Tuesday, December 31, 2024

رات اور دن

 يُقَلِّبُ اللّٰهُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ ۔۔ : یہ اس بات کی تیسری دلیل ہے کہ اس کائنات کا مالک و مختار اللہ وحدہ لا شریک لہ ہے اور اس کی ہدایت کی روشنی زمین و آسمان میں ہر جگہ پھیلی ہوئی ہے، چناچہ فرمایا، اللہ تعالیٰ رات اور دن کو بدلتا رہتا ہے، نہ ہمیشہ دن رہتا ہے نہ رات۔ دیکھیے قصص (٧١ تا ٧٣) پھر کبھی رات چھوٹی ہوتی ہے کبھی دن۔ دیکھیے لقمان (٢٩) واضح رہے کہ زمین پر زندہ رہنے کے جتنے اسباب موجود ہیں رات دن کے اسی الٹ پھیر کی بدولت ہیں، اگر ہمیشہ رات رہتی یا ہمیشہ دن رہتا تو کوئی چیز پیدا نہ ہوسکتی، یہ سب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا بنایا ہوا نظام ہے۔ رات دن کو یا اس نظام کو برا بھلا کہنے والا درحقیقت اللہ تعالیٰ کو برا بھلا کہتا ہے۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( قَال اللّٰہُ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی یُؤْذِیْنِي ابْنُ آدَمَ ، یَقُوْلُ یَا خَیْبَۃَ الدَّھْرِ فَلَا یَقُوْلَنَّ أَحَدُکُمْ یَا خَیْبَۃَ الدَّھْرِ فَإِنِّيْ أَنَا الدَّھْرُ ، أُقَلِّبُ لَیْلَہُ وَ نَھَارَہُ ، فَإِذَا شِءْتُ قَبَضْتُھُمَا ) [ مسلم، الألفاظ من الأدب وغیرھا، باب النہي عن سب الدھر : ٣؍٢٢٤٦ ] ” اللہ عز و جل فرماتا ہے، ابن آدم مجھے ایذا دیتا ہے، کہتا ہے، ہائے زمانے کی کم بختی سو تم میں سے کوئی ہرگز یوں نہ کہے، ہائے زمانے کی کم بختی اس لیے کہ میں ہی زمانہ ہوں، میں رات دن کو بدل بدل کر لاتا ہوں اور میں جب چاہوں گا دونوں کو سمیٹ لوں گا۔ “

 رات اور دن کا باری باری آنا بھی اللہ کی معرفت کی نشانیوں میں سے ایک بہت بڑی نشانی ہے۔ جسے اللہ نے قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سیاروں کی گردش کا ایسا مربوط نظام بنادیا ہے جس سے دن اور رات باری باری آتے رہتے ہیں۔ کسی مقام پر ایک ہی وقت راتیں بڑھ رہی ہیں تو دوسرے مقام پر اسی وقت چھوٹی ہو رہی ہیں۔ پھر اسی نظام سے ہر مقام پر موسموں میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ جو مختلف قسم کی اجناس اور نباتات کے پکنے میں ممدو ثابت ہوتی ہے۔ فصلوں کے پکنے اور موسم میں ایک گہرا تعلق ہے غرضیکہ اللہ تعالیٰ کا یہ نظام اس قدر محیرالعقول اور کثیر الفوائد ہے کہ جتنا بھی اس میں غور کیا جائے اتنا ہی اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کا سکہ انسان کے دل میں بیٹھتا جاتا ہے۔- موجودہ نظریہ کے مطابق یہ سب نتائج زمین کی محودی گردش اور سورج کے گرد سالانہ گردش سے حاصل ہوتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ آخر زمین جیسے عظیم الجثہ کرے کو آخر کس ہستی نے مجبور کیا ہے کہ وہ سورج کے گرد اپنے محور پر ساڑھے چھ ڈگری کا زاویہ بناتے ہوئے چھیاسٹھ ہزار چھ سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھومتی رہے اور ہمیشہ گھومتی رہے اور اس گردش میں سرمو بھی فرق نہ آنے دے ؟ پھر بروقت اس کڑی نگرانی بھی رکھے ہوئے ہے 

No comments:

Post a Comment