بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ
وَعَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْـرُوْفِ ۚ فَاِنْ كَرِهْتُمُوْهُنَّ فَـعَسٰٓى اَنْ تَكْـرَهُوْا شَيْئًا وَّيَجْعَلَ اللّـٰهُ فِيْهِ خَيْـرًا كَثِيْـرًا
سورۃ النساء:19
اور عورتوں کے ساتھ اچھی طرح سے زندگی بسر کرو، اگر وہ تمہیں نا پسند ہوں تو ممکن ہے کہ تمہیں ایک چیز پسند نہ آئے مگر اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھی ہو۔
عورتوں کے ساتھ خوش سلوکی کا رویہ رکھو، ان کے ساتھ اچھا برتاؤ برتو، نرم بات کہو نیک سلوک کرو اپنی حالت بھی اپنی طاقت کے مطابق اچھی رکھو،
جیسے تم چاہتے ہو کہ وہ تمہارے لیے بنی سنوری ہوئی اچھی حالت میں رہے تم خود اپنی حالت بھی اچھی رکھو جیسے اور جگہ فرمایا
آیت «وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ»
[2-البقرة:228] یعنی جیسے تمہارے حقوق ان پر ہیں ان کے حقوق بھی تم پر ہیں۔
یعنی عورتوں کے ساتھ گفتگو اور معاملات میں اخلاق اور سلوک سے معاملہ رکھو جاہلیت میں جیسا ذلت اور سختی کا برتاؤ عورتوں کے ساتھ کیا جاتا تھا اس کو چھوڑ دو پھر اگر تم کو کسی عورت کی کوئی خو اور عادت خوش نہ آئے تو صبر کرو شاید اس میں کوئی خوبی بھی ہو اور ممکن ہے کہ تم کو ناپسندیدہ ہو کو ئی چیز اور اللہ تعالیٰ اس میں تمہارے لئے کوئی بڑی منفعت دینی یا دنیوی رکھ دے سو تم کو تحمل کرنا چاہئے اور بدخو کے ساتھ بدخوئی نہ چاہئے۔
اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ تم کو ایک چیز پسند نہ ہو مگر اللہ نے اس کے اندر تمہارے لیے کوئی بڑی بھلائی رکھ دی ہو"۔ یہ فقرہ یہاں اگرچہ میاں بیوی کے تعلق کے بارے میں آیا ہے۔ مگر اس کے اندر ایک عمومی تعلیم بھی ہے۔ قران کا یہ عام اسلوب ہے کہ ایک متعین معاملہ کا حکم بتاتے ہوئے اس کے درمیان ایک ایسی کلی ہدایت دے دیتا ہے جس کا تعلق آدمی کی پوری زندگی سے ہو۔
دنیا کی زندگی میں انسان کے لیے مل جل کر رہنا ناگزیر ہے۔ کوئی شخص بالکل الگ تھلگ زندگی گزار نہیں سکتا۔ اب چونکہ طبیعتیں الگ الگ ہیں، اسلیے جب بھی کچھ لوگ مل کر رہیں گے ان کے درمیان لازماً شکایات پیدا ہوں گی۔ ایسی حالت میں قابل عمل صورت صرف یہ ہے کہ شکایتوں کو نظر انداز کیا جائے اور خوش اسلوبی کے ساتھ تعلق کو نبھانے کا اصول اختیار کیا جائے۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اپنے ساتھی کی ایک خرابی آدمی کے سامنے آتی ہے اور وہ بس اسی کو لے کر اپنے ساتھی سے روٹھ جاتا ہے۔ حالانکہ اگر وہ سوچے تو وہ پائے کہ ہر ناموافق صورت حال میں کوئی خیر کا پہلو موجود ہے۔ کبھی کسی واقعہ میں آدمی کے لیے صبر کی تربیت کا امتحان ہوتا ہے۔ کبھی اس کے اندر اللہ کی طرف رجوع اور انابت کی غذا ہوتی ہے۔ کبھی ایک چھوٹی سی تکلیف میں کوئی بڑا سبق چھپا ہوا ہوتا ہے۔
کہ باوجود جی نہ چاہنے کے بھی عورتوں سے اچھی بود و باش رکھنے میں بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ بہت بڑی بھلائی عطا فرمائے ، ممکن ہے نیک اولاد ہو جائے اور اس سے اللہ تعالیٰ بہت سی بھلائیاں نصیب کرے.
صحیح حدیث میں ہے مومن مرد مومنہ عورت کو الگ نہ کرے اگر اس کی ایک آدھ بات سے ناراض ہو گا تو ایک آدھ خصلت اچھی بھی ہو گی ۔
(صحیح مسلم:1467)
محض اپنے مزاج کے موافق نہ ہونے کی وجہ سے اس سے کراہت کرنا درست نہیں ہے۔ اپنے وقتی ذوق کی تسکین نہ بھی ہو، ممکن ہے عقل و فطرت کے اعتبار سے اس عورت میں خیر کثیر ہو۔ اس میں ایک الٰہی وعدہ مضمر ہے کہ جو لوگ ظاہری شکل و صورت کی جگہ باطنی طہارت کو ترجیح دیتے ہیں ، ان کے لیے عورتیں خیر کثیر کا سرچشمہ ہوا کرتی ہیں ۔
قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ وہ عورت جسے دوسرے ادیان ’’ شر محض ‘‘ کہتے ہیں، قرآن نے اسے ’’ خیر کثیر ‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔
وَعَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْـرُوْفِ ۚ فَاِنْ كَرِهْتُمُوْهُنَّ فَـعَسٰٓى اَنْ تَكْـرَهُوْا شَيْئًا وَّيَجْعَلَ اللّـٰهُ فِيْهِ خَيْـرًا كَثِيْـرًا
سورۃ النساء:19
اور عورتوں کے ساتھ اچھی طرح سے زندگی بسر کرو، اگر وہ تمہیں نا پسند ہوں تو ممکن ہے کہ تمہیں ایک چیز پسند نہ آئے مگر اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھی ہو۔
عورتوں کے ساتھ خوش سلوکی کا رویہ رکھو، ان کے ساتھ اچھا برتاؤ برتو، نرم بات کہو نیک سلوک کرو اپنی حالت بھی اپنی طاقت کے مطابق اچھی رکھو،
جیسے تم چاہتے ہو کہ وہ تمہارے لیے بنی سنوری ہوئی اچھی حالت میں رہے تم خود اپنی حالت بھی اچھی رکھو جیسے اور جگہ فرمایا
آیت «وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ»
[2-البقرة:228] یعنی جیسے تمہارے حقوق ان پر ہیں ان کے حقوق بھی تم پر ہیں۔
یعنی عورتوں کے ساتھ گفتگو اور معاملات میں اخلاق اور سلوک سے معاملہ رکھو جاہلیت میں جیسا ذلت اور سختی کا برتاؤ عورتوں کے ساتھ کیا جاتا تھا اس کو چھوڑ دو پھر اگر تم کو کسی عورت کی کوئی خو اور عادت خوش نہ آئے تو صبر کرو شاید اس میں کوئی خوبی بھی ہو اور ممکن ہے کہ تم کو ناپسندیدہ ہو کو ئی چیز اور اللہ تعالیٰ اس میں تمہارے لئے کوئی بڑی منفعت دینی یا دنیوی رکھ دے سو تم کو تحمل کرنا چاہئے اور بدخو کے ساتھ بدخوئی نہ چاہئے۔
اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ تم کو ایک چیز پسند نہ ہو مگر اللہ نے اس کے اندر تمہارے لیے کوئی بڑی بھلائی رکھ دی ہو"۔ یہ فقرہ یہاں اگرچہ میاں بیوی کے تعلق کے بارے میں آیا ہے۔ مگر اس کے اندر ایک عمومی تعلیم بھی ہے۔ قران کا یہ عام اسلوب ہے کہ ایک متعین معاملہ کا حکم بتاتے ہوئے اس کے درمیان ایک ایسی کلی ہدایت دے دیتا ہے جس کا تعلق آدمی کی پوری زندگی سے ہو۔
دنیا کی زندگی میں انسان کے لیے مل جل کر رہنا ناگزیر ہے۔ کوئی شخص بالکل الگ تھلگ زندگی گزار نہیں سکتا۔ اب چونکہ طبیعتیں الگ الگ ہیں، اسلیے جب بھی کچھ لوگ مل کر رہیں گے ان کے درمیان لازماً شکایات پیدا ہوں گی۔ ایسی حالت میں قابل عمل صورت صرف یہ ہے کہ شکایتوں کو نظر انداز کیا جائے اور خوش اسلوبی کے ساتھ تعلق کو نبھانے کا اصول اختیار کیا جائے۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اپنے ساتھی کی ایک خرابی آدمی کے سامنے آتی ہے اور وہ بس اسی کو لے کر اپنے ساتھی سے روٹھ جاتا ہے۔ حالانکہ اگر وہ سوچے تو وہ پائے کہ ہر ناموافق صورت حال میں کوئی خیر کا پہلو موجود ہے۔ کبھی کسی واقعہ میں آدمی کے لیے صبر کی تربیت کا امتحان ہوتا ہے۔ کبھی اس کے اندر اللہ کی طرف رجوع اور انابت کی غذا ہوتی ہے۔ کبھی ایک چھوٹی سی تکلیف میں کوئی بڑا سبق چھپا ہوا ہوتا ہے۔
کہ باوجود جی نہ چاہنے کے بھی عورتوں سے اچھی بود و باش رکھنے میں بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ بہت بڑی بھلائی عطا فرمائے ، ممکن ہے نیک اولاد ہو جائے اور اس سے اللہ تعالیٰ بہت سی بھلائیاں نصیب کرے.
صحیح حدیث میں ہے مومن مرد مومنہ عورت کو الگ نہ کرے اگر اس کی ایک آدھ بات سے ناراض ہو گا تو ایک آدھ خصلت اچھی بھی ہو گی ۔
(صحیح مسلم:1467)
محض اپنے مزاج کے موافق نہ ہونے کی وجہ سے اس سے کراہت کرنا درست نہیں ہے۔ اپنے وقتی ذوق کی تسکین نہ بھی ہو، ممکن ہے عقل و فطرت کے اعتبار سے اس عورت میں خیر کثیر ہو۔ اس میں ایک الٰہی وعدہ مضمر ہے کہ جو لوگ ظاہری شکل و صورت کی جگہ باطنی طہارت کو ترجیح دیتے ہیں ، ان کے لیے عورتیں خیر کثیر کا سرچشمہ ہوا کرتی ہیں ۔
قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ وہ عورت جسے دوسرے ادیان ’’ شر محض ‘‘ کہتے ہیں، قرآن نے اسے ’’ خیر کثیر ‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔
No comments:
Post a Comment