Saturday, November 1, 2025
اولاد کے درمیان انصاف
ہم سے حامد بن عمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا حصین سے، وہ عامر سے کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے سنا وہ منبر پر بیان کر رہے تھے کہ میرے باپ نے مجھے ایک عطیہ دیا، تو عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہا (نعمان کی والدہ) نے کہا کہ جب تک آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر گواہ نہ بنائیں میں راضی نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ (حاضر خدمت ہو کر) انہوں نے عرض کیا کہ عمرہ بنت رواحہ سے اپنے بیٹے کو میں نے ایک عطیہ دیا تو انہوں نے کہا کہ پہلے میں آپ کو اس پر گواہ بنا لوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ اسی جیسا عطیہ تم نے اپنی تمام اولاد کو دیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کو قائم رکھو۔ چنانچہ وہ واپس ہوئے اور ہدیہ واپس لے لیا۔ [صحيح البخاري/كتاب الهبة/حدیث: 2587]
رب پرتوکل
دنیا میں جتنا بھی مال و دولت اور سامان عیش و عشرت کسی کو مل جائے۔ اس سے وہ زیادہ سے زیادہ اپنی موت تک فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ بالآخر اسے بالکل خالی ہاتھ اس دنیا سے رخصت ہونا ہوگا۔ اس کے مقابلہ میں ایمانداروں کو جو آخرت میں سامان عیش و عشرت ملے گا۔ وہ سامان بھی لافانی اور لازوال ہوگا اور ایماندار لوگ ان اشیاء سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ انہیں کبھی موت نہیں آئے گی۔ لہذا عقلمند انسان وہ ہے جو ناپائیدار اور فنا ہونے والے سامان کے بجائے دائمی اور پائیدار زندگی اور اس کے سامان کی فکر کرے۔- [٥٢] توکل کا معنی اور یہ مومن کی اہم صفت ہے :۔ یعنی جب ظاہری اسباب مفقود نظر آرہے ہوں، حالات مایوس کن ہوں۔ اس حال میں بھی وہ مایوس اور شکستہ دل نہیں ہوجاتے بلکہ اس حال میں بھی ان کی آنکھ اللہ کی طرف لگی رہتی ہے اور وہ اللہ کے وعدہ پر پورا یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ضرور اس مشکل سے نکالنے کی کوئی راہ پیدا کردے گا اور اسی کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اگر ان کے پاس ظاہری سامان موجود بھی ہو تو وہ اس پر بھروسا نہیں کرتے بلکہ ان کا بھروسا اللہ کی ذات پر ہی ہوتا ہے۔ گویا ظاہری اسباب موجود ہوں یا مفقود، تھوڑے ہوں یا زیادہ، مومن آدمی ان اسباب کو فراہم کرنے کی کوشش ضرور کرتا ہے مگر اس کا ان اسباب پر تکیہ نہیں ہوتا۔ تکیہ اللہ کی ذات پر ہی ہوتا ہے گویا اللہ پر توکل ایک مومن کی نہایت اہم صفت ہے
اللہ کے سوا
آیت ٣١ وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِج ” اور تم زمین میں (اللہ کو) عاجز کرنے والے نہیں ہو۔ “- یہاں اس فقرے کے بعد ” وَلَا فِی السَّمَائِ “ کے الفاظ گویا محذوف ہیں۔ جیسا کہ سورة العنکبوت میں فرمایا : وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَآئِز (آیت ٢٢) ” اور تم اسے عاجز کرنے والے نہیں ہو زمین میں اور نہ آسمان میں “۔ بہر حال اللہ کی مشیت کو کوئی نہیں روک سکتا ‘ وہ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ ہے۔ وہ جو ارادہ کرلیتا ہے کر گزرتا ہے ‘ اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈال سکتا۔- وَمَا لَـکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیْرٍ ” اور تمہارے لیے اللہ کے سوا نہ کوئی کارساز ہے اور نہ مددگار۔ “
وَیَعۡفُوۡا عَنۡ کَثِیۡرٍ
آیت ٣٠ وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ ” اور تم پر جو بھی مصیبت آتی ہے وہ درحقیقت تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی (اعمال) کے سبب آتی ہے اور (تمہاری خطائوں میں سے) اکثر کو تو وہ معاف بھی کرتا رہتا ہے۔ “- اللہ تعالیٰ انسانوں کے ساتھ عمومی طور پر عفو و درگزر کا معاملہ فرماتا ہے اور ہر کسی کو ہر غلطی پر نہیں پکڑتا۔ البتہ بعض اوقات بعض نا فرمانیوں کی سزا وہ متعلقہ افراد کو دنیا ہی میں دے دیتا ہے۔
.jpg)
.jpg)
.jpg)


.jpg)
.jpg)

.jpg)
.jpg)

.jpg)