Wednesday, December 11, 2019

کعبہ کے بدر الدجٰی تم ﷺ پہ کروڑوں درود



کعبہ کے بدر الدجٰی تم ﷺ پہ کروڑوں درود
طیبہ کے شمس الضحیٰ تم ﷺ پہ کروڑوں درود

شافع روز جزا تم ﷺ پہ کروڑوں درود
دافع جملہ بلا تم ﷺ پہ کروڑوں درود

جان و دل اصفیاء تم ﷺ پہ کروڑوں درود
آب و گل انبیاء تم ﷺ پہ کروڑوں درود

لائیں تو یہ دوسرا دوسرا جس کو ملا
کوشک عرش و دنیٰ تمﷺ پہ کروڑوں درود

اور کوئی غیب کیا تم ﷺ سے نہاں ہو بھلا
جب نہ خدا ہی چھپا تم ﷺ پہ کروڑوں درود

ذات ہوئی انتخاب وصف ہوئے لاجواب
نام ہوا مصطفی ﷺ تم ﷺ پہ کروڑوں درود

#صلی_اللہ_علیہ_وآلہ_وسلم 

●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬▬▬●
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ
كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ
كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬▬▬●




_نماز_کا_ترجمہ



#جس_کو_نماز_کا_ترجمہ_و_تشریح_نہیں_آتی*
اس کی نماز میں ادھر ادھر کے خیالات کا آنا بنسبت دوسروں کے زیادہ ممکن ہے اور ایسی نماز میں خشوع و خضوع کا ہونا مشکل ہے پھر نماز اللہ تعالی سے ملاقات اور راز ونیاز کا بہترین انداز ہے اس لئے کم ازکم

*نماز کا ترجمہ*
تو ہر مسلمان کو لازمی آنا چاہئیے۔، آئیں نماز سیکھیں اور دوسروں کو سکھائیں.

*ثناء*

سُبْحَانَکَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِکَ، وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ، وَلَا اِلٰهَ غَيْرُکَ.
(ترمذی، الجامع الصحيح، أبواب الصلاة، باب ما يقول عند افتتاح الصلاة، 1 : 283، رقم : 243)

*’’اے اﷲ! ہم تیری پاکی بیان کرتے ہیں، تیری تعریف کرتے ہیں، تیرا نام بہت برکت والا ہے، تیری شان بہت بلند ہے اور تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔‘‘*

*تعوذ*

أَعُوْذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ.

*’’میں شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں۔‘‘*

*تسمیہ*

بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ.

*’’ﷲ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے۔‘‘*

*سورۃ الفاتحہ*

الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَO الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِO مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِO إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُO اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَO صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْO غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَO
(الفاتحة، 1 : 1. 7)

*’’سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہےo نہایت مہربان بہت رحم فرمانے والا ہےo روزِ جزا کا مالک ہےo (اے اللہ!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیںo ہمیں سیدھا راستہ دکھاo ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایاo ان لوگوں کا نہیں جن پر غضب کیا گیا ہے اور نہ (ہی) گمراہوں کاo‘‘*

*سورۃ الاخلاص*

قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌO اللَّهُ الصَّمَدُO لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْO وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌO
(الاخلاص، 112 : 1۔ 4)

*’’(اے نبی مکرّم!) آپ فرما دیجئے : وہ اﷲ ہے جو یکتا ہےo اﷲ سب سے بے نیاز، سب کی پناہ اور سب پر فائق ہےo نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہی وہ پیدا کیا گیا ہےo اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہےo‘‘*

*رکوع*

سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِيْمِ.
(ترمذی، الجامع الصحيح، ابواب الصلاة، باب ماجاء فی التسبيح فی الرکوع والسجود، 1 : 300، رقم : 261)

*’’پاک ہے میرا پروردگار عظمت والا۔‘‘*

*قومہ*

سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَهُ.

*’’ﷲ تعالیٰ نے اس بندے کی بات سن لی جس نے اس کی تعریف کی۔‘‘*

رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ.

(مسلم، الصحيح، کتاب الصلاة، باب إثبات التکبير فی کل خفض ورفع فی الصلاة، 1 : 293، 294، رقم : 392)

*’’اے ہمارے پروردگار! تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں۔‘‘*

*سجدہ*

سُبْحَانَ رَبِّیَ الْأَعْلَی.
(ابو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب مقدار الرکوع و السجود، 1 : 337، رقم : 886)

*’’پاک ہے میرا پروردگار جو بلند ترہے۔‘‘*

*جلسہ*

حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں سجدوں کے درمیان درج ذیل دعا مانگتے :

اَللَّهُمَّ اغْفِرْلِيْ وَارْحَمْنِي وَعَافِنِي وَاهْدِنِيْ وَارْزُقْنِيْ.
(ابو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب الدعا بين السجدتين، 1 : 322، رقم : 850)

*’’اے ﷲ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، مجھے عافیت دے، مجھے ہدایت پر قائم رکھ اور مجھے روزی عطا فرما۔‘‘*

*تشہد*

التَّحِيَّاتُ ِﷲِ وَالصَّلَوٰتُ وَالطَّيِّبَاتُ، اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِیُّ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَبَرَکَاتُهُ، اَلسَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَی عِبَادِ اﷲِ الصّٰلِحِيْنَ. أَشْهَدُ أَنْ لَّا اِلٰهَ إِلَّا اﷲُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ.
(ترمذی، الجامع الصحيح، ابواب الدعوات، باب فی فضل لَا حَول ولا قوة إلَّا بِاﷲِ، 5 : 542، رقم : 3587)

*’’تمام قولی، فعلی اور مالی عبادتیں اﷲ ہی کے لیے ہیں، اے نبی! آپ پر سلام ہو اور اﷲ کی رحمت اور برکتیں ہوں، ہم پر اور اﷲ کے تمام نیک بندوں پر بھی سلام ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔‘‘*

*درودِ اِبراہیمی*

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو، تین یا چار رکعت والی نماز کے قعدہ اخیرہ میں ہمیشہ درودِ ابراہیمی پڑھتے جو درج ذیل ہے :ش
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا صَلَّيْتَ عَلَی إِبْرَاهِيْمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِيْمَ، إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ.
اَللّٰهُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا بَارَکْتَ عَلَی إِبْرَاهِيْمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِيْمَ، إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ.
(بخاری، الصحيح، کتاب الانبياء، باب النسلان فی المشی، 3 : 1233، رقم : 3190)

*’’اے ﷲ! رحمتیں نازل فرما حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور ان کی آل پر، جس طرح تونے رحمتیں نازل کیں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر، بے شک تو تعریف کا مستحق بڑی بزرگی والا ہے۔*
*’’اے ﷲ! تو برکتیں نازل فرما حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور ان کی آل پر، جس طرح تونے برکتیں نازل فرمائیں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر، بے شک تو تعریف کا مستحق بڑی بزرگی والا ہے۔‘‘*

*دعائے ماثورہ*

درود شریف کے بعد یہ دعا پڑھیں :
رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِيْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِیْ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَآءِo رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَءَّ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ يَوْمَ يَقُوْمُ الْحِسَابُo
(ابراهيم، 14 : 40، 41)

*’’اے میرے رب! مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم رکھنے والا بنا دے، اے ہمارے رب! اور تو میری دعا قبول فرما لےo اے ہمارے رب!* *مجھے بخش دے اور میرے والدین کو (بخش دے) اور دیگر سب مومنوں کو بھی، جس دن حساب قائم ہوگا۔۔


جس طرف چشمِ محمدﷺ کے اِشارے ہو گئے​


جس طرف چشمِ محمدﷺ کے اِشارے ہو گئے​
جتنے ذرّے سامنے آئے ، ستارے ہو گئے​

جب کبھی عِشق محمد ﷺ کی عنایت ہو گئی​
میرے آنسو کوثر و زمزم کے دھارے ہو گئے​

موجۂ طوفاں میں جب نام محمد ﷺ لے لیا​
ڈُوبتی کشتی کے تنکے ہی سہارے ہو گئے​

میں ہُوں اور یادِ مدینہ ، اور ہیں تنہائیاں​
اپنے بیگانے سبھی مُجھ سے کنارے ہو گئے​

#صلی_اللہ_علیہ_وآلہ_وسلم 

●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬▬▬●
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ
كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ
كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬▬▬●




خاکِ دَرِ رسول ﷺ میری اوڑھنی رھے


اُن کے فراق میں مجھے رونا نصیب ہو
یوں اپنے دل کے داغ کو دھونا نصیب ہو

خاکِ دَرِ رسول ﷺ میری اوڑھنی رھے
صحنِ حرم کا مجھ کو بچھونا نصیب ہو

جلوہ خدا کے نور کا دیکھوں میں خواب میں
اے کاش! اس طرح مجھے سونا نصیب ہو

روضے کی جالیوں کو میں پلکوں سے چھو سکوں
گنبد کو دل میں اپنے سمونا نصیب ھو ............

سانسوں پہ ان ﷺ کے نام کی مالا ھو رات دن
گجرے درودوں کے بھی پرونا نصیب ھو .....

ھر لمحہ ان ﷺ کی مدح سرائی میں گم رھوں
ھر دَم خیال حضور ﷺ میں کھونا نصیب ھو​

#صلی_اللہ_علیہ_وآلہ_وسلم 

●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬▬▬●
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ
كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ
كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬▬▬●



عورتوں کے ساتھ خوش سلوکی کا رویہ رکھو



بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ
وَعَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْـرُوْفِ ۚ فَاِنْ كَرِهْتُمُوْهُنَّ فَـعَسٰٓى اَنْ تَكْـرَهُوْا شَيْئًا وَّيَجْعَلَ اللّـٰهُ فِيْهِ خَيْـرًا كَثِيْـرًا
سورۃ النساء:19
اور عورتوں کے ساتھ اچھی طرح سے زندگی بسر کرو، اگر وہ تمہیں نا پسند ہوں تو ممکن ہے کہ تمہیں ایک چیز پسند نہ آئے مگر اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھی ہو۔

عورتوں کے ساتھ خوش سلوکی کا رویہ رکھو، ان کے ساتھ اچھا برتاؤ برتو، نرم بات کہو نیک سلوک کرو اپنی حالت بھی اپنی طاقت کے مطابق اچھی رکھو،
جیسے تم چاہتے ہو کہ وہ تمہارے لیے بنی سنوری ہوئی اچھی حالت میں رہے تم خود اپنی حالت بھی اچھی رکھو جیسے اور جگہ فرمایا
آیت «وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ» ‏‏‏‏
[2-البقرة:228] ‏‏‏‏ یعنی جیسے تمہارے حقوق ان پر ہیں ان کے حقوق بھی تم پر ہیں۔

یعنی عورتوں کے ساتھ گفتگو اور معاملات میں اخلاق اور سلوک سے معاملہ رکھو جاہلیت میں جیسا ذلت اور سختی کا برتاؤ عورتوں کے ساتھ کیا جاتا تھا اس کو چھوڑ دو پھر اگر تم کو کسی عورت کی کوئی خو اور عادت خوش نہ آئے تو صبر کرو شاید اس میں کوئی خوبی بھی ہو اور ممکن ہے کہ تم کو ناپسندیدہ ہو کو ئی چیز اور اللہ تعالیٰ اس میں تمہارے لئے کوئی بڑی منفعت دینی یا دنیوی رکھ دے سو تم کو تحمل کرنا چاہئے اور بدخو کے ساتھ بدخوئی نہ چاہئے۔
اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ تم کو ایک چیز پسند نہ ہو مگر اللہ نے اس کے اندر تمہارے لیے کوئی بڑی بھلائی رکھ دی ہو"۔ یہ فقرہ یہاں اگرچہ میاں بیوی کے تعلق کے بارے میں آیا ہے۔ مگر اس کے اندر ایک عمومی تعلیم بھی ہے۔ قران کا یہ عام اسلوب ہے کہ ایک متعین معاملہ کا حکم بتاتے ہوئے اس کے درمیان ایک ایسی کلی ہدایت دے دیتا ہے جس کا تعلق آدمی کی پوری زندگی سے ہو۔
دنیا کی زندگی میں انسان کے لیے مل جل کر رہنا ناگزیر ہے۔ کوئی شخص بالکل الگ تھلگ زندگی گزار نہیں سکتا۔ اب چونکہ طبیعتیں الگ الگ ہیں، اسلیے جب بھی کچھ لوگ مل کر رہیں گے ان کے درمیان لازماً شکایات پیدا ہوں گی۔ ایسی حالت میں قابل عمل صورت صرف یہ ہے کہ شکایتوں کو نظر انداز کیا جائے اور خوش اسلوبی کے ساتھ تعلق کو نبھانے کا اصول اختیار کیا جائے۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اپنے ساتھی کی ایک خرابی آدمی کے سامنے آتی ہے اور وہ بس اسی کو لے کر اپنے ساتھی سے روٹھ جاتا ہے۔ حالانکہ اگر وہ سوچے تو وہ پائے کہ ہر ناموافق صورت حال میں کوئی خیر کا پہلو موجود ہے۔ کبھی کسی واقعہ میں آدمی کے لیے صبر کی تربیت کا امتحان ہوتا ہے۔ کبھی اس کے اندر اللہ کی طرف رجوع اور انابت کی غذا ہوتی ہے۔ کبھی ایک چھوٹی سی تکلیف میں کوئی بڑا سبق چھپا ہوا ہوتا ہے۔

کہ باوجود جی نہ چاہنے کے بھی عورتوں سے اچھی بود و باش رکھنے میں بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ بہت بڑی بھلائی عطا فرمائے ، ممکن ہے نیک اولاد ہو جائے اور اس سے اللہ تعالیٰ بہت سی بھلائیاں نصیب کرے.
صحیح حدیث میں ہے مومن مرد مومنہ عورت کو الگ نہ کرے اگر اس کی ایک آدھ بات سے ناراض ہو گا تو ایک آدھ خصلت اچھی بھی ہو گی ۔
(صحیح مسلم:1467)

محض اپنے مزاج کے موافق نہ ہونے کی وجہ سے اس سے کراہت کرنا درست نہیں ہے۔ اپنے وقتی ذوق کی تسکین نہ بھی ہو، ممکن ہے عقل و فطرت کے اعتبار سے اس عورت میں خیر کثیر ہو۔ اس میں ایک الٰہی وعدہ مضمر ہے کہ جو لوگ ظاہری شکل و صورت کی جگہ باطنی طہارت کو ترجیح دیتے ہیں ، ان کے لیے عورتیں خیر کثیر کا سرچشمہ ہوا کرتی ہیں ۔
قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ وہ عورت جسے دوسرے ادیان ’’ شر محض ‘‘ کہتے ہیں، قرآن نے اسے ’’ خیر کثیر ‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔


آزمائش اور امتحان



آزمائش سے مراد امتحان ہے جو کہ محض مصیبت کی صورت میں نہیں ہوتا ، امتحان انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں ہوتا ہے، زندگی کا ہر گوشہ امتحانات سے بھر پور ہے، لہذا یہی وجہ ہے کہ زندہ رہے، بیمار ہو، صحت یاب ہو، خوشی ملے، دولت ملے، رزق ملے یہ سب امتحان ہیں حتی کہ ارد گرد کا ماحول اور علم بھی امتحان ہے، اللہ تعالی ان سب امور میں انسان کے چال چلن کو پرکھتا ہے کہ وہ کامیاب ہو کر اصحاب یمین [دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال پانے والوں] میں شامل ہوتا ہے یا اصحاب شمال [بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال پانے والوں ] میں شامل ہوتا ہے، رحمن کی اطاعت کرتا ہے یا شیطان کی پیروی کرتا ہے.

اسی کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:

◄( الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُور)
ترجمہ: وہ ذات جس نے موت اور زندگی کو پیدا ہی اس لیے کیا کہ تمہیں آزمائے کون اچھے عمل کرنے والا ہے، وہی غالب اور بخشنے والا ہے۔[الملك:2 ]

اسی طرح فرمایا:
◄( وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا )
ترجمہ: اسی ذات نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا فرمایا ، اور اس کا عرش پانی پر تھا، تا کہ تمہیں آزمائے کہ کون تم میں سے اچھے عمل کرنے والا ہے؟[هود:7]

ایک اور مقام پر فرمایا:
◄( وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَكِنْ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُون)
ترجمہ: اور اگر اللہ تعالی چاہتا تو تمہیں ایک ہی امت بنا دیتا، لیکن وہ تو تمہیں دیتا ہی آزمانے کے لیے ہے، اس لیے تم بھلائی کے کاموں میں آگے بڑھو، اللہ ہی کی طرف تم نے لوٹ کر جانا ہے، جن چیزوں میں تم اختلاف کرتے ہو ان کے متعلق وہی تمہیں بتلائے گا ۔
[المائدة:48]

سورہ انعام میں فرمایا:
◄( وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ الْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَحِيمٌ )
ترجمہ: وہی ذات ہے جس نے تمہیں زمین کے وارث بنایا اور کچھ کو دوسروں پر فوقیت دی، تا کہ تمہیں آزمائے ان چیزوں کے ذریعے جو اس نے تمہیں عطا کی ہیں، بیشک تیرا رب جلد سزا دینے والا اور بیشک وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔[الأنعام:165]

ان تمام تر آیات میں اس بات کا ذکر ہے کہ امتحان ہی انسان کی تخلیق کا راز ہے اور اس امتحان میں بندگی بھی شامل ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص بندگی اپنے وسیع مفہوم کی صورت میں بجا لانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہی کامیاب و کامران ہو گا، اور جس شخص سے بندگی میں کمی ہوئی تو اسی کمی کی مقدار کے برابر اس کا نقصان ہو گا۔

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے اس جہاں کی تخلیق، موت، حیات اور زمین پر موجودات کے ذریعے اس کی آباد کاری کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ آزمائش اور امتحان ہے تا کہ سب مخلوقات کے متعلق علم ہو کہ کون اچھے عمل کرتا ہے، کس کے اعمال اللہ تعالی کی پسندیدگی کے مطابق ہوتے ہیں، اگر عمل ایسے ہی ہوئے تو وہ اپنی تخلیق کے ہدف کے مطابق عمل پیرا ہے، اسی ہدف کیلیے یہ جہاں پیدا کیا گیا، اور وہ ہدف یہ ہے کہ محبت و اطاعت سے سرشار اللہ کی بندگی، اسی بندگی کو ہی اچھے عمل سے تعبیر کیا گیا ہے، اور یہی اچھے عمل محبت و رضائے الہی کے موجب ہیں.
" انتہی
" روضة المحبين " (61)


ایک میت کی نصیحت



*ایک میت کی نصیحت*

چند ہفتے پہلے ایک کویتی کاتبہ نادیہ الجار اللہ رحمہا اللہ کا انتقال ہوا
اور اپنی موت سے پہلے اس نے یہ نصیحت لکھی :
میں اپنی موت پر افسوس ہرگز نہیں کروں گی اور میں اپنے جسم کی کوئی پرواہ نہیں کروں گی
پس مسلمان اپنے جو فرائض انجام دیں گے وہ یہ ہیں:
1۔مجھے اپنے کپڑوں سے جدا کر دیں گے
2۔مجھے نہلائیں گے
3۔مجھے کفن پہنائیں گے
4۔مجھے اپنے گھر سے نکال باہر کریں گے
5۔مجھے اپنے نئے گھر یعنی قبر تک پہنچائیں گے
6۔اور بہت سے لوگ میرے جنازے کے ساتھ آئیں گے بلکہ بہت سے تو مجھے دفنانے کے لیے اپنی مصروفیات اور مشغولیات سے وقت فارغ کر کے آئیں گے
اور بہت سے تو میری یہ نصیحت بھی بھلا دیں گے
اور ایک دن ۔۔۔
میری چیزوں سے وہ خلاصہ پائیں گے ۔۔۔
میری چابیاں
میری کتابیں
میرے سوٹ کیس اور بیگ
میرے جوتے
میرے کپڑے اور اس طرح ۔۔۔
اور اگر میرے گھر والے اگر متفق ہوں تو وہ یہ صدقہ کریں گے تاکہ مجھے اس سے نفع پہنچے ۔۔
یاد رکھو کہ دنیا مجھ پر غم ہرگز نہیں کرے گی ۔۔اور نہ ہی دنیا کی حرکت رکے گی ۔۔۔
اور تجارت وکاروبار چلتے رہیں گے۔۔۔۔
اور میرا وظیفہ شروع ہو جائے گا
جسے غیر لے لیں گے۔۔۔
اور میرا مال وارثوں کے حوالے ہوجائے گا ۔۔
جبکہ مجھے اس کا حساب دینا ہوگا
کم ہو یا زیادہ ۔۔ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے یا شگاف کے برابر بھی ہو۔۔

اور سب سے پہلے میری موت پر مجھ سے جو چھین لیا جائے گا وہ میرا نام ہوگا! !!
اس لئے جب میں مرجاوں گی تو لوگ کہیں گے کہ" لاش کہاں" ہے؟ میّت کہاں ہے؟
اور مجھے میرے نام سے نہیں پکاریں گے ۔۔!
اور جب نماز جنازہ پڑھانا ہو تو کہیں گے "جنازہ لےآؤ "!!!
میرانام نہیں لیں گے ۔۔!
اور جب میرے دفنانے کا وقت آجائے تو کہیں گے "میت کو قریب کرو" !!! میرانام بھی یاد نہیں کریں گے ۔۔۔!
اس وقت مجھے میرا نسب اور نہ قبیلہ میرے کام آئے گا اور نہ ہی میرا منصب اور شہرت۔۔۔
کتنی فانی اور دھوکہ کی ہے یہ دنیا جسکی طرف ہم لپکتے ہیں۔۔
پس اے زندہ انسان ۔۔۔ خوب جان لے کہ تجھ پر غم و افسوس تین طرح کا ہوتا ہے :

1۔ جو لوگ تجھے سرسری طور پر جانتے ہیں وہ مسکین کہہ کر غم کا اظہار کریں گے ۔
2۔ تیرے دوست چند گھنٹے یا چند روز تیرا غم کریں گے اور پھر اپنی اپنی باتوں اور ہنسی مذاق میں مشغول ہو جائیں گے ۔
3۔ زیادہ سے زیادہ گہرا غم گھر میں ہوگا وہ تیرے اہل وعیال کا ہوگا جو کہ ہفتہ دو ہفتے یا دو مہینے اور زیادہ سے زیادہ ایک سال تک ہوگا
اور اس کے بعد وہ تجھے یادوں کے اوراق میں رکھ دیں گے! !!

لوگوں کے درمیان تیرا قصہ ختم ہوا
اور تیرا حقیقی قصہ شروع ہوا اور وہ ہے آخرت کا ۔

تجھ سے چھن گیا تیرا ۔۔۔
1۔ جمال ۔۔۔
2۔ مال۔۔
3۔ صحت۔۔
4۔ اولاد ۔۔
5۔ جدا ہوگئےتجھ سے مکان و محلات۔
6۔ شوہر ۔۔۔
اور کچھ باقی نہ رہا تیرے ساتھ سوائے تیرے اعمال کے
اور حقیقی زندگی کا آغاز ہوا ۔

اب سوال یہاں یہ ہےکہ :
تو نے اپنی قبر اور آخرت کے لئے اب سے کیا تیاری کی ہے ؟
یہی حقیقت ہے جسکی طرف توجہ چاہئے ۔۔
اس کے لیے تجھے چاہئے کہ تو اہتمام کرے :
1۔ فرائض کا
2۔ نوافل کا
3۔پوشیدہ صدقہ کا
4۔ نیک کاموں کا
5۔ رات کی نمازوں کا
شاید کہ تو نجات پاسکے

اگر تو نے اس مقالہ کو لوگوں کی یاددہانی میں مدد کی جبکہ تو ابھی زندہ ہے
تاکہ اس امتحان گاہ میں امتحان کا وقت ختم ہونے سے تجھے شرمندگی نہ ہو اور امتحان کا پرچہ بغیر تیری اجازت کے تیرے ہاتھوں سے چھین لیا جائے
اور تو اس یاددہانی کا اثر قیامت کے دن اپنے اعمال کے ترازو میں دیکھےگا
(اور یاددہانی کرتے رہئے بیشک یاددہانی مومنوں کو نفع دے گی)

میت صدقہ کو کیوں ترجیح دیتی ہے اگر وہ دنیا میں واپس لوٹا دی جائے۔۔
جیسا کہ اللہ نے فرمایا
"اے رب اگر مجھے تھوڑی دیر کے لئے واپس لوٹا دے تو میں صدقہ کروں اور نیکوں میں شامل ہو جاؤں (سورة المنافقون )
یہ نہیں کہےگا کہ۔۔
عمرہ کروں گا
نماز پڑھوں گا
روزہ رکھوں گا

علماء نے کہا کہ :
مرنے والا صدقہ کی تمنا اس لئے کرےگا کیوں کہ وہ مرنے کے بعد اس کا عظیم ثواب اپنی آنکھوں سے دیکھے گا

اس لئے صدقہ کثرت سے کیا کرو
بیشک مومن قیامت کے دن اپنے صدقہ کے سایہ میں ہوگا.


اللہ کا خوف



خوف اور امید ہی دلوں کے ان اعمال میں سے ہیں جو نیک کاموں پر ابھارتے ہیں، اور آخرت کی زندگی کی ترغیب دلاتے ہیں، اور برے کاموں سے ڈانٹتے ہیں، اور دنیا سےبے نیاز کردیتے ہیں،اور حد سے بڑھ جانے والے نفس کو لگام دیتے ہیں۔

اور اللہ کا خوف ہی دل کو ہر نیک کام کی طرف لے جاتا ہے، اور ہر برائی کے لئے رکاوٹ ہے، اور امید بندے کو اللہ کی رضا اور اس کے ثواب کیطرف لے جاتی ہے، اور عظیم اعمال کرنے کی ہمتوں کو بڑھاتی ہے، اور ہر برے عمل سے پھیردیتی ہے۔

اور اللہ کا خوف نفس کو (نفسانی) خواہشات سے روکتا ہے، اور اسے فتنے کے بارے میں ڈانٹتا ہے، اور اسے نیکی اور کامیابی کے کاموں کی طرف لے جاتا ہے۔

فرمان الٰہی ہے:
’’لہٰذا جہاں تک تمہارے بس میں ہو اللہ سے ڈرتے رہو، اور سنو اور اطاعت کرو۔

اللہ ہمارے راستے آسان کرے.آمین 



حسد ایک منفی جذبہ




حسد ایک منفی جذبہ

ﺍﻣﺎﻡ ﻏﺰﺍﻟﯽ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ’’ﺣﺴﺪ ‘‘ﺍﺳﮯ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﻌﻤﺖ ﻣﻠﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﺠﮭﮯ ﺑﺮﺍ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺗﻮ ﭼﺎﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻧﻌﻤﺖ ﺍﺱ ﺳﮯﭼﮭﻦ ﺟﺎﺋﮯ-

ﯾﮧ ﻭﮦ ﺩﻣﺎﻏﯽ ﮐﯿﻔﯿﺖ ﮨﮯ ﺟﻨﮩﯿﮟ ﮨﻢ ﺑﮍﮬﺎ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺫﮨﻨﯽ ﺳﮑﻮﻥ ﮐﮯ ﺧﺎﺗﻤﮧ ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺫﺍﺕ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﺎ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﮭﻮﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔

ﺣﺴﺪ ﺍﯾﮏ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﮨﮯﺟﻮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﻗﻠﺐ ﮐﻮ ، ﺍﺱ ﮐﯽ ﺭﻭﺡ ﮐﻮ ﺍﺫﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ ﮐﺮﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ، ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﮯ ﻧﺎﭘﺎﮎ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺟﺬﺑﮯ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮐﺴﯽ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﭘﺮ ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﺮﺳﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮫ ﺳﮑﺘﺎ ، ﭼﺎﮨﮯ ﻭﮦ ﻧﻌﻤﺖ ﺣﺴﺪ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻮ ﺑﯿﺸﮏ ﻧﮧ ﻣﻠﮯ ﻣﮕﺮ ﻣﺤﺴﻮﺩ ﺳﮯ ﭼﮭﻦ ﺟﺎﺋﮯ -
ﮐﺴﯽ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﺍﺋﯽ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﺳﻮﭼﻨﺎ ﺍﻧﺴﺎﻧﯿﺖ ﮐﯽ ﺗﻮﮨﯿﻦ ﮨﮯ - ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﻨﮕﯿﻨﯽ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﻟﮕﺎﺋﯿﮟ ﮐﮧ ﺧﺎﻟﻖ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﻧﮯ ﺣﺴﺪ ﺳﮯ ﺑﭽﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﻨﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ " ﻭﻣﻦ ﺷﺮ ﺣﺎﺳﺪ ﺍﺫﺍﺣﺴﺪ "

ﺭﻭﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﻋﻤﻞ ﺍﻭﺭ ﺭﺩِ ﻋﻤﻞ ﺳﮯﻻﻋﻠﻤﯽ ﻋﻤﻮﻣﺎً ﺣﺴﺪ ﺍﻭﺭ ﺟﻠﻦ ﮐﻮﺟﻨﻢ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ۔ ﻣﺜﺎﻝ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﮨﻢ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺟﺴﮯ ﺗﺮﻗﯽ ﯾﺎ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ﻣﻠﯽ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮐﭽﮫ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﻟﭧ ﭘﻠﭧ ﮐﮯ ﮨﻢ ﯾﮩﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﮐﭽﮫ ﮐﯿﺎ ﻣﮕﺮ ﭘﮭﺮﺑﮭﯽ ﺻﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎﯾﺎ۔

ﺣﺎﺳﺪ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﺴﻤﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﻘﺪﺭﺳﮯ ﺷﺎﮐﯽ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ اللہ ﮐﯽ ﺍﻥ ﮔﻨﺖ ﻧﻌﻤﺘﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﯿﮟ ، ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ، ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺣﺎﺳﺪ ﺍﭘﻨﮯ اللہ ﮐﺎ ﺷﮑﺮ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻗﺎﺻﺮ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ۔

ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺵ ﺭﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻏﻢ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﻏﻢ ﺳﻤﺠﮭﺌﮯ -
ﻣﺜﺒﺖ ﺭﺟﺤﺎﻥ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎﺋﯿﮟ ، ﻣﺤﻨﺖ ﮐﺮﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﯾﮟ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺟﺴﺘﺠﻮ ﮨﮯ -

ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﺑﺪﻟﮯ ﺧﻮﺷﺤﺎﻟﯽ ، ﺑﺪﻣﺰﺍﺟﯽ ﮐﮯ ﺑﺪﻟﮯ ﺧﻮﺵ ﻣﺰﺍﺟﯽ ، ﺑﺪﮔﻮﺋﯽ ﮐﮯ ﺑﺪﻟﮯ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﯾﺴﺎ ﻃﺮﺯﻋﻤﻞ ﺟﺎﺭﯼ رکھیں ﺟﻮﺩﻭﺳﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﺑﺎﻋﺚ ﺑﻨﮯ۔

ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﯾﮏ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﮑﺴﺖ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺮﻧﮯﮐﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﮈﺍﻟﯿﮟ -

ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﺌﮯ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺎﻡ ﻧﺎﻣﻤﮑﻦ ﻧﮩﯿﮟ ..ﺣﻮﺻﻠﮧ ، ﻣﻀﺒﻮﻁ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺻﻼﺣﯿﺘﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﻋﺘﻤﺎﺩ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺁﭘﮑﯽ ﻣﻨﺰﻝ ﭘﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎﻧﮯ ﮐﮯﻟﺌﮯ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﮯ۔

اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں دوسروں سے حسد کرنے سے بچائے اور جب کوئی حاسد حسد کرنے لگے تو اس کی شرارتوں سے بھی محفوظ فرمائے۔آمین!


موت اٹل حقیقت



موت اٹل حقیقت

موت سے تو کوئی بچ ہی نہیں سکتا
جیسے سورۃ نساء میں ہے

اَيْنَمَا تَكُـوْنُوْا يُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُـمْ فِىْ بُـرُوْجٍ مُّشَيَّدَةٍ ۗ
النساء:78

(تمہیں موت کا خوف ہے) تم جہاں کہیں بھی ہو خواہ
تم مضبوط قلعوں میں بند رہو موت تمہیں آ لے گی.

موت ایسی اٹل حقیقت ہے جس سے کسی نبی مرسل اور مقرب فرشتوں کو بھی خلاصی ملنا ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح قیامت کے دن اللہ کی عدالت میں اپنے اعمال کی جوابدہی کے لیے حاضر ہونا بھی اللہ کا اٹل فیصلہ ہے کہ کوئی مجرم خواہ اس کا تعلق کسی بھی نسل اور اصل سے ہو اس جوابدہی سے مستثنیٰ نہیں ہے۔



صرف اللہ کی عبادت کرو



ارشاد باری تعالیٰ ہے:

◄ وَاعْبُدُوا اللَّـهَ وَلَا تُشْرِ‌كُوا بِهِ شَيْئًا
النساء:36

اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو‘‘۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
◄ وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ
الأنبياء:25
یعنی تجھ سے پہلے جس جس رسول کو ہم نے بھیجا سب کی طرف یہی وحی کہ میرے سوا
کوئی عبادت کے لائق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کیا کرو

اور جگہ ارشاد ہے:
◄ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ
النحل:36
یعنی ہر امت میں رسول بھیج کر ہم نے یہ اعلان کروایا کہ صرف اللہ کی عبادت کرو اور
اس کے سوا سب سے بچو۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:
◄ شَهِدَ اللَّـهُ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ ۚ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
آل عمران:18

اللہ تعالیٰ، فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وه عدل کو قائم رکھنے والاہے، اس غالب اور حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کےلائق نہیں.....‘‘

اللہ کو ایک مانا جائے۔ صرف اسی کی عبادت کی جائے۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ کسی انسان کو وہ مقام نہ دیا جائے جو مالک کائنات کے لیے خاص ہے۔

جو برائی کا ارتکاب کرے



ارشاد باری تعالیٰ ہے
110۔ اور جو برائی کا ارتکاب کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے پھر اللہ سے مغفرت طلب کرے تو وہ اللہ کو درگزر کرنے والا، رحم کرنے والا پائے گا۔
111۔ اور جو برائی کا ارتکاب کرتا ہے وہ اپنے لیے وبال کسب کرتا ہے اور اللہ تو بڑا علم والا، حکمت والا ہے۔
112۔ اور جس نے خطا یا گناہ کر کے اسے کسی بے گناہ کے سر تھوپ دیا تو یقینا اس نے ایک بڑے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھایا۔
٭سورۃ النساء ----

تفسیر آیات

گناہ کا سر زد ہوجانا بعید از امکان نہیں۔ بسا اوقات انسان جذبات سے مغلوب ہو کر یا نادانی اور ناسمجھی سے غلطی کر بیٹھتا ہے۔ اب اس کے لئے یہ ہرگز روا نہیں کہ وہ اپنے گناہ پر پردہ ڈالنے کی کوشش شروع کردے۔ اس کے لئے مناسب یہ ہے کہ اپنے غفور ورحیم خدا کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اپنے قصور کا اعتراف کرے۔ اس پر صدق دل سے ندامت و شرمندگی کا اظہار کرے اور پختہ وعدہ کرے کہ آئندہ وہ ایسی نائشائستہ حرکت ہرگز نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو اپنے دامن رحمت میں پناہ دے گا اور اس کے گناہوں کو بخش دے گا۔
راہ حق سے بھٹکنے والوں کے لیے باب رحمت کھلا ہے۔ گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں اور اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں کے لیے وسیلۂ استغفار ہر وقت موجود ہے۔

آیت میں دو گناہوں کا ذکر ہے، برائی اور ظلم ۔ ان دونوں کا فرق بیان کرنے والے مفسرین میں بہت اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں، برائی وہ گناہ ہے جو کسی اور شخص کے ساتھ برائی کی ہو اور ظلم اپنے نفس پر کیا ہو۔ سُوۡٓءًا (برائی) سے مراد وہ زیادتی ہو سکتی ہے جو انسان دوسروں کے ساتھ کرتا ہے اور ظلم بہ نفس سے مراد احکام الٰہی کی خلاف ورزی ہے۔
یَرۡمِ:
( رم ی ) رمیٰ ۔ تیر اندازی ۔ بہتان لگانا بھی زبان کا زخم لگانا ہے، اسی لیے اسے رمیٰ بھی کہتے ہیں۔

بُہۡتَان:
ایسا الزام جسے سن کر انسان ششدر اور حیران رہ جائے۔

اس آیت میں ایک ایسے جرم کا ذکر ہے، جس کا تعلق الٰہی اقدار سے بھی ہے اور انسانی اقدار سے بھی۔ الٰہی اقدار سے متعلق اس لیے کہ یہ اللہ کے حکم کی نافرمانی اور خطا و گناہ کا ارتکاب کرنا ہے۔ انسانی اقدار سے متعلق اس لیے ہے کہ کسی گناہ کا الزام کسی بے گناہ شخص پر تھوپ دینا ہے۔

اس آیت میں بَرِیۡٓــًٔا تنوین تنکیر کے ساتھ مذکور ہے، جس کا مطلب بنتا ہے: کوئی بے گناہ۔ اس میں مذہب، قوم اور گروہ کی قید نہیں ہے۔ اگر کسی یہودی کے سر تھوپ دیا جائے تو بھی یہ صریح گناہ ہے۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام انسانی اقدار میں سب انسانوں کو مساوی حقوق دیتا ہے اور تمام انسان اسلام کے نزدیک محترم ہیں، بشرطیکہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کسی جرم و جاہلیت کا ارتکاب نہ کریں۔
لہٰذا اس آیت سے بہتان کے عظیم گناہ ہونے کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بہتان کو گناہ تصور ہی نہیں کیا جاتا۔


سورۃ الزمر:42



بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ

اللہ ہی جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے اور ان جانوں کو بھی جن کی موت ان کے سونے کے وقت نہیں آئی، پھر ان جانوں کو روک لیتا ہے جن پر موت کا حکم فرما چکا ہے اور باقی جانوں کو ایک میعاد معین تک بھیج دیتا ہے، بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور کرتے ہیں۔
سورۃ الزمر:42

تشریح کلمات

یَتَوَفَّی:( و ف ی ) وفاء مکمل اور پورا کرنے کے معنوں میں ہے۔

تفسیر آیات

1۔ اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الۡاَنۡفُسَ: یہاں الۡاَنۡفُسَ سے مراد ارواح ہیں۔ اللہ ارواح کو پورا قبض (وصول) کرتاہے، روح کو جسم سے نکال کر الگ اور لا تعلق کر دیتا ہے۔ قبض روح کے بارے میں تین قسم کی تعبیرات پائی جاتی ہیں

الف: اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الۡاَنۡفُسَ خود اللہ روحوں کو قبض کرتا ہے۔

ب: قُلۡ یَتَوَفّٰىکُمۡ مَّلَکُ الۡمَوۡتِ۔۔۔۔ (۳۲ سجدہ: ۱۱): ملک الموت قبض روح کرتا ہے۔

ج: حَتّٰۤی اِذَا جَآءَ اَحَدَکُمُ الۡمَوۡتُ تَوَفَّتۡہُ رُسُلُنَا۔۔۔۔ (۶ انعام: ۶۱): اللہ کے فرشتے روح قبض کرتے ہیں۔

ان تعبیروں میں کوئی تضاد نہیں ہے چونکہ روح قبض کرنے کا حکم اللہ صادر فرماتا ہے۔ اللہ کے اس حکم کو ملک الموت وصول کرتا ہے۔ آگے ملک الموت اپنے کارندوں کے ذریعے روحیں قبض کرتا ہے۔ مثلاً ایک سٹرک تعمیر ہوتی ہے۔ کہتے ہیں حکومت نے بنائی ہے۔ ٹھیکیدار نے بنائی، انجینئر نے بنائی، ان میں تضاد نہیں ہے۔ حکومت نے حکم صادر کیا، ٹھیکیدار نے اس حکم کو وصول کیا ،آگے کارندوں کے ذریعے کام انجام دیا۔

2۔ حِیۡنَ مَوۡتِہَا: مجمع البیان اور المیزان کے نزدیک مَوۡتِہَا کی ضمیر ابدان کی طرف ہے۔ واقع میں عبارت اس طرح ہے: حین موت ابدانھا ۔ چونکہ روح کے لیے موت نہیں ہے اور اگر نفس کو ذات کے معنوں میں لیا جائے، جیسے وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ اَفَلَا تُبۡصِرُوۡنَ۔ ( ۵۱ ذاریات: ۲۱) میں ہے تو بدن اور روح کے مجموع کا نام ہو گا۔ اس صورت میں موت ذات کو لاحق ہو گی جو ایک دوسرے سے جدا ہونے سے عبارت ہو گی لیکن یمسک اور یرسل قرینہ بن سکتا ہے کہ نفس سے مراد روح ہے چونکہ امساک و ارسال روح کے بارے میں ہے، بدن اس میں شامل نہیں ہے۔

3۔ وَ الَّتِیۡ لَمۡ تَمُتۡ فِیۡ مَنَامِہَا: یتوفی الانفس و التی لم تمت فی منامہا۔ اللہ ان کی ارواح کو قبض کر لیتا ہے جو اپنی نیند میں نہیں مرے۔ یہاں سے وفات اور موت میں فرق بھی سامنے آیا کہ نیند میں وفات ہے، موت نہیں ہے چونکہ توفی پورا وصول کرنے کو کہتے ہیں۔ وصولی کے بعد اگر واپس ہو گئیں تو یہ نیند ہے، واپس نہ ہوئیں تو یہ موت ہے۔ اس طرح نیند کے مقابلے میں بیداری ہوتی ہے اور موت کے مقابلے میں حیات ہوتی ہے۔

4۔ فَیُمۡسِکُ الَّتِیۡ قَضٰی عَلَیۡہَا الۡمَوۡتَ: یہاں بھی حذف مضاف فرض کرنا پڑے گا۔ یعنی قضی علی ابدانھا الموت ۔ جس بدن کے لیے موت کا فیصلہ ہو گیا ہے اسے روک لیتا ہے، بدن کی طرف واپس نہیں کرے گا اور بدن سے ہمیشہ کے لیے رابطہ ختم ہو جائے گا۔

5۔ وَ یُرۡسِلُ الۡاُخۡرٰۤی: اور دوسری کو ایک وقت کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ اس چھوڑنے سے بیداری آجاتی ہے۔ جیسا کہ پہلی صورت میں امساک روکے رکھنے پر موت آگئی تھی۔ اس طرح نیند ایک قسم کی موت ہے یعنی انسان کی مختلف قوتوں کا تعطل ہے۔

نیز اس بات کی دلیل ہے کہ روح جسم سے ہٹ کر ایک الگ حقیقت ہے۔ روح عالم خواب میں جدا ہو کر عالم تجرد میں آ جاتی ہے اور عالم تجرد میں آنے سے روح غیر زمانی، زمانے کی قید و بند سے آزاد ہو جاتی ہے۔ پھر اس کے لیے ماضی، مستقبل برابر ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ وہ مستقبل میں آنے والی چیزوں کو حاضر پاتی ہے۔ اس سے یہ بات سمجھنے میں آسانی ہو جاتی ہے کہ انسان خواب میں آنے والے ان واقعات کو کیسے دیکھ لیتا ہے جو ابھی وقوع پذیر نہیں ہوئے۔

روح خواب میں دماغ کے طبیعاتی عمل سے استفادہ کیے بغیر از خود سماعت و بصارت کی قوت رکھتی ہے۔ چنانچہ وہ خواب میں آوازیں سنتی ہے، باتیں سمجھتی ہے، شکلیں پہچان لیتی ہے حالانکہ خواب میں اس کی آنکھیں بند ہیں، کانوں سے کوئی طبیعی آواز نہیں ٹکرائی اس کے باوجود اس نے خواب میں دیکھا، سنا، پہچانا اور وہ سچا اور واقع کے عین مطابق ہے۔

خواب کے بارے میں مراح لبید ۲: ۳۳۵ میں حضرت علی علیہ السلام سے ایک روایت نقل ہوئی ہے:

سونے والے کا نفس اگر آسمان میں ہو اور جسم میں واپس ہونے سے پہلے خواب دیکھے وہ سچا خواب ہے اور اگر آسمان سے واپس بھیجے جانے کے بعد جسم میں استقرار سے پہلے دیکھا ہے تو یہ جھوٹا خواب ہو گا۔

مجمع البیان میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے بھی ایک روایت ہے:

مہمارات فی ملکوت السمٰوات فھو مما لہ تأویل و ما رات فیما بین السماء والارض فھو یخیلہ الشیطان ولا تأویل لہ۔

جو آسمانوں کی مملکت میں خواب دیکھا ہے اس کی تاویل ہے اور جو خواب آسمان اور زمین کے درمیان دیکھا ہے وہ شیطانی خیالات ہیں اس کی تاویل نہیں ہے۔

۶۔ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ: اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو روح پر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت پر اس طور پر غور کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ارواح کو کبھی ہمیشہ کے لیے قبض کرتا ہے اور کبھی وقتی طور پراور روح کے ذریعے نظامِ جسم کی تدبیر کرتا ہے، جیسا کہ ہم خواب میں روح اور جسم کے تعلق اور روح کی کرشمہ سازیوں کو محسوس کرتے ہیں۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی تدبیری نشانیوں میں سے ایک اہم نشانی ہے جو اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ انسان پر اللہ تعالیٰ کا مکمل تدبیری نظام حاکم ہے اور اس میں کسی غیر خدا کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔

اہم نکات
1۔ جسم کا نظام چلانے والی مدبر جسم پر حاکم، روح ہے۔

2۔ روح ایک مستقل موجود ہے۔

3۔ نیند اور موت کا تعلق ایک نظام سے ہے۔


اللہ کی طرف دوڑو



بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ
فَفِرُّوٓا اِلَى اللّـٰهِ ۖ اِنِّىْ لَكُمْ مِّنْهُ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ
پھر اللہ کی طرف دوڑو، بے شک میں تمہارے لیے اللہ کی طرف سے کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں۔
سورۃ الذاریات:50

تفسیر آیات:

1۔ فَفِرُّوۡۤا اِلَی اللّٰہِ: ہر جانب سے خطرات میں گھرا ہوا انسان ایک پناہ گاہ کا محتاج ہے۔ خواہشات، مفادات اور گمراہی کی طرف لے جانے والے بے شمار عوامل سے جان چھڑا کر مہربان رب کی امن و سکون والی پناہ گاہ کی طرف بھاگو۔ اس کی وسیع ترین رحمت کے دامن میں جگہ تلاش کرو۔ نفس پرستی، گناہوں اور شرک و کفر سے دوری اختیار کرو اور اللہ کی پناہ میں جاؤ۔

2۔ اِنِّیۡ لَکُمۡ مِّنۡہُ نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ: اے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! لوگوں سے کہ دیں کہ میں قبل از وقت تمہیں تنبیہ کرنے والا ہوں کہ اللہ کی پناہ میں نہ جانے کی صورت میں تم کس دائمی عذاب اور ابدی خسارے سے دوچار ہو جاؤ گے۔

گویا بتایا جا رہا ہے کہ شیطان تمہارے پیچھے ہے۔ نہ معلوم کس وقت آکر تمہیں دبوچ لے، اس لیے جلدی کرو۔ بھاگو اور ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اللہ کی پناہ میں آجاؤ۔ جسے وہاں پناہ مل جائے اسے شیطان کی وسوسہ اندازیاں کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتیں۔ علامہ پانی پتی لکھتے ہیں۔ ففروا من کل شیء الی اللہ بالتوجہ والمحبۃ والاستغراق وامتثال الا وامر۔ یعنی ہر چیز سے دامن چھڑا کر اس کی طرف بھاگو۔ اس راہ میں جو چیز حائل ہو اسے ٹھوکر سے پرے ہٹا دو۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی تمہاری توجہ اور محبت کا مرکز بن جائے۔ اس کے ذکر اور اس کے انوار کے مشاہدہ میں ہی تم محو ہو اور اس کے ہر حکم کی تعمیل بڑے ذوق و شوق سے کرو۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو گمراہی کے اندھیروں سے بچائے اور ہمیں ہدایت کا نور دے ۔
آمیــــــــن..!!



سورۃ الروم :48


بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ
اَللَّـهُ الَّـذِىْ يُـرْسِلُ الرِّيَاحَ فَتُثِيْـرُ سَحَابًا فَيَبْسُطُهٝ فِى السَّمَآءِ كَيْفَ يَشَآءُ وَيَجْعَلُـهٝ كِسَفًا فَتَـرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلَالِـهٖ ۖ فَاِذَآ اَصَابَ بِهٖ مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٓ ٖ اِذَا هُـمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ

اللہ وہ ہے جو ہوائیں چلاتا ہے پھر وہ بادل کو اٹھاتی ہیں پھر اسے آسمان میں جس طرح چاہے پھیلا دیتا ہے اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے پھر تو مینہ کو دیکھے گا کہ اس کے اندر سے نکلتا ہے، پھر جب اسے اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے پہنچاتا ہے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں۔
سورۃ الروم :48

الودق:

( و د ق ) بعض نے کہا ہے: بارش میں جو غبار سا نظر آتا ہے اسے ودقٌ کہا جاتا ہے اور کبھی اس سے مراد بارش بھی ہوتی ہے۔

تفسیر آیات
۱۔ اَللّٰہُ الَّذِیۡ یُرۡسِلُ الرِّیٰحَ: اللہ تعالیٰ اس حیات کی تدبیری امور کس حکیمانہ انداز میں انجام دیتا ہے، سب سے پہلے ہواؤں کو روانہ فرماتا ہے۔ یہ ہوائیں سمندر سے اٹھنے ولاے بخارات کی تشکیل کے لیے درج ذیل امور انجام دیتی ہیں:

الف: فَتُثِیۡرُ سَحَابًا: یہ ہوائیں بادلوں کو ابھارتی یعنی بادلوں کی تشکیل کرتی ہیں۔

ب: فَیَبۡسُطُہٗ فِی السَّمَآءِ: پھر اللہ ان بادلوں کو آسمان میں پھیلا دیتا ہے تاکہ کرہ ارض کا ایک وسیع حصہ سیراب ہو جائے۔ جن علاقوں کو سیراب کرنا اللہ کی مشیت میں ہے ان تک یہ بادل پہنچ جائیں۔

ج: وَ یَجۡعَلُہٗ کِسَفًا: پھر اسے تہ در تہ کر کے انبوہ بنا دیتا ہے چونکہ پتلا بادل بارش نہیں دے سکتا۔

د: فَتَرَی الۡوَدۡقَ یَخۡرُجُ مِنۡ خِلٰلِہٖ: الۡوَدۡقَ بارش کو کہتے ہیں۔ بادلوں کا انبوہ بننے پر اس کے درمیان سے بارش کے قطرے نکلتے ہیں۔

ھ: فَاِذَاۤ اَصَابَ بِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖۤ: جب بارش کے قطروں سے لوگ سیراب ہوتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں چونکہ اس بارش کے پانی میں زمین کی شادابی اور زندگی ہے۔

اللہ تعالیٰ بادلوں کو ٹکڑیوں کی صورت میں تقسیم کرتا ہے پھر اسی کے حکم سے بادلوں سے بارش برستی ہے۔ بارش برسنے سے پہلے لوگ مایوسی کا اظہار کررہے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جنہیں چاہتا ہے بارش سے سیراب کرتا ہے جن پر بارش برستی ہے وہ خوش ہوجاتے ہیں۔ بارش اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک بہت بڑی نشانی ہے۔ اس پر انسان سوچے تو اسے معلوم ہوجائے کہ لوگوں کو سیراب کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کس طرح بارش کا انتظام کرتا ہے۔

جہاں بارش برستی ہے غور فرمائیں سمندر اس مقام سے کتنی دورہوتا ہے۔
سمندر کا پانی سورج کی تپش سے بخارات کی صورت میں اٹھتا ہے جسے ہوائیں اٹھا کر ایک خاص بلندی پر لے جا کر کہاں سے کہاں لے جاتی ہیں۔ نہ سورج کی تپش سے پانی خشک ہوتا اور نہ ہی ہوا کی گرفت سے نکل کر نیچے گرتا ہے۔ بادلوں کی شکل میں لاکھوں، کروڑوں ٹن پانی ہوائیں ادھر ادھر لیے پھرتی ہیں کیا مجال کہ کوئی بادل جوں کا توں کہیں گرجائے بادل وہاں برستا ہے جہاں اسے اللہ تعالیٰ برسنے کا حکم دیتا ہے۔ اب بارش برسنے کے انداز اور رفتار پر غور فرمائیں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کہیں بادل یکدم اپنا پانی بہادے اگر ایسا ہوتا تو بستیوں کی بستیاں غرقاب ہوجاتیں اور زمین پر کوئی چیز باقی نہ رہتی کیا بخارات کا بنانا، ہواؤں کا اٹھانا اور فضا میں بادلوں کو ادھر ادھر لیے پھرنا پھر قطرہ قطرہ کرکے پانی برسنا اور اس سے ساری کے ساری فضا اور درختوں کے پتوں کو غسل دینا کیڑے مکوڑوں سے لے کر پرندوں تک پانی پہنچانا کسی حکومت کے بس کا کام ہوسکتا ہے ؟

بارش سے پہلے زمین کا یہ حال تھا کہ دھول اڑتی پھرتی تھی ، درختوں کے پتوں پر گرد و غبار پڑا تھا۔ بارش ہوتی ہے تو درخت دھل جاتے ہیں اور زمین لہلہانے لگتی ہے، گویا اسے نئی زندگی مل گئی ، پھر کئی قسم کے جان دار بھی بارش میں پیدا ہو کر بولنے اور چلنے پھرنے لگتے ہیں۔ ایک بہار آجاتی ہے جس سے دل مسرور ہوجاتے ہیں اور ساتھ ہی تمام مخلوق کی روزی کا سامان بھی میسر آنے لگتا ہے اور انسان جو برسات سے بیشتر مایوسی کا شکار ہو رہا تھا پھر سے خوش ہو کر پھولنے اور اترانے لگتا ہے۔ “



استغفار کرنا



ارشاد باری تعالیٰ ہے

‏‏‏‏وَمَنْ يَّعْمَلْ سُوْءًا اَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ يَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ‏‏‏‏
النساء:110 ‏‏‏‏
جو شخص کوئی برا کام کرے یا گناہ کر کے اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرے تو وہ دیکھ لے گا کہ اللہ عزوجل بخشش کرنے والا مہربان ہے۔

مسند احمد میں یہ روایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب کوئی شخص گناہ کرتا ہے پھر اللہ رحمن و رحیم کے سامنے حاضر ہو کر کہتا ہے کہ پروردگار مجھ سے گناہ ہو گیا تو معاف فرما اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے سے گو گناہ ہو گیا لیکن اس کا ایمان ہے کہ اس کا رب گناہ پر پکڑ بھی کرتا ہے اور اگر چاہے تو معاف بھی فرما دیتا ہے میں نے اپنے بندے کا گناہ معاف فرمایا، اس سے پھر گناہ ہو تو فرما دیتا ہے میں نے اپنے بندے کا گناہ معاف فرمایا، اس سے پھر گناہ ہو جاتا ہے یہ پھر توبہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ پھر بخشتا ہے چوتھی مرتبہ پھر گناہ کر بیٹھتا ہے پھر توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ معاف فرما کر کہتا ہے اب میرا بندہ جو چاہے کرے.
[ مسند احمد ] ‏‏‏‏
یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے۔
[صحیح بخاری:7507] ‏‏‏‏

آؤ اس موقعہ پر ہم گنہگار بھی ہاتھ اٹھائیں اور اپنے مہربان رحیم و کریم اللہ کے سامنے اپنے گناہوں کا اقرار کر کے اس سے معافی طلب کریں

اللہ تعالیٰ اے ماں باپ سے زیادہ مہربان
اے عفو ودرگزر کرنے والے
اور کسی بھکاری کو اپنے در سے خالی نہ پھیرنے والے
تو ہم خطا کاروں کی سیاہ کاریوں سے بھی درگزر فرما
اور ہمارے کل گناہ معاف فرما دے۔

آمیــــــــن..!!