بد دعاء اور انسان
----------------
یعنی انسان کبھی کبھی دلگیر اور ناامید ہو کر اپنی سخت غلطی سے خود اپنے لیے برائی کی دعا مانگنے لگتا ہے۔ کبھی اپنے مال واولاد کے لئے بد دعاء کرنے لگتا ہے کبھی موت کی ، کبھی ہلاکت کی ، کبھی بربادی اور لعنت کی ۔
لیکن اس کا اللہ اس پر خود اس سے بھی زیادہ مہربان ہے ادھر وہ دعاء کرے ادھر وہ قبول فرما لے تو ابھی ہلاک ہو جائے ۔
حدیث میں بھی ہے کہ اپنی جان و مال کے لیے بد دعاء نہ کرو ایسا نہ ہو کہ کسی قبولیت کی ساعت میں کوئی ایسا بد کلمہ زبان سے نکل جائے۔
[صحیح مسلم:3009]
اس کی وجہ صرف انسان کی اضطرابی حالت اور اس کی جلد بازی ہے۔
یہ ہے ہی جلد باز۔ سیدنا سلمان فارسی اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم نے اس موقعہ پر آدم علیہ السلام کا واقعہ ذکر کیا ہے کہ ابھی پیروں تلے روح نہیں پہنچی تھی کہ آپ نے کھڑے ہونے کا ارادہ کیا روح سر کی طرف سے آرہی تھی ناک تک پہنچی تو چھینک آئی آپ نے کہا «الحمدللہ» ۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا «يَرْحَمُكَ اللَّهُ يَا آدَمُ» اے آدم تجھ پر تیرا رب رحم کرے۔
جب آنکھوں تک پہنچی تو آنکھیں کھول کر دیکھنے لگے۔ جب اور نیچے کے اعضاء میں پہنچی تو خوشی سے اپنے آپ کو دیکھنے لگے۔ ابھی پیروں تک نہیں پہنچی تو چلنے کا ارادہ کیا لیکن نہ چل سکے تو دعا کرنے لگے کہ اے اللہ رات سے پہلے روح آجائے۔
تفسیر آیت/آیات، 11
سورۃ الإسراء/بني اسرائيل