Wednesday, December 11, 2019
سورۃ الروم :48
بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ
اَللَّـهُ الَّـذِىْ يُـرْسِلُ الرِّيَاحَ فَتُثِيْـرُ سَحَابًا فَيَبْسُطُهٝ فِى السَّمَآءِ كَيْفَ يَشَآءُ وَيَجْعَلُـهٝ كِسَفًا فَتَـرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلَالِـهٖ ۖ فَاِذَآ اَصَابَ بِهٖ مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٓ ٖ اِذَا هُـمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ
اللہ وہ ہے جو ہوائیں چلاتا ہے پھر وہ بادل کو اٹھاتی ہیں پھر اسے آسمان میں جس طرح چاہے پھیلا دیتا ہے اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے پھر تو مینہ کو دیکھے گا کہ اس کے اندر سے نکلتا ہے، پھر جب اسے اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے پہنچاتا ہے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں۔
سورۃ الروم :48
الودق:
( و د ق ) بعض نے کہا ہے: بارش میں جو غبار سا نظر آتا ہے اسے ودقٌ کہا جاتا ہے اور کبھی اس سے مراد بارش بھی ہوتی ہے۔
تفسیر آیات
۱۔ اَللّٰہُ الَّذِیۡ یُرۡسِلُ الرِّیٰحَ: اللہ تعالیٰ اس حیات کی تدبیری امور کس حکیمانہ انداز میں انجام دیتا ہے، سب سے پہلے ہواؤں کو روانہ فرماتا ہے۔ یہ ہوائیں سمندر سے اٹھنے ولاے بخارات کی تشکیل کے لیے درج ذیل امور انجام دیتی ہیں:
الف: فَتُثِیۡرُ سَحَابًا: یہ ہوائیں بادلوں کو ابھارتی یعنی بادلوں کی تشکیل کرتی ہیں۔
ب: فَیَبۡسُطُہٗ فِی السَّمَآءِ: پھر اللہ ان بادلوں کو آسمان میں پھیلا دیتا ہے تاکہ کرہ ارض کا ایک وسیع حصہ سیراب ہو جائے۔ جن علاقوں کو سیراب کرنا اللہ کی مشیت میں ہے ان تک یہ بادل پہنچ جائیں۔
ج: وَ یَجۡعَلُہٗ کِسَفًا: پھر اسے تہ در تہ کر کے انبوہ بنا دیتا ہے چونکہ پتلا بادل بارش نہیں دے سکتا۔
د: فَتَرَی الۡوَدۡقَ یَخۡرُجُ مِنۡ خِلٰلِہٖ: الۡوَدۡقَ بارش کو کہتے ہیں۔ بادلوں کا انبوہ بننے پر اس کے درمیان سے بارش کے قطرے نکلتے ہیں۔
ھ: فَاِذَاۤ اَصَابَ بِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖۤ: جب بارش کے قطروں سے لوگ سیراب ہوتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں چونکہ اس بارش کے پانی میں زمین کی شادابی اور زندگی ہے۔
اللہ تعالیٰ بادلوں کو ٹکڑیوں کی صورت میں تقسیم کرتا ہے پھر اسی کے حکم سے بادلوں سے بارش برستی ہے۔ بارش برسنے سے پہلے لوگ مایوسی کا اظہار کررہے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جنہیں چاہتا ہے بارش سے سیراب کرتا ہے جن پر بارش برستی ہے وہ خوش ہوجاتے ہیں۔ بارش اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک بہت بڑی نشانی ہے۔ اس پر انسان سوچے تو اسے معلوم ہوجائے کہ لوگوں کو سیراب کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کس طرح بارش کا انتظام کرتا ہے۔
جہاں بارش برستی ہے غور فرمائیں سمندر اس مقام سے کتنی دورہوتا ہے۔
سمندر کا پانی سورج کی تپش سے بخارات کی صورت میں اٹھتا ہے جسے ہوائیں اٹھا کر ایک خاص بلندی پر لے جا کر کہاں سے کہاں لے جاتی ہیں۔ نہ سورج کی تپش سے پانی خشک ہوتا اور نہ ہی ہوا کی گرفت سے نکل کر نیچے گرتا ہے۔ بادلوں کی شکل میں لاکھوں، کروڑوں ٹن پانی ہوائیں ادھر ادھر لیے پھرتی ہیں کیا مجال کہ کوئی بادل جوں کا توں کہیں گرجائے بادل وہاں برستا ہے جہاں اسے اللہ تعالیٰ برسنے کا حکم دیتا ہے۔ اب بارش برسنے کے انداز اور رفتار پر غور فرمائیں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کہیں بادل یکدم اپنا پانی بہادے اگر ایسا ہوتا تو بستیوں کی بستیاں غرقاب ہوجاتیں اور زمین پر کوئی چیز باقی نہ رہتی کیا بخارات کا بنانا، ہواؤں کا اٹھانا اور فضا میں بادلوں کو ادھر ادھر لیے پھرنا پھر قطرہ قطرہ کرکے پانی برسنا اور اس سے ساری کے ساری فضا اور درختوں کے پتوں کو غسل دینا کیڑے مکوڑوں سے لے کر پرندوں تک پانی پہنچانا کسی حکومت کے بس کا کام ہوسکتا ہے ؟
بارش سے پہلے زمین کا یہ حال تھا کہ دھول اڑتی پھرتی تھی ، درختوں کے پتوں پر گرد و غبار پڑا تھا۔ بارش ہوتی ہے تو درخت دھل جاتے ہیں اور زمین لہلہانے لگتی ہے، گویا اسے نئی زندگی مل گئی ، پھر کئی قسم کے جان دار بھی بارش میں پیدا ہو کر بولنے اور چلنے پھرنے لگتے ہیں۔ ایک بہار آجاتی ہے جس سے دل مسرور ہوجاتے ہیں اور ساتھ ہی تمام مخلوق کی روزی کا سامان بھی میسر آنے لگتا ہے اور انسان جو برسات سے بیشتر مایوسی کا شکار ہو رہا تھا پھر سے خوش ہو کر پھولنے اور اترانے لگتا ہے۔ “
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment