سفر میں روزہ
مسافر کو بحالتِ سفر روزہ ترک کر دینا مباح ہے بشرطیکہ سفر اتنا لمبا ہو جس میں قصر واجب ہوتی ہے، اور اگر سفر میں دشواری نہ ہو تو اس کا سفر میں روزہ رکھنا افضل ہے۔ آج کل کے دور میں ریل گاڑی، کار، ہوائی جہاز وغیرہ میں سفر معتدل ہی ہوتا ہے لہٰذا جو شخص روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہو اور اسے روزہ رکھنے میں کوئی دشواری بھی پیش نہ آتی ہو تو اس کے لئے بہتر ہے کہ روزہ رکھے.◄ ﷲ رب العزت نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا :
اَيَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ ۚ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ ۚ وَعَلَى الَّـذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهٝ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ ۖ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْـرًا فَهُوَ خَيْـرٌ لَّـهٝ ۚ وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْـرٌ لَّكُمْ ۖ اِنْ كُنْتُـمْ تَعْلَمُوْنَ . سورۃ البقرۃ : (184)
گنتی کے چند روز، پھر جو کوئی تم میں سے بیمار یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کر لے، اور ان پر جو اس کی طاقت رکھتے ہیں فدیہ ہے ایک مسکین کا کھانا، پھر جو کوئی خوشی سے نیکی کرے تو وہ اس کے لیےبہتر ہے، اور روزہ رکھنا تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔
◄ حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ زوج النبي صلى الله عليه وسلم أن حمزة بن عمرو الأسلمي قال للنبي صلى الله عليه وسلم أصوم في السفر وكان كثير الصيام. فقال " إن شئت فصم، وإن شئت فأفطر
◄ (دوسری سند امام بخاری نے کہا کہ) اور ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہیں امام مالک نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد نے اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ نے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی میں سفر میں روزہ رکھوں؟ وہ روزے بکثرت رکھا کرتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر جی چاہے تو روزہ رکھ اور جی چاہے افطار کر۔
صحیح بخاری کتاب الصیام
حدیث نمبر: 1943
No comments:
Post a Comment