Thursday, September 25, 2025

صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

 اِنَّ اللّـٰهَ وَمَلَآئِكَـتَهٝ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا (56)

بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں ، اے ایمان والو تم بھی اس پر درود اور سلام بھیجو۔

سورہ الأحزاب: 56

مسئلہ رزق

اللہ جس کی روزی میں کشادگی دینا چاہے قادر ہے، جسے تنگ روزی دینا چاہے قادر ہے، یہ سب کچھ حکمت وعدل سے ہو رہا ہے۔ کافروں کو دنیا پر ہی سہارا ہوگیا۔ یہ آخرت سے غافل ہو گئے سمجھنے لگے کہ یہاں رزق کی فراوانی حقیقی اور بھلی چیز ہے حالانکہ دراصل یہ مہلت ہے اور آہستہ پکڑ کی شروع ہے لیکن انہیں کوئی تمیز نہیں۔
«قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقَىٰ وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِيلًا»  

[4-النساء:77]

 ‏‏‏‏ ’ مومنوں کو جو آخرت ملنے والی ہے اس کے مقابل تو یہ کوئی قابل ذکر چیز نہیں یہ نہایت ناپائیدار اور حقیر چیز ہے آخرت بہت بڑی اور بہتر چیز۔ لیکن عموماً لوگ دینا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں ‘۔
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کلمہ کی انگلی سے اشارہ کر کے فرمایا کہ اسے کوئی سمندر میں ڈبو لے اور دیکھے کہ اس میں کتنا پانی آتا ہے؟ جتنا یہ پانی سمندر کے مقابلے پر ہے اتنی ہی دنیا آخرت کے مقابلے میں ہے 

۔  [صحیح مسلم:2858] ‏‏‏‏
 ایک چھوٹے چھوٹے کانوں والی بکری کے مرے ہوئے بچے کو راستے میں پڑا ہوا دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جیسا یہ ان لوگوں کے نزدیک ہے جن کا یہ تھا اس سے بھی زیادہ بے کار اور ناچیز اللہ کے سامنے ساری دنیا ہے }۔  

[صحیح مسلم:29570]

  مال ودولت کی فراوانی اللہ کی نظر رحمت کی دلیل نہیں :۔ دنیا دار لوگوں کا ہمیشہ سے یہی دستور رہا ہے کہ وہ کسی شخص کی قدر و قیمت کو مال و دولت اور دنیوی جاہ و حشم کے پیمانوں سے ناپتے ہیں۔ ان لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ جو شخص جس قدر خوشحالی سے زندگی بسر کر رہا ہے اتنا ہی اس کا پروردگار اس پر مہربان ہے اور کسی کی معیشت کا تنگ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ اس سے ناراض ہے۔ اس آیت میں اسی نظریہ کی تردید کی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ رزق کی کمی بیشی کے لیے ایک دوسرا ہی قانون ہے جس میں دوسری قسم کی مصلحتیں ہیں دنیا میں رزق کی کمی بیشی کا انسان کی ہدایت اور فلاح و نجات سے کچھ تعلق نہیں بلکہ رزق کی زیادتی اکثر انسانوں کے لیے گمراہی کا سبب بن جاتی ہے۔ لہذا دنیوی مال و متاع پر ریجھ نہ جانا چاہئے۔ کیونکہ یہ سب چیزیں فانی ہیں اور ان دائمی اور پائیدار نعمتوں کے مقابلہ میں بالکل ہیچ ہیں جو اللہ کے فرمانبردار لوگوں کو اخروی زندگی میں عطا کی جائیں گی۔‏‏‏‏

وقت

انسان کو

آپ کون ہوتے ہیں؟

استغفراللہ

سارے جہانوں کا پروردگار

بیشک

ایک اللہ

کِتٰبٌ فُصِّلَتۡ

 آیت ٢ تَنْزِیْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ” (اس کتاب کا) اتارا جانا ہے اس ہستی کی طرف سے جو بیحد مہربان ‘ نہایت رحم کرنے والا ہے۔ “- اللہ تعالیٰ کی رحمت ایک ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی مانند بھی ہے اور اس رحمت میں دوام اور تسلسل بھی ہے۔آیت ٣ کِتٰبٌ فُصِّلَتْ اٰیٰتُہٗ ” یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کی آیات خوب کھول کھول کر بیان کردی گئی ہیں “- یعنی قرآن میں ہرچیز اور ہر موضوع کو تفصیل کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ( ) بیان کردیا گیا ہے۔ اس سورت کا دوسرا نام ( فُصِّلَتْ ) اسی جملے سے لیا گیا ہے۔ - قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا لِّقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ ” قرآن عربی کی صورت میں ‘ ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہوں (یا علم رکھنا چاہیں) ۔ “

کُنۡ فَیَکُوۡنُ

 وہی ہے جو (جسے چاہتا ہے) زندگی عطا کرتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) موت دیتا ہے۔ “ موت و حیات مکمل طور پر اس کے ہاتھ میں ہے، کسی دوسرے کا اس میں کچھ دخل نہیں۔ زندہ کرنا اور مارنا اسی کے اختیار میں ہے۔ وہ ایک بےجان نطفے کو مختلف اطوار سے گزار کر ایک زندہ انسان کے روپ میں ڈھال دیتا ہے اور پھر ایک وقت مقررہ کے بعد اس زندہ انسان کو مار کر موت کی وادیوں میں سلا دیتا ہے۔اس کی قدرت کا یہ حال ہے کہ اس کے لفظ کن (ہو جا) سے وہ چیز معرض وجود میں آجاتی ہے جس کا وہ ارادہ کرے۔ ا سے پہلی مرتبہ یا دوبارہ کوئی چھوٹی یا بڑی چیز بنانے میں، یا کسی کو مارنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے اور قیامت برپا کرنے میں کیا مشکل ہوسکتی ہے ؟ وہ تو جب کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو بس ” کن “ (ہو جا) کہتا ہے تو وہ کام ہوجاتا ہے۔ وہ اسباب کا محتاج نہیں، بلکہ اسباب اس کے حکم سے وجود میں آتے ہیں۔

انسان کی تخلیق اور زندگی کے مختلف مراحل سے بعث بعد الموت پر دلیل

 سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :96 یعنی کوئی پیدا ہونے سے پہلے اور کوئی جوانی کو پہنچنے سے پہلے اور کوئی بڑھاپے کو پہنچنے سے پہلے مر جاتا ہے ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :97 وقت مقرر سے مراد یا تو موت کا وقت ہے ، یا وہ وقت جب تمام انسانوں کو دوبارہ اٹھ کر اپنے خدا کے حضور حاضر ہونا ہے پہلی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ ہر انسان کو زندگی کے مختلف مرحلوں سے گزارتا ہوا اس ساعت خاص تک لے جاتا ہے جو اس نے ہر ایک کی واپسی کے لیے مقرر کر رکھی ہے ۔ اس وقت سے پہلے ساری دنیا مل کر بھی کسی کو مارنا چاہے تو نہیں مار سکتی ، اور وہ وقت آجانے کے بعد دنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھی کسی کو زندہ رکھنے کی کوشش کریں تو کامیاب نہیں ہو سکتیں ۔ دوسرے معنی لینے کی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ یہ ہنگامہ ہستی اس لیے برپا نہیں کیا گیا ہے کہ تم مر کر مٹی میں مل جاؤ اور فنا ہو جاؤ ، بلکہ زندگی کے ان مختلف مرحلوں سے اللہ تم کو اس لیے گزارتا ہے کہ تم سب اس وقت پر جو اس نے مقرر کر رکھا ہے ، اس کے سامنے حاضر ہو ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :98 یعنی زندگی کے ان مختلف مراحل سے تم کو اس لیے نہیں گزارا جاتا کہ تم جانوروں کی طرح جیو اور انہی کی طرح مر جاؤ ، بلکہ اس لیے گزارا جاتا ہے کہ تم اس عقل سے کام لو جو اللہ نے تمہیں عطا کی ہے اور اس نظام کو سمجھو جس میں خود تمہارے اپنے وجود پر یہ احوال گزرتے ہیں ۔ زمین کے بے جان مادوں میں زندگی جیسی عجیب و غریب چیز کا پیدا ہونا ، پھر نطفے کے ایک خورد بینی کیڑے سے انسان جیسی حیرت انگیز مخلوق کا وجود میں آنا ، پھر ماں کے پیٹ میں استقرار حمل کے وقت سے وضع حمل تک اندر ہی اندر اس کا اس طرح پرورش پانا کہ اس کی جنس ، اس کی شکل و صورت ، اس کے جسم کی ساخت ، اس کے ذہن کی خصوصیات ، اور اس کی قوتیں اور صلاحیتیں سب کچھ وہیں متعین ہو جائیں اور ان کی تشکیل پر دنیا کی کوئی طاقت اثر انداز نہ ہو سکے ، پھر یہ بات کہ جسی اسقاط حمل کا شکار ہونا ہے اس کا اسقاط ہی ہو کر رہتا ہے ، جسے بچپن میں مرنا ہے وہ بچپن ہی میں مرتا ہے خواہ وہ کسی بادشاہ ہی کا بچہ کیوں نہ ہو ، اور جسے جوانی یا بڑھاپے کی کسی عمر تک پہنچنا ہے وہ خطرناک سے خطرناک حالات سے گزر کر بھی ، جن میں بظاہر موت یقینی ہونی چاہیے ، اس عمر کو پہنچ کر رہتا ہے ، اور جسے عمر کے جس خاص مرحلے میں مرنا ہے اس میں وہ دنیا کے کسی بہترین ہسپتال کے اندر بہترین ڈاکٹروں کے زیر علاج رہتے ہوئے بھی مر کر رہتا ہے ، یہ ساری باتیں کیا اس حقیقت کی نشاندہی نہیں کر رہی ہیں کہ ہماری اپنی حیات و ممات کا سر رشتہ کسی قادر مطلق کے ہاتھ میں ہے؟ اور جب امر واقعہ یہی ہے کہ ایک قادر مطلق ہماری موت و زیست پر حکمراں ہے تو پھر کوئی اور  آخر کیسے ہماری بندگی و عبادت کا مستحق ہو گیا ؟ کسی بندے کو یہ مقام کب سے حاصل ہوا کہ ہم اس سے دعائیں مانگیں اور اپنی قسمت کے بننے اور بگڑنے کا مختار اس کو مان لیں؟ہر کسی کی بےبسی ایک جیسی ہے تو ایسے بےبسوں کو عبادت کا مستحق کیسے قرار دیا جاسکتا ہے اور کتنے نادان ہیں وہ لوگ جو اللہ کے سوا دوسروں کی خدائی تسلیم کرلیتے ہیں۔

Thursday, September 18, 2025

صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

جو صبر کرتے ہیں

والدین کی قدر

بڑا کام

تمام جہانوں کا رب

اللہ ہی ہے

صبر کے ساتھ

چھوٹا سا دیا

رب کے سامنے

بہترین رشتہ

استغفار کا حکم

ایمان والا

 یہ دنیا دار الامتحان ہے، اس کے باوجود رحمان و رحیم رب تعالیٰ نے اتنی زبردست رعایت رکھی ہے کہ جو شخص کوئی برائی کرے، اسے صرف اس ایک برائی ہی کا بدلا دیا جائے گا، مگر جو شخص ایمان لا کر کوئی صالح عمل کرے تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور اس میں انہیں بےحساب رزق دیا جائے گا، انہیں نیکیوں کی جزا بھی دس گنا سے سات سو گنا بلکہ حساب و شمار سے بھی زیادہ دی جائے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ برائی کی جزا اتنی ہی دی جائے گی جتنی کسی نے برائی کی ہے اور یہ کہ کافر کبھی جنت میں داخل نہیں ہوگا، کیونکہ اگر اس نے اپنے خیال میں کوئی نیکی کی بھی ہے تو اس کا اعتبار ایمان کے بغیر نہیں کیا جائے گا۔ عمل صالح کی قبولیت کے لئے ایمان شرط ہے، اور عمل صالح وہ ہے جس میں نیت درست ہو، یعنی وہ خالص اللہ تعالیٰ کے لئے ہو اور طریقہ درست ہو، یعنی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کیا جائے۔ دیکھیے سورة کہف کی آخری آیت کی تفسیر۔

Sunday, September 14, 2025

صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

توکل

زمین میں چل پھر کر

اللہ علیم پر ہر چیز ظاہر ہے

اللہ سے حیا

قبر کا فقیر

صدقہ

اَسْتَغْفِرُ اللهَ

روز قیامت سب اللہ کے سامنے ہوں گے

 جس دن سب لوگ قبروں سے نکل پڑیں گے کہ ان کے اعمال میں سے کوئی چیز اللہ سے پوشیدہ نہ رہے گی پھر نفخہ موت کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائے گا آج کے دن کس کی حکومت ہوگی تو کوئی بھی جواب نہ دے سکے گا اللہ تعالیٰ فرمائے گا بس اللہ ہی کی ہوگی جو کہ وحدہ لاشریک ہے اور اپنی مخلوق کے مارنے پر غالب ہے آج یعنی قیامت کے دن ہر نیک و بد کو جو بھی اس نے نیکی یا بدی کی ہے اس کا بدلہ دیا جائے گا۔

 آج سب اللہ کے سامنے ہوں گے۔ بالکل ظاہر باہر ہوں گے، چھپنے کی تو کہاں سائے کی جگہ بھی کوئی نہ ہو گی۔ سب اس کے آمنے سامنے موجود ہوں گے۔ اس دن خود اللہ فرمائے گا کہ آج بادشاہت کس کی ہے؟ کون ہو گا جو جواب تک دے؟ پھر خود ہی جواب دے گا کہ اللہ اکیلے کی جو ہمیشہ واحد ہے اور سب پر غالب و حکمراں ہے۔
پہلے حدیث گذر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کو لپیٹ کر اپنے ہاتھ میں لے لے گا اور فرمائے گا۔ میں بادشاہ ہوں، میں جبار ہوں متکبر ہوں۔ زمین کے بادشاہ اور جبار اور متکبر لوگ آج کہاں ہیں؟ [صحیح مسلم:2788] ‏‏‏‏
صور کی حدیث میں ہے کہ اللہ عزوجل جب تمام مخلوق کی روح قبض کر لے گا۔ اور اس وحدہ لاشریک لہ کے سوا اور کوئی باقی نہ رہے گا۔ اس وقت تین مرتبہ فرمائے گا آج ملک کس کا ہے؟ پھر خود ہی جواب دے گا اللہ اکیلے غالب کا۔ یعنی اس کا جو واحد ہے اس کا جو ہرچیز پر غالب ہے جس کی ملکیت میں ہرچیز ہے۔ ابن ابی حاتم میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قیامت کے قائم ہونے کے وقت ایک منادی ندا کرے گا کہ لوگو! قیامت آ گئی جسے مردے زندے سب سنیں گے۔ اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول اجلال فرمائے گا اور کہے گا آج کس کے لیے ملک ہے صرف اللہ اکیلے غلبہ والے کے لیے، پھر اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف کا بیان ہو رہا ہے کہ ذرا سا بھی ظلم اس دن نہ ہو گا بلکہ نیکیاں دس دس گنا کر کے ملیں گی اور برائیاں اتنی ہی رکھی جائیں گی۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ اے میرے بندو! میں نے ظلم کرنا اپنے اوپر بھی حرام کر لیا ہے اور تم پر بھی حرام کر دیا ہے۔ پس تم میں سے کوئی کسی پر ظلم نہ کرے آخر میں ہے اے میرے بندو! یہ تو تمہارے اپنے اعمال ہیں۔ جن پر میں نگاہ رکھتا ہوں اور جن کا پورا بدلہ دوں گا۔ پس جو شخص بھلائی پائے وہ اللہ کی حمد کرے اور جو اس کے سوا پائے وہ اپنے تئیں ہی ملامت کرے۔ [صحیح مسلم:2577] ‏‏‏‏
پھر اپنے جلد حساب لینے کو بیان فرمایا کہ ساری مخلوق سے حساب لینا اس پر ایسا ہے جیسے ایک شخص کا حساب لینا جیسے ارشاد باری ہے «مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍ ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ» ‏‏‏‏ [ 31- لقمان: 28 ] ‏‏‏‏ یعنی تم سب کا پیدا کرنا اور تم سب کو مرنے کے بعد زندہ کر دینا میرے نزدیک ایک شخص کے پیدا کرنے اور زندہ کر دینے کی مانند ہے اور آیت میں ہے اللہ عزوجل کا فرمان ہے «وَمَآ اَمْرُنَآ اِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍۢ بِالْبَصَرِ» [ 54- القمر: 50 ] ‏‏‏‏ یعنی ہمارے حکم کے ساتھ ہی کام ہو جاتا ہے اتنی دیر میں جیسے کسی نے آنکھ بند کر کے کھول 
لی۔

اعتماد

آسمان سے روزی

  ہُوَ الَّذِیْ یُرِیْکُمْ اٰیٰتِہٖ وَیُنَزِّلُ لَکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ رِزْقًا ” وہی ہے جو تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے اور اتارتا ہے تمہارے لیے آسمان سے روزی۔ “- اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش برساتا ہے اور بارش کا پانی زمین سے روزی پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔- وَمَا یَتَذَکَّرُ اِلَّا مَنْ یُّنِیْبُ ” اور نہیں نصیحت حاصل کرتا مگر وہی جو رجوع کرتا ہے (اللہ کی طرف) ۔ “

 نشانیوں سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ اس کائنات کا صانع اور مدبر منتظم ایک خدا اور ایک ہی خدا ہے ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :20 رزق سے مراد یہاں بارش ہے ، کیونکہ انسان کو جتنی اقسام کے رزق بھی دنیا میں ملتے ہیں ان سب کا مدار آخر کار بارش پر ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنی بے شمار نشانیوں میں سے تنہا اس ایک نشانی کو پیش کر گے لوگوں کو توجہ دلاتا ہے کہ صرف اسی ایک چیز کے انتظام پر تم غور کرو تو تمہاری سمجھ میں آ جائے کہ نظام کائنات کے متعلق جو تصور تم کو قرآن میں دیا جا رہا ہے وہی حقیقت ہے ۔ یہ انتظام صرف اسی صورت میں قائم ہو سکتا تھا جبکہ زمین اور اس کی مخلوقات اور پانی اور ہوا اور سورج اور حرارت و برودت سب کا خالق ایک ہی خدا ہو ۔ اور یہ انتظام صرف اسی صورت میں لاکھوں کروڑوں برس تک پیہم ایک باقاعدگی سے چل سکتا ہے جس نے زمین میں انسان اور حیوانات اور نباتات کو جب پیدا کیا تو ٹھیک ٹھیک ان کی ضروریات کے مطابق پانی بھی بنایا اور پھر اس پانی کو باقاعدگی کے ساتھ روئے زمین پر پہنچانے اور پھیلانے کے لیے یہ حیرت انگیز انتظامات کیے ۔ اب اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے جو یہ سب کچھ دیکھ کر بھی خدا کا انکار کرے ، یا اس کے ساتھ کچھ دوسری ہستیوں کو بھی خدائی میں شریک ٹھہرائے ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :21 یعنی خدا سے پھرا ہوا آدمی ، جس کی عقل پر غفلت یا تعصب کا پردہ پڑا ہوا ہو ، کسی چیز کو دیکھ کر بھی کوئی سبق نہیں لے سکتا ۔ اس کی حیوانی آنکھیں یہ تو دیکھ لیں گی کہ ہوائیں چلیں ، بادل آئے ، کڑک چمک ہوئی ، اور بارش ہوئی ۔ مگر اس کا انسانی دماغ کبھی یہ نہ سوچے گا کہ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے ، کون کر رہا ہے اور مجھ پر اس کے کیا حقوق ہیں ۔

دعائیں

اللہ عَزَّوَجَلَّ

بلند مرتبہ فرشتے

  اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہٗ ” وہ (فرشتے) جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور وہ جو ان کے ارد گرد ہیں “- اس آیت کو پڑھتے ہوئے سورة الزمر کی آخری آیت کو ذہن میں رکھیے جس میں میدانِ حشر میں عدالت ِالٰہی کا اختتامی منظر دکھایا گیا تھا : وَتَرَی الْمَلٰٓئِکَۃَ حَآفِّیْنَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْج ” اور تم دیکھو گے فرشتوں کو کہ وہ گھیرے ہوئے ہوں گے عرش کو اور اپنے ربّ کی تسبیح بیان کر رہے ہوں گے حمد کے ساتھ “۔ چناچہ یہاں ان حاملین عرش اور ان کے ساتھی ملائکہ کا ذکر دوبارہ ہو رہا ہے کہ :- یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَیُؤْمِنُوْنَ بِہٖ ” وہ سب تسبیح کر رہے ہوتے ہیں اپنے رب کی حمد کے ساتھ اور اس پر پورا یقین رکھتے ہیں “- وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا  اور اہل ایمان کے لیے استغفار کرتے ہیں۔ “- رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْئٍ رَّحْمَۃً وَّعِلْمًا ” اے ہمارے پروردگار تیری رحمت اور تیرا علم ہرچیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے “- فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَکَ ” پس بخش دے ُ تو ان لوگوں کو جنہوں نے توبہ کی اور تیرے راستے کی پیروی کی “- اے پروردگار ہم تجھ سے کیا عرض کریں ؟ تجھے ہر شے کا علم ہے ‘ تیری رحمت پہلے ہی ہرچیز کو اپنی گود میں لیے ہوئے ہے۔ پھر بھی ہم تجھ سے تیری رحمت کی درخواست کرتے ہیں اور اہل زمین میں سے جو مومنین اور نیک لوگ ہیں ان کے لیے استغفار کرتے ہیں۔ اے پروردگار تو ان کی خطائیں بخش دے اور ان کے گناہوں سے درگزر فرما اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ قیامت کے دن مومنین کے حق میں فرشتے بھی شفاعت کریں گے۔ یہ شفاعت ِحقہ ّہے۔- وَقِہِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ ” اور ان کو جہنم کے عذاب سے بچا لے۔

استغفار

اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں

جنت کی طرف

صور پھونکا جائے گا

Saturday, September 13, 2025

بھروسہ

رحمۃ للعالمین ﷺ

اللہ کی عظمت و کبریائی

  وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ ” اور انہوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسے کہ اس کی قدر کا حق تھا “- یہ لوگ اللہ کی قدرت ‘ اس کی قوت اور اس کی صفات کا اندازہ نہیں کر پائے۔ اس معاملے میں یہ بہت اہم نکتہ ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ اگرچہ ہم انسان اللہ تعالیٰ کے علم ‘ اس کی قدرت اور اس کی دوسری صفات کو ناپ تول نہیں سکتے ‘ اگر ہم اس کی کوشش بھی کریں گے تو یوں سمجھیں کہ اس کوشش کی مثال سنار کی ترازو میں ٹنوں کے وزن کو تولنے جیسی ہوگی ‘ لیکن ہم یہ تو جان سکتے ہیں کہ وہ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ہستی ہے۔ اس آیت کے مصداق وہ لوگ ہیں جن کے اذہان اللہ کو عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ   ماننے سے بھی عاجز ہیں۔ اب اللہ کی قدرت اور عظمت کی ایک جھلک ملاحظہ ہو :- وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیّٰتٌم بِیَمِیْنِہٖ ” اور زمین پوری کی پوری اس کی مٹھی میں ہوگی قیامت کے دن اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔ “- کیا اس کیفیت کا اندازہ کرنا انسانی فکر اور سوچ کے بس کی بات ہے ؟ آسمانوں کی پہنائیاں کائنات میں موجود کہکشائوں ‘ ستاروں اور سیاروں کی تعداد ایک ایک کہکشاں کی وسعت ایک ایک ستارے کی جسامت ان کہکشائوں اور ستاروں کے باہمی فاصلے ان فاصلوں اور وسعتوں کو ناپنے کے لیے انسان کے فرض کیے ہوئے نوری سالوں کے پیمانے ایک نوری سال کے فاصلے کا تصور اور پھر اربوں کھربوں نوری سالوں کی وسعتوں کا تخیل اور پھر یہ تصور کہ یہ سب کچھ لپٹا ہواہو گا اللہ کے داہنے ہاتھ میں بہر حال یہ ایسا موضوع ہے جس پر سوچتے ہوئے انسانی فکر اور اس کی قوت متخیلہ بھی تھک ہار کر رہ جاتی ہے۔ اور انسان کی عقل جو اللہ کی تخلیق کی ہوئی کائنات کے کسی ایک کونے کا احاطہ کرنے سے بھی عاجز ہے ‘ وہ اللہ کی قدرت کا کیا اندازہ کرے گی - سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ ” وہ پاک ہے اور بہت بلند وبالا اس تمام شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔ “

 یعنی ان کو اللہ کی عظمت و کبریائی کا کچھ اندازہ ہی نہیں ہے ۔ انہوں نے کبھی یہ سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ خداوند عالم کا مقام کتنا بلند ہے اور وہ حقیر ہستیاں کیا شے ہیں جن کو یہ نادان لوگ خدائی میں شریک اور معبودیت کا حق دار بنائے بیٹھے ہیں ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :76 زمین اور آسمان پر اللہ تعالیٰ کے کامل اقتدار تصرف کی تصویر کھینچنے کے لیے مٹھی میں ہونے اور ہاتھ پر لپٹے ہونے کا استعارہ استعمال فرمایا گیا ہے ۔ جس طرح ایک آدمی کسی چھوٹی سی گیند کو مٹھی میں دبا لیتا ہے اور اس کے لیے یہ ایک معمولی کام ہے ، یا ایک شخص ایک رومال کو لپیٹ کر ہاتھ میں لے لیتا ہے اور اس کے لیے یہ کوئی زحمت طلب کام نہیں ہوتا ، اسی طرح قیامت کے روز تمام انسان ( جو آج اللہ کی عظمت و کبریائی کا اندازہ کرنے سے قاصر ہیں ) اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ زمین اور آسمان اللہ کے دست قدرت میں ایک حقیر گیند اور ایک ذرا سے رومال کی طرح ہیں ۔ مسند احمد ، بخاری ، مسلم ، نسائی ، ابن ماجہ ، ابن جریر وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابوہریرہ کی روایات منقول ہوئی ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ۔ دَوران خطبہ میں یہ آیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاوت فرمائی اور فرمایا اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں ( یعنی سیاروں ) کو اپنی مٹھی میں لے کر اس طرح پھرائے گا جیسے ایک بچہ گیند پھراتا ہے ، اور فرمائے گا میں ہوں خدائے واحد ، میں ہوں بادشاہ ، میں ہوں جبار ، میں ہوں کبریائی کا مالک ، کہاں ہیں زمین کے بادشاہ؟ کہاں ہیں جبار؟ کہاں ہیں متکبر ، ؟ یہ کہتے کہتے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسا لرزہ طاری ہوا کہ ہمیں خطرہ ہونے لگا کہ کہیں آپ منبر سمیت گر نہ پڑیں ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :77 یعنی کہاں اس کی یہ شان عظمت و کبریائی اور کہاں اس کے ساتھ خدائی میں کسی کا شریک ہونا ۔

خسارہ پانے

جس دن

خاموش انسان

کبھی سوچا ہے

پتہ ہے