Saturday, October 26, 2019

بد دعاء اور انسان


بد دعاء اور انسان
----------------
یعنی انسان کبھی کبھی دلگیر اور ناامید ہو کر اپنی سخت غلطی سے خود اپنے لیے برائی کی دعا مانگنے لگتا ہے۔ کبھی اپنے مال واولاد کے لئے بد دعاء کرنے لگتا ہے کبھی موت کی ، کبھی ہلاکت کی ، کبھی بربادی اور لعنت کی ۔
لیکن اس کا اللہ اس پر خود اس سے بھی زیادہ مہربان ہے ادھر وہ دعاء کرے ادھر وہ قبول فرما لے تو ابھی ہلاک ہو جائے ۔

حدیث میں بھی ہے کہ ‏‏‏‏ اپنی جان و مال کے لیے بد دعاء نہ کرو ایسا نہ ہو کہ کسی قبولیت کی ساعت میں کوئی ایسا بد کلمہ زبان سے نکل جائے۔
[صحیح مسلم:3009] ‏‏‏‏

اس کی وجہ صرف انسان کی اضطرابی حالت اور اس کی جلد بازی ہے۔
یہ ہے ہی جلد باز۔ سیدنا سلمان فارسی اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم نے اس موقعہ پر آدم علیہ السلام کا واقعہ ذکر کیا ہے کہ ابھی پیروں تلے روح نہیں پہنچی تھی کہ آپ نے کھڑے ہونے کا ارادہ کیا روح سر کی طرف سے آرہی تھی ناک تک پہنچی تو چھینک آئی آپ نے کہا «الحمدللہ» ۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا «‏‏‏‏يَرْحَمُكَ اللَّهُ يَا آدَمُ» اے آدم تجھ پر تیرا رب رحم کرے۔

جب آنکھوں تک پہنچی تو آنکھیں کھول کر دیکھنے لگے۔ جب اور نیچے کے اعضاء میں پہنچی تو خوشی سے اپنے آپ کو دیکھنے لگے۔ ابھی پیروں تک نہیں پہنچی تو چلنے کا ارادہ کیا لیکن نہ چل سکے تو دعا کرنے لگے کہ اے اللہ رات سے پہلے روح آجائے۔

تفسیر آیت/آیات، 11
سورۃ الإسراء/بني اسرائيل




متقیوں کا تعارف



متقیوں کا تعارف
اللہ تعالیٰ اپنے متقی بندوں کے اوصاف بیان فرماتا ہے کہ وہ کہتے ہیں اے پروردگار ہم تجھ پر اور تیری کتاب پر اور تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے، ہمارے اس ایمان کے باعث جو تیری ذات اور تیری شریعت پر ہے تو ہمارے گناہوں کو اپنے فضل و کرم سے معاف فرما اور ہمیں جہنم کے عذاب سے نجات دے ، یہ متقی لوگ اللہ کی اطاعت بجا لاتے ہیں اور حرام چیزوں سے الگ رہتے ہیں ، صبر کے سہارے کام لیتے ہیں اور اپنے ایمان کے دعوے میں بھی سچے ہیں۔

کل اچھے اعمال بجا لاتے ہیں خواہ وہ ان کے نفس کو کتنے بھاری پڑیں ، اطاعت اور خشوع خضوع والے ہیں ، اپنے مال اللہ کی راہ میں جہاں جہاں حکم ہے خرچ کرتے ہیں ، صلہ رحمی میں رشتہ داری کا پاس رکھنے میں برائیوں کے روکنے آپس میں ہمدردی اور خیر خواہی کرنے میں حاجت مندوں ، مسکینوں اور فقیروں کے ساتھ احسان کرنے میں سخاوت سے کام لیتے ہیں اور سحری کے وقت پچھلی رات کو اٹھ اٹھ کر استغفار کرتے ہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ اس وقت استغفار افضل ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہر رات آخری تہائی باقی رہتے ہوئے آسمان دنیا پر اترتا ہے اور فرماتا ہے کہ کوئی سائل ہے ؟ جسے میں دوں ، کوئی دعا مانگنے والا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں ، کوئی استغفار کرنے والا ہے کہ میں اسے بخشوں ؟
[صحیح بخاری:1145] ‏‏‏‏

بخاری و مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اول رات درمیانی اور آخری رات میں وتر پڑھے ہیں ، سب سے آخری وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر پڑھنے کا سحری تک تھا۔
[صحیح بخاری:996] ‏‏‏‏

تفسير ابن كثير


موت کے بعد زندہ


بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ

اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَّجْـمَعَ عِظَامَهٝ بَلٰى قَادِرِيْنَ عَلٰٓى اَنْ نُّسَوِّىَ بَنَانَهٝ
کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہیں کریں گے؟ ہاں! (ضرور کریں گے) ہم تو اس کی انگلیوں کی پور بنانے پر بھی قادر ہیں۔
سورۃ القیامۃ:3-4

تفسیر آیات:

۱۔ اَیَحۡسَبُ الۡاِنۡسَانُ: کل کے ملحدوں اور آج کے نیچر پرستوں (مادہ پرستوں) کا یہ گمان ہے جب انسان کی ہڈیاں خاک میں مل جاتی ہیں تو کون انہیں دوبارہ زندہ کر سکتا ہے:

مَنۡ یُّحۡیِ الۡعِظَامَ وَ ہِیَ رَمِیۡمٌ
( یٰسٓ: 78)
ان ہڈیوں کو خاک ہونے کے بعد کون زندہ کرے گا؟

پھر یہ سوال بھی پیدا کرتے ہیں کہ جب ہڈیاں خاک بن کر دوسری ہڈیوں سے مل جائیں یا کسی جانور کی غذا بن کر اس کی ہڈیوں کا حصہ بن جائیں تو اللہ انہیں کیسے جدا کرے گا؟

بلکہ یہ سوال مزید آگے بڑھتا ہے کہ انسان کا جسم ہڈیوں سمیت ہمیشہ تحلیل ہوتا رہتا ہے اور انسان کے تحلیل شدہ عناصر کاربن کی شکل میں آ کر درختوں اور فصلوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ درختوں کے میووں اور فصلوں کو دیگر انسان اور جانور اپنی غذا کے طور پر کھا لیتے ہیں جس سے ایک انسان کے تحلیل شدہ عناصر دوسرے مسلم اور غیر مسلم انسانوں کے جسم کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اس طرح ہم دنیا میں ایک دوسرے کو کھا رہے ہوتے ہیں تو اللہ انہیں کیسے جدا کرے گا؟

2۔ بَلٰی قٰدِرِیۡنَ: جواب میں فرمایا: ہم انسان کی انگلیوں کی پوروں کو بنانے پر قادر ہیں۔ اس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ پوروں کے بنانے اور منتشر ہڈیوں کے جمع کرنے پر قادر ہونے میں کوئی قدر مشترک موجود ہے۔ یعنی پوروں کے بنانے پر قادر ہونے میں ایک دلیل ہے کہ اللہ منتشر ہڈیوں کو یکجا کر سکتا ہے۔ وہ دلیل کیا ہے؟ جواب دیا گیا ہے کہ انسان کی انگلیوں کی ساخت اللہ کی حکیمانہ تخلیق کی ایک اہم نشانی ہے۔ انگلیوں کی ساخت ، اس میں چیزوں کو اپنے گرفت لینے کے لیے بند کرنے اور کھولنے کی صلاحیت ، پھر ان انگلیوں کے ساتھ انگوٹھے کا کردار وغیرہ ، دلیل ہے کہ یہ ذات ہڈیوں کے منتشر اجزا یکجا کر سکتی ہے۔

دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ انسان کی پوروں میں موجود لکیریں ہر ایک کی مختلف ہوتی ہیں۔ کسی دو شخص کی آپس میں نہیں ملتیں لہٰذا جو ذات ہر ایک شخص کی شناخت دنیا میں پوروں کی لکیروں کے ذریعہ کروا سکتی ہے کیا وہ قیامت کے دن انسانوں کی ہڈیوں کی شناخت نہیں کر سکے گی۔

ہڈیوں کے ذرات جمع کرنے پر اللہ تعالیٰ کی ذات کا قادر ہونا آج کے طالب علم کے لیے کوئی معمہ نہیں رہا۔ ہمارا روز کا مشاہدہ ہے کہ دانہ جب خاک میں جاتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ نے یہ سمجھ دی ہے کہ زمین کے بیسوں عناصر میں سے کس عنصر کو جذب کرنا ہے۔ اگر دانہ گندم کا ہے تو اس دانے کو پتہ ہے کہ کن عناصر کو جذب کر کے جوڑ دوں تو گندم بن جائے گی۔ اگر یہ دانہ مکئی کا ہے تو اسے علم ہے کہ مکئی اگانے کے لیے کن عناصر کو ملانا ہے۔ اسی طرح دنیا میں وجود میں آنے والے لاکھوں دانوں اور پودوں کا مختلف ہونا عناصر ترکیب کے مختلف کی وجہ سے ہے۔

یہ حقیقت کل کے سطحی لوگوں کے لیے دلیل ہے اور آج کے دانشوروں کے لیے بھی:

وَ اللّٰہُ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ الرِّیٰحَ فَتُثِیۡرُ سَحَابًا فَسُقۡنٰہُ اِلٰی بَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَحۡیَیۡنَا بِہِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا ؕ کَذٰلِکَ النُّشُوۡرُ


(۳۵ فاطر: ۹)

اور اللہ ہی ہواؤں کو بھیجتا ہے تو وہ بادل کو اٹھاتی ہیں پھر ہم اسے ایک اجاڑ شہر کی طرف لے جاتے ہیں پھر ہم اس سے زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کر دیتے ہیں، اسی طرح (قیامت کو) اٹھنا ہو گا۔

وَ یُحۡیِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا ؕ وَ کَذٰلِکَ تُخۡرَجُوۡنَ

(۳۰ روم: )

اور زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کرتا ہے اور اسی طرح تم بھی نکالے جاؤ گے۔

یعنی جس طرح خاک میں موجود عناصر جمع کر کے ہم سبزہ نکالنے پر قادر ہیں اسی طرح تمہارے ذرات جمع کر کے تمہیں زمین سے نکالنے پر قادر ہیں۔
دوسرے لفظوں میں جہاں دانہ اپنے مطلوبہ عناصر پہچان لیتا ہے وہاں کیا اللہ تعالیٰ انسان کے منتشر ذرات نہیں پہچان لے گا؟


اچھے الفاظ



بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ
وَقُلْ لِّعِبَادِىْ يَقُوْلُوا الَّتِىْ هِىَ اَحْسَنُ ۚ اِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْزَغُ بَيْنَـهُـمْ ۚ
اِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِيْنًا
اور میرے بندوں سے کہہ دو کہ وہی بات کہیں جو بہتر ہو،
بے شک شیطان آپس میں لڑا دیتا ہے، بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔
سورۃ الاسراء :53

اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ آپ مومن بندوں سے فرما دیں کہ وہ اچھے الفاظ ، بہتر فقروں اور تہذیب سے کلام کرتے رہیں ، ورنہ شیطان ان کے آپس میں سر پھٹول اور برائی ڈلوا دے گا ، لڑائی جھگڑے شروع ہو جائیں گے۔ وہ انسان کا دشمن ہے گھات میں لگا رہتا ہے.

روئے سخن اہل ایمان کی طرف ہے جو مشرکین کی طرف سے تمسخر سننے پر بدکلامی کرتے تھے۔ آیت کے اطلاق سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ ہر وقت ، ہر موقع پر اور ہر شخص سے وہ بات کریں جو بہترین ہو۔ جو اس عظیم دعوت کے ساتھ مناسبت رکھتی ہو۔ جو اس پاکیزہ فکر کو نمودار کرے۔ جو ان اعلیٰ اخلاقی قدروں کی نمائندگی کرے ، جس سے ان اقدار کی خوشبو پھیلے جو اس دعوت میں ہے۔
ایسی باتیں جو گرد و پیش کو معطر کریں۔ جو قلب و نظر پر اپنی گرفت مضبوط کرے۔ چنانچہ حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے:

رُبَّ قَوْلٍ اَنْفَذْ مِنْ صَولٍ ۔ ( نہج البلاغۃ۔ تشریح طلب کلام : ۳۹۴)
کبھی ایک جملہ ایک حملے سے زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔

اِنَّ الشَّیۡطٰنَ یَنۡزَغُ بَیۡنَہُمۡ:
جب فہم و فراست سے عاری شخص کسی کے بارے میں نازیبا زبان استعمال کرتا ہے تو کمین میں بیٹھا ہوا شیطان اس پر اپنا تیر چلاتا اور اسے مزید اکساتا ہے تاکہ دعوت الی الحق میں حق چاشنی باقی نہ رہے بلکہ اس دعوت دینے والے اور اس کے مذہب کے بارے میں بُغض و عناد وجود میں آئے پھر اصلاح کی جگہ فساد و فتنہ برپا ہو جائے۔

ایسا بہت ہوا ہے کہ ایک جملے نے لوگوں پر وہ مثبت اثر دکھایا جو کسی طاقت کے ذریعے نہیں ہو سکتا تھا اور کبھی ایک نامناسب جملے نے وہ فساد اور خون ریزی کو جنم دیا جو کسی جانی دشمن سے نہیں ہو سکتی تھی۔

خوش گفتاری کا اپنا اثر ہے۔ ایک مناسب اور برمحل جملہ انسان کی تقدیر بدل دیتا ہے اور ایک نامناسب جملہ ایک بہت بڑے فساد کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔


خالقِ کل


بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ
اِنَّ اللّـٰهَ لَا يَخْفٰى عَلَيْهِ شَيْءٌ فِى الْاَرْضِ وَلَا فِى السَّمَآءِ
زمین و آسمان کی کوئی چیز اللہ سے یقینا پوشیدہ نہیں ہے۔
سورۃ آل عمران:5

خالقِ کل:

اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ آسمان و زمین کے غیب کو وہ بخوبی جانتا ہے
اس پر کوئی چیز مخفی نہیں.

جیسے فرمایا
«يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى» [ 20-طه: 7 ] ‏‏‏‏
وہ ہر چھپی ہوئی اور علانیہ بات کو خوب جانتا ہے.

اور جگہ فرمایا:
یَعۡلَمُ خَآئِنَۃَ الۡاَعۡیُنِ وَ مَا تُخۡفِی الصُّدُوۡرُ (۴۰ غافر:۱۹)
اللہ نگاہوں کی خیانت اور جو کچھ سینوں میں پوشیدہ ہے سے واقف ہے۔

اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور خالق سے اس کی مخلوق پوشیدہ نہیں رہ سکتی نیز کسی چیز اور اللہ کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہو سکتی۔ جس چیز کو بھی حائل فرض کیا جائے، اللہ اس سے آگے بھی موجود ہے۔ لہٰذا کسی مجرم سے انتقام لینے کے لیے یہ امکان موجود نہیں ہے کہ کوئی بھی جرم اللہ سے پوشیدہ رہ جائے۔ خواہ وہ جرم مجرم کے دل میں ایک پوشیدہ راز ہی کیوں نہ ہو۔



وہی مختار مطلق ہے



وہی مختار مطلق ہے ناقابل تردید سچائی

جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ کی اجازت اور اس کے حکم سے ہوتا ہے اس کی قدر و مشیت کے بغیر نہیں ہو سکتا، اب جس شخص کو کوئی تکلیف پہنچے وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر سے مجھے یہ تکلیف پہنچی، پھر صبر و تحمل سے کام لے، اللہ کی مرضی پر ثابت قدم رہے، ثواب اور بھلائی کی امید رکھے، رضا بہ قضاء کے سوا لب نہ ہلائے، تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کی رہبری کرتا ہے اور اسے بدلے کے طور پر ہدایت قلبی عطا فرماتا ہے۔ وہ دل میں یقین صادق کی چمک دیکھتا ہے اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس مصیبت کا بدلہ یا اس سے بھی بہتر دنیا میں ہی عطا فرما دیتا ہے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ
”اس کا ایمان مضبوط ہو جاتا ہے، اسے مصائب ڈگمگا نہیں سکتے، وہ جانتا ہے کہ
جو پہنچا وہ خطا کرنے والا نہ تھا اور جو نہ پہنچا وہ ملنے والا ہی نہ تھا۔‏‏‏‏“

آسان ترین افضل عمل

سیدنا علقمہ رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ آیت
«مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ»
[64-التغابن-11] ‏‏‏‏
پڑھی جاتی ہے اور آپ رضی اللہ عنہ سے اس کا مطلب دریافت کیا جاتا ہے تو فرماتے ہیں
”اس سے مراد وہ شخص ہے جو ہر مصیبت کے وقت اس بات کا عقیدہ رکھے کہ
یہ منجانب اللہ ہے پھر راضی خوشی اسے برداشت کر لے۔‏‏‏‏“

یہ بھی مطلب ہے کہ ”وہ «إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ» [2-البقرہ:156] ‏‏‏‏ پڑھ لے۔‏‏‏‏“

متفق علیہ حدیث میں ہے کہ مومن پر تعجب ہے ہر ایک بات میں اس کے لیے بہتری ہوتی ہے نقصان پر صبر و ضبط کر کے نفع اور بھلائی پر شکر و احسان مندی کر کے بہتری سمیٹ لیتا ہے، یہ دو طرفہ بھلائی مومن کے سوا کسی اور کے حصے میں نہیں ۔ [صحیح مسلم:2999] ‏‏‏‏

تفسير ابن كثير
 
 

دن اور رات کے فوائد


دن اور رات کے فوائد

اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے دو کا یہاں بیان فرماتا ہے کہ دن رات اس نے الگ الگ طرح کے بنائے۔ رات آرام کے لیے دن تلاش معاش کیلئے۔ کہ اس میں کام کاج کرو صنعت و حرفت کرو سیر و سفر کرو۔ رات دن کے اختلاف سے دنوں کی، مہینوں کی، برسوں کی گنتی معلوم کر سکو تاکہ لین دین میں، معاملات میں، قرض میں، مدت میں، عبادت کے کاموں میں سہولت اور پہچان ہو جائے۔ اگر ایک وقت رہتا تو بڑی مشکل ہو جاتی سچ ہے۔

اگر اللہ چاہتا تو ہمیشہ رات ہی رات رکھتا کوئی اتنی قدرت نہیں رکھتا کہ دن کر دے۔ اور اگر وہ ہمیشہ دن ہی دن رکھتا تو کس کی مجال تھی کہ رات لا دے؟
[القصص:72:71] ‏‏‏‏

یہ نشانات قدرت سننے دیکھنے کے قابل ہیں۔
یہ اسی کی رحمت ہے کہ رات سکون کے لیے بنائی اور دن تلاش معاش کے لیے۔
[القصص:73]

ان دونوں کو ایک دوسرے کے پیچھے لگاتار آنے والے بنایا تاکہ شکرو نصیحت کا ارادہ رکھنے والے کامیاب ہو سکیں۔ اسی کے ہاتھ رات دن کا اختلاف ہے وہ رات کا پردہ دن پر اور دن کا نقاب رات پر چڑھا دیتا ہے۔
[الفرقان:61-62]

سورج چاند اسی کی ماتحتی میں ہے ہر ایک اپنے مقررہ وقت پر چل پھر رہا ہے وہ اللہ غالب اور غفار ہے۔
[الزمر:1]

صبح کا چاک کرنے والا ہے اسی نے رات کو سکون والی بنایا ہے اور سورج چاند کو مقرر کیا ہے یہ اللہ عزیز و حلیم کا مقرر کیا ہوا اندازہ ہے۔
[يس:37-38]

رات اپنے اندھیرے سے چاند کے ظاہر ہونے سے پہچانی جاتی ہے اور دن روشنی سے اور سورج کے چڑھنے سے معلوم ہو جاتا ہے۔ سورج چاند دونوں ہی روشن اور منور ہیں لیکن ان میں بھی پورا تفاوت رکھا کہ ہر ایک پہچان لیا جا سکے۔

سورج کو بہت روشن اور چاند کو نورانی اسی نے بنایا ہے منزلیں اسی نے مقرر کی ہیں تاکہ حساب اور سال معلوم رہیں۔ اللہ کی یہ پیدائش حق ہے۔
[يونس:5]

لوگ تجھ سے چاند کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ دے کہ وہ لوگوں کے لیے اوقات ہیں اور حج کے لیے بھی۔
[البقرة:189]

رات کا اندھیرا ہٹ جاتا ہے دن کا اجالا آ جاتا ہے۔ سورج دن کی علامت ہے چاند رات کا نشان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے چاند کو کچھ سیاہی والا پیدا کیا ہے پس رات کی نشانی چاند کو بہ نسبت سورج کے ماند کر دیا ہے اس میں ایک طرح کا دھبہ رکھ دیا ہے۔ ابن الکواء نے امیر المؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ چاند میں یہ جھائیں کیسی ہے؟ آپ نے فرمایا اسی کا بیان اس آیت میں ہے کہ ہم نے رات کے نشان یعنی چاند میں سیاہ دھندلکا ڈال دیا اور دن کا نشان خوب روشن ہے یہ چاند سے زیادہ منور اور چاند سے بہت بڑا ہے دن رات کو دو نشانیاں مقرر کر دی ہیں پیدائش ہی ان کی اسی طرح کی ہے۔‏‏‏‏

تفسیر ابن کثیر


شرک


شرک سب گناہوں میں بدتر گناہ ہے۔

جس کسی کو اللہ تعالیٰ سے ملنے کا شوق یا اس کے سامنے حاضر کئے جانے کا خوف ہو اسے چاہئے کہ کچھ بھلے کام شریعت کے موافق کر جائے اور اللہ تعالیٰ کی بندگی میں ظاہرًا و باطنًا کسی کو کسی درجہ میں بھی شریک نہ کرے۔ یعنی شرک جلی کی طرح ریا وغیرہ شرک خفی سے بھی بچتا رہے کیونکہ جس عبادت میں غیر اللہ کی شرکت ہو وہ عابد کے منہ پر ماری جائے گی۔

اللہ کی بندگی میں کسی اور کو شریک کرنا اللہ تعالیٰ کی شان میں انتہائی گستاخی ہے۔ اس کی مخلوقات میں سے کسی کو خالق کائنات اور رب العالمین کی صف میں رکھاجائے۔ اسی لیے شرک سب گناہوں میں بدتر گناہ ہے۔

ارشاد الٰہی ہے:

بے شک جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا،
بتحقیق اللہ نے اس پر جنت کو حرام کر دیا۔
سورۃ المائدۃ:72

اللہ صرف شرک سے درگزر نہیں کرتا
اس کے علاوہ جس کو چاہے معاف کر دیتا ہے۔
سورۃ النساء:116


نماز کا ترجمہ


#جس_کو_نماز_کا_ترجمہ_و_تشر
یح_نہیں_آتی
*
اس کی نماز میں ادھر ادھر کے خیالات کا آنا بنسبت دوسروں کے زیادہ ممکن ہے اور ایسی نماز میں خشوع و خضوع کا ہونا مشکل ہے پھر نماز اللہ تعالی سے ملاقات اور راز ونیاز کا بہترین انداز ہے اس لئے کم ازکم

*نماز کا ترجمہ*
تو ہر مسلمان کو لازمی آنا چاہئیے۔، آئیں نماز سیکھیں اور دوسروں کو سکھائیں.

*ثناء*

سُبْحَانَکَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِکَ، وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ، وَلَا اِلٰهَ غَيْرُکَ.
(ترمذی، الجامع الصحيح، أبواب الصلاة، باب ما يقول عند افتتاح الصلاة، 1 : 283، رقم : 243)

*’’اے اﷲ! ہم تیری پاکی بیان کرتے ہیں، تیری تعریف کرتے ہیں، تیرا نام بہت برکت والا ہے، تیری شان بہت بلند ہے اور تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔‘‘*

*تعوذ*

أَعُوْذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ.

*’’میں شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں۔‘‘*

*تسمیہ*

بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ.

*’’ﷲ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے۔‘‘*

*سورۃ الفاتحہ*

الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَO الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِO مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِO إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُO اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَO صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْO غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَO
(الفاتحة، 1 : 1. 7)

*’’سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہےo نہایت مہربان بہت رحم فرمانے والا ہےo روزِ جزا کا مالک ہےo (اے اللہ!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیںo ہمیں سیدھا راستہ دکھاo ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایاo ان لوگوں کا نہیں جن پر غضب کیا گیا ہے اور نہ (ہی) گمراہوں کاo‘‘*

*سورۃ الاخلاص*

قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌO اللَّهُ الصَّمَدُO لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْO وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌO
(الاخلاص، 112 : 1۔ 4)

*’’(اے نبی مکرّم!) آپ فرما دیجئے : وہ اﷲ ہے جو یکتا ہےo اﷲ سب سے بے نیاز، سب کی پناہ اور سب پر فائق ہےo نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہی وہ پیدا کیا گیا ہےo اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہےo‘‘*

*رکوع*

سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِيْمِ.
(ترمذی، الجامع الصحيح، ابواب الصلاة، باب ماجاء فی التسبيح فی الرکوع والسجود، 1 : 300، رقم : 261)

*’’پاک ہے میرا پروردگار عظمت والا۔‘‘*

*قومہ*

سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَهُ.

*’’ﷲ تعالیٰ نے اس بندے کی بات سن لی جس نے اس کی تعریف کی۔‘‘*

رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ.

(مسلم، الصحيح، کتاب الصلاة، باب إثبات التکبير فی کل خفض ورفع فی الصلاة، 1 : 293، 294، رقم : 392)
اے ہمارے پروردگار! تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں۔

*سجدہ*

سُبْحَانَ رَبِّیَ الْأَعْلَی.
(ابو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب مقدار الرکوع و السجود، 1 : 337، رقم : 886)

*’’پاک ہے میرا پروردگار جو بلند ترہے۔‘‘*

*جلسہ*

حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں سجدوں کے درمیان درج ذیل دعا مانگتے :

اَللَّهُمَّ اغْفِرْلِيْ وَارْحَمْنِي وَعَافِنِي وَاهْدِنِيْ وَارْزُقْنِيْ.
(ابو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب الدعا بين السجدتين، 1 : 322، رقم : 850)

*’’اے ﷲ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، مجھے عافیت دے، مجھے ہدایت پر قائم رکھ اور مجھے روزی عطا فرما۔‘‘*

*تشہد*

التَّحِيَّاتُ ِﷲِ وَالصَّلَوٰتُ وَالطَّيِّبَاتُ، اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِیُّ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَبَرَکَاتُهُ، اَلسَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَی عِبَادِ اﷲِ الصّٰلِحِيْنَ. أَشْهَدُ أَنْ لَّا اِلٰهَ إِلَّا اﷲُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ.
(ترمذی، الجامع الصحيح، ابواب الدعوات، باب فی فضل لَا حَول ولا قوة إلَّا بِاﷲِ، 5 : 542، رقم : 3587)

*’’تمام قولی، فعلی اور مالی عبادتیں اﷲ ہی کے لیے ہیں، اے نبی! آپ پر سلام ہو اور اﷲ کی رحمت اور برکتیں ہوں، ہم پر اور اﷲ کے تمام نیک بندوں پر بھی سلام ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔‘‘*

*درودِ اِبراہیمی*

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو، تین یا چار رکعت والی نماز کے قعدہ اخیرہ میں ہمیشہ درودِ ابراہیمی پڑھتے جو درج ذیل ہے :ش
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا صَلَّيْتَ عَلَی إِبْرَاهِيْمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِيْمَ، إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ.
اَللّٰهُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا بَارَکْتَ عَلَی إِبْرَاهِيْمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِيْمَ، إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ.
(بخاری، الصحيح، کتاب الانبياء، باب النسلان فی المشی، 3 : 1233، رقم : 3190)

*’’اے ﷲ! رحمتیں نازل فرما حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور ان کی آل پر، جس طرح تونے رحمتیں نازل کیں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر، بے شک تو تعریف کا مستحق بڑی بزرگی والا ہے۔*
*’’اے ﷲ! تو برکتیں نازل فرما حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور ان کی آل پر، جس طرح تونے برکتیں نازل فرمائیں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر، بے شک تو تعریف کا مستحق بڑی بزرگی والا ہے۔‘‘*

*دعائے ماثورہ*

درود شریف کے بعد یہ دعا پڑھیں :
رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِيْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِیْ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَآءِo رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَءَّ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ يَوْمَ يَقُوْمُ الْحِسَابُo
(ابراهيم، 14 : 40، 41)

*’’اے میرے رب! مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم رکھنے والا بنا دے، اے ہمارے رب! اور تو میری دعا قبول فرما لےo اے ہمارے رب!* *مجھے بخش دے اور میرے والدین کو (بخش دے) اور دیگر سب مومنوں کو بھی، جس دن حساب قائم ہوگا۔۔


اہل ایمان کی دعاء


اہل ایمان کی دعاء

بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّـدُنْكَ رَحْـمَةً ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ (۳ : ۸)
’’ اے رب ہمارے! جب تو ہم کو ہدایت کر چکا تو ہمارے دلوں کا نہ پھیر اور اپنے ہاں سے ہمیں رحمت عطا فرما ، بے شک تو بہت زیادہ دینے والا ہے ۔‘‘

نافع بن یزید رحمہ اللہ کہتے ہیں
راسخ فی العلم وہ لوگ ہیں جو متواضح ہوں جو عاجزی کرنے والے ہوں ، رب کی رضا کے طالب ہوں ، اپنے سے بڑوں سے مرعوب نہ ہوں ، اپنے سے چھوٹے کو حقیر سمجھنے والے نہ ہوں ۔

پھر فرمایا کہ یہ سب دعا کرتے ہیں کہ ہمارے دِلوں کو ہدایت پر جمانے کے بعد انہیں ان لوگوں کے دِلوں کی طرح نہ کر جو متشابہ کے پیچھے پڑ کر برباد ہو جاتے ہیں بلکہ ہمیں اپنی صراطِ مستقیم پر قائم رکھ
اور اپنے مضبوط دین پر دائم رکھ ، ہم پر اپنی رحمت نازل فرما، ہمارے دِلوں کو قرار دے ، ہم سے گندگی کو دور کر،
ہمارے ایمان و یقین کو بڑھا تو بہت بڑا دینے والا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ دعاء فرمائی :
اے اللہ دلوں کے پھیرنے والے، ہمارے دل اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے ۔‘‘

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ{ اللَّهُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوبِ صَرِّفْ قُلُوبَنَا عَلَى طَاعَتِكَ}۔
صحيح مسلم كتاب القدر باب تصريف الله تعالى القلوب كيف شاء2654



بدگمانی



*بدگمانی کیا ہے؟*

👈🏻کسی کے بارے میں برا سوچنا، اس کے بارے میں غلط اندازے لگانا اور پھر ان اندازوں اور مفروضوں کی بنیا د پر کوئی اقدام کرگزرنا۔

بدگمانی ایک زہر ہے۔ آج کل بہت سے لوگ دوسروں کے بارے میں بدگمانی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔

►- قرآنِ پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ، اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ...(الحجرات۴۹: ۱۲)

’’اے ایمان والو، کثرت گمان سے بچو، کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں...‘‘

►- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کہ بد گمانی سے بچتے رہو کیونکہ بد گمانی سب سے جھوٹی بات ہے ( اور لوگوں کے رازوں کی ) کھود کرید نہ کیا کرو اور نہ ( لوگوں کی نجی گفتگووں کو ) کان لگا کر سنو ، آپس میں دشمنی نہ پیدا کرو بلکہ بھائی بھائی بن کر رہو .
صحیح البخاری 5143

بدگمانی کا اصل سبب سوچنا اور غلط سوچنا ہے۔
بدگمانی کا علاج مثبت سوچ
دوسروں کو معاف کردینا، ان کی کوتاہیوں سے صرف نظر کرنا،
ان کو مجبوریوں کا مارجن دینا،
اور ان سے یکطرفہ محبت کرنا ہے۔
بصورت دیگر ہم مفروضوں کی بنیاد پر عین ممکن ہے کوئی ایسا اقدام کربیٹھیں جس سے ہماری دنیا و آخرت دونوں متاثر ہوں۔

 
 

سرکارِ دوعالم ﷺ


رحمت ہیں سراسر میرے سرکارِ دوعالم ﷺ
بے مثل ہیں یکتا ہیں ، مثال ان کی میں کیا دوں
جب نثر میں سیرت کا احاطہ نہیں ممکن
اشعار میں اخلاقِ نبی ﷺ کیسے بتا دوں


●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬▬▬●
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ
كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ
كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬▬▬●

حسد



حسد ایک منفی جذبہ

ﺍﻣﺎﻡ ﻏﺰﺍﻟﯽ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ’’ﺣﺴﺪ ‘‘ﺍﺳﮯ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﻌﻤﺖ ﻣﻠﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﺠﮭﮯ ﺑﺮﺍ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺗﻮ ﭼﺎﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻧﻌﻤﺖ ﺍﺱ ﺳﮯﭼﮭﻦ ﺟﺎﺋﮯ-

ﯾﮧ ﻭﮦ ﺩﻣﺎﻏﯽ ﮐﯿﻔﯿﺖ ﮨﮯ ﺟﻨﮩﯿﮟ ﮨﻢ ﺑﮍﮬﺎ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺫﮨﻨﯽ ﺳﮑﻮﻥ ﮐﮯ ﺧﺎﺗﻤﮧ ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺫﺍﺕ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﺎ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﮭﻮﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔

ﺣﺴﺪ ﺍﯾﮏ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﮨﮯﺟﻮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﻗﻠﺐ ﮐﻮ ، ﺍﺱ ﮐﯽ ﺭﻭﺡ ﮐﻮ ﺍﺫﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ ﮐﺮﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ، ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﮯ ﻧﺎﭘﺎﮎ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺟﺬﺑﮯ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮐﺴﯽ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﭘﺮ ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﺮﺳﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮫ ﺳﮑﺘﺎ ، ﭼﺎﮨﮯ ﻭﮦ ﻧﻌﻤﺖ ﺣﺴﺪ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻮ ﺑﯿﺸﮏ ﻧﮧ ﻣﻠﮯ ﻣﮕﺮ ﻣﺤﺴﻮﺩ ﺳﮯ ﭼﮭﻦ ﺟﺎﺋﮯ -
ﮐﺴﯽ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﺍﺋﯽ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﺳﻮﭼﻨﺎ ﺍﻧﺴﺎﻧﯿﺖ ﮐﯽ ﺗﻮﮨﯿﻦ ﮨﮯ - ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﻨﮕﯿﻨﯽ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﻟﮕﺎﺋﯿﮟ ﮐﮧ ﺧﺎﻟﻖ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﻧﮯ ﺣﺴﺪ ﺳﮯ ﺑﭽﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﻨﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ " ﻭﻣﻦ ﺷﺮ ﺣﺎﺳﺪ ﺍﺫﺍﺣﺴﺪ "

ﺭﻭﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﻋﻤﻞ ﺍﻭﺭ ﺭﺩِ ﻋﻤﻞ ﺳﮯﻻﻋﻠﻤﯽ ﻋﻤﻮﻣﺎً ﺣﺴﺪ ﺍﻭﺭ ﺟﻠﻦ ﮐﻮﺟﻨﻢ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ۔ ﻣﺜﺎﻝ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﮨﻢ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺟﺴﮯ ﺗﺮﻗﯽ ﯾﺎ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ﻣﻠﯽ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮐﭽﮫ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﻟﭧ ﭘﻠﭧ ﮐﮯ ﮨﻢ ﯾﮩﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﮐﭽﮫ ﮐﯿﺎ ﻣﮕﺮ ﭘﮭﺮﺑﮭﯽ ﺻﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎﯾﺎ۔

ﺣﺎﺳﺪ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﺴﻤﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﻘﺪﺭﺳﮯ ﺷﺎﮐﯽ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ اللہ ﮐﯽ ﺍﻥ ﮔﻨﺖ ﻧﻌﻤﺘﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﯿﮟ ، ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ، ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺣﺎﺳﺪ ﺍﭘﻨﮯ اللہ ﮐﺎ ﺷﮑﺮ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻗﺎﺻﺮ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ۔

ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺵ ﺭﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻏﻢ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﻏﻢ ﺳﻤﺠﮭﺌﮯ -
ﻣﺜﺒﺖ ﺭﺟﺤﺎﻥ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎﺋﯿﮟ ، ﻣﺤﻨﺖ ﮐﺮﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﯾﮟ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺟﺴﺘﺠﻮ ﮨﮯ -

ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﺑﺪﻟﮯ ﺧﻮﺷﺤﺎﻟﯽ ، ﺑﺪﻣﺰﺍﺟﯽ ﮐﮯ ﺑﺪﻟﮯ ﺧﻮﺵ ﻣﺰﺍﺟﯽ ، ﺑﺪﮔﻮﺋﯽ ﮐﮯ ﺑﺪﻟﮯ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﯾﺴﺎ ﻃﺮﺯﻋﻤﻞ ﺟﺎﺭﯼ رکھیں ﺟﻮﺩﻭﺳﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﺑﺎﻋﺚ ﺑﻨﮯ۔

ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﯾﮏ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﮑﺴﺖ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺮﻧﮯﮐﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﮈﺍﻟﯿﮟ -

ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﺌﮯ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺎﻡ ﻧﺎﻣﻤﮑﻦ ﻧﮩﯿﮟ ..ﺣﻮﺻﻠﮧ ، ﻣﻀﺒﻮﻁ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺻﻼﺣﯿﺘﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﻋﺘﻤﺎﺩ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺁﭘﮑﯽ ﻣﻨﺰﻝ ﭘﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎﻧﮯ ﮐﮯﻟﺌﮯ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﮯ۔

اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں دوسروں سے حسد کرنے سے بچائے اور جب کوئی حاسد حسد کرنے لگے تو اس کی شرارتوں سے بھی محفوظ فرمائے۔آمین!
 
 

آمیــــــــن


قرآن سے دور


یا اللہ


اے اللہ


شانِ مصطفیٰ ﷺ


شانِ مصطفیٰ ﷺ کروں کیـــــا میـــں بیان
کہ نظامِ کائناتـــ رک گیــــا اِک مُلاقات کے واسطــــے

●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬▬▬●
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ
كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ
كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬▬▬●

اے ہمارے رب


آمیــــــــن


باطن کا سفر


باطن کا سفر :
-------------

میں نے محسوس کیا کہ مرشد ایک بہت ہے سمجھدار ، عقلمند اور زیرک بابا ہوتا ہے - وہ تم کو دانش سے قائل نہیں کرتا کیونکہ دانش کی ایک حد ہوتی ہے -
اور دانش تم کو دور نہیں لے جا سکتی - تمہارا سارا سامان اٹھا کر پہاڑ کےدامن تک جا سکتی ہے اس سے آگے کام نہیں دیتی -

چوٹی تک پہنچنے کے لئے پہلے ٹٹو سے کام لینا پڑتا ہے ، پھر پیدل چلنا پڑتا ہے - ایک مقام ایسا بھی آتا ہے کہ پیدل چلنے کا راستہ بھی مسدود ہو جاتا ہے پھر کمند پھینک کر اور کیلیں ٹھونک ٹھونک کر اوپر اٹھنا پڑتا ہے -

پھر ان کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دانش اور عقل کی باتوں سے تو تم سمجھ ہی جاؤ گے کیونکہ اس میدان کے تم پرانے شہسوار ہو اور اس معاملے میں تمہاری کافی پریکٹس ہے -
علم سے تو تم قائل ہو ہی جاؤ گے لیکن یہ قائل ہونا تمہارے اندر کوئی تبدیلی پیدا نہیں کر سکے گا -
تم عقلی طور پر معقول ہو جاؤ گے لیکن اصلی طور پر نہیں -

ایک روز جب بابا جی جب وضوکرنے کی غرض سے مسجد کی تپنی پر بیٹھے تھے میں نے ڈرتے ڈرتے ان سے پوچھا

" حضور! باطن کا سفرمرشد کی معیت کے بغیر بھی کیا جا سکتا ہے ؟

وہ تھوڑی دیر خاموش رہے اور میرے رسیونگ سنٹر کے ٹیون ہونے کا انتظار کرتے رہے اپنے مخصوص انداز میں مسکرا کر بولے
کیا جا سکتا ہے لیکن وہ صرف ایک راستہ ہے

" وہ راستہ ہے عاجزی کا اور انکساری کا - حضرت آدم کی اس سنت کا جب وہ شرمندگی سے سر جھکائے اور عجز کے ہاتھ سینے پر باندھے الله کے حضور میں حاضر ہو کر بولے مجھ سے بڑی بھول ہو گئی "

بابا جے نے کہا ! بس یہی ایک طریقہ ہے اور رویہ ہے جسے اپنا کر مرشد کے بغیر باطن کا سفر کیا جا سکتا ہے -

" پھر آپ درختوں سے ، پرندوں سے ، پہاڑوں سے ، دریاؤں سے درس لے سکتے ہیں - پتھروں سے بادلوں سے ٹھوکروں سے گیان حاصل کر سکتے ہیں - پھر تو ساری دنیا آپ کو سبق دے سکتی ہے - ساری کائنات آپ کو رمز آشنا بنا سکتی ہے - "
 

از اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ ٣٣٢