے اس وقت کی جس وقت علم جنینیات  کے بارے میں انسان کی معلومات نہ ہونے کے برابر تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر کیتھ ایل مور (جسے ایمبریالوجی پر دنیا بھر میں سند مانا جاتا ہے) نے تسلیم کیا ہے کہ قرآن نے علم جنین کے بارے میں جو معلومات فراہم کی ہیں وہ واقعتا حیران کن ہیں اور یہ کہ ماں کے پیٹ کے اندر انسانی تخلیق کے مختلف مراحل کی جو تعبیر قرآن نے کی ہے اس سے بہتر تعبیر ممکن ہی نہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ تین پردوں کے اندر انسان کی تخلیق فرماتا ہے۔ اس کے اعضاء اور اس کی شکل کو جیسے چاہتا ہے بناتا ہے۔ - ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ لَہُ الْمُلْکُط لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَج فَاَنّٰی تُصْرَفُوْنَ ” وہ ہے اللہ تمہارا رب ‘ اسی کی بادشاہی ہے ‘ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ‘ تو تم لوگ کہاں سے پھرائے جا رہے ہو “

Tuesday, August 12, 2025

مقررہ مدت

 خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ ” اس نے پیدا کیا ہے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ۔ “- یعنی یہ کائنات ایک نہایت منظم ‘ بامقصد اور نتیجہ خیز تخلیق ہے ‘ یہ کوئی کار عبث نہیں ہے۔- یُـکَوِّرُ الَّــیْلَ عَلَی النَّہَارِ وَیُــکَوِّرُ النَّہَارَ عَلَی الَّــیْلِ ” وہ رات کو لپیٹ دیتا ہے دن پر اور دن کو لپیٹ دیتا ہے رات پر “- یہ مضمون قرآن حکیم میں تکرار کے ساتھ آیا ہے۔ متعدد مقامات پر یہی الفاظ دہرائے گئے ہیں ‘ جبکہ بعض جگہوں پر یُوْلِجُ الَّــیْلَ فِی النَّہَارِ وَیُوْلِجُ النَّہَارَ فِی الَّــیْلِ کے الفاظ بھی آئے ہیں۔ بہر حال مقصود اس سے یہ حقیقت واضح کرنا ہے کہ رات اور دن کے الٹ پھیر کا یہ منضبط اور منظم نظام بےمقصد اور عبث نہیں ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے عالم نباتات کے نظام تنفس ّ ( ) کی مثال لی جاسکتی ہے جو کلی طور پر دن رات کے ادلنے بدلنے کے ساتھ متعلق و مشروط ہے یا پھر روئے زمین پر پھیلے ہوئے پورے نظام زندگی کا حوالہ دیا جاسکتا ہے جو بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر اس گردش لیل و نہار کا مرہونِ منت ہے۔ غرض اس کائنات کی کوئی چیزیا کوئی تخلیق بھی بےمقصد و بےکار نہیں۔ اور اگر ایسا ہے اور یقینا ایسا ہی ہے تو پھر انسان اور انسان کی تخلیق کیونکر بےمقصد و بےکار ہوسکتی ہے ‘ جس کے لیے یہ سب کچھ پیدا کیا گیا ہے ؟ - یہاں پر ہر ذی شعور انسان کے ذہن میں یہ سوال خود بخود پیدا ہونا چاہیے کہ جب کائنات اور اس کی تمام چیزیں انسان کے لیے پیدا کی گئی ہیں تو آخر انسان کا مقصد ِتخلیق کیا ہے ؟ ایک حدیث میں الفاظ آئے ہیں : (فَاِنَّ الدُّنْیَا خُلِقَتْ لَـکُمْ وَاَنْتُمْ خُلِقْتُمْ لِلْآخِرَۃِ ) (١) یعنی دنیا تمہارے لیے پیدا کی گئی ہے اور تم آخرت کے لیے پیدا کیے گئے ہو۔ بہر حال اگر عقل اور منطق کی عینک سے بھی دیکھا جائے تو بھی آخرت کے تصور کے بغیر انسان کی تخلیق کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ خصوصاً انسان کو نیکی اور بدی کا جو شعور ودیعت ہوا ہے وہ ایک ایسی دنیا کا تقاضا کرتا ہے جہاں اچھائی کا نتیجہ واقعی اچھا نکلے اور برائی کا انجام واقعی برا ہو۔ جبکہ اس دنیا میں ہر جگہ اور ہر وقت ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ چناچہ انسان کی اخلاقی حس ( ) کے نتیجہ خیز ہونے کے لیے بھی ایک دوسری زندگی کا ظہور نا گزیر ہے۔- وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ” اور اس نے مسخر کردیا سورج اور چاند کو۔ “- کُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی ” یہ سب کے سب چل رہے ہیں ایک وقت معین تک کے لیے۔ “ - اَلَا ہُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفَّارُ ” آگاہ ہو جائو وہ زبردست ہے ‘ بہت بخشنے والا۔

خالص عبادت

 اَلَا لِلّٰهِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ ۭ ۔۔ : یعنی اصل حقیقت تو یہی ہے کہ خالص عبادت اور اطاعت صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے، مگر اللہ کے سوا دوسری ہستیوں کو اپنا حمایتی اور مدد گار سمجھنے والے مشرک لوگ عموماً یہی کہا کرتے ہیں کہ ہم ان کی عبادت انھیں خالق ومالک سمجھ کر نہیں کرتے، خالق ومالک اور اصل معبود تو ہم اللہ تعالیٰ ہی کو سمجھتے ہیں، لیکن اس کی ذات بہت بلند ہے، ہماری وہاں رسائی نہیں ہوسکتی، اس لیے ہم ان ہستیوں کو ذریعہ بناتے ہیں اور انھیں پکارتے اور ان سے فریاد کرتے ہیں، تاکہ یہ ہماری حاجتیں اور دعائیں اللہ تعالیٰ سے پوری کروا دیں۔ کئی لوگ اس کے لیے چھت پر پہنچنے کے لیے سیڑھی کے ضروری ہونے کی مثال بیان کیا کرتے ہیں۔- اِنَّ اللّٰهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ ۔۔ : ایک اللہ کو پکارنے اور اس کی عبادت کرنے والے تو ایک ہی معبود پر متفق ہیں مگر اس کے سوا دوسری ہستیوں کو پکارنے والوں کا کسی ایک ہستی پر اتفاق نہیں، کوئی کسی کو پکارتا ہے اور کوئی کسی کو، کیونکہ کسی کے پاس اس بات کی دلیل نہیں، نہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ فلاں ہستی کو فلاں کام کا اختیار ہے، یا وہ اللہ تعالیٰ سے فلاں فلاں کام کروا سکتا ہے۔ مشرکین محض گمان کی بنا پر انھیں پوجتے جا رہے ہیں اور ہر ایک اپنے اپنے گمان کے مطابق کسی نہ کسی داتا، دستگیر، مشکل کشا یا حاجت روا کو پکار تا چلا جا رہا ہے۔ مشرکین کی یہ بات چونکہ بالکل ہی بودی اور بےکار ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کا رد کرنے کے بجائے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مومن موحّدوں اور ان مشرکین کے درمیان اور مشرکوں کے مختلف گروہوں کے باہمی اختلاف میں حق بات کا فیصلہ فرمائے گا۔- اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِيْ مَنْ هُوَ كٰذِبٌ كَفَّار : اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے لیے دو لفظ استعمال فرمائے ہیں، ایک ” كٰذِبٌ“ اور دوسرا ” كَفَّارٌ“۔ ” كٰذِبٌ“ اس لیے کہ اس سے بڑا جھوٹ کوئی نہیں کہ ایسی کوئی ہستی موجود ہے جس کی پرستش سے، یا اسے پکارنے سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوجاتا ہے اور ” كَفَّارٌ“ (بہت ناشکرا) اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ہر شخص کی دعا خود سنتا اور قبول کرتا ہے، لیکن کس قدر نا شکرے ہیں وہ لوگ جو اس کی اس نعمت کی ناشکری کرتے ہوئے اس کے بجائے بےاختیار ہستیوں کو پکارتے اور ان کی پرستش کرتے ہیں اور اس کے لیے سیڑھی وغیرہ کی مثالیں بیان کرتے ہیں۔ وہ فرماتا ہے، میں قریب ہوں اور یہ کہتے ہیں کہ اس تک رسائی کے لیے واسطے ضروری ہیں۔

اے نبیﷺ

ذرہ غور کیجئے