وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ ” اور انہوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسے کہ اس کی قدر کا حق تھا “- یہ لوگ اللہ کی قدرت ‘ اس کی قوت اور اس کی صفات کا اندازہ نہیں کر پائے۔ اس معاملے میں یہ بہت اہم نکتہ ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ اگرچہ ہم انسان اللہ تعالیٰ کے علم ‘ اس کی قدرت اور اس کی دوسری صفات کو ناپ تول نہیں سکتے ‘ اگر ہم اس کی کوشش بھی کریں گے تو یوں سمجھیں کہ اس کوشش کی مثال سنار کی ترازو میں ٹنوں کے وزن کو تولنے جیسی ہوگی ‘ لیکن ہم یہ تو جان سکتے ہیں کہ وہ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ہستی ہے۔ اس آیت کے مصداق وہ لوگ ہیں جن کے اذہان اللہ کو عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ماننے سے بھی عاجز ہیں۔ اب اللہ کی قدرت اور عظمت کی ایک جھلک ملاحظہ ہو :- وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیّٰتٌم بِیَمِیْنِہٖ ” اور زمین پوری کی پوری اس کی مٹھی میں ہوگی قیامت کے دن اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔ “- کیا اس کیفیت کا اندازہ کرنا انسانی فکر اور سوچ کے بس کی بات ہے ؟ آسمانوں کی پہنائیاں کائنات میں موجود کہکشائوں ‘ ستاروں اور سیاروں کی تعداد ایک ایک کہکشاں کی وسعت ایک ایک ستارے کی جسامت ان کہکشائوں اور ستاروں کے باہمی فاصلے ان فاصلوں اور وسعتوں کو ناپنے کے لیے انسان کے فرض کیے ہوئے نوری سالوں کے پیمانے ایک نوری سال کے فاصلے کا تصور اور پھر اربوں کھربوں نوری سالوں کی وسعتوں کا تخیل اور پھر یہ تصور کہ یہ سب کچھ لپٹا ہواہو گا اللہ کے داہنے ہاتھ میں بہر حال یہ ایسا موضوع ہے جس پر سوچتے ہوئے انسانی فکر اور اس کی قوت متخیلہ بھی تھک ہار کر رہ جاتی ہے۔ اور انسان کی عقل جو اللہ کی تخلیق کی ہوئی کائنات کے کسی ایک کونے کا احاطہ کرنے سے بھی عاجز ہے ‘ وہ اللہ کی قدرت کا کیا اندازہ کرے گی - سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ ” وہ پاک ہے اور بہت بلند وبالا اس تمام شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔ “
یعنی ان کو اللہ کی عظمت و کبریائی کا کچھ اندازہ ہی نہیں ہے ۔ انہوں نے کبھی یہ سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ خداوند عالم کا مقام کتنا بلند ہے اور وہ حقیر ہستیاں کیا شے ہیں جن کو یہ نادان لوگ خدائی میں شریک اور معبودیت کا حق دار بنائے بیٹھے ہیں ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :76 زمین اور آسمان پر اللہ تعالیٰ کے کامل اقتدار تصرف کی تصویر کھینچنے کے لیے مٹھی میں ہونے اور ہاتھ پر لپٹے ہونے کا استعارہ استعمال فرمایا گیا ہے ۔ جس طرح ایک آدمی کسی چھوٹی سی گیند کو مٹھی میں دبا لیتا ہے اور اس کے لیے یہ ایک معمولی کام ہے ، یا ایک شخص ایک رومال کو لپیٹ کر ہاتھ میں لے لیتا ہے اور اس کے لیے یہ کوئی زحمت طلب کام نہیں ہوتا ، اسی طرح قیامت کے روز تمام انسان ( جو آج اللہ کی عظمت و کبریائی کا اندازہ کرنے سے قاصر ہیں ) اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ زمین اور آسمان اللہ کے دست قدرت میں ایک حقیر گیند اور ایک ذرا سے رومال کی طرح ہیں ۔ مسند احمد ، بخاری ، مسلم ، نسائی ، ابن ماجہ ، ابن جریر وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابوہریرہ کی روایات منقول ہوئی ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ۔ دَوران خطبہ میں یہ آیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاوت فرمائی اور فرمایا اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں ( یعنی سیاروں ) کو اپنی مٹھی میں لے کر اس طرح پھرائے گا جیسے ایک بچہ گیند پھراتا ہے ، اور فرمائے گا میں ہوں خدائے واحد ، میں ہوں بادشاہ ، میں ہوں جبار ، میں ہوں کبریائی کا مالک ، کہاں ہیں زمین کے بادشاہ؟ کہاں ہیں جبار؟ کہاں ہیں متکبر ، ؟ یہ کہتے کہتے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسا لرزہ طاری ہوا کہ ہمیں خطرہ ہونے لگا کہ کہیں آپ منبر سمیت گر نہ پڑیں ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :77 یعنی کہاں اس کی یہ شان عظمت و کبریائی اور کہاں اس کے ساتھ خدائی میں کسی کا شریک ہونا ۔
No comments:
Post a Comment