حکایتِ شیخ سعدیؒ
ایک مرتبہ چند بڑے لوگوں کے ہمراہ میں ایک کشتی میں بیٹھا ہوا تھا ، ایک ڈونگی ہمارے سامنے ڈوب گئی دو بھائی بھنور میں پھنس گئے ، سرداروں میں سے ایک نے ملاح سے کہا ان دونوں کو پکڑ کر یعنی بھنور سے نکال ، میں ہر ایک کے عوض پچاس دینار سرخ ( سونے کا ہوتا ہے ) دونگا ، ملاح پانی میں گھسا اور ایک کو نکال لایا اور دوسرا ہلاک ہو گیا ، سعدی فرماتے ہیں کہ میرے منہ سے نکلا کہ اس کی عمر باقی نہیں رہی تھی ، اسی وجہ سے ملاح تو نے اس کے نکالنے میں دیر لگا دی اور دوسرے کے نکالنے میں جلدی کی ، ملاح ہنسا اور کہا ! جو آپ نے فرمایا وہ یقنی بات ہے لیکن ایک سبب اور بھی ہے ، میں نے کہا وہ کیا ہے ؟
میری دلی رغبت اس ایک کے نکالنے میں زیادہ تھی اس لیے کہ ایک وقت میں جنگل میں رہ گیا تھا ، اس نے مجھے اونٹ پر بٹھا لیا تھا ، دوسرے کے ہاتھ سے بچپن کے زمانہ میں احقر نے کوڑے کھائے تھے ۔
یہ سن کر میں نے کہا ، اللہ تعالیٰ نے سچ فر مایا ہے:
کہ جس نے نیک عمل کیا ، اپنے نفس کے فائدہ کیلئے ، اور جس نے برا عمل کیا ، اپنے اوپر یعنی اس کا نقصان اسی کو پہنچے گا ۔
#قطعہ: جب تک تجھ سے ہو سکے کسی کے دل کو مت چھیل (مت ستا) کہ اس راستے میں بہت کانٹے ہیں ، حاجت مند فقیر کے کام کو پورا کر ، کہ تجھ کو بھی بہت سے کام پیش آئینگے ۔
#فائدہ: اس حکایت کا یہ ہے کہ ، عام لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنی چاہئے ، حاجت مندوں کی ضرورت ، حتی الامکان پوری کرنے کی سعی کرنی چاہئے ، تا کہ نیکی کی جزا ، نیکی کی صورت میں پیش آئے ۔
Sunday, November 3, 2024
نیکی کی جزا
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment