Saturday, August 2, 2025

اللہ ہر چیز پر قادر

 اَوَلَيْسَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِقٰدِرٍ : یہ دوبارہ زندگی کی تیسری دلیل ہے کہ آسمان اور زمین کو دیکھو، ان میں اللہ تعالیٰ نے جو عجیب و غریب اور عظیم الشّان چیزیں رکھی ہیں، انھیں دیکھو اور ان کے مقابلے میں انسان کو دیکھو، کیا اس عظیم آسمان و زمین کو پیدا کرنے والا اس ضعیف البنیان انسان کو پہلے یا دوبارہ پیدا نہیں کرسکتا ؟ پھر اللہ تعالیٰ نے خود ہی جواب دیا، کیوں نہیں وہ خلّاق بھی ہے اور علیم بھی۔ جب اس میں صفت خلق اور صفت علم پورے کمال کے ساتھ جمع ہیں تو پھر کون سا مردہ ہے جو وہ زندہ نہ کرسکے ؟ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی پیدائش کو انسان کے دوبارہ زندہ کرنے کی دلیل کے طور پر کئی مقامات پر نہایت زوردار انداز میں بیان فرمایا ہے، جیسا کہ فرمایا : (لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ ) [ المؤمن : ٥٧ ] ” یقیناً آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا لوگوں کے پیدا کرنے سے زیادہ بڑا (کام) ہے۔ “ اور فرمایا : (اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يُّـحْيِۦ الْمَوْتٰى ۭ بَلٰٓي اِنَّهٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ) [ الأحقاف : ٣٣ ] ” اور کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ وہ اللہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور وہ ان کے پیدا کرنے سے نہیں تھکا، وہ اس بات پر قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کر دے ؟ کیوں نہیں یقیناً وہ ہر چیز پر خوب قادر ہے۔ “ اور فرمایا : (ءَاَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَاۗءُ ۭ بَنٰىهَا ) [ النازعات : ٢٧ ] ” کیا پیدا کرنے میں تم زیادہ مشکل ہو یا آسمان ؟ اس نے اسے بنایا  ۔  “  ۔   اَوَلَیْسَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَہُمْ ” تو کیا جس نے پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو ‘ وہ اس پر قادر نہیں ہے کہ ان جیسی مخلوق دوبارہ پیدا کر دے “- یہاں پر یَخْلُقَ مِثْلَہُمْ کے الفاظ میں ایک اہم مضمون بیان ہوا ہے جو اس آیت کے علاوہ بھی قرآن مجید میں متعدد بار آیا ہے۔ مطلب یہ کہ جب ہمیں دوبارہ پیدا کیا جائے گا تو ہم میں سے ہر ایک کو بعینہٖ دنیا والا جسم نہیں دیا جائے گا بلکہ ” اس جیسا “ جسم دیا جائے گا۔ اس کی عقلی توجیہہ یہ ہے کہ انسان کا جسم تو اس کی زندگی میں بھی مسلسل تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ اس میں مسلسل تغیرات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ کھال سمیت جسم کے تمام اعضاء کے خلیات اور خون کے سرخ وسفید خلیات مسلسل ختم ہوتے رہتے ہیں اور ان کی جگہ نئے نئے خلیات بنتے رہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ میرا جو جسم دس سال پہلے تھا وہ آج ختم ہوچکا ہے اور اس کی جگہ بالکل ایک نیا جسم بن چکا ہے۔ اسی طرح آج میرا جو جسم ہے چند سال بعد اس کی یہ ہیئت تبدیل ہوجائے گی۔ گویا بچپن میں جسم کی جو کیفیت ہوتی ہے ‘ جوانی تک پہنچتے پہنچتے وہ کیفیت بالکل بدل جاتی ہے ‘ جبکہ بڑھاپے کی عمر میں جوانی والے جسم کی ہیئت بھی مکمل طور پر تبدیل ہوجاتی ہے۔ بہر حال ہر انسان کو دوبارہ اٹھنے پر جو جسم دیا جائے گا وہ بعینہٖ دنیا والا جسم نہیں ہوگا ‘ بلکہ ” اس جیسا “ جسم ہوگا اور اس کی شکل کی سی شکل ہوگی۔ دنیا کی زندگی میں جس جسم سے اس نے نیک یا برے اعمال کمائے ہوں گے ‘ اسی طرح کے جسم کے ساتھ اسے ان اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔- اس کے علاوہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک فرمان بھی اس کے لیے دلیل فراہم کرتا ہے جو بالعموم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خوش طبعی کی مثال کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک دفعہ ایک بوڑھی خاتون حاضر ہوئی اور اپنے لیے جنت کی دعا کی درخواست کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب میں فرمایا : ” اے اُمّ فلاں جنت میں بوڑھی عورتیں تو داخل نہیں ہوں گی “۔ اس پر وہ سادہ لوح خاتون رنجیدہ ہو کر رونے لگی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دیکھا تو اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا : (اَنَّ الْعَجُوْزَ لَنْ تَدْخُلَ الْجَنَّۃَ عَجُوْزًا بَلْ یُنْشِئُھَا اللّٰہُ خَلْقًا آخَرَ ، فَتَدْخُلُھَا شَابَّـۃً بِکْرًا) ” بوڑھی عورتیں بڑھاپے کی حالت میں ہرگز جنت میں داخل نہیں ہوں گی بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں ایک اور ہی اٹھان پر اٹھائے گا ‘ پس تم نوجوان کنواری بن کر جنت میں داخل ہوگی “۔ اور پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس خاتون کو یہ آیات پڑھ کر سنائیں : اِنَّــآ اَنْشَاْنٰـھُنَّ اِنْشَآئً فَجَعَلْنٰـھُنَّ اَبْکَارًا عُرُبًا اَتْرَابًا ۔ (الواقعۃ) ” ان کو ہم ایک خاص اٹھان پر اٹھائیں گے ‘ اور ان کو باکرہ بنائیں گے ‘ محبت کرنے والی ‘ ہم عمر۔ “ (١)- بَلٰیق وَہُوَ الْخَلّٰقُ الْعَلِیْمُ ” کیوں نہیں جبکہ وہ تو بہت تخلیق فرمانے والا ‘ سب کچھ جاننے والا ہے۔ “ 

No comments:

Post a Comment