تقویٰ کا لفظی مطلب بچنا ہے۔ قرآن کا مقصد چونکہ جہنم کے نقصان اور جنت کی محرومی سے بچانا ہے اس لیے اس کی یہ دعوت صرف ان لوگوں کی سمجھ میں آسکتی ہے جو ’تقویٰ‘ یعنی نقصان اور محرومی سے بچنے کی نفسیات میں جی رہے ہوں۔ ایک عام انسان اپنی زندگی اسی ’تقویٰ‘ کے اصول پر گزارتا ہے۔ یعنی وہ ہر نقصان اور تکلیف سے بچنا چاہتا ہے۔ اس کی ساری تگ و دو بھوک، پیاس، بے گھری، بے روزگاری وغیرہ سے بچنے کے لیے ہوتی ہے۔ اس طرح ہر انسان اصل میں متقی ہوتا ہے۔ قرآن بس اتنا کہتا ہے کہ اپنے تقویٰ کا رخ دنیا کے ساتھ آخرت کی طرف بھی کرلو۔ یعنی آخرت کے نقصان سے بچنے کی بھی فکر کرلو۔ یہی لوگ قرآن کی اصطلاح میں متقی ہیں۔ جو لوگ ان معنوں میں متقی نہیں قرآن کا کوئی مطالبہ ان پر موثر نہیں ہوتا۔
یہاں سمجھ لینا چاہیے کہ سورہ بقرۃ میں چونکہ شریعت دی جارہی ہے اس مقام پر بھی اور آگے اس سورت میں بے گنتی مقامات پر اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ ہدایت تو الله تعالیٰ ہی دیتے ہیں، مگر اس سے فائدہ صرف تقویٰ کی نفسیات میں جینے والے لوگ اٹھاتے ہیں۔
2۔ غیب میں رہ کر ایمان لانا
آج کے نسلی مسلمانوں کو شائد اس قرآنی مطالبے کی اہمیت کا اندازہ نہ ہو مگر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم پر ابتدائی زمانے میں ایمان لانے والوں کی یہ اہم ترین خصوصیت تھی۔ آپ کے ابتدائی مخاطبین آپ کی دعوت کے ثبوت کے لیے حسی معجزات طلب کرتے تھے۔ وہ فرشتوں کے نزول اور آسمانی نشانیوں کے ظہور کا مطالبہ کرتے تھے۔ قرآن نے یہ اصول بیان کردیا کہ معجزات صرف نبیوں کے ساتھ ظاہر ہوتے ہیں اورحضور آخری نبی ہیں۔ اس لیے آپ کے معاصرین کو کوئی حسی معجزہ نہیں دکھایا جائے گا تاکہ بعد میں آنے والے لوگ بھی کسی معجزے کی فرمائش نہ کرسکیں۔ جو معجزہ پہلے لوگوں کے لیے حجت تھا یعنی قرآن وہی بعد میں آنے والوں کے لیے بھی ہوگا۔
اس پس منظر میں غیب میں رہ کر ایمان لانے کا مطلب یہ ہوا کہ مسلمانوں کا ایمان عقلی بنیادوں پر قائم ہوتا ہے۔ قدیم انسان ہوا کو دیکھ نہیں سکتا تھا مگر اس کے آثار محسوس کرکے اسے مانتا تھا۔ آج کا انسان زمین کی قوت کشش کو دیکھ نہیں سکتا مگر سائنسدانوں کی تحقیق کی بنیاد پر وہ مانتا ہے کہ زمین کی ایک قوت کشش ہے۔ اسی طرح دین کا ہر ایمانی مطالبہ، جس میں انسان کو غیبی حقائق یعنی خدا، فرشتوں اور جنت و جہنم کو مان لینے کی دعوت دی جاتی ہے، قرآن عقلی بنیادوں ہی پر ثابت کرتا ہے۔
اس بات کو سمجھ لینے کے بعد جو شخص بھی قرآن پڑھے گا وہ جان لے گا کہ کیوں الله تعالیٰ پورے قرآن میں ایمانیات پر عقلی دلائل دیتے رہتے ہیں۔ کیوں وہ مظاہرِ فطرت اور تاریخی آثار کو بار بار لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ جو شخص اس پہلو سے قرآن کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرے گا وہ کبھی قرآن سے ہدایت حاصل نہیں کرسکتا۔
3۔ نماز کا قائم کرنا
نماز دین کا بنیادی مطالبہ ہے۔ یہ عام حالات میں سب سے بڑا عمل ہے، جو بندہ اپنے رب کے لیے کرسکتا ہے۔ یہ قیام، رکوع، سجود کی شکل میں عبادتِ رب اور اظہار بندگی کا خوبصورت ترین نمونہ ہے۔ جو شخص رب کی پرستش، اس کی یاد اور اس کی محبت کی اس اعلیٰ ترین سطح سے منہ موڑتا ہے وہ حدیث کے الفاظ میں گویا کہ کفر کا ارتکاب کردیتا ہے۔ یہاں نماز کے قیام کی اہمیت اس لیے بہت زیادہ ہے کہ یہود نے اپنی نمازوں کو ضائع کردیا تھا۔ ختم نبوت کی بنا پر الله تعالیٰ نے یہ اہتمام تو فرما دیا کہ نماز کی شکل آج بھی الحمدللہ امت میں پوری طرح قائم ہے لیکن نماز کی اسپرٹ جو یاد الہی ہے، اس سے اکثر نماز پڑھنے والے مسلمان بھی غفلت میں رہتے ہیں۔
4۔ انفاق
نماز کے ساتھ دین کا دوسرا مطالبہ ہے جو قرآن جگہ جگہ دہراتا ہے۔ ان آیات میں یہ وضاحت کردی گئی ہے کہ انفاق کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کا انفاق اصل میں الله کے دیے ہوئے مال میں سے ہوتا ہے۔ وہ انفاق کرکے نہ ﷲ پر احسان کرتے ہیں نہ اس کے بندوں پر۔ بلکہ صرف اپنا بھلا کرتے ہیں۔
5۔ بلا تعصب ایمان
ایمان کا ایک پہلو تو اوپر بیان ہوا کہ یہ غیب میں رہ کر عقلی امکانات کی بنیاد پر بعض حقائق کو مان لینے کا نام ہے۔ اس کا دوسرا پہلو ان آیات میں خاص یہود کے پس منظر میں بیان کیا گیا ہے۔ یعنی وہ کہتے تھے کہ ہم خدا اور نبیوں کے ماننے والے ہیں، مگر ان کتابوں کو مانتے ہیں جو انبیائے بنی اسرائیل پر نازل ہوئیں۔ ﷲ تعالیٰ اس کے برعکس یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ایمان کے ساتھ تعصب جمع نہیں ہونا چاہیے۔ اگر یہ بات ثابت ہے کہ محمد صلی ﷲ علیہ وسلم خدا کے رسول ہیں تو پھر ان پر نازل ہونے والی کتاب کو نہ ماننے کی کوئی گنجائش نہیں۔ بندہ مومن اپنے فرقہ اور گروہ کے حق سے دلچسپی نہیں رکھتا، بلکہ خدا کے نازل کردہ حق سے دلچسپی رکھتا ہے۔ چاہے یہ حق اپنے گروہ کی طرف سے پیش ہو یا کسی اور گروہ کے کسی شخص کی طرف سے۔
6۔ آخرت پر یقین
آخرت پر یقین قرآن کی اصل دعوت ہے۔ وہ لوگوں کو خدا کے ابدی منصوبے سے روشناس کرانے آیا ہے۔ یعنی اصل دنیا تو آخرت کی دنیا ہے۔ یہ دنیا تو محض امتحان ہے۔ یہاں کا ملنا کھونا، ہنسنا رونا، خوشی غم، کامیابی ناکامی سب امتحان ہے۔ اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے۔ جس شخص کو یہ یقین نہ ہو وہ کبھی قرآن کی ہدایت کونہیں پاسکتا۔ شروع میں جس تقویٰ کا ذکر ہوا ہے وہ اس یقین کے بغیر کبھی پیدا نہیں ہوسکتا۔ اسی لیے یہاں آخرت پر ایمان سے زیادہ یقین کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
No comments:
Post a Comment