Monday, April 25, 2022

رات دن مال خرچ کرنے والوں کی فضیلت

  رات دن مال خرچ کرنے والوں کی فضیلت اور منقبت اس آیت میں رات دن اللہ کی رضا کے لیے مال خرچ کرنے کا تذکرہ ہے۔ جو پوشیدہ  طور پر اللہ کی راہ میں مال خرچ کریں گے یا علانیہ طور پر قیامت کے دن ان کا خرچ کیا ہوا مال اجر وثواب کی صورت میں انہیں مل جائے گا ۔ وہ وہاں غمگین نہ ہوں گے ، جبکہ بہت سے لوگ بدعملی کی وجہ سے یا اپنے مالوں کو گناہوں میں خرچ  کرنے کی وجہ سے غمگین ہوں گے۔ اس آیت میں مال خرچ کرنے کے بیان میں سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً فرمایا اس سے معلوم ہوا کہ لوگوں کے سامنے مال خرچ کرنا ریا کاری میں شامل نہیں جس سے گناہ ہو ، اور خرچ کرنا اکارت ہوجاتا ہو ، گو خفیہ طریقہ پر خرچ کرنے کی فضیلت زیادہ ہے لیکن اگر دکھاوا مقصود نہ ہو نام و نمود پیش نظر نہ ہو اور مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا ہی ہو تو لوگوں کے سامنے خرچ کرنے سے ریا کاری میں شمار نہ ہوگا ، ریا کاری اپنے دل کے جذبہ اور ارادہ کا نام ہے ، اگر کوئی شخص تنہائی میں نیک عمل کرے اور مال خرچ کرے اور پھر لوگوں کو معتقد بنانے کے لیے اپنے عمل کو ظاہر کرے یا دل میں یہ تڑپ ہو کہ میرے اعمال لوگوں پر ظاہر ہوں تاکہ میری تعریف ہو تو یہ بھی ریا میں شامل ہوجائے گا بلکہ اس میں دہرا ریا ہے کہ لوگ یوں کہیں گے کہ دیکھو کیسے مخلص ہیں تنہائیوں میں عمل کرتے ہیں۔

نیت میں اخلاص ہو تو اعلانیہ صدقہ کرنا ریاکاری میں شامل نہیں۔ صدقہ کرنے کے انداز اور طریقہ کے بارے میں پہلے ارشاد یہ تھا کہ چھپا کر صدقہ کرو یا اعلانیہ دونوں صورتیں تمہارے لیے بہتر ہیں۔ اس کے بدلے تمہارے گناہوں کو معاف کردیا جائے گا۔ یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ جو لوگ رات کی تاریکی میں صدقہ کریں یا دن کی روشنی میں سب کے سامنے کریں یا چھپ کر ایسے لوگوں کے اخلاص ، جذبات اور   صدقات کے مطابق ان کے رب کے ہاں نہایت ہی عمدہ اجر ہے۔ جس میں ایک رائی کے دانے کے برابر بھی کمی نہیں کی جائے گی۔ اس اجر کے ساتھ انہیں یہ بھی انعام سنایا جاتا ہے کہ انہیں اپنے مستقبل کے بارے میں خوفزدہ اور فکر مند ہونے کا اندیشہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ غربت کے خوف اور دولت کے لالچ سے بےنیاز ہو کر مستحق غریب کو معاشی غم سے نجات دلایا کرتے ہیں اس کے بدلے ان پر نہ خوف طاری ہوگا اور نہ ہی انہیں کسی قسم کی پریشانی اور پشیمانی ہوگی۔ دنیا میں بھی ان کا مال کم نہیں ہوگا۔ 


مسائل 

1۔ صدقہ دن رات، چھپ کر یا اعلانیہ کیا جائے اس کا اجر اللہ کے ہاں محفوظ ہے۔ 

2۔ صدقہ کرنے والے کو کوئی خوف و خطر نہیں ہوگا۔ تفسیر بالقرآن


 خوف وغم سے مبرّا حضرات : 

1۔ ہدایت پر عمل پیرا ہونے والا خوف زدہ اور غمگین نہیں ہوگا۔ 

(البقرۃ : 38) 

2۔ ایمان اور عمل صالح کرنے والے خوف زدہ نہ ہوں گے۔ 

(البقرۃ : 62 ) 

3۔ رضائے الٰہی کے لیے خرچ کرنے والے بےخوف وبے غم ہوں گے۔

 (البقرۃ : 262) 

4۔ ایمان، نماز اور زکوٰۃ مومن کو بےخوف وبے غم کرتی ہے۔

 (البقرۃ : 277)

5۔ ایمان پر قائم رہنے والوں اور اصلاح کرنے والوں پر خوف وغم نہ ہوگا۔ 

(الانعام : 48)



آمیـــــــن


 

اے اللہ


 

Saturday, April 23, 2022

مستحق صدقات کون ہیں

 مستحق صدقات کون ہیں

صدقہ ان مہاجرین کا حق ہے جو دنیوی تعلقات کاٹ کر ہجرتیں کر کے وطن چھوڑ کر کنبے قبیلے سے منہ موڑ کر اللہ کی رضا مندی کیلئے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ گئے ہیں، جن کے معاش کا کوئی ایسا ذریعہ نہیں جو انہیں کافی ہو اور وہ سفر کر سکتے ہیں کہ چل پھر کر اپنی روزی حاصل کریں «ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ» کے معنی مسافرت کے ہیں جیسے 

«وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ» 

[ 4-النسأ: 101 ] ‏‏‏‏ اور 

«يَضْرِبُونَ فِي الْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِن فَضْلِ اللَّـهِ» 

[ 73۔ المزمل: 20 ] ‏‏‏‏ 

میں ان کے حال سے جو لوگ ناواقف ہیں وہ ان کے لباس اور ظاہری حال اور گفتگو سے انہیں مالدار سمجھتے ہیں۔ 

ایک حدیث میں ہے مسکین وہی نہیں جو دربدر جاتے ہیں کہیں سے دو ایک کھجوریں مل گئیں کہیں سے دو ایک لقمے مل گئے، کہیں سے دو ایک وقت کا کھانا مل گیا بلکہ وہ بھی مسکین ہے جس کے پاس اتنا نہیں جس سے وہ بےپرواہ ہو جائے اور اس نے اپنی حالت بھی ایسی نہیں بنائی جس سے ہر شخص اس کی ضرورت کا احساس کرے اور کچھ احسان کرے اور نہ وہ سوال کے عادی ہیں۔ 

[صحیح بخاری:1479] ‏‏‏‏ 

تو انہیں ان کی اس حالت سے جان لے گا جو صاحب بصیرت پر مخفی نہیں رہتیں۔

جیسے اور جگہ ہے 

«سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ» 

[ 48۔ الفتح: 29 ] ‏‏‏‏ 

ان کی نشانیاں ان کے چہروں پر ہیں اور فرمایا 

«وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِيْ لَحْنِ الْـقَوْلِ» 

[ 47۔ محمد: 30 ] ‏‏‏‏ 

ان کے لب و لہجہ سے تم انہیں پہچان لو گے

‏‏‏‏ سنو قرآن کا فرمان ہے 

«اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِيْنَ» 

[ 45۔ الحجر: 75 ] ‏‏‏‏ 

بالیقین اس میں اہل بصیرت کیلئے نشانیاں ہیں، یہ لوگ کسی پر بوجھل نہیں ہیں، کسی سے ڈھٹائی کے ساتھ سوال نہیں کرتے نہ اپنے پاس ہوتے ہوئے کسی سے کچھ طلب کرتے ہیں، جس کے پاس ضرورت کے مطابق ہو اور پھر بھی وہ سوال کرے وہ چپک کر مانگنے والا کہلاتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ایک دو کھجوریں اور ایک دو لقمے لے کر چلے جانے والے ہی مسکین نہیں بلکہ حقیقتاً مسکین وہ ہیں جو باوجود حاجت کے خودداری برتیں اور سوال سے بچیں۔

پھر فرمایا تمہارے تمام صدقات کا اللہ کو علم ہے اور جبکہ تم پورے محتاج ہو گئے، اللہ پاک اس وقت تمہیں اس کا بدلہ دے گا، اس پر کوئی چیز مخفی نہیں۔ پھر ان لوگوں کی تعریفیں ہو رہی ہیں جو ہر وقت اللہ کے فرمان کے مطابق خرچ کرتے رہتے ہیں، انہیں اجر ملے گا اور ہر خوف سے امن پائیں گے، بال بچوں کے کھلانے پر بھی انہیں ثواب ملے گا، جیسے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ فتح مکہ والے سال جبکہ آپ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما کی عیادت کو گئے تو فرمایا ایک روایت میں ہے کہ حجۃ الوداع والے سال فرمایا تو جو کچھ اللہ کی خوشی کیلئے خرچ کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے بدلے تیرے درجات بڑھائے گا، یہاں تک کہ تو جو اپنی بیوی کو کھلائے پلائے اس کے بدلے بھی۔

[صحیح بخاری:6733:صحیح]


‏‏‏‏

صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم__❤


 

اَسْتَغْفِرُ اللهَ




گنتی کے چند روز

اَيَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ ۚ

گنتی کے چند روز

البقرۃ:184




لَيْلَـةِ الْقَدْرِ کی دعاء

 

لَيْلَـةِ الْقَدْرِ کی دعاء
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو
لیلۃ القدر میں پڑھنے کے لیے یہ دعاء سکھلائی:
«اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّى»
''اے اللہ! آپ معاف کرنے والے ہیں۔ معافیوں کو پسند کرتے ہیں۔ مجھے بھی معاف فرمائیں۔''
سنن ترمذی:3513 ، سنن ابن ماجہ:3850



Friday, April 22, 2022

لیلۃ القدر کی تلاش میں محنت

 لیلۃ القدر کی تلاش میں محنت


1. عَنْ عَائِشَةَ رضي ﷲ عنها أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: قَالَ: تَحَرَّوْا لَیْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْوِتْرِ مِنَ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، وَفِي رِوَایَةٍ: فِي السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب صلاة التراویح، باب تحري لیلة القدر في الوتر من العشر الأواخر، 2/710، الرقم: 1913، ومسلم في الصحیح، کتاب الصیام، باب فضل لیلة القدر والحث علی طلبھا وبیان محلھا وأرجی أوقات طلبھا، 2/823، الرقم: 1165/1169، والترمذي في السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء في لیلة القدر، 3/158، الرقم: 792


’’حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: شبِ قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں (اور ایک روایت میں ہے کہ رمضان کی آخری سات طاق راتوں) میں تلاش کیا کرو۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

2. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي ﷲ عنہما أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: الْتَمِسُوْهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ لَیْلَةَ الْقَدْرِ فِي تَاسِعَةٍ تَبْقٰی، فِي سَابِعَةٍ تَبْقٰی، فِي خَامِسَةٍ تَبْقٰی. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالْبَیْهَقِيُّ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الصیام، باب تحري لیلة القدر في الوتر من العشر الأواخر، 2/711، الرقم: 1917، والبیهقي في السنن الکبری، 4/308، الرقم: 8316، وابن حجر العسقلاني في تغلیق التعلیق، 3/205، والشوکاني في نیل الأوطار، 4/370


’’حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی ﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس (یعنی شبِ قدر) کو رمضان المبارک کے آخری عشرے میں باقی رہنے والی راتوں میں سے نویں، ساتویں اور پانچویں رات میں تلاش کرو۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری اور بیہقی نے روایت کیا ہے



Tuesday, April 19, 2022

روزہ کا اصل مقصد

 


روزہ کا اصل مقصد تزکیہ و تقوی کا حصول ہے ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ياَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَيْکُمُ الصِّيَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ. 

(البقره،2:183)

اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے ان پر فرض کیے گئے تھے جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیز گار ہو جاؤ''۔

تقویٰ کا حصول اس وقت تک ممکن نہیں ، جب تک کہ انسان دنیا کی خواہشات کے بندھن سے آزاد نہ ہو جائے اور ماہِ رمضان خواہشاتِ نفس کے بے لگام گھوڑے کو لگام ڈالتا ہے۔ روزہ بظاہر ایک مشقت والی عبادت ہے لیکن حقیقت میں اپنے مقصد اور نتیجے کے لحاظ سے یہ دنیا میں موجب راحت اور آخرت میں باعث رحمت ہے۔ روزہ دار دن بھر اپنے رب کے حکم کی تعمیل میں نہ کچھ کھاتا ہے نہ پیتا ہے لیکن افطار کے وقت اس پابندی کے اختتام کو بھی اپنے لئے باعث مسرت سمجھتا ہے۔




آپ نماز کیوں پڑھتے ہیں۔؟


آپ نماز کیوں پڑھتے ہیں۔؟
یہ سوال میری لائف کا بہت مشکل سوال ثابت ہوا۔
فرض ہے۔۔،؟

شکر ادا کرنے کے لئے۔۔،؟
خدا ہے ہی اس قابل۔۔،؟
جہنم کے خوف سے۔۔،؟
یہ وہ جواب ہیں جو مجھے اس کے جواب میں ملتے۔

ایک ٹائم تھا جب میں نماز جہنم کے خوف سے پڑھتا تھا
جہنم کا خوف مجھے اٹھا کے نماز کے لئے جا کھڑا کرتا تھا
پر مجھے وہ نماز فرض کی ادائیگی کبھی بھی نہ لگ سکی۔
پھر مجھ سے نماز نہ تو آرام سے پڑھی جاتی تھی، اور نہ یکسوئی سے
پھر خوف بھی کم ہوتا گیا۔

پھر جنّت کا بیان پڑھا تو اس کو پا لینے کی چاہ جاگی۔
میں پھر سے نماز پڑھنے لگا۔
مگر یہ بھی چند دن ہی رہی کیفیت۔

اپنے ابّا جی سے کہا تو بولے۔۔
بیٹا اس نے دنیا کی ھر نعمت سے نوازا ہے تم ان کا شکر ادا کرنے کے لئے پڑھا کرو۔
ذہن میں یہ رکھ کر بھی نماز پڑھ لی۔
دل کی حالت اب بھی وہی تھی۔

پھر ایک دن بہت عجیب بات ہوئی۔۔
میں جائے نماز پہ کھڑا ہوا اور مجھے نماز بھول گئی۔
بہت یاد کرنے کی کوشش کی۔
بھلا نماز ہم کیسےبھول سکتےہیں؟
مجھے خود پہ بہت رونا آیا۔
اور میں وہیں بیٹھ کے رونے لگا۔
تو مجھے لگا کوئی تسلی دینے والا ہاتھ ہے میرے سر پہ،، جیسے بچہ رو رہا ہو تو ہم سر پہ ہاتھ رکھ کے دلاسا دیتے ہیں
مجھے لگا کوئی پوچھ رہا ہے، کہ کیا ہوا۔؟ میں نے کہا نماز یاد نہیں۔
تو جیسے پوچھا گیا ،،، تَو ؟
میں حیران پریشان ،، اس تَو کا جواب تو میرے پاس بھی نہیں تھا شائد 
پھر لگا کوئی مسکرا یا ہو ،، اور کہا ہو 
نماز کیوں پڑھتے ہو ، ؟
خوف سے ؟
پر وہ تو غفور ہے ، رحیم ہے ، پھر خوف کیسا ؟
جنّت کے واسطے ؟ پر وہ تو درگزر فرماتا ہے 
شکر ادا کرنا ہے ؟ اسےضرورت نہیں ،،،،
فرض ہے؟ تو زمین پہ سر ٹکرانے کو نماز نہیں کہا جاتا 
وہ اس قابل ہے ؟ تم کیا جانو وہ کس قابل ہے ،،،،
میرے پاس الفاظ ختم، میں بس اس آواز میں گم ،،،،،
وہ جو ہے نہ ،،،
وہ تم سے کلام چاہتا ہے 
تم اسی کو دوست مانو ، اسی سے مشورہ کرو 
اسی کو داستان سناؤ ،،،
جیسے اپنے دوست کو سناتے ہو ، دل کی بیقراری کم ہوگی 
پھر نماز میں سکون ملے گا ،،،،،
میری آنکھ کھلی ، وہ یقیناً خواب تھا 
میں نے دوبارہ سے وضو کر کے نماز شروع کی
نماز خود بخود ادا ہوتی چلی گئی ،،،،،
دل میں سکون آتا چلا گیا 
مگر میرا دل سجدے سے سر اٹھانے کو نہ کرے ، مجھے لگا میرے پاس ہے وہ ، مجھ سے بات کر رہا ہے 
پھر اپنے دل کی ساری باتیں ہوتی چلی گیئں ،،
گرہیں کھلتی گیئں ،
سکون ملتا گیا ،،،
آسانیاں ہوتی گیئں ،،،
پھر آنکھ اذان سے پہلے کھلتی 
محبوب سے ملاقات کا انتظار رہنے لگا 
فرض کے ساتھ نفلی نمازیں بھی ادا ہوتی گیئں 
اللہ کا کرم ہو گیا ،



آمیــــــــن

 


قرآن مجید کے فضائل

قرآن مجید کے فضائل:

---------------------

اگر ہم قرآن سے پوچھیں کہ آپ کے فضائل کیا ہیں؟ تو وہ جواب میں کہے گا کہ میرے تو بہت سے فضائل ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:


٭... مجھے رمضان المبارک کے مہینے میں نازل کیا ہے، فرمایا:

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنزِلَ فِیْہِ الْقُرْآن․ 

(البقرة:185)

”رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا ہے۔“


٭... مجھے شب قدر میں اتارا ہے فرمایا:

إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِیْ لَیْْلَةِ الْقَدْرِ․ 

( القدر:1)

”بے شک ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں اتارا ہے۔“


٭... مجھے عربی زبان میں نازل کیا ہے، فرمایا:

إِنَّا أَنزَلْنَاہُ قُرْآناً عَرَبِیّاً لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ

( یوسف:2)

ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا۔


٭...مجھے سارے لوگوں کی ہدایت کے لیے اتارا ہے ، فرمایا:

ہُدًی لِّلنَّاس․

( البقرہ:185) ”ہدایت ہے لوگوں کے واسطے۔“


٭...میں حق وباطل کے درمیان فرق کرنے والا ہوں، فرمایا:

وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدَی وَالْفُرْقَانِ

( البقرہ:185)

”اور یہ ( قرآن کی آیتیں) ہدایت کی روشن دلیلیں اور حق وباطل میں فرق کرنے والا ہے۔


٭... میں خالص روشنی ہوں، فرمایا:

وَأَنزَلْنَا إِلَیْْکُمْ نُوراً مُّبِیْنا․ 

(النساء:174)

اور ہم نے تمہاری طرف ایک ظاہر روشنی اتاری ہے۔


٭... میں نے سارے مسائل کی وضاحت کی ہے، فرمایا:

وَنَزَّلْنَا عَلَیْْکَ الْکِتَابَ تِبْیَاناً لِّکُلِّ شَیْْء ٍ

(النحل:89)

اور ہم نے تجھ پر ایک ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں ہر چیز کا کافی بیان ہے، نیز فرمایا 


وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ہَذَا الْقُرْآنِ مِن کُلِّ مَثَلٍ فَأَبَی أَکْثَرُ النَّاسِ إِلاَّ کُفُوراً

( بنی اسرائیل:89) 

”اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لیے ہر ایک قسم کی مثال کھول کر بیان کر دی ہے ۔


٭... باطل میرے پاس نہیں آسکتا ،فرمایا:

إِنَّہُ لَکِتَابٌ عَزِیْزٌ لَا یَأْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِن بَیْْنِ یَدَیْْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہِ تَنزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ ․ 

(سورۃ فصلت:42-41)

” اس کے پاس باطل نہ اس کے آگے سے آتا ہے اور نہ اس کے پیچھے سے، ایک کمال حکمت والے، تمام خوبیوں والے کی طرف سے اتاری ہوئی ہے۔


٭... میں روحانی بیماریوں کے لیے علاج ہوں، فرمایا:

﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَاء تْکُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَشِفَاء لِّمَا فِیْ الصُّدُورِ﴾․ 

(یونس:57)

”اے لوگو! تمہارے رب سے نصیحت اور دلوں کے روگ کی شفا تمہارے پاس آئی ہے۔


٭... میں تئیس سال کے عرصہ میں نازل ہوا ہوں، تاکہ لوگوں کے دلوں میں جانشین ہو جاؤں، فرمایا:

وَقُرْآناً فَرَقْنَاہُ لِتَقْرَأَہُ عَلَی النَّاسِ عَلَی مُکْثٍ وَنَزَّلْنَاہُ تَنزِیْلا․

( بنی اسرائیل:106)

”اور ہم نے قرآن کو تھوڑا تھوڑا کرکے اتارا ہے ، تاکہ تو مہلت کے ساتھ اسے لوگوں کو پڑھ کر سنائے اور ہم نے اسے آہستہ آہستہ اتارا ہے۔


٭... میں ایسی مؤثر کتاب ہوں اگر پہاڑ پر بھی نازل کیا جاؤں تو وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا، فرمایا:

لَوْ أَنزَلْنَا ہَذَا الْقُرْآنَ عَلَی جَبَلٍ لَّرَأَیْْتَہُ خَاشِعاً مُّتَصَدِّعاً مِّنْ خَشْیَةِ اللَّہِ 

( الحشر:21)

”اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو آپ اسے دیکھتے کہ الله کے خوف سے جھک کر پھٹ جاتا۔


٭... میری حفاظت کی ذمہ داری الله جل جلالہ نے لی ہے، فرمایا:

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ

(الحجر:9)

”ہم نے یہ نصیحت اتاری، بے شک ہم اس کے نگہبان ہیں۔



ماہِ رمضان

 عام طور پر دو چیزیں گناہ اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا باعث بنتی ہیں:


1. نفس کی بڑھتی ہوئی خواہشات اور اس کی سرکشی
2. شیطان کا مکر و فریب

شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے، وہ نہ صرف خود بلکہ اپنے لاؤ لشکر اور چیلوں کی مدد سے دنیا میں ہر انسان کو دینِ حق سے غافل کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے مگر رمضان المبارک کی اتنی برکت و فضیلت ہے کہ شیطان کو اس ماہ مبارک میں جکڑ دیا جاتا ہے۔

1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
’’جب ماہ رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو پابہ زنجیر کر دیا جاتا ہے۔‘‘

رمضان المبارک میں شیطانوں کے جکڑ دیئے جانے سے یہ مراد ہے کہ شیطان لوگوں کو بہکانے سے باز رہتے ہیں اور اہلِ ایمان ان کے وسوسے قبول نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روزے کے باعث حیوانی قوت مغلوب ہو جاتی ہے اور اس کے برعکس قوتِ عقلیہ جو طاقت اور نیکیوں کا باعث ہے، روزے کی وجہ سے قوی ہوتی ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ رمضان میں عام دنوں کی نسبت گناہ کم ہوتے ہیں اور عبادت زیادہ ہوتی ہے۔

شیطانوں کے جکڑے جانے کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ گناہوں میں منہمک ہونے والے اکثر لوگ رمضان میں باز آجاتے ہیں اور توبہ کرکے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ پہلے وہ نماز قائم نہیں کرتے تھے، اب پڑھنے لگتے ہیں، اسی طرح وہ قرآن مجید کی تلاوت اور ذکر کی محافل میں بھی شریک ہونے لگتے ہیں، حالانکہ وہ پہلے ایسا نہیں کیا کرتے تھے۔ پہلے جن گناہوں میں علی الاعلان مشغول رہتے تھے اب ان سے باز آجاتے ہیں۔ بعض لوگ جن کا عمل اس کے خلاف نظر آتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطانی وساوس ان کے شریر نفوس کی جڑوں میں سرایت کر چکے ہوتے ہیں کیونکہ آدمی کا نفس اس کا سب سے بڑا دشمن ہے۔

اگر کوئی یہ کہے کہ زمانے میں شر تو موجود ہے اور گناہ بھی مسلسل ہو رہے ہیں تو پھر شیطان کے جکڑنے کا کیا فائدہ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ رمضان المبارک سے شیطان کی سرکشی اور طغیانی کی شدت ٹوٹتی ہے اور اس کے ہتھیار کند ہو جاتے ہیں اور اس کی بھڑکائی ہوئی آگ کچھ مدت کے لئے ٹھنڈی پڑ جاتی ہے۔




سلام بحضور اُمّ الموٴمنین حضرت سیّدہ خدیجةُ الکبریٰ

 سلام بحضور اُمّ الموٴمنین حضرت سیّدہ خدیجةُ الکبریٰ

_
سیّما پہلی ماں کہفِ امن و اماں​
حق گزارِ رفاقت پہ لاکھوں سلام​

عرش سے جس پہ تسلیم نازل ہوئی​
اس سراے سلامت پہ لاکھوں سلام​

منزلُُ من قصب لانصب لا صخب​
ایسے کوشک کی زینت پہ لاکھوں سلام

_
اللهم صل على سيدنا محمد النبي الأمي وعلى آلہ وازواجہ واھل بیتہ وبارك وسلم 
اللھم ربّنا آمین..

اعلیٰ حضرت​ امام احمد رضا رح
10 رمضان یوم وصال سیّدہ خدیجةُ الکبریٰ




ام المومنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا



10 رمضان المبارک
ام المومنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا یوم وصال

ام المومنین حضرت خدیجتہ الکبری نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سب سے پہلے ایمان لانے والی اور دین اسلام کی تصدیق کرنے والی تھیں۔ آپکو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہلی زوجہ ہونے کی سعادت بھی حاصل ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا خاندان قریش کی ممتاز اور باوقار خاتون تھیں۔ حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا حسن سیرت، اعلیٰ اخلاق، بلند کردار اور شرافت ومرتبہ کی وجہ سے مکہ مکرمہ اور ارد گرد کے علاقے میں ’’طاہر‘‘ کے پاکیزہ لقب سے مشہور تھیں۔ غریب پروری اور سخاوت حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی امتیازی خصوصیات تھیں۔

٭نسب شریف
سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنتِ خویلد بن اسدبن عبدالعزی بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی۔ آپ کا نسب حضور پر نور شافعِ یوم النشور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے نسب شریف سے قصی میں مل جاتا ہے۔ سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی کنیت ام ہند ہے۔ آپ کی والدہ فاطمہ بنت زائدہ بن العصم قبیلہ بنی عامر بن لوی سے تھیں ۔
(مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم درذکرازواج مطہرات وی، ج۲،ص۴۶۴)

٭سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کے فضائل میں حدیث

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ بارگاہِ رسالت میں جبرائیل علیہ السلام نے حاضرہوکرعرض کیا: اے اللہ کے رسول! صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم آپ کے پاس حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا دستر خوان لارہی ہیں جس میں کھانا پانی ہے جب وہ آپ کے پاس آئیں ان سے ان کے رب کا سلام کہنا۔
(صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،باب فضائل خدیجۃ ام المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنھا،الحدیث۲۴۳۲،ص۱۳۲۲)

٭سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کے چھ خصوصی فضائل

 آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سب سے پہلے سرورِ کائنات، فخرِ موجودات ﷺ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں اور ام المؤمنین یعنی قیامت تک کے سب مؤمنین کی ماں ہونے کے پاکیزہ واعلیٰ منصب پر فائز ہوئیں۔

 رسولِ کریم، رَءُوْفٌ رَّحیم ﷺ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حیات میں کسی اور سے نکاح نہیں فرمایا۔

 سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار ﷺ کی تمام اولاد سوائے حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے، آپ ہی سے ہوئی۔

 دیگر ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کی نسبت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سب سے زیادہ عرصہ کم وبیش 25 برس رسولِ نامدار، مدینے کے تاجدار ﷺ کی رفاقت و ہمراہی میں رہنے کا شرف حاصل کیا۔

 سید الانبیاء، محبوبِ کبریاء ﷺ کے ظہورِ نبوت کی سب سے پہلی خبر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ہی پہنچی۔

 تاجدارِ رسالت ﷺ کے بعد اسلام میں سب سے پہلے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے نماز پڑھی۔
مآخذ : کتاب فیضانِ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، صفحہ۵۹



صدقہ خیرات

سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا والی روایت

 آیت «لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّـهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ» 

[ 60-سورة الممتحنة: 8 ] ‏‏‏‏ کی تفسیر میں آئے گی ان شاءاللہ، یہاں فرمایا تم جو نیکی کرو گے اپنے لیے ہی کرو گے 

جیسے اور جگہ ہے «مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهٖ وَمَنْ اَسَاءَ فَعَلَيْهَا» [ 45۔ الجاثیہ: 15 ] ‏‏‏‏ 

اور «مَّنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ» [ 41-فصلت: 46 ] ‏‏‏‏ 

اس جیسی اور آیتیں بھی بہت ہیں، حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ایماندار کا ہر خرچ اللہ ہی کیلئے ہوتا ہے گو وہ خود کھائے پئے، [تفسیر ابن ابی حاتم:1115/3] ‏‏‏‏ 

عطا خراسان اس کا یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ جب تم نے اپنی مرضی سے مولا اور رضائے رب کیلئے دِیا تو لینے والا خواہ کوئی بھی ہو اور کیسے ہی اعمال کا کرنے والا ہو، 

[تفسیر ابن ابی حاتم:1113/3] ‏‏‏‏ 

یہ مطلب بھی بہت اچھا ہے، حاصل یہ ہے کہ نیک نیتی سے دینے والے کا اجر تو اللہ کے ذمہ ثابت ہو گیا ہے۔ اب خواہ وہ مال کسی نیک کے ہاتھ لگے یا بد کے یا غیر مستحق کے، اسے اپنے قصد اور اپنی نیک نیتی کا ثواب مل گیا۔ جبکہ اس نے دیکھ بھال کر لی پھر غلطی ہوئی تو ثواب ضائع نہیں جاتا اسی لیے آیت کے آخر میں بدلہ ملنے کی بشارت دی گئی۔

اور بخاری و مسلم کی حدیث میں آیا کہ ایک شخص نے قصد کیا کہ آج رات میں صدقہ دوں گا، لے کر نکلا اور چپکے سے ایک عورت کو دے کر چلا آیا، صبح لوگوں میں باتیں ہونے لگیں کہ آج رات کو کوئی شخص ایک بدکار عورت کو خیرات دے گیا، اس نے بھی سنا اور اللہ کا شکر ادا کیا، پھر اپنے جی میں کہا آج رات اور صدقہ دوں گا، لے کر چلا اور ایک شخص کی مٹھی میں رکھ کر چلا آیا، صبح سنتا ہے کہ لوگوں میں چرچا ہو رہا ہے کہ آج شب ایک مالدار کو کوئی صدقہ دے گیا، اس نے پھر اللہ کی حمد کی اور ارادہ کیا کہ آج رات کو تیسرا صدقہ دوں گا، دے آیا، دن کو پھر معلوم ہوا کہ وہ چور تھا تو کہنے لگا، اللہ تیری تعریف ہے زانیہ عورت کے دئیے جانے پر بھی، مالدار شخص کو دئیے جانے پر بھی اور چور کو دینے پر بھی، خواب میں دیکھتا ہے کہ فرشتہ آیا اور کہہ رہا ہے تیرے تینوں صدقے قبول ہو گئے۔ شاید بدکار عورت مال پا کر اپنی حرام کاری سے رُک جائے اور شاید مالدار کو عبرت حاصل ہو اور وہ بھی صدقے کی عادت ڈال لے اور شاید چور مال پا کر چوری سے باز رہے۔ 

[صحیح بخاری:1421] ‏‏‏‏

ابتدا میں مسلمان اپنے غیر مسلم رشتے داروں اور عام غیر مسلم اہل حاجت کی مدد کرنے میں تامل کرتے تھے ۔ ان کا خیال یہ تھا کہ صرف مسلمان حاجت مندوں ہی کی مدد کرنا انفاق فی سبیل اللہ ہے ۔ اس آیت میں ان کی یہ غلط فہمی دور کی گئی ہے ۔ ارشاد الہٰی کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کے دلوں میں ہدایت اتار دینے کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے ۔ تم حق بات پہنچا کر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوچکے ۔ اب یہ اللہ کے اختیار میں ہے کہ ان کو بصیرت کا نور عطا کرے یا نہ کرے ۔ رہا دنیوی مال و متاع سے ان کی حاجتیں پوری کرنا ، تو اس میں تم محض اس وجہ سے تامل نہ کرو کہ انہوں نے ہدایت قبول نہیں کی ہے ۔ اللہ کی رضا کے لیے جس حاجت مند انسان کی بھی مدد کرو گے ، اس کا اجر اللہ تمہیں دے گا ۔





صدقہ

 جو صدقہ فرض ہو ، اس کو علانیہ دینا افضل ہے ، اور جو صدقہ فرض کے ماسوا ہو ، اس کا اخفا زیادہ بہتر ہے ۔ یہی اصول تمام اعمال کے لیے ہے کہ فرائض کا علانیہ انجام دینا افضلیت رکھتا ہے اور نوافل کو چھپا کر کرنا اولیٰ ہے ۔  یعنی چھپا کر نیکیاں کرنے سے آدمی کے نفس و اخلاق کی مسلسل اصلاح ہوتی چلی جاتی ہے ، اس کے اوصاف حمیدہ خوب نشونما پاتے ہیں ، اس کی بری صفات رفتہ رفتہ مٹ جاتی ہیں ، اور یہی چیز اس کو اللہ کے ہاں اتنا مقبول بنا دیتی ہے کہ جو تھوڑے بہت گناہ اس کے نامہ اعمال میں ہوتے بھی ہیں انہیں اس کی خوبیوں پر نظر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے ۔

 متعدد احادیث میں نفلی صدقت کو پوشیدہ طور پر دینے کی فضیلت آئی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ نفلی صدقہ چھپا کردینے والا قیامت کے دن ان سات  آدمیوں میں سے ایک ہوگا جنکو اللہ تعالیٰ اپنے سایہ میں جگہ دے گا جس روز کہ کوئی اور سایہ نہیں ہوگا۔ (بخاری مسلم )

صدقے کے بدلے اللہ تعالیٰ تمہاری خطاؤں اور برائیوں کو دور کر دے گا بالخصوص اس وقت جبکہ وہ چھپا کر دیا جائے، تمہیں بہت سی بھلائی ملے گی، درجات بڑھیں گے، گناہوں کا کفارہ ہو گا «یُکَفِّرُ» کو «یُکَفَّرْ» بھی پڑھا گیا ہے اس میں صورتاً یہ جواب شرط کے محل پر عطف ہو گا جو «فَنِعِمَّا هِيَ» ہے، جیسے «فَأَصَّدَّقَ وَأَكُن مِّنَ الصَّالِحِينَ» 

[ 63-المنافقون: 10 ] ‏‏‏‏ میں «وَأَكُن» اللہ تعالیٰ پر تمہاری کوئی نیکی بدی سخاوت بخیلی پوشیدگی اور اظہار نیک نیتی اور دنیا طلبی پوشیدہ نہیں وہ پورا پورا بدلہ دے گا۔

” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایک آدمی نے کہا میں ضرور صدقہ کروں گا وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا تو اس نے صدقہ ایک چور کو دے دیا۔ جب صبح ہوئی تو لوگوں نے باتیں کیں کہ رات کسی نے چور کو صدقہ دے دیا ہے۔ اس نے کہا اے اللہ ! تمام تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں میں پھر صدقہ کروں گا۔ وہ پھر صدقہ لے کر نکلا اور اس نے ایک بدکار عورت کو صدقہ دے دیا۔ جب صبح ہوئی تو لوگ باتیں کرنے لگے کہ رات زانیہ پر صدقہ کیا گیا ہے۔ اس نے کہا : میں پھر صدقہ کروں گا۔ تیسری مرتبہ پھر صدقہ لے کر نکلا اور اس نے صدقہ ایک مالدار کو دے دیا تو صبح کے وقت لوگ باتیں کرنے لگے کہ رات کسی شخص نے مالد ار کو صدقہ دیا ہے۔ تو اس نے کہا : اے اللہ ! چور، بدکارہ اور مالدار کو صدقہ دینے پر تیرے لیے ہی تمام تعریفیں ہیں۔ پھر اس کو خواب میں کہا گیا کہ شاید تیرے صدقہ دینے سے چور چوری اور بدکار بدکاری سے باز آجائے اور مالدار عبرت پکڑ کر اللہ کے دیئے ہوئے مال سے صدقہ کرنے لگے۔ “ 

[ رواہ البخاری : کتاب الزکوۃ، باب إذا تصدق علی غنی وہو یعلم ] 

مسائل 

1۔ صدقہ علانیہ اور خفیہ دونوں طرح دیا جاسکتا ہے۔

2۔ صدقہ کرنے والے کے گناہ معاف اور اسے برکت نصیب ہوتی ہے۔



اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ


 

نفس


 

اے اللہ


 

شب ِ قدر کی قدر و منزلت

 شب ِ قدر کی قدر و منزلت

رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ کی رحمت اپنے بندوں پر بارش کے قطرات کی طرح برستی اور بندوں کی مغفرت کے بہانے ڈھونڈتی ہے۔ یوں تو پورا رمضان ہی عظمت وفضیلت سے بھرا ہے کہ اس میں کیا جانے والا نفل کام، فرض کے برابر اور ایک فرض، ستر فرائض کے برابر ثواب رکھتا ہے لیکن ’شبِ قدر‘!اس کے تو کیا کہنے! باری تعالیٰ نے اس کی عظمت و فضیلت کے بیان میں پوری ایک سورت قرآن مجید کا جزو بنا دی اور ارشاد فرمایا ہے کہ یہ ایک رات اعمال کے ثواب وعذاب کے اعتبار سے ایک ہزارمہینوں کے عمل سے زیادہ بڑھی ہوئی ہے۔ اس ایک رات میں نیکی کرنے والا ایسا ہے، جیسے اس نے ایک ہزار مہینوں تک نیکی کی ہو۔
اس پر مزید کرم یہ کہ ایک ہزار مہینوں سے کتنی افضل ہے؟ اس کی بھی تحدید نہیں فرمائی، بندے کے اخلاص پر ہے، جو جس قدر اخلاص کے ساتھ آئے، اللہ تعالیٰ مالک الملک ہے، اس کے لیے اسی قدر اس کی خیر وبرکات کو بڑھا دیتے ہیں۔



ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا

 ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا

یوم وصال 17 رمضان
اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ کودوسری عورتوں پر کئی اعتبار سے فضیلت حاصل ہے۔ آپ کا نام عائشہ ‘ لقب صدیقہ ، حُمیَرا ، طیبہ اورطاہرہ ہے۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو بنتِ صدیق کے خطاب سے نوازا۔
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ فرماتے ہیں‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:-
’’بہت سے مرد کمال کو پہنچے اور عورتوں میں سے حضرت مریم بنت عمرانؑ اور فرعون کی بیوی حضرت آسیہؑ باکمال ہوئیں اسی طرح اُم المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت ایسی ہے جیسے ثرید کو دوسرے کھانوں پر فضیلت ہے۔
(بخاری ‘ شرح السنۃ‘ مسلم حدیث ،ترمذی ‘ ابن ماجہ)



Thursday, April 14, 2022

نام مــحـمـد ﷺ


 

آمیـــــــن يارب العالمین

 


روزہ کے اغراض ومقاصد

 روزہ کے اغراض ومقاصد

اللہ تعالیٰ نے روزہ کے 3 مقاصد قرآن میں بیان فرمائے ہیں۔
1۔ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ۔ (البقرۃ:183)
تاکہ تم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اخلاقی اور اجتماعی کمزوریوں سے بچو۔
تقویٰ کا حصول روزہ سے اِس طرح ہوتا ہے کہ جب ایک مسلمان کے قلب میں خشیت اللہ پیدا ہوتی ہے تو برے کاموں سے نفرت پیدا ہو جاتی ہے اور اچھے کاموں کی طرف رغبت اور میلان ہو جاتا ہے کیونکہ متقی شخص وہ ہوتا ہے جس کی زندگی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مرضی سے مطابق ہو۔

2۔ وَلِتُكَـبِّـرُوا اللّـٰهَ عَلٰى مَا هَدَاكُمْ۔ (البقرۃ:185)
تاکہ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی کے مطابق اس کی عظمت بیان کرو۔
روزہ سے دوسری غرض اللہ تعالیٰ کی بڑائی کا اعتراف ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اَور کی عبادت کا تصور بھی دل میں نہ آئے اور حقیقی توحید کا زبان اور دل سے اعتراف کرتے ہوئے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی بڑائی کے لئے وقف کر دے۔ یہی وجہ ہے کہ جب رمضان کے روزے ختم ہو جاتے ہیں تو عید الفطر کی نماز کی تقریب میں کثرت سے تکبیرات کہنے کا ارشاد ہے۔
اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر، لااِلٰہ اِلااﷲ واﷲ اکبر، اللّٰہ اکبر وﷲ الحمد۔

3۔ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُـرُوْنَ ۔ (البقرۃ:185)
تا کہ تم اس کا شکر کرو۔
تیسری غرض روزوں سے اظہارِ شکر ہے۔ عربی زبان میں شکر کے معنی قدر کرنے اور پورا حق ادا کرنے کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا حقیقی شکریہ ہے کہ انسان کے جملہ اعضاء دماغ، دل، زبان، آنکھ، کان، ہاتھ ، پاؤں وغیرہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کام کریں اور ان اعضاء سے جائز کام لیا جائے تب ایک انسان کہہ سکتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ ہوں۔



جنت کا دروازہ” ریان” ۔

 روزہ داروں کے لیے جنت کا دروازہ” ریان” ہے۔

جنت میں بعض مخصوص اعمالِ صالحہ کے اعتبار سے آٹھ دروازے ہیں جو شخص دنیا میں خلوص نیت سے ان میں جس عملِ صالح کا بھی خوگر ہوگا وہ جنت میں اسی عمل کے دروازے سے جائے گا۔ ریان جنت کا وہ دروازہ ہے جس میں سے صرف روزہ دار ہی داخل ہوں گے جیسا کہ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتا ہے۔ روزِ قیامت اس میں روزہ دار داخل ہوں گے ان کے سوا اس دروازے سے کوئی اور داخل نہیں ہو گا۔ کہا جائے گا : روزہ دار کہاں ہیں؟ پس وہ کھڑے ہوں گے، ان کے علاوہ اس میں سے کوئی اور داخل نہیں ہو سکے گا، جب وہ داخل ہو جائیں گے تو اس دروازے کو بند کر دیا جائے گا۔ پھر کوئی اور اس سے داخل نہیں ہو سکے گا۔‘‘
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1791
صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1947 ) ۔
حدیث مرفوع مکررات 7 متفق علیہ 3 بدون مکرر



روزہ بھوکا پیاسا رھنے کا نام نہیں

روزے کا مقصد :
روزے کا مقصد یہ ہے کہ آدمی میں ﷲ کا تقویٰ پیدا ہو جیسا کہ
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّـذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۔ (سورۃ البقرۃ:183)
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے ان پر فرض کیے گئے تھے جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیز گار ہو جاؤ۔

تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔ تقویٰ دراصل اس اخلاقی جوہر کا نام ہے جو محبت الہی اور خوف سے پیدا ہوتا ہے۔
ﷲ کی ذات پر پختہ یقین اور اس کی صفت رحمت واحسان کے حقیقی شعور سے آدمی میں جذبہ محبت ابھرتا ہے اور اس کی صفت قہروغضب سے اس کا خوف پیدا ہوتا ہے ۔ اس جذبۂ محبت وخوف کی قلبی کیفیت کا نام تقویٰ ہے ۔
تقویٰ تمام اعمال خیر کا سر چشمہ اور تمام اعمال بد سے محفوظ رہنے کا یقینی ذریعہ ہے ۔ متقی انسان اندرونی جذبے کے تحت نیکی کی طرف لپکتا اور برائیوں سے بچتاہے وہ نیکی سے سکون پاتا ہے اور برائیوں سے کڑھتاہے ۔
روزہ اسی کیفیت کے پیدا کرنے کا مؤثر ذریعہ ہے روزے کی حالت میں اپنی مرغوب اور حلال چیز کو صرفﷲ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت میں چھوڑتا ہے ۔اس کے قہر وغضب سے ڈرتے ہوئے اس کے قریب نہیں جاتا اور جب اس کو افطار کا حکم دیاجاتاہے تو اس کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے روزہ افطار کرتا ہے، اپنی خواہش نفس کو قابو میں رکھتا ہے اور بندہ نفس کے بجائے بندہ رب ہونے کا اظہار کرتا ہے اور یہی مقصود ’’روزہ‘‘ ہے ۔




ام المومنین حضرت خدیجہؓ کے فضائل و مناقب

“رب ذوالجلال کا سلام” :
صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت جبرائیلؑ حضورﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کی:
” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ! یہ خدیجہ آپ ﷺ کے پاس سالن یا کھانے کا ایک برتن لا رہی ہیں جب وہ لے کر آئیں تو ان کے رب اور میری طرف سے سلام کہہ دیں اور جنت میں انہیں موتی کے ایک محل کی بشارت دے دیں جس میں نہ شور ہوگا نہ تکلیف ہو گی۔
(صحیح بخاری ‘ كِتَابٌ : مَنَاقِبُ الْأَنْصَارِ ‘ بَابٌ : تَزْوِيجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَدِيجَةَ. رقم الحدیث : 3819)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا کے رشک کی وجہ:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں :” میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ازواج میں سے کسی پر اتنی غیرت نہ کی جتنی جناب خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا پر کی، حالانکہ میں نے انہیں نہیں دیکھا تھا لیکن حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم حضرت خدیجہؑ کا بہت ذکر فرماتے تھے۔
(صحیح بخاری کتاب مناقب الانصار : ۳۸۱۸)( سیرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا :۹۲)

حضور رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو زمانے کی بہترین خواتین میں شامل فرما کر خصوصی اعزاز و اکرام سے نوازا…. چنانچہ حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
*حَسْبُكَ مِنْ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ مَرْيَمُ بْنَةُ عِمْرَانَ، وَخَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ، وَفَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ، وَآسِيَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ* ”
“تمہارے لیے(قتداء و اتباع کے لحاظ سے) چار عورتیں کافی ہیں ….
مریم بنت عمران ‘ خدیجہ بنت خویلد ‘ فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور فرعون کی بیوی آسیہ رضی اللہ عنہم “.
(سنن ترمذی’ أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ‘ بَابٌ : فَضْلُ خَدِيجَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا’ رقم الحدیث: 3878

◄حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی بیان کرتی ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہا کے وصال کے بعد جب بھی آپ کوئی بکری ذبحہ کرتے تو اس کا گوشت آپ کی سہیلیوں کو بھی بھیجا کرتے تھےاور آپ ان کی سہیلیوں کی بھی بڑی قدر کیا کرتے تھے.
(صحيح مسلم ‘ كِتَابٌ : فَضَائِلُ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمْ ‘ بَابٌ : فَضَائِلُ خَدِيجَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهَا ‘ رقم الحدیث : 2435)

آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا آپ رضی اللہ تعالی عنھا کو یاد فرمانا:
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں ایک بار حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا کی بہن حضرت ہالہ بنت خویلد رضی اللہ تعالی عنھا تشریف لائیں اور اجازت طلب کی ان کی آواز حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا سے بہت ملتی تھی تو اس سے آپ کو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا کا اجازت طلب کرنا یاد آگیا آپ نے جھرجھری لی 

( صحیح بخاری باب التزویج النبی: ۹۶۲)

دوسری شادی نہیں کی:
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی رفاقت میں ۲۵ سال گزارے، اس ساری مدت میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کبھی دوسری شادی نہیں کی، سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا نے بھی کوئی ایسا کام نہیں کیا جو آپ کو نا پسند ہو۔

( صحیح مسلم ۲۴۳۶)

عرش سے جس پہ تسلیم نازل ہوئی
اس سرائے سلامت پہ لاکھوں سلام ...... !! ❤

اللہ عزوجل ہمیں ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمیـــــــــــــن