Monday, April 26, 2021

کعبہ کے بدر الدجٰی

 کعبہ کے بدر الدجٰی تم ﷺ پہ کروڑوں درود

طیبہ کے شمس الضحیٰ تم ﷺ پہ کروڑوں درود


شافع روز جزا تم ﷺ پہ کروڑوں درود

دافع جملہ بلا تم ﷺ پہ کروڑوں درود


جان و دل اصفیاء تم ﷺ پہ کروڑوں درود

آب و گل انبیاء تم ﷺ پہ کروڑوں درود


لائیں تو یہ دوسرا دوسرا جس کو ملا

کوشک عرش و دنیٰ تمﷺ پہ کروڑوں درود


اور کوئی غیب کیا تم ﷺ سے نہاں ہو بھلا

جب نہ خدا ہی چھپا تم ﷺ پہ کروڑوں درود


ذات ہوئی انتخاب وصف ہوئے لاجواب

نام ہوا مصطفی ﷺ تم ﷺ پہ کروڑوں درود


#صلی_اللہ_علیہ_وآلہ_وسلم ❤


●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬▬▬●

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ

كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ

اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ

كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ

●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬▬▬●




سکون

 


جنت کا دروازہ

 


روزہ داروں کے لیے جنت کا دروازہ” ریان” ہے۔

جنت میں بعض مخصوص اعمالِ صالحہ کے اعتبار سے آٹھ دروازے ہیں جو شخص دنیا میں خلوص نیت سے ان میں جس عملِ صالح کا بھی خوگر ہوگا وہ جنت میں اسی عمل کے دروازے سے جائے گا۔ ریان جنت کا وہ دروازہ ہے جس میں سے صرف روزہ دار ہی داخل ہوں گے جیسا کہ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

’’جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتا ہے۔ روزِ قیامت اس میں روزہ دار داخل ہوں گے ان کے سوا اس دروازے سے کوئی اور داخل نہیں ہو گا۔ کہا جائے گا : روزہ دار کہاں ہیں؟ پس وہ کھڑے ہوں گے، ان کے علاوہ اس میں سے کوئی اور داخل نہیں ہو سکے گا، جب وہ داخل ہو جائیں گے تو اس دروازے کو بند کر دیا جائے گا۔ پھر کوئی اور اس سے داخل نہیں ہو سکے گا۔‘‘

صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1791
صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1947 ) ۔
حدیث مرفوع مکررات 7 متفق علیہ 3 بدون مکرر




آمیــــــــن

 


فوکس

 


یقین کے چراغ

 


آدمی کی پہچان

 


ایمان

 


زبان سے معاف

 


آنسو


 

عمل کا بیج

 


آسانیاں بانٹنا

 


آؤ میں تمہیں سمجھاؤں کہ آسانیاں بانٹنا کسے کہتے ہیں


*- کبھی کسی اداس اور مایوس انسان کے کندھے پے ہاتھ رکھ کر، پیشانی پر کوئی شکن لائے بغیر 

ایک گھنٹا اس کی لمبی اور بے مقصد بات سننا..... آسانی ہے

*- اپنی ضمانت پر کسی بیوہ کی جوان بیٹی کے رشتے کے لیے سنجیدگی سے تگ ودو کرنا .... آسانی ہے

*- صبح دفتر جاتے ہوئے اپنے بچوں کے ساتھ محلے کے کسی یتیم بچے کی 

اسکول لے جانے کی ذمہ داری لینا.... یہ آسانی ہے

*- اگر تم کسی گھر کے داماد یا بہنوئی ہو تو خود کو سسرال میں خاص اور افضل نہ سمجھنا... یہ بھی آسانی ہے

*- غصے میں بپھرے کسی آدمی کی کڑوی کسیلی اور غلط بات کو نرمی سے برداشت کرنا .... یہ بھی آسانی ہے

*- چاۓ کے کھوکھے والے کو اوئے کہہ کر بُلانے کی بجائے بھائی یا بیٹا کہہ کر بُلانا..... بھی آسانی ہے

*- گلی محلے میں ٹھیلے والے سے بحث مباحثے سے بچ کر خریداری کرنا..... یہ آسانی ہے

*- تمہارا اپنے دفتر، مارکیٹ یا فیکٹری کے چوکیدار اور چھوٹے ملازمین کو سلام میں پہل کرنا، دوستوں کی طرح 

گرم جوشی سے ملنا، کچھ دیر رک کر ان سے ان کے بچوں کا حال پوچھنا..... یہ بھی آسانی ہے

*- ہسپتال میں اپنے مریض کے برابر والے بستر کے انجان مریض کے پاس بیٹھ کر اس کا حال پوچھنا 

اور اسے تسّلی دینا ..... یہ بھی آسانی ہے

*- ٹریفک اشارے پر تمہاری گاڑی کے آگے کھڑے شخص کو ہارن نہ دینا جس کی موٹر سائیکل 

بند ہو گئی ہو ...... سمجھو تو یہ بھی آسانی ہے


تو آئیے گھر سے آسانیاں بانٹنے کا آغاز کرتے ہیں


*- آج واپس جا کر باھر دروازے کی گھنٹی صرف ایک مرتبہ دے کر دروازہ کُھلنے تک انتظار کرنا 

*- آج سے باپ کی ڈانٹ ایسے سننا جیسے موبائل پر گانے سنتے ہو 

*- آج سے ماں کے پہلی آواز پر جہاں کہیں ہو فوراً ان کے پہنچ جایا کرنا.... اب انھیں تمہیں دوسری آواز دینے کی نوبت نہ آئے 

*- بہن کی ضرورت اس کے تقاضا اور شکایت سے پہلے پوری کریا کرو 

*- آیندہ سے بیوی کی غلطی پر سب کے سامنے اس کو ڈانٹ ڈپٹ مت کرنا 

*- سالن اچھا نہ لگے تو دسترخوان پر حرف شکایت بلند نہ کرنا 

*- کبھی کپڑے ٹھیک استری نہ ہوں تو خود استری درست کرلینا 

ایک بات یاد رکھیں زندگی ہماری محتاج نہیں ، ہم زندگی کے محتاج ہیں 

منزل کی فکر چھوڑو ، اپنا اور دوسروں کا راستہ آسان بناؤ 

ان شاء الله تعالٰی منزل خود ہی مل جائے گی- ❤




انسان کی حقیقت

 


مصطفی ﷺ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام

 


مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام

جس طرف اٹھ گئی دم میں دم آ گیا
اُس نگاہِ عنایت پہ لاکھوں سلام

جس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑیں
اُس تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام

جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اُس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام

#صلی_اللہ_علیہ_وآلہ_وسلم .  ~


●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬▬▬●
اللَّهُـمّ صَــــــلٌ علَےَ مُحمَّــــــــدْ و علَےَ آل مُحمَّــــــــدْ
كما صَــــــلٌيت علَےَ إِبْرَاهِيمَ و علَےَ آل إِبْرَاهِيمَ إِنَّك حَمِيدٌ
مَجِيدٌ اللهم بارك علَےَ مُحمَّــــــــدْ و علَےَ آل مُحمَّــــــــدْ كما
باركت علَےَ إِبْرَاهِيمَ و علَےَ آل إِبْرَاهِيمَ إِنَّك حَمِيدٌ مَجِيدٌ
●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬▬▬●



تقوی ، طہارت

 


اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں


ارشاد باری تعالیٰ ہے

◄ وَاعْبُدُوا اللَّـهَ وَلَا تُشْرِ‌كُوا بِهِ شَيْئًا

النساء:36

اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو‘‘۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے

◄ وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ

الأنبياء:25

یعنی تجھ سے پہلے جس جس رسول کو ہم نے بھیجا سب کی طرف یہی وحی کہ میرے سوا

کوئی عبادت کے لائق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کیا کرو

اور جگہ ارشاد ہے

◄ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ

النحل:36

یعنی ہر امت میں رسول بھیج کر ہم نے یہ اعلان کروایا کہ صرف اللہ کی عبادت کرو اور

اس کے سوا سب سے بچو۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا

◄ شَهِدَ اللَّـهُ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ ۚ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

آل عمران:18

اللہ تعالیٰ، فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وه عدل کو قائم رکھنے والاہے، اس غالب اور حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کےلائق نہیں.....‘‘

اللہ کو ایک مانا جائے۔ صرف اسی کی عبادت کی جائے۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ کسی انسان کو وہ مقام نہ دیا جائے جو مالک کائنات کے لیے خاص ہے۔



قرآن کریم کی کثرتِ تلاوت


رمضان میں کرنے والی تمام نیکیوں میں ایک اہم ترین مقام قرآنِ مجید کا ہے، کیونکہ رمضان اور لیلۃ القدر کی تمام فضیلتیں اسی کے نزول کے گرد گھومتی ہیں۔ یہی قرآن اس تمام خیر کا سرچشمہ ہے۔ اس لیے رمضان المبارک میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا قرآنِ مجید سے تعلق پہلے کی نسبت بہت بڑھ جاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کثرت سے قرآن مجیدکی تلاوت فرماتے۔

جیسا کہ حدیثِ نبوی میں آتا ہے

«وکان جبریل یلقاه کل لیلة في رمضان حتى ینسلِخ، یَعرِضُ علیه النبيُّ القرآنَ»

''اور جبریل رمضان میں ہر رات آپ ﷺ سے ملاقات کرتے یہاں تک کہ رمضان ختم ہوجاتا۔ نبیﷺ آپ پر قرآن پڑھتے۔''

صحیح بخاری:1902

جبریل آپ کو قرآنِ مجید سناتے، جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے

«کان یعرض علىٰ النبي القرآن کل عام مرة فعرض علیه مرتین في العام الذي قبض فیه وکان یعتکف في کل عام عشرًا فاعتکف عشرین في العام الذي قبض فیه»

''ہر سال آپﷺ کو قرآن مجید سنایا جاتا اور جس سال آپ فوت ہوئے اس سال آپ ﷺ کو دو مرتبہ سنایا گیا اورآپ ﷺ ہر سال دس دن اعتکاف کرتے اور جس سال آپﷺ فوت ہوئے، آپﷺ نے 20 دن کا اعتکاف کیا۔''

صحیح بخاری:9998

سیدنا عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا

«الصیام والقرآن يشفعان للعبد یوم القیامة. یقول الصیام: أي رب منعته الطعام والشهوات بالنهار فشَفِّعْني فیه ويقول القرآن منعته النوم باللّیل فشفعني فیه قال فیشفعان»

''روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کے لیے سفارش کریں گے۔ روزہ کہے گا اے میرے ربّ! میں نے اسے کھانے پینے اور دن بھر کی شہوات سے روکے رکھا۔ تو اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما اور قرآن کہے گا: میں نے اس کو رات کی نیند سے روکے رکھا تو میری سفارش اِس کے حق میں قبول فرما۔ آپﷺ نے اطلاع دی کہ دونوں کی سفارش قبول کی جائے گی۔'' یعنی رمضان میں دن کا سفارشی روزہ اور رات کا سفارشی قرآن ہے۔

مسنداحمد : ج11؍ص6626




اے مولا کریم

 


اے مولا کریم
میرا ہر قول اور ہر فعل جو میرے لیے اس دنیا میں یا آخرت میں مضر ہے، میرے کریم اسے معاف فرما دے۔ کیونکہ تو خیر الرحمین ہے۔ گناہوں کا بخش دنیا بھی تیرے لیے آسان ہے اور نعمتوں کا عطا فرمانا تو تیرا شیوہ کرم ہے۔









لاکھوں درود ان ﷺ پر

 



" لاکھوں درود ان ﷺ پر جن کی بدولت
رحمٰن ملا ، قرآن ملا ، ایمان ملا ______ ،، 

#صلـــی_الله_علیـــہ_وآلـــہ_وسلـــم 


●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬▬▬●
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ
كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ
كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬▬▬●



یا رب

 


دو چیزیں

عام طور پر دو چیزیں گناہ اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا باعث بنتی ہیں

1. نفس کی بڑھتی ہوئی خواہشات اور اس کی سرکشی

2. شیطان کا مکر و فریب

شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے، وہ نہ صرف خود بلکہ اپنے لاؤ لشکر اور چیلوں کی مدد سے دنیا میں ہر انسان کو دینِ حق سے غافل کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے مگر رمضان المبارک کی اتنی برکت و فضیلت ہے کہ شیطان کو اس ماہ مبارک میں جکڑ دیا جاتا ہے۔

۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا

’’جب ماہ رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو پابہ زنجیر کر دیا جاتا ہے۔‘‘

رمضان المبارک میں شیطانوں کے جکڑ دیئے جانے سے یہ مراد ہے کہ شیطان لوگوں کو بہکانے سے باز رہتے ہیں اور اہلِ ایمان ان کے وسوسے قبول نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روزے کے باعث حیوانی قوت مغلوب ہو جاتی ہے اور اس کے برعکس قوتِ عقلیہ جو طاقت اور نیکیوں کا باعث ہے، روزے کی وجہ سے قوی ہوتی ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ رمضان میں عام دنوں کی نسبت گناہ کم ہوتے ہیں اور عبادت زیادہ ہوتی ہے۔

شیطانوں کے جکڑے جانے کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ گناہوں میں منہمک ہونے والے اکثر لوگ رمضان میں باز آجاتے ہیں اور توبہ کرکے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ پہلے وہ نماز قائم نہیں کرتے تھے، اب پڑھنے لگتے ہیں، اسی طرح وہ قرآن مجید کی تلاوت اور ذکر کی محافل میں بھی شریک ہونے لگتے ہیں، حالانکہ وہ پہلے ایسا نہیں کیا کرتے تھے۔ پہلے جن گناہوں میں علی الاعلان مشغول رہتے تھے اب ان سے باز آجاتے ہیں۔ بعض لوگ جن کا عمل اس کے خلاف نظر آتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطانی وساوس ان کے شریر نفوس کی جڑوں میں سرایت کر چکے ہوتے ہیں کیونکہ آدمی کا نفس اس کا سب سے بڑا دشمن ہے۔

اگر کوئی یہ کہے کہ زمانے میں شر تو موجود ہے اور گناہ بھی مسلسل ہو رہے ہیں تو پھر شیطان کے جکڑنے کا کیا فائدہ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ رمضان المبارک سے شیطان کی سرکشی اور طغیانی کی شدت ٹوٹتی ہے اور اس کے ہتھیار کند ہو جاتے ہیں اور اس کی بھڑکائی ہوئی آگ کچھ مدت کے لئے ٹھنڈی پڑ جاتی ہے۔







سحری کھانے کی فضیلت

 

رمضان المبارک میں سحری کھانے کی فضیلت

۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

تَسَحَّرُوْا فَإِنَّ فِی السَّحُوْرِ بَرَکَةً.

مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب فضل السحور و تأکيد استحبابه، 2 : 770، رقم : 1095

’’سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔‘‘

۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

فَصْلُ مَا بَيْنَ صِيَامِنَا وَصِيَامِ أَهْلِ الْکِتَابِ، أَکْلَةُ السَّحَرِ.

مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب فضل السحور و تأکيد استحبابه، 2 : 771، رقم : 1096

’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں سحری کھانے کا فرق ہے۔‘‘

روزے میں سحری کو بلاشبہ اہم مقام حاصل ہے۔ روحانی فیوض و برکات سے قطع نظر سحری دن میں روزے کی تقویت کا باعث بنتی ہے۔ اس کی وجہ سے روزے میں کام کی زیادہ رغبت پیدا ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں سحری کا تعلق رات کو جاگنے کے ساتھ بھی ہے کیونکہ یہ وقت ذکر اور دعاء کا ہوتا ہے جس میں ﷲ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور دعاء اور استغفار کی قبولیت کاباعث بنتا ہے۔




روزے کا مقصد

 



روزہ بھوکا پیاسا رھنے کا نام نہیں

روزے کا مقصد :
روزے کا مقصد یہ ہے کہ آدمی میں اللہ کا تقویٰ پیدا ہو جیسا کہ

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّـذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ .
(سورۃ البقرۃ:183)

اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے ان پر فرض کیے گئے تھے جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیز گار ہو جاؤ۔

تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔ تقویٰ دراصل اس اخلاقی جوہر کا نام ہے جو محبت الہی اور خوف سے پیدا ہوتا ہے۔

اللہ کی ذات پر پختہ یقین اور اس کی صفت رحمت واحسان کے حقیقی شعور سے آدمی میں جذبہ محبت ابھرتا ہے اور اس کی صفت قہروغضب سے اس کا خوف پیدا ہوتا ہے ۔ اس جذبۂ محبت وخوف کی قلبی کیفیت کا نام تقویٰ ہے ۔

تقویٰ تمام اعمال خیر کا سر چشمہ اور تمام اعمال بد سے محفوظ رہنے کا یقینی ذریعہ ہے ۔ متقی انسان اندرونی جذبے کے تحت نیکی کی طرف لپکتا اور برائیوں سے بچتاہے وہ نیکی سے سکون پاتا ہے اور برائیوں سے کڑھتاہے ۔

روزہ اسی کیفیت کے پیدا کرنے کا مؤثر ذریعہ ہے روزے کی حالت میں اپنی مرغوب اور حلال چیز کو صرف اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت میں چھوڑتا ہے ۔اس کے قہر وغضب سے ڈرتے ہوئے اس کے قریب نہیں جاتا اور جب اس کو افطار کا حکم دیا جاتا ہے تو اس کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے روزہ افطار کرتا ہے، اپنی خواہش نفس کو قابو میں رکھتا ہے اور بندہ نفس کے بجائے بندہ رب ہونے کا اظہار کرتا ہے اور یہی مقصود ’’روزہ‘‘ ہے ۔



شَهْرُ رَمَضَانَ

 


بد نصیب شخص

 


رمضان

 


آمیـــــــــــن

 


رمضان صبر اور غمخواری کا مہینہ

 


حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا

 


10 رمضان المبارک
ام المومنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا یوم وصال

ام المومنین حضرت خدیجتہ الکبری نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سب سے پہلے ایمان لانے والی اور دین اسلام کی تصدیق کرنے والی تھیں۔ آپکو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہلی زوجہ ہونے کی سعادت بھی حاصل ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا خاندان قریش کی ممتاز اور باوقار خاتون تھیں۔ حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا حسن سیرت، اعلیٰ اخلاق، بلند کردار اور شرافت ومرتبہ کی وجہ سے مکہ مکرمہ اور ارد گرد کے علاقے میں ’’طاہر‘‘ کے پاکیزہ لقب سے مشہور تھیں۔ غریب پروری اور سخاوت حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی امتیازی خصوصیات تھیں۔

٭نسب شریف
سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنتِ خویلد بن اسدبن عبدالعزی بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی۔ آپ کا نسب حضور پر نور شافعِ یوم النشور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے نسب شریف سے قصی میں مل جاتا ہے۔ سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی کنیت ام ہند ہے۔ آپ کی والدہ فاطمہ بنت زائدہ بن العصم قبیلہ بنی عامر بن لوی سے تھیں ۔
(مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم درذکرازواج مطہرات وی، ج۲،ص۴۶۴)

٭سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کے فضائل میں حدیث

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ بارگاہِ رسالت میں جبرائیل علیہ السلام نے حاضرہوکرعرض کیا: اے اللہ کے رسول! صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم آپ کے پاس حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا دستر خوان لارہی ہیں جس میں کھانا پانی ہے جب وہ آپ کے پاس آئیں ان سے ان کے رب کا سلام کہنا۔
(صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،باب فضائل خدیجۃ ام المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنھا،الحدیث۲۴۳۲،ص۱۳۲۲)

٭سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کے چھ خصوصی فضائل

~• آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سب سے پہلے سرورِ کائنات، فخرِ موجودات ﷺ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں اور ام المؤمنین یعنی قیامت تک کے سب مؤمنین کی ماں ہونے کے پاکیزہ واعلیٰ منصب پر فائز ہوئیں۔

~• رسولِ کریم، رَءُوْفٌ رَّحیم ﷺ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حیات میں کسی اور سے نکاح نہیں فرمایا۔

~• سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار ﷺ کی تمام اولاد سوائے حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے، آپ ہی سے ہوئی۔

~• دیگر ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کی نسبت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سب سے زیادہ عرصہ کم وبیش 25 برس رسولِ نامدار، مدینے کے تاجدار ﷺ کی رفاقت و ہمراہی میں رہنے کا شرف حاصل کیا۔

~• سید الانبیاء، محبوبِ کبریاء ﷺ کے ظہورِ نبوت کی سب سے پہلی خبر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ہی پہنچی۔

~• تاجدارِ رسالت ﷺ کے بعد اسلام میں سب سے پہلے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے نماز پڑھی۔
مآخذ : کتاب فیضانِ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، صفحہ۵۹




چاند دیکھنے کا حکم

 


چاند دیکھنے کا حکم

◄رسول اللہ صلی الله علیه وآله وسلم نے فرمایا:
لا تصوموا حتى تروا الهلال و لا تفطروا حتى تروه فان غم عليكم فاقدروا له
(متفق عليه)
’’ چاند دیکھے بغیر رمضان کے روزے شروع نہ کرو اور چاند دیکھے بغیررمضان ختم نہ کرو
اگر مطلع ابر آلود ہوتو مہینے کے تیس دن پورے کرلو ۔‘‘
(بخاری و مسلم)

◄سیدنا ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے
رسول ﷲصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا
کہ جب تم رمضان کا چاند دیکھو تو روزے رکھنا شروع کر دو اور جب تم عید ا لفطر کا چاند دیکھو تو روزہ رکھنا ترک کر دو۔
اور اگر مطلع ابر آلود ہو تو تم اس کے لیے اندازہ کر لو۔
(صحیح بخاری)

◄نبی کریم صلی الله علیه وآله وسلم کا ارشاد ہے:
صوموا لرؤيته وافطروا لرؤيته فان غمي عليکم فأکملوا العدد.
''چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو۔ اگرمطلع صاف نہ ہو تو گنتی پوری کرو۔''
(صحیح مسلم، رقم 1081)