آزمائش سے مراد امتحان ہے جو کہ محض مصیبت کی صورت میں نہیں ہوتا ، امتحان انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں ہوتا ہے، زندگی کا ہر گوشہ امتحانات سے بھر پور ہے، لہذا یہی وجہ ہے کہ زندہ رہے، بیمار ہو، صحت یاب ہو، خوشی ملے، دولت ملے، رزق ملے یہ سب امتحان ہیں حتی کہ ارد گرد کا ماحول اور علم بھی امتحان ہے، اللہ تعالی ان سب امور میں انسان کے چال چلن کو پرکھتا ہے کہ وہ کامیاب ہو کر اصحاب یمین [دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال پانے والوں] میں شامل ہوتا ہے یا اصحاب شمال [بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال پانے والوں ] میں شامل ہوتا ہے، رحمن کی اطاعت کرتا ہے یا شیطان کی پیروی کرتا ہے.
اسی کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
◄( الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُور)
ترجمہ: وہ ذات جس نے موت اور زندگی کو پیدا ہی اس لیے کیا کہ تمہیں آزمائے کون اچھے عمل کرنے والا ہے، وہی غالب اور بخشنے والا ہے۔[الملك:2 ]
اسی طرح فرمایا:
◄( وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا )
ترجمہ: اسی ذات نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا فرمایا ، اور اس کا عرش پانی پر تھا، تا کہ تمہیں آزمائے کہ کون تم میں سے اچھے عمل کرنے والا ہے؟[هود:7]
ایک اور مقام پر فرمایا:
◄( وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَكِنْ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُون)
ترجمہ: اور اگر اللہ تعالی چاہتا تو تمہیں ایک ہی امت بنا دیتا، لیکن وہ تو تمہیں دیتا ہی آزمانے کے لیے ہے، اس لیے تم بھلائی کے کاموں میں آگے بڑھو، اللہ ہی کی طرف تم نے لوٹ کر جانا ہے، جن چیزوں میں تم اختلاف کرتے ہو ان کے متعلق وہی تمہیں بتلائے گا ۔
[المائدة:48]
سورہ انعام میں فرمایا:
◄( وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ الْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَحِيمٌ )
ترجمہ: وہی ذات ہے جس نے تمہیں زمین کے وارث بنایا اور کچھ کو دوسروں پر فوقیت دی، تا کہ تمہیں آزمائے ان چیزوں کے ذریعے جو اس نے تمہیں عطا کی ہیں، بیشک تیرا رب جلد سزا دینے والا اور بیشک وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔[الأنعام:165]
ان تمام تر آیات میں اس بات کا ذکر ہے کہ امتحان ہی انسان کی تخلیق کا راز ہے اور اس امتحان میں بندگی بھی شامل ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص بندگی اپنے وسیع مفہوم کی صورت میں بجا لانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہی کامیاب و کامران ہو گا، اور جس شخص سے بندگی میں کمی ہوئی تو اسی کمی کی مقدار کے برابر اس کا نقصان ہو گا۔
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے اس جہاں کی تخلیق، موت، حیات اور زمین پر موجودات کے ذریعے اس کی آباد کاری کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ آزمائش اور امتحان ہے تا کہ سب مخلوقات کے متعلق علم ہو کہ کون اچھے عمل کرتا ہے، کس کے اعمال اللہ تعالی کی پسندیدگی کے مطابق ہوتے ہیں، اگر عمل ایسے ہی ہوئے تو وہ اپنی تخلیق کے ہدف کے مطابق عمل پیرا ہے، اسی ہدف کیلیے یہ جہاں پیدا کیا گیا، اور وہ ہدف یہ ہے کہ محبت و اطاعت سے سرشار اللہ کی بندگی، اسی بندگی کو ہی اچھے عمل سے تعبیر کیا گیا ہے، اور یہی اچھے عمل محبت و رضائے الہی کے موجب ہیں.
" انتہی
" روضة المحبين " (61)
اسی کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
◄( الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُور)
ترجمہ: وہ ذات جس نے موت اور زندگی کو پیدا ہی اس لیے کیا کہ تمہیں آزمائے کون اچھے عمل کرنے والا ہے، وہی غالب اور بخشنے والا ہے۔[الملك:2 ]
اسی طرح فرمایا:
◄( وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا )
ترجمہ: اسی ذات نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا فرمایا ، اور اس کا عرش پانی پر تھا، تا کہ تمہیں آزمائے کہ کون تم میں سے اچھے عمل کرنے والا ہے؟[هود:7]
ایک اور مقام پر فرمایا:
◄( وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَكِنْ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُون)
ترجمہ: اور اگر اللہ تعالی چاہتا تو تمہیں ایک ہی امت بنا دیتا، لیکن وہ تو تمہیں دیتا ہی آزمانے کے لیے ہے، اس لیے تم بھلائی کے کاموں میں آگے بڑھو، اللہ ہی کی طرف تم نے لوٹ کر جانا ہے، جن چیزوں میں تم اختلاف کرتے ہو ان کے متعلق وہی تمہیں بتلائے گا ۔
[المائدة:48]
سورہ انعام میں فرمایا:
◄( وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ الْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَحِيمٌ )
ترجمہ: وہی ذات ہے جس نے تمہیں زمین کے وارث بنایا اور کچھ کو دوسروں پر فوقیت دی، تا کہ تمہیں آزمائے ان چیزوں کے ذریعے جو اس نے تمہیں عطا کی ہیں، بیشک تیرا رب جلد سزا دینے والا اور بیشک وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔[الأنعام:165]
ان تمام تر آیات میں اس بات کا ذکر ہے کہ امتحان ہی انسان کی تخلیق کا راز ہے اور اس امتحان میں بندگی بھی شامل ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص بندگی اپنے وسیع مفہوم کی صورت میں بجا لانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہی کامیاب و کامران ہو گا، اور جس شخص سے بندگی میں کمی ہوئی تو اسی کمی کی مقدار کے برابر اس کا نقصان ہو گا۔
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے اس جہاں کی تخلیق، موت، حیات اور زمین پر موجودات کے ذریعے اس کی آباد کاری کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ آزمائش اور امتحان ہے تا کہ سب مخلوقات کے متعلق علم ہو کہ کون اچھے عمل کرتا ہے، کس کے اعمال اللہ تعالی کی پسندیدگی کے مطابق ہوتے ہیں، اگر عمل ایسے ہی ہوئے تو وہ اپنی تخلیق کے ہدف کے مطابق عمل پیرا ہے، اسی ہدف کیلیے یہ جہاں پیدا کیا گیا، اور وہ ہدف یہ ہے کہ محبت و اطاعت سے سرشار اللہ کی بندگی، اسی بندگی کو ہی اچھے عمل سے تعبیر کیا گیا ہے، اور یہی اچھے عمل محبت و رضائے الہی کے موجب ہیں.
" انتہی
" روضة المحبين " (61)
No comments:
Post a Comment