Thursday, November 28, 2024

ناشکری

 وَهُوَ الَّذِيْٓ اَحْيَاكُمْ ۔۔ : یہ چھٹی نعمت ہے اور پہلے ذکر کی گئی تمام نعمتوں کی اصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں پیدا فرمایا، اگر پیدا ہی نہ کرتا تو دوسری تمام نعمتیں تمہارے کس کام کی تھیں ؟ اس بات کو ہر ملحد شخص بھی مانتا ہے کہ ہم پہلے نہیں تھے، بعد میں پیدا ہوئے۔ ”ۡ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ “ پھر وہ تمہیں موت دے گا، یہ حقیقت بھی ہر شخص تسلیم کرتا ہے۔ ” ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ “ جو شخص پہلی دونوں باتیں مانتا ہے اسے یہ بھی ماننا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ مرنے کے بعد زندہ بھی کرے گا۔- 3 بظاہر ان تینوں میں سے نعمت صرف پہلی دفعہ پیدا کرنا ہے، کیونکہ پھر مارنا اور زندہ کرنا تو محاسبے کے لیے ہے، لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ بھی نعمتیں ہیں، کیونکہ ان دونوں کے بغیر جنت اور دیدار الٰہی کبھی حاصل نہیں ہوسکتے اور جو چیز جنت کی ہمیشہ کی زندگی اور مالک کے دیدار کا ذریعہ ہو اس کے نعمت ہونے میں کیا شک ہے ؟- اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ : ” لَكَفُوْرٌ“ ” کَافِرٌ“ میں مبالغہ ہے اور کفر سے مراد کفر نعمت یعنی نعمتوں کی ناشکری یا ان کا انکار ہے، یعنی ابن آدم ان نعمتوں کی قدر نہیں کرتا جو اوپر کی آیات میں مذکور ہیں، نہ ان کا شکر ادا کرتا ہے، یعنی اس دعوت کو نہیں مانتا جو اس کی طرف سے اس کے رسول پیش کرتے ہیں۔ دوسری جگہ فرمایا : (وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا ۭ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ ) [ إبراہیم : ٣٤ ] ” اور اگر تم اللہ کی نعمت شمار کرو تو اسے شمار نہ کر پاؤ گے، بلاشبہ انسان یقیناً بڑا ظالم، بہت ناشکرا ہے۔ “   

مقدر

پـھول

اللہ ، ہر چیز کا مالک

 لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ : یہ دوسری دلیل ہے، یعنی وہ صرف آسمان سے بارش برسانے اور زمین سے سبزہ اگانے ہی کا مالک نہیں بلکہ آسمانوں میں جو کچھ ہے اور زمین میں جو کچھ ہے سب کا وہ اکیلا مالک ہے، بارش برسانا اور سبزہ اگانا تو اس کے اختیار کا معمولی سا حصہ ہے۔ ” لَهٗ “ کو پہلے لانے سے قصر کا مفہوم پیدا ہوا۔ تو جب ہر چیز کا مالک وہی ہے تو عبادت کسی اور کی کیوں ہو ؟- وَاِنَّ اللّٰهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ : یہ عام مشاہدہ ہے کہ انسان جن چیزوں کا مالک ہوتا ہے ان کا محتاج بھی ہوتا ہے، کیونکہ وہ اس کی ضرورت ہوتی ہیں، اس لیے آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا مالک ہونے کے ذکر کے ساتھ وضاحت فرمائی کہ وہ آسمان و زمین اور ان میں موجود کسی چیز کا محتاج نہیں، بلکہ سب سے بےپروا اور غنی ہے، حتیٰ کہ حمد کرنے والوں کی حمد سے بھی غنی ہے۔ اس وصف کا لازمی تقاضا ہے کہ وہ حمید یعنی تمام تعریفوں والا ہے، ہر حمد اور تعریف خواہ کسی کی ہو، دراصل وہ اس اکیلے ہی کی ہے، کیونکہ مخلوق میں تعریف کے لائق جو خوبی بھی ہے اسی کی عطا کردہ ہے۔ جب سب اسی کے محتاج ہیں تو پھر مخلوق کی عبادت کیوں ہو جو خود اپنے وجود میں بھی اس کی محتاج ہے۔ - ” اِنَّ “ کے اسم ” اللّٰهَ “ اور اس کی خبر ” الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ “ کے درمیان ضمیر فصل ” ھُوَ “ لانے سے اور ” اِنَّ “ کی خبر ” الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ “ پر الف لام لانے سے کلام میں دو وجہوں سے حصر پیدا ہوگیا، جس سے ترجمہ یہ ہوگا کہ بلاشبہ اللہ ہی یقیناً بڑا بےپروا، تمام تعریفوں والا ہے

 چونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خالق ومالک ہے۔ لہذا ہر چیز اپنی ہستی اور اس کی بقاء تک کے لئے اللہ تعالیٰ کی محتاج ہوئی۔ جبکہ وہ خود کسی کا محتاج نہیں۔ تمام کائنات کے وجود سے پہلے بھی اس کی ہستی قائم و دوائم تھی اور وجود کے بعد بھی وہ اس سے بےنیاز ہے۔ لہذا کوئی اس کی حمد و ثنا بیان کرے یا نہ کرے اس سے اسے کچھ فرق نہیں پڑا (البتہ حمد و ثنا بیان کرنے والے کی اپنی ذات کو ضرور فائدہ پہنچ جاتا ہے) کیونکہ وہ اپنی ذات میں خود ہی محمود ہے۔

کتاب زنـدگی

خــزاں

سچا اور حق رب

  پھر جو ہستی کائنات میں اتنا تصرف کرنے پر قدرت رکھتی ہے اور اس کے مقابلہ میں کسی دوسرے کو تصرف میں ذرہ بھر بھی دخل نہیں۔ تاہم ظاہری اور باطنی اسباب اور ان کے نتائج پر اللہ اکیلے کا کنٹرول ہے تو پھر حق بات یہی ہے کہ اپنی حاجات کے لئے اکیلے اللہ ہی کو پکارا جائے۔ کیونکہ وہی سب سے بڑی قوت ہے اور قوت والا ہے اور وہی سب سے بڑا ہے جس نے کائنات کی ایک ایک چیز کو اپنے قبضہ اختیار میں لے رکھا ہے اور جو لوگ ایسے قدرتوں والے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو پکارتے ہیں وہ غلط کار ہیں اور غلطی پر ہیں۔ کیونکہ دوسروں کے پاس کوئی قدرت و تصرف ہے ہی نہیں۔

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ ۔۔ : یہ مظلوم مسلمانوں کی مدد کے وعدے کو پورا کرنے کی تیسری وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی سچا اور حق رب ہے۔ جس چیز کا وہ ارادہ کرے اسے کر گزرتا ہے، سو وہ اپنے دوستوں کی ضرور مدد کرے گا اور اس کے سوا جس کو بھی لوگ پکارتے ہیں وہ ناحق اور باطل ہے، وہ خود اپنی مدد نہیں کرسکتا تو ان کی مدد کیا کرے گا ؟ اور اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کے مقابلے میں اپنے دشمنوں کی مدد کیوں کرے گا ؟- وَاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ : چوتھی وجہ اس بات کی کہ ” اللہ تعالیٰ مظلوم مسلمانوں کی مدد ضرور کرے گا “ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی سب سے اونچا ہے، باقی سب نیچے ہیں اور وہی بیحد بڑا ہے، باقی سب چھوٹے ہیں اور کوئی اس کا مدمقابل نہیں۔

محبت کی وحی

مقصد حیات

بدلہ لینے کی طاقت

  پچھلی دو آیات میں ان مہاجر مسلمانوں کا ذکر تھا۔ جو کفار کے ظلم و تشدد سے مجبور ہو کر گھر بار چھوڑنے پر آمادہ ہوگئے اور وہ ظلم کا بدلہ لے ہی نہ سکتے تھے۔ اب ان لوگوں کا ذکر ہے۔ جو بدلہ لینے کی طاقت رکھتے ہوں۔ انھیں یہ ہدایت کی جارہی ہے کہ اگر وہ بدلہ لینا چاہیں تو اتنا ہی بدلہ لیں جس قدر ان پر زیادتی ہوئی ہے۔ اور اگر بدلہ لینے میں زیادتی کریں گے تو یہ خود ظالم ٹھہریں گے اس صورت میں اللہ ان کی مدد کرے گا۔ جو مظلوم ہیں۔ کیونکہ اللہ ہمیشہ مظلوم کی مدد کرتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب حضرت معاذ بن جبل کو جب یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو جہاں اور بہت سی نعمتیں ارشاد فرمائیں وہاں سب سے آخر میں اور بطور خاص جو نصیحت فرمائی یہ تھی۔ وَاتَّقِ دَعْوَۃَ الْمَظْلُوْمِ فَاِنَّہُ لَیْسَ بَیْنَھَا وَبَیْنَ اللّٰہِ حِجَابٌ (مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب الدعاء الی اعثہادتین و شرائع الاسلام) یعنی مظلوم کی بددعا سے بچے رہنا کیونکہ مظلوم کی پکار اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔ اسی مضمون کو شیخ سعدی رح نے بڑے خوبصورت انداز میں یوں بیان کیا ہے۔- برس از آہ مظلوماں کہ ہنگام دعا کردن - اجابت از در حق بہر استقبال می آید - یعنی مظلوموں کی آہ سے ڈرتے رہنا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے اس آہ کی قبولیت خود اسے لینے کو آگے آتی ہے۔- [٨٩] اس آیت میں صرف زیادتی کے برابر بدلہ لینے کی اجازت دی گئی ہے اور اگر اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے تو اللہ اس بات کو قطعاً پسند نہیں کرتا اور اسے ظلم شمار کیا جائے گا۔ اس اجازت کے باوجود اگر بدلہ نہ لیا جائے تو یہی بات اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ کیونکہ وہ خود بھی معاف کرنے والا اور درگزر کرنے والا ہے۔ لہذا بندوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے ذاتی اور معاشرتی معاملات میں عفو و درگزر کی عادت کو اپنائیں اور ہر وقت بدلہ لینے کے درپے نہ ہوا کریں۔

اعمال صالح

اندھے دل

صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

اللہ کافی ہے

اختیار

ســـفر

قرآن پاک کی صفت

 ایک بزرگ دریا کے کنارے دنیا سے قدرے ہٹ کر کٹیا میں رہتے تھے، ان کے پاس ایک نوجوان گیاجو حق کا متلاشی تھا

اس نے سوال کیا کہ:
بابا جی بتائیے بھلا قرآن پاک پڑھنے سے دل کا زنگ کیسے اترتا ہے جبکہ ہمیں سمجھ بھی نہیں آتی؟
بابا جی گہرے استغراق میں گم تھے سنی ان سنی کردی
نوجوان نے پھر سوال کیا جب تیسری مرتبہ اس نے یہی سوال کیا تو بابا جی نے بیزارگی سے اسے جواب دیتے ہوئے کہا:
جا وہاں کونے میں بالٹی پڑی ہے اس میں سے کوئلے نکال کر رکھ دے اور قریب ہی دریا سے پانی بھر کر لا.
نوجوان حد ادب کی وجہ سے اپنے سوال کے اس عجیب جواب پر جزبز ہوا مگر احترام حائل تھا لہٍذا خاموشی سے اٹھا اور بالٹی لے کر باہر دریا کی جانب روانہ ہوگیا. کوئلوں کی وجہ سے بالٹی باہر سے چمکدار اور اندر سے سیاہ تھی
جیسے ہی نوجوان نے دریا سے پانی لیا اور بالٹی اٹھا کر چلا تو یکایک اسے معلوم ہواکہ بالٹی میں سوراخ ہیں جن سے پانی کٹیا تک پہنچتے پہنچتے سارا بہہ گیا. وہ اندر داخل ہوا بابا جی نے سارا ماجرہ سنا اور کہا دوبارہ جا
نوجوان سمجھ گیا کہ بابا جی کی بات میں ضرور کوئی حکمت ہے لہذا بالٹی اٹھائی اور پھر چل پڑا.
دوبارہ پانی بھرا مگر پھر وہی ہوا کہ سارا پانی پہنچنے سے پہلے بہہ گیا
بابا جی نے سنا لیکن پھر کمال لاپرواہی سے کہا کہ:
جا پھر لا.
نوجوان نے اس طرح کئی چکر کاٹے جب تھک گیا تو بابا جی کو کہنے لگا:
آپ نجانے کیوں میرے ساتھ یہ سلوک کرر ہے ہیں جبکہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ بالٹی میں کسی طرح سے پانی نہیں آ سکتا.
اب بابا جی مسکرائے اور کہا:
ذرا دیکھ بالٹی کو اندر سے کیا یہ ویسے ہی سیاہ ہے جیسے پہلے چکر میں تو نے اسے دیکھا تھا؟
نوجوان نے بالٹی کو دیکھا اور کہا:
نہیں اب تو یہ صاف ہو گئی، اتنی بار پانی جو بھرا ہے اس میں
بابا جی نے شفقت سے مسکراتے ہوئے کہا:
پانی نہیں پہنچا لیکن اسکی صفت نے بالٹی کو سیاہ سے سفید کردیا ہے

یہی قرآن پاک کی صفت ہے. پڑھتا جا، پڑھتا جا، پڑھتا جا اسکی صفات تیرے دل کو یونہی زنگ سے صاف کر کے اس دل میں موجود دنیا داری کے سوراخوں سے سارا زنگ بہا لے جائے گی آخر میں دل صاف ستھرا دنیا کی آلائش سے پاک ہوکر تجھے الله سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جوڑ دے گا. بس یہی تھا تیرے سوال کا جواب ...!

تو گویا ترجمعہ سمجھ نہ بھی آئے قرآن کی برکات سے ضرور لطف آتا ہے. لیکن 
اگر ترجمعہ کے ساتھ سمجھ کر قرآن پڑھا جائے تو یہی لطف دوبالا ہو جاتا ہے

Wednesday, November 20, 2024

نـاشـکرا

آزمائش

سب اچھا ہے

تواضع اور عاجزی کرنے والوں

 اصل میں لفظ مُخْبِتِین استعمال کیا گیا ہے جس کا مفہوم کسی ایک لفظ سے پوری طرح ادا نہیں ہوتا ۔ اس میں تین مفہومات شامل ہیں استکبار اور غرور نفس چھوڑ کر اللہ کے مقابلے میں عجز اختیار کرنا ۔ اس کی بندگی و غلامی پر مطمئن ہو جانا اس کے فیصلوں پر راضی ہو جانا ۔   : اس سے پہلے ہم اس امر کی تصریح کر چکے ہیں کہ اللہ نے کبھی حرام و ناپاک مال کو اپنا رزق نہیں فرمایا ہے ۔ اس لیے آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو پاک رزق ہم نے انہیں بخشا ہے اور جو حلال کمائیاں ان کو عطا کی ہیں ان میں سے وہ خرچ کرتے ہیں ۔ پھر خرچ سے مراد بھی ہر طرح کا خرچ نہیں ہے بلکہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی جائز ضروریات پوری کرنا ، رشتہ داروں اور ہمسایوں اور حاجت مند لوگوں کی مدد کرنا ، رفاہ عام کے کاموں میں حصہ لینا ، اور اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے مالی ایثار کرنا مراد ہے ۔ بے جا خرچ ، اور عیش و عشرت کے خرچ اور ریاکارانہ خرچ وہ چیز نہیں ہے جسے قرآن انفاق قرار دیتا ہو ، بلکہ یہ اس کی اصطلاح میں اسراف اور تبذیر ہے ۔ اسی طرح کنجوسی اور تنگ دلی کے ساتھ جو خرچ کیا جائے ، کہ آدمی اپنے اہل و عیاں کو بھی تنگ رکھے ، اور خود بھی اپنی حیثیت کے مطابق اپنی ضرورتیں پوری نہ کرے ، اور خلق خدا کی مدد بھی اپنی استطاعت کے مطابق کرنے سے جی چرائے ، تو اس صورت میں اگرچہ آدمی خرچ تو کچھ نہ کچھ کرتا ہی ہے ، مگر قرآن کی زبان میں اس خرچ کا نام انفاق نہیں ہے ۔ وہ اس کو بخل اور شُحِّ نفس کہتا ہے ۔

بھروسہ

شعائر اللہ

شَعَاۗىِٕرَ “ ” شَعِیْرَۃٌ“ کی جمع ہے، اسم فاعل بمعنی ” مُشْعِرَۃٌ“ ہے، جس سے کسی چیز کا شعور ہو (نشانیاں) ، یعنی وہ چیزیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت کا شعور دلانے کے لیے مقرر کر رکھی ہیں، جو شخص ان کی تعظیم کرے گا تو اس کا باعث دلوں کا تقویٰ ہے، یعنی جس کے دل میں اللہ کا ڈر ہوگا وہ ان کی تعظیم ضرور کرے گا۔ ہر وہ چیز جس کی زیارت کا اللہ نے حکم دیا ہے یا اس میں حج کا کوئی عمل کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، وہ ” شعائر اللہ “ میں داخل ہے۔ قربانی کے جانور بھی ” شعائر اللہ “ میں داخل ہیں، چناچہ فرمایا : (وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰهَا لَكُمْ مِّنْ شَعَاۗىِٕرِ اللّٰهِ ) [ الحج : ٣٦ ] ” اور قربانی کے بڑے جانور، ہم نے انھیں تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں سے بنایا ہے۔ “ ان کی تعظیم کا مطلب یہ ہے کہ ان کے آتے ہوئے انھیں کوئی نقصان نہ پہنچائے، جانور قیمتی خریدے اور عیب دار جانور نہ خریدے۔ ان پر جھول اچھی ڈالے، انھیں خوب کھلائے پلائے اور سجا کر رکھے، جیسا کہ گلے میں قلادے ڈالنے سے ظاہر ہے، مجبوری کے بغیر ان پر سواری نہ کرے، جیسا کہ آگے حدیث آرہی ہے اور قربانی کے بعد ان کے جھول وغیرہ بھی صدقہ کر دے۔ ” شعائر اللہ “ کی تعظیم اگرچہ اس سے پہلے ” حُرُمٰتِ اللّٰهِ “ کی تعظیم میں آچکی ہے مگر ” حُرُمٰت “ کا مفہوم وسیع اور عام ہے جب کہ ” شَعَائِر “ خاص ہے، اس لیے ” شعائر اللہ “ کی تعظیم کی تاکید کے لیے اسے دوبارہ الگ ذکر فرمایا۔

ایمان کی مثال

  حنفاء حنیف کی جمع ہے۔ اور حنیف بھی تمام باطل راہوں کو چھوڑ کر استقامت کی طرف مائل ہونا (مفردات القرآن) اور حنیف وہ شخص ہے جو تمام باطل راہوں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی سیدھی راہ کی طرف آجائے۔ اور وہ سیدھی راہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات، عبادت و تصرفات میں کسی بھی چیز کو ذرہ برابر بھی شریک نہ سمجھا جائے۔- [٤٩] انسان تمام مخلوقات سے اشرف و افضل پیدا کیا گیا ہے۔ لہذا اس کے لئے سزاوار یہی بات ہے کہ وہ صرف اور صرف اپنے خالق ومالک کے سامنے سر جھکائے اسی سے اپنی حاجات طلب کرے اور اسی کی عبادت کرے۔ اب اگر وہ اللہ کو چھوڑ کر کسی بھی چیز کی عبادت کرے، اس کے آگے سر جھکائے یا حاجات روا کرے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک اعلیٰ چیز اپنے سے کمتر درجہ کی چیز کے سامنے جھک گئی یا اگر وہ کسی انسان کے سامنے سرجھکائے تو بھی مطلب یہ ہوگا کہ وہ اپنے ہی جیسی محتاج مخلوق کے آگے جھک رہا ہے اور یہ بھی انسانیت کی تذلیل ہے۔ ایسے شخص کی مثال یہ ہے جیسے وہ توحید کی بلندیوں سے شرک کی پستیوں میں جاگرا۔ اور اب وہ اپنے جیسے دوسرے مشرکوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ جو اسے کبھی کسی در پر جانے کا مشورہ دیں گے کبھی کسی دوسرے کے آستانہ پر جانے کا۔ حتیٰ کہ یہ شکاری پرندے اسے مکمل طور پر گمراہ اور بےایمان کرکے ہی چھوڑیں گے۔ اور اگر وہ ان سے کسی طرح بچ بھی گیا تو اللہ کے مقابلہ میں اس کی دینی خواہشات نفس ہی گمراہی کے گڑھے میں جا گرانے کو کافی ہیں۔ اور اپنی خواہشات نفس کی پیروی بذات خود بھی شرک ہی کی ایک قسم ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے۔- ( اَفَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰــهَهٗ هَوٰىهُ وَاَضَلَّهُ اللّٰهُ عَلٰي عِلْمٍ وَّخَتَمَ عَلٰي سَمْعِهٖ وَقَلْبِهٖ وَجَعَلَ عَلٰي بَصَرِهٖ غِشٰوَةً ۭ فَمَنْ يَّهْدِيْهِ مِنْۢ بَعْدِ اللّٰهِ ۭ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ 23؀) 45 ۔ الجاثية :23) یعنی اگر وہ دوسرے مشرکوں کے ہتھے نہ بھی چڑھے تو اس کا اپنا نفس ہی اسے گمراہ کرنے کو کافی ہے

 اس تمثیل کا مطلب یہ ہے کہ ایمان کی مثال آسمان کی سی ہے۔ جو شخص شرک کا ارتکاب کرتا ہے، وہ ایمان کے بلند مقام سے نیچے گر پڑتا ہے۔ پھر پرندوں کے اچک لے جانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی خواہشات اسے راہ راست سے بھٹکا کر ادھر ادھر لیے پھرتی ہیں، اور ہوا کے دور دراز پھینک دینے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شیطان اسے مزید گمراہی میں مبتلا کردیتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ ایسا شخص ایمان کے بلند مقام سے نیچے گر کر اپنی نفسانی خواہشات اور شیاطین کا غلام بن بیٹھتا ہے جو اسے گمراہی کی انتہا تک پہنچا دیتے ہیں۔

انتہاء درجہ کی گمراہی

کوئی دن نہیں

سوکھے پتے

صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم

کیا نہیں دیکھتے

 یعنی کوئی سال ایسا نہیں گزر رہا ہے جبکہ ایک دو مرتبہ ایسے حالات نہ پیش آجاتے ہوں جن میں ان کا دعوائے ایمان آزمائش کی کسوٹی پر کسا نہ جاتا ہو اور اس کی کھوٹ کا راز فاش نہ ہو جاتا ہو ۔ کبھی قرآن میں کوئی ایسا حکم آجاتا ہے جس سے ان کی خواہشات نفس پر کوئی نئی پابندی عائد ہو جاتی ہے ، کبھی دین کا کوئی ایسا مطالبہ سامنے آجاتا ہے جس سے ان کے مفاد پر ضرب پڑتی ہے ، کبھی کوئی اندرونی قضیہ ایسا رونما ہو جاتا ہے جس میں یہ امتحان مضمر ہوتا ہے کہ ان کو اپنے دنیوی تعلقات اور اپنے شخصی و خاندانی اور قبائلی دلچسپیوں کی بہ نسبت خدا اور اس کا رسول اور اس کا دین کس قدر عزیز ہے ۔ ، کبھی کوئی جنگ ایسی پیش آجاتی ہے جس میں یہ آزمائش ہوتی ہے کہ یہ جس دین پر ایمان لانے کا دعویٰ کر رہے ہیں ان کی خاطر جان ، مال ، وقت اور محنت کا کتنا ایثار کرنے کے لیے تیار ہیں ۔ ایسے تمام مواقع پر صرف یہی نہیں کہ منافقت کی وہ گندگی جو ان کے جھوٹے اقرار کے نیچے چھپی ہوئی ہے کھل کر منظر عام پر آجاتی ہے بلکہ ہر مرتبہ جب یہ ایمان 
کے تقاضوں سے منہ موڑ کر بھاگتے ہیں تو ان کے اندر کی گندگی پہلے سے کچھ زیادہ بڑھ جاتی ہے ۔

اللہ ہی حق ہے

 ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ ۔۔ : اس آیت کے دو مطلب بیان کیے گئے ہیں، ایک یہ کہ ” باء “ سببیہ ہے جو ” کَاءِنٌ“ وغیرہ سے متعلق ہے، جو افعال عامہ سے مشتق ہیں۔ یعنی بنی آدم کو پیدا کرنے اور مردہ زمین کو زندہ کرنے کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ہمیشہ ثابت اور موجود ہے، سو وہی ان دونوں کا اور ہر چیز کا موجد ہے۔ ” وَاَنَّهٗ يُـحْيِ الْمَوْتٰى“ اور اس کا سبب یہ ہے کہ وہی مردوں کو زندہ کرے گا، اگر وہ مردوں کو زندہ کرنے کی قدرت نہ رکھتا تو بےجان مٹی اور نطفے کو اور مردہ زمین کو زندگی کیسے بخشتا ؟ ” وَاَنَّهٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْر “ اور اس کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے، سو وہ نطفے اور مردہ زمین کو زندگی بخشنے پر بھی قادر ہے۔ ”ۙوَّاَنَّ السَّاعَةَ اٰتِيَةٌ ۔۔ “ اور اس کا سبب یہ ہے کہ قیامت آنے والی ہے اور اللہ تعالیٰ قبروں میں دفن لوگوں کو دوبارہ زندہ کرے گا، تاکہ ہر ایک کو اس کے کیے کا بدلہ ملے، ورنہ نطفے سے لے کر جوانی اور پھر بڑھاپے تک پہنچانے کا کوئی مقصد نہ ہوتا، جب کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی کام عبث اور بےمقصد نہیں۔ قدیم مفسرین یہ معنی بیان کرتے ہیں۔- 3 دوسرا مطلب یہ ہے کہ ” باء “ کو ایسے لفظ کے متعلق کیا جائے جو سیاق وسباق سے مناسبت رکھتا ہو، مثلاً ” شَاہِدٌ“ وغیرہ، ” أَيْ ذٰلِکَ شَاھِدٌ بِأَنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْحَقُّ “ مطلب یہ ہوگا کہ یہ جو کچھ گزرا، یعنی انسان کا مٹی سے، پھر نطفے سے (آخر تک) پیدا ہونا اور مردہ زمین کا پانی سے زندہ ہوجانا اس بات کا شاہد اور اس کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی حق ہے اور وہی مردوں کو زندہ کرے گا۔۔ متاخرین اس معنی کو ترجیح دیتے ہیں۔

زندگی مــیں

سـفر زنـدگی

اللہ مالک الملک، سمیع وبصیر

 اِنَّهٗ يَعْلَمُ الْجَـــهْرَ مِنَ الْقَوْلِ ۔۔ : سب کے سامنے کھلم کھلا عمل بھی ہوتا ہے اور قول بھی، اس لیے فرمایا کہ کوئی بھی کھلم کھلی اور بلند آواز میں ہونے والی بات ہو، اللہ تعالیٰ اسے بھی جانتا ہے اور جو بات تم دل میں چھپاتے ہو اسے بھی جانتا ہے۔ یہ تنبیہ اور خبردار کرنے کا مؤثر ترین طریقہ ہے کہ کسی کو غلط کام سے روکنا ہو تو اسے روکنے کے بجائے کہا جائے کہ میں تمہاری سب حرکتیں دیکھ رہا ہوں، مطلب یہ کہ تم سے نمٹ لوں گا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تمہاری بلند آواز کی باتیں بھی جانتا ہوں اور جو کچھ تم چھپاتے ہو وہ بھی جانتا ہوں۔ مطلب یہ کہ تمہارا کفر بھی مجھے معلوم ہے اور تمہارا نفاق بھی، اس لیے کفر بھی چھوڑ دو اور نفاق بھی، ورنہ میری گرفت کے لیے تیار رہو۔ - 3 یہاں ایک سوال ہے کہ چھپی ہوئی بات جاننا تو واقعی کمال ہے اور یہ اللہ ہی کی شان ہے، مگر جہر اور بلند آواز سے کی ہوئی بات تو ہر شخص سن سکتا ہے اور جان سکتا ہے، اس صفت کو خاص طور پر کیوں ذکر فرمایا گیا ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ بلند آواز سے ایک آدمی بات کرے تو واقعی وہ سمجھ میں آجاتی ہے مگر جب ایک ہی وقت میں دو چار یا دس پندرہ آدمی اپنی پوری بلند آواز کے ساتھ بات کرنا شروع کردیں تو آدمی کو کسی کی بات بھی سمجھ میں نہیں آتی، یہ اللہ مالک الملک، سمیع وبصیر کی شان ہے کہ دس پندرہ نہیں کروڑوں، اربوں انسان، جن، فرشتے اور حیوانات اپنی پوری آواز کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں، تو وہ ان سب کی پکار سنتا ہے، جو کچھ وہ کہہ رہے ہوتے ہیں اسے جانتا ہے اور ان کی ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ مخلوق میں یہ وصف کہاں ؟

زندگی کا مقصد

زرد ٹہنی

اعمال صالحہ

رشتے

اڑ گئے پرندے

عبادت صرف اللہ کی

فرشتے

  یعنی فرشتے اللہ کی ایسی مخلوق ہے۔ جو ہر آں اللہ کی تسبیح و تمحید میں مشغول رہتے ہیں اور وہ اللہ کی بندگی کو ناگوار سمجھ کر نہیں کرتے بلکہ نہایت خوشدلی سے بجا لاتے ہیں۔ قرآن نے یہاں یستحسرون کا لفظ استعمال فرمایا ہے اور استحسار ایسی تھکاوٹ یا اکتاہٹ کو کہتے ہیں جو کسی ناگوار کام کے کرنے سے لاحق ہوتی ہے۔ اور ان کی یہ تسبیح بالکل ایسے ہی بلاوقفہ ہوتی ہے جیسے انسان مسلسل سانس لیتا ہے اور اس میں کبھی وقفہ نہیں ہوتا۔ مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا انسان کی تخلیق سے مقصود محض اپنی عبادت ہی ہوتی تو فرشتے یہ کام بطریق احسن بجا لارہے تھے۔ لیکن اصل مقصد یہ تھا کہ یہاں حق و باطل کا معرکہ بپا ہو اور وہ انسان کو پیدا کرنے اور اسے عقل اور قوت ارادہ و اختیار رہنے سے ہی ہوسکتا تھا اور انسانوں کی آزمائش اسی طرح ہوسکتی تھی۔

Tuesday, November 19, 2024

دنیا بس ایک کھیل تماشا

 دنیا دار اور اللہ کی یاد سے غافل انسان ہمیشہ یہی سمجھتے رہے ہیں کہ یہ دنیا بس ایک کھیل تماشا ہے۔ ہم یہاں عیش و عشرت کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔ اس لیے یہاں ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ جتنی عیش و عشرت اپنے لئے مہیا کرسکتا ہے اور جس طرح کرسکتا ہے، کرلے۔ گویا دنیا دار لوگوں کا منتہائے مقصود ہی یہ ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے بھی دنیا کو متعدد مقامات پر کھیل تماشا قرار دیا ہے مگر یہ بات صرف اس پہلو سے کہ یہ چند روزہ دنیا آخرت کے مقابلہ میں ایک کھیل تماشا کی حیثیت رکھتی ہے۔ کیونکہ یہ تھوڑی مدت بعد فنا ہوجانے والی ہے اور آخرت کی زندگی دائمی اور پائیدار ہے لہذا تمہیں اپنی تمام تر توجہ دنیا پر مرکوز کرنے کے بجائے آخرت پر مرکوز کرنا چاہئے۔ یہاں اس مقام پر صرف دنیا کی زندگی پر نہیں بلکہ کائنات کے پورے نظام کے متعلق فرمایا جارہا ہے کہ یہ کچھ کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا۔ جس میں اس دنیا کی زندگی بھی شامل ہے جو زمین و آسمان ہی کے سہارے قائم ہے۔ اور انسان کی تمام ضروریات زمین، ہوا، سورج اور بادلوں وغیرہ سے وابستہ ہیں۔  اس میں اشرف المخلوقات یعنی انسان کو پیدا کیا تو صرف اس لئے نہیں کہ وہ اسے کھیل تماشا سمجھتے ہوئے جیسے چاہے یہاں زندگی گزار کر یہیں سے رخصت ہوجائے اور اس سے کچھ مواخذہ نہ ہو۔ خالق کائنات بسی یہی تماشا دیکھتا رہے کہ اس دنیا میں لوگ کیسے ایک دوسرے پر ظلم کر رہے ہیں اور وہ بس دیکھ کر اسے محض تفریح طبع کا ہی سامان سمجھتا رہے۔ جیسا کہ رومی اکھاڑے میں ہوتا تھا کہ انسانوں کا درندوں سے مقابلہ کرایا جاتا تھا اور درندے جس انداز سے انسانوں کو پھاڑ کھاتے تھے۔ بادشاہ اور اس کے درباری یہ منظر دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔ اور یہ ان کی تفریح طبع کا سامان تھا۔ ایسی بات ہرگز نہیں۔ اگر اللہ کو محض تفریح طبع ہی منظور ہوتی تو اس کے کئی اور بھی طریقے ہوسکتے تھے جن میں ظلم و جور کا نام و نشان تک نہ ہوتا نہ ہی انسان جیسی کوئی ذی شعور اور صاحب ارادہ و اختیار کوئی مخلوق پیدا کرنے کی ضرورت تھی۔

وضـو

تـوبہ

صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم

جنت کی راہ

قیامت کا وقت

 سورة الْاَنبیَآء حاشیہ نمبر :1 مراد ہے قرب قیامت ۔ یعنی اب وہ وقت دور نہیں ہے جب لوگوں کو اپنا حساب دینے کے لیے اپنے رب کے آگے حاضر ہونا پڑے گا ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اس بات کی علامت ہے کہ نوع انسانی کی تاریخ اب اپنے آخری دور میں داخل ہو رہی ہے ۔ اب وہ اپنے آغاز کی بہ نسبت اپنے انجام سے قریب تر ہے ۔ آغاز اور وسط کے مرحلے گزر چکے ہیں اور آخری مرحلہ شروع ہو چکا ہے ۔ یہی مضمون ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں بیان فرمایا ہے ۔ آپ نے اپنی دو انگلیاں کھڑی کر کے فرمایا :«بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ كَهَاتَيْنِ» ، میں ایسے وقت پر مبعوث کیا گیا ہوں کہ میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح ہیں ۔ یعنی میرے بعد بس قیامت ہی ہے ۔ کسی اور نبی کی دعوت بیچ میں حائل نہیں ہے ۔ سنبھلنا ہے تو میری دعوت پر سنبھل جاؤ ۔ کوئی اور ہادی اور بشیر و نذیر آنے والا نہیں ہے ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :2 یعنی کسی تنبیہ کی طرف توجہ نہیں کرتے ۔ نہ خود سوچتے ہیں کہ ہمارا انجام کیا ہوا ہے اور نہ اس پیغمبر کی بات سنتے ہیں جو انہیں خبردار کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔   

«أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

کاش

کــن فـیکون

نیک اعمال

یعنی اعمال کی جزا کے لئے دو شرائط کا ہونا ضروری ہے۔ ایک ایمان بالغیب کے تمام اجزاء پر ایمان لانا، دوسرے ایسے اعمال صالحہ جو شریعت کی پابندیوں کو ملحوظ رکھ کر بجا لائے گئے ہوں۔ مثلا ً ان میں ریاکاری نہ ہو، سنت کے مطابق ہوں اور بعد میں احسان جتلا کر یا شرک کرکے ان اعمال کو برباد نہ کردیا گیا ہو۔ ایسے اعمال کا بدلہ ضرور ملے گا اور پورا پورا ملے گا، ان میں ہرگز کسی طرح کمی نہیں کی جائے گی۔