اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کمال علم اور مخلوقات کے احاطے کا ذکر فرمایا ہے۔ یعنی اس کی مخلوقات کو جو جو کچھ کرنا تھا، اس کو علم پہلے سے ہی تھا، وہ ان کو جانتا تھا۔ چناچہ اس نے اپنے علم سے یہ باتیں پہلے ہی لکھ دیں۔ اور لوگوں کو یہ بات چاہے، کتنی ہی مشکل معلوم ہو، اللہ کے لئے بالکل آسان ہے۔ یہ وہی تقدیر کا مسئلہ ہے، اس پر ایمان رکھنا ضروری ہے، جسے حدیث میں اس طرح بیان فرمایا گیا اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے، جبکہ اس کا عرش پانی پر تھا، مخلوقات کی تقدیریں لکھ دی تھیں (صحیح مسلم) اور سنن کی روایت ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم پیدا فرمایا، اور اس کو کہا لکھ اس نے کہا، کیا لکھوں ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جو کچھ ہونے والا ہے، سب لکھ دے۔ چناچہ اس نے اللہ کے حکم سے قیامت تک جو کچھ ہونے والا تھا، سب لکھ دیا۔
(ابوداؤد کتاب السنۃ)
اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ ۔۔ : یعنی کیا تمہیں واضح بات بھی معلوم نہیں کہ آسمان و زمین میں جو کچھ بھی ہے اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے اور کوئی بھی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں ؟ نہ اس کے مخلص اور فرماں بردار بندوں کی فرماں برداری اس سے مخفی ہے اور نہ اس کے منکروں اور نافرمانوں کی شرارتیں اور فساد اس سے اوجھل ہے۔ اس لیے اس علم کے ساتھ وہ ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ دے گا۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح فرما دیا کہ ہر شخص جو کچھ کر رہا ہے وہ پورے اہتمام کے ساتھ ایک کتاب میں محفوظ ہے، اس لیے کوئی اس خام خیالی میں نہ رہے کہ یہ محض ہوائی باتیں ہیں، اتنی مخلوق کے ہر عمل کا ریکارڈ کیسے رکھا جاسکتا ہے اور ان کے درمیان فیصلہ کیسے ہوگا ؟ فرمایا بیشک یہ تمہارے لیے ایک مشکل بلکہ ناممکن کام ہے مگر اللہ تعالیٰ کے لیے یہ کچھ بھی مشکل نہیں، کیونکہ وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔
No comments:
Post a Comment